قرآن اپنا توشہ

کلام ِ ال ٰ ہی کلام پر اثر

نہ شعر ہے یہ اور نہ یہ نثر

اگر چاہے تو کہ خدا کی سنے

تو پڑھ اس کو تجھ کو بھی ہو کچھ خبر

خدا کو فضیلت جو مخلوق پہ ہے

تو اس کو کلاموں پہ ہے اس قدر

اگر دل میں تیرے یہ موجود ہو

تو بھٹکے خدا سے نہ تیری نظر

اگر تو عمل اس پہ کرلے تو بس

پھرے تو نہ دنیا میں پھر در بدر

اگر ظلمتیں چارسو ہوں ترے

تو اس سے ملے گی نوید سحر

تراویح میں سننے سے کیا ملتا ہے

پتا ہو تو چاہو یہ ہو عمر بھر

وظیفہ بعض سورتوں کا ہے ٹھیک

مگر جاری کوشش رہے دور پر

تجلی ہر آیت کی اس کی جدا

ملے تجھ کو بھی یوں ہر اک کا ثمر

شبیر ؔ اپنا توشہ یہ رکھنا ہے پاس

اسے لے کے جانا تو ہے اپنے گھر