ان کی نظروں کے جب حصار میں ہوں
میں اک عجیب سے خمار میں ہوں
کبھی ہے امتحان کبھی منزل
کبھی صحرا کبھی گلزار میں ہوں
کیا بنا خوب ہے اب ذوق حیات
ان کے در پر لگی قطار میں ہوں
یہ محبت ہے یا عقیدت ہے
کہ اک عالم اضطرار میں ہوں
سوچتے سوچتے میں اس کا پیار
اپنے مذکور کے اذکار میں ہوں
آپ کے قدموں میں ہو دیدار نصیب
میں اسی دن کے انتظار میں ہوں
کھوٹے سکوں کو جمع کرکے شبیر
فضل کا اس کے امیدوار میں ہوں