داستانِ بے بسی

سمجھ میں آجاۓ اے کاش شاعری میری

ورنہ ہے سامنے اپنی تو بے بسی میری

کس طرح روح کی آواز میں پہنچادوں انہیں

جس نے کانوں سے گو غزل تو ہے سنی میری

دل کی آواز دل کے کان ہی سن پاتے ہیں

نہ رکاؤٹ بنے کہیں اس میں کمی میری

نفس و شیطان کہاں ان کو یہ سننے دیں گے

جو نہ چاہے تو سنے بات وہ کیسی میری

بس دعا ہے کہ اب شبیرؔ کی مدد ہو خدا

گو کامیاب نہ ہو کوشش ہے اک سہی میری