کبھی فردوس کی جانب خود کو اٹھتا دیکھا
زمیں سے نیچے کبھی اپنا تماشا دیکھا
عجب اندازِ محبت مجھے اس کا ہے نصیب
دیکھتے دیکھتے مٹی سے بنتے ہیرا دیکھا
کبھی خیالات کے صحرا میں اکیلے بھٹکوں
اور کبھی چاہنےوالوں کا بھی میلہ دیکھا
میں اندھا نور کی تلاش میں چل پڑا تو پھر
جو خود پہ دیکھا اس کے نور کا جلوہ دیکھا
بے بسی سے کبھی میں یوں جب اشکبار ہوا
بولے کیوں مجھ کو نہیں آپ نے اپنا دیکھا
جب کبھی اس کی چاہتوں پہ مجھے ناز ہوا
تو معا ً لطف پہ اس کے خود کو مٹتا دیکھا1
جو رضا میری ہے وہ اس کی رضا میں ہوئی گم
پھر ہر اک کام مطابق اپنی رضا کا دیکھا
یہی تو عشق کی دنیا ہے بھلادے سب شبیرؔ
میں نے دیکھا مگر کچھ اس کے نہ سوا دیکھا
اس کی مہربانیاں دیکھ کر فوراً میرا ناز ،نیاز میں بدل گیا