داستانِ زوال

حسن کی دنیا سر راہ لٹ رہی ہے آج

یہ بے حسی کی ہوا کیسے اب چلی ہے آج

نفس نے حسن کا سنگھار کیا ہے آج خوب

عقل ایمانی کی میت بھی یہ پڑی ہے آج

قہقہے کھوکھلے ہر سمت سنے جاتے ہیں

دلوں کی دنیا پہ ویرانی سی چھائی ہے آج

نعمت ہر ایک ذریعہ خدا کے شکر کا ہے

ان نعمتوں کا تقاضا شکر کا بھی ہے آج

ہم شہوتوں کی ہی دنیا میں ڈوبے جاتے ہیں

دلوں کی دنیا اس کی ذکر سے خالی ہے آج

عشق سینے سے لگا لینا اس کی ذکر کے ساتھ

نفس کو شبیرؔ دے لگام یہ باغی ہے آج