کہا اقبال نے جس کو خودی وہ بننا رب کا ہے
کہ اس کا سر ِ نہاں خود یہ کہتے ہیں کہ کلمہ ہے
بقول اس کے خود ی کو جو بھی کرتے ہیں بلند ان سے
خدا پوچھے ہے ہر تقدیر میں ان کی رضا کیا ہے
خدا کا بندہ بننے سے خدا بنتا ہے اپنا کہ
جو اللہ کا بنے فرمایا کہ اللہ بھی ا س کا ہے
تو رومی بے خودی کے واسطے کوشش کے قائل ہیں
کہ جوکوشش کرے اس کی وہ اپنے آپ کو پاتا ہے
خودی کا لفظ اور معنیٰ جدا لگتے ہیں آپس میں
ذہن نافہم لوگوں کا غلط سمت میں جاتا ہے
تو کیوں نہ لفظ بھی لیں پیر رومی سے ہم اس واسطے
کہ لفظ یہ بے خودی معن ً او لفظا ً ایک آتا ہے
مرید ہندی کے تحقیقات میں لفظ بے خودی لانا
ہمیں قرآن و سنت سے سہولت سے ملاتا ہے
جب وحدت کے شہود کے ساتھ وجود کا ہے بدلنا درست
کوئی شبیر ؔ اس تغییر پہ شور کیوں مچاتا ہے