حسنِ ازل اور حسنِ عارضی

ہم کو دعوائے محبت ہے مگر کیا ہے یہ

نام ویسے ہی بس زبان پر چلا ہے یہ

 

پوری ہوں خواہشیں اپنی تو محبت ہو ہمیں

اور ایسا نہ ہو کہتے ہیں جانے کیا ہے یہ

 

ناامیدی کے ہوں الفاظ زباں پر جاری

دل میں شکوہ بھی ہوہر ایک سمجھتا ہے یہ

 

عشق کا نور تو شعلوں کو بھی بجھا ہی دے

بیٹا قرباں ہو عجب یہ کہ باپ چاہے یہ

 

کیسے معشوق کی چاہت کو نہ چاہے عاشق

ہے اگر ایسا، محض عشق کا دعویٰ ہے یہ

 

ہم تو بس اس کی اطاعت بڑا مقصد جانیں

بڑوں سے ہم نے شبیرؔ ایسا ہی سیکھا ہے یہ