Download PDF

پیغام محبت

 

نَحْمَدُہُ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُولِہٖ الْکَرِیْم ۝ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۝ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۝ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ۝

 

ایما ن والوں کے دل میں اللہ تعالی ٰ کی شدید محبت ہونی لازم ہے۔اگر نہیں ہے تو اس کا پیدا کرنا ضروری ہے ۔دوسری طرف دنیا کی محبت ایک حدیث شریف کے مطابق ساری خطاو ٔ ں کی جڑ ہے اس لیے دنیا کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ کی محبت کو دل میں پیدا کرنا ہماری ایک اہم ضرورت ہے۔

محبت ایک قلبی کیفیت ہے اور ایک جذبہ ہے۔جذبات کو ابھارنے اور ان کو مثبت یا منفی رخ دینے میں شاعری کا بہت دخل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف منفی جذبات کو فروغ دینے میں شاعری پیش پیش ہے تو دوسری طرف مثبت جذبات کو اجاگر کرنے میں بھی شاعری کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

اسی طرح دل کی اصلاح کے لیے بھی دو طریقے ہیں ایک سلوک کا جو کہ لمبا ہے اور دوسرا جذب کا جو کہ مختصر ہے۔اس طریقِ جذب کا محرک اہل محبت کی صحبت کے بعد اہل محبت کا کلام بھی ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر شاعری پر مبنی ہوتا ہے۔اس کی ایک اچھی مثال مثنوی مولانا روم ؒ ہےجو تقریبا ً چھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔حافظ شیرازی ؒ ، حضرت عراقی ؒ اور مولانا جامی ؒ کا کلام اس طریق کی مثالیں ہیں۔

زیر نظر کتاب “پیغامِ محبت” بھی اسی طریق کی داعی ہے جس میں قلب میں اللہ تعالی ٰ کی محبت کو پیدا کرنے کے لیے قلبی کیفیات کا اظہار ہے۔چونکہ ایسا کلام دو دھاری تلوار کی طرح دونوں جانب کاٹ کرتا ہے ۔سمجھ دار لوگ اس کو سمجھ کر اپنے دل میں اللہ تعالی ٰ کی محبت کو بھر سکتے ہیں جبکہ نہ سمجھنے والے اس کو کچھ کا کچھ بنا سکتے ہیں اس لیے کوشش کی گئی ہے کہ ایسے اشعار کی ساتھ ساتھ تشریح بھی دی جائے۔

بعض دفعہ بعض مشہور شعراء کے کلام کا لوگ جو مطلب بیان کرتے ہیں تو قابل کوفت حیرت ہوتی ہے کہ ان شعراء نے کیا کہنا چاہا اور لوگ اس سے کیا مطلب لے رہے ہیں چنانچہ مجوزہ تشریح اس لیے بھی ضروری ہے۔

چونکہ اس کتاب میں بعض کلام بہت تیز ہے ۔ممکن ہے کہ بعض قوال اس کو مروجہ طریقے سے گانے کی کوشش کریں اور عوام کو چونکہ ان چیزوں کی صحیح سمجھ نہیں ہوتی اس لیے اس کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔

<

سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ کے بزرگ حضرت سلطان الاولیا ء شیخ المشائخ محبوب الہی ٰ خواجہ نظام الدین ؒ نے فرمایا:

چندیں چیز می باید تاسماع مباح شود مستمع و مسمع آلہ سماع، مسمع یعنی گویندہ، مرد تمام باشد کودک نباشد وعورت نباشد ومستمع آنکہ می شنود ازیاد حق خالی نبا شد ومسموع انچہ بگویند فحش و مسخرگی نباشد وآلہ سماع مزامیر است چوں چنگ ورباب ومثل آں می باید درمیان نباشدایں چنیں سماع حلال است۔

یعنی چندچیزیں پائی جائیں تو سماع حلال ہوگا ، سنانے والے تمام مرد بالغ ہوں بچے اور عورتیں نہ ہوں سننے والے اللہ تعال ی ٰ کی یاد سے خالی نہ ہوں کلام فحش ومذاق سے خالی ہو اور آلات سماع یعنی مزامیر مثل سرنگی اور طبلہ وغیرہ اس میں استعمال نہ ہوں تو ایسا سماع حلال ہوگا ۔

سیرالاولیاء ، باب نہم ، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان ، اسلام آباد ، ( ص۰۲۔ ۵۰۱)

حضرت محبوب ال ٰ ہی ؒ کے ملفوظات کریمہ فوائد الفواد جوکہ حضرت کے مرید رشید میر حسن علامہ سنجری قدس سرہ کے جمع کئے ہوئے ہیں ان میں بھی حضور کا صاف ارشاد مذکور ہے کہ مزامیرحرام ا ست۔ ( فوائد الفواد)
حضرت ؒ کے خلیفہ حضرت مولانا فخر الدین زراوی قدس سرہ نے حضرت ؒ کے زمانہ میں ہی حضرت کے حکم سے سماع کے بارے میں ایک رسالہ عربیہ مسمِّی بہ کشف القناع عن اصول السماع تالیف فرمایا ،

اس میں ہے۔

اماسماع مشایخنا رحمھم اللہ فبرئ عن ہذہِ التھمۃ وھو مجرد صوت القوال مع الاشعارالمشعرۃ من کمال صنعۃ اللہ تعال ٰ ی
ہمارے مشائخ کرام ﷭ کا سماع اس مزامیر کے بہتان سے پاک ہے وہ تو صرف قوال کی آواز ہے ان اشعار کے ساتھ جو کمالِ صنعتِ ال ٰ ہی کی خبر دیتے ہیں۔ ( کشف القناع عن اصول السماع)

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات سچے ہیں یا وہ جو اپنی ہوائے نفس کی حمایت کی خاطر ان بزرگوں پر مزامیر کی تہمت دھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق وہدایت بخشے آمین!

حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی محفل میں ایک دفعہ قوال نے اپنے ہاتھ کو کچھ حرکت دی جس کو حضرت نے دیکھ لیا ۔اس پر حضرت ؒ بہت ناراض ہوئے اور اپنی محفل میں اس پر پابندی لگادی۔بہت منت سماجت کی لیکن حضرت ؒؒ نے معاف نہیں فرمایا اور فرمایا کہ تو نے میری محفل میں ڈوموں کی طرح کیوں حرکت کی۔

یہ حضرات ؒ ان چیزوں سے پاک تھے ۔ان کے ہاں شعر خوانی خو ش آوازی کے ساتھ کرنے کو ہی سماع اور قوالی کہا جاتا تھا ۔ہمارے گاو ٔ ں میں پشتو میں کمینہ کا مطلب وہی ہے جو اردو میں ہے لیکن دریا کے دوسری طرف کمینہ خاکسار کو کہتے ہیں پس بعض دفعہ لفظ ایک ہی ہوتا ہے لیکن مختلف لوگ اس کے مختلف معنی متعین کرتے ہیں جس سے مفاہیم کا اختلاف ہوتا ہے اس لیے ہم اگر کسی اصطلاح کو استعمال کرنا چاہیں تو جو اس اصطلاح کے واضعین ہوتے ہیں ان سے اس کا مفہوم پوچھنا پڑے گا نہ کہ دوسروں سے۔پس سماع کے بارے میں زیادہ ذکر حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کا ملتا ہے اس لیے ہم اس کی تعریف ان کی کتابوں سے لیں گے جو اوپر مذکو ر ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ اصلی سماع میں مزامیر نہیں ہوتے ۔دوسری بات اس کی محفل میں پورے مرد ہوتے ہیں جن کا عارف ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ شعر کا مفہوم جانتے ہوں محض مزے کے لیے نہ سنیں۔پڑھنے والا بھی مرد ہونا چاہیےاور عارف ہو تاکہ پڑھنے کا حق ادا کرسکے اور کلام بھی عارفانہ ہونا چاہیے۔

بعض لوگ صرف کلام کے عارفانہ ہونے پر اکتفا کرتے ہیں باقی شرائط پوری نہیں کرتے حالانکہ ان تمام شرائط کا پوری کرنا ضروری ہے بصورت دیگر سماع یا قوالی حرام ہوگی۔ اس لیے ہم اپنے کلام کی حرام ادایئگی کی اجازت نہیں دے سکتے اور اگر کوئی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

اس کتاب میں دو قسم کے مضامین ہیں ۔ایک اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف میلان پیدا کرنے کے اور دوسرے اس محبت کا اثر اعمال میں ظاہر کرنے کے ۔

اول الذکر مضامین تقریباً پہلے نصف پر محیط ہیں اور دوسرے آخری۔ البتہ ان کے بیچ میں ایسے مضامین پر مشتمل کلام بھی ہے جو حبِّ الہٰی کا محرک ہوسکتا ہے جیسے شیخ کے بارے میں ، سلسلوں کے بارے میں یا صحبتِ صالحین کے بارے میں۔

ابتدا میں ہمارا خیال تھا کہ اس میں چھانٹی کرکے جو اچھی معیار کی غزلیں اور رباعیات ہیں ان کو پیش کیا جاۓ اور باقی کلام کو بعد میں دیکھا جاۓ لیکن معاً یہ شرح صدر ہوا کہ یہ کلام گو کہ شاعری ہے لیکن اس میں شاعری مقصود نہیں بلکہ پیغام مقصود ہے اگر کم معیار کی شاعری کے ساتھ بھی اعلیٰ معیار کا پیغام جارہا ہو تو گو کہ طبع نازک پر کچھ گراں تو گزر سکتا ہے لیکن جن کا مطلب پیغام سے ہوگا وہ اپنا مطلب اس سے لے لے گا۔آخر نثر سے تو زیادہ ہی پر اثر ہوگا۔بندہ نے مشہور شعراء کو بھی اس قسم کے کلام میں شعری تکلفات کا زیادہ مکلف نہیں پایا ۔مثالوں کی فہرست بہت طویل ہے اس لیے پیش کرنے سے بندہ قاصر ہے ۔واللہ اعلم۔

بندہ نے اس سلسلے میں اس کتاب سمیت چار کتابیں لکھی ہیں ۔اس میں ایک تدریج ہے درج ذیل غزل ان کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ان کتابوں کے کلام کے ورود میں بندہ کو صاف محسوس ہوتا تھا کہ بندہ کچھ بھی نہیں کررہا ہے بلکہ اس سے کرایا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو قبول فرماۓ۔آمین۔

 

 

یہ شاہراہ ہے محبت کی نہیں ہے راستہ یہ عام

اور اس کے بعد آئے گا محبت کا اہم پیغام

 

 

 

پہنچائے ہمارادل جو اہل دل ہیں ان کے ہاں

یہ دل والوں کا اک پیغام ان سارے دلوں کے نام

 

پھر اس کے بعد فکر آگہی کا بھی ارادہ ہے

مسلمانوں کا ہو اس دور میں کیا فکر اور کیا کام

 

پھر اس کے بعد ایک چھوٹی کتاب شجرہ رباعی کی

نظر آئے گی منظر پر پڑھیں گے اس کو خاص و عام

 

ہمارے سلسلے کے اولیاء کی نسبتوں کی بھی

رباعی اک شبیرؔ ہوگی بنے وہ عشق کا اک جام

 

سید شبیرؔ احمد کاکاخیل

خلیفہ مجاز حضرت صوفی محمد اقبال مدنی ؒ

 

حمد باری تعالیٰ

یاد دل میں بسی ایسی تیری

صرف نظروں میں ہے ہستی تیری

 

تری ہستی کے سامنے ہیچ ہیں سب

سب پہ لازم ہے بندگی تیری

 

تجھ پہ ایماں ہو تجھ سے ڈرنا ہو

کتنی آساں ہے دوستی تیری

 

میں کیا ہوں کیا میرا ہوگا

چیزیں میری جو ہیں وہ بھی تیری

 

جو بھی مر مٹ کے تیرا بن جائے

نگہبان اس کی خدائی تیری

 

ہر کسی کو خوشی اپنی محبوب

مجھ کو محبوب ہے خوشی تیری

 

جو نہ پایا تجھے تو کیا پایا

کتنی پر لطف آگہی تیری

 

آنکھیں اندھی ہیں اس کی جس نے بھی

خود کو دیکھا شان نہ دیکھی تیری

 

کان دونوں ہی اس کے بہرے ہیں

بات سن کر بھی نہ سنی تیری

 

دل اس کا دل نہیں ہے پتھر ہے

جس نے بھی بات نہ سمجھی تیری

 

اس کی تعریف پہ مائل شبیر ؔ

زہے قسمت ، ہے شاعری تیری

نعت شریف

اپنے آقا کی تعریف کیسے کروں اس کے کرنے کو میری زباں ہی نہیں

جس کسی دل میں ان کی محبت نہ ہو ایک پتھر ہی ہے اس میں جاں ہی نہیں

وہ ہیںمحبوب ِ رب ِّ کریم مصطفے ٰ

وہ کہ مظہر ہدایت کے ہیں مجتبے ٰ

تو مری اب زباں پہ ہو صلِّ علی ٰ

اب درود و سلام میں ہمیشہ پڑھوں ، دل سے میں ہر جگہ صرف یہاں ہی نہیں

ہیں سراپا وہ رحمت ہمارے لئے

ان کا رستہ ہدایت ہمارے لئے

منبعِ فیض و حکمت ہمارے لئے

جو کبھی بھی جدا ہوگیا ان سے تو اس کے بچنے کا کوئی مکاں ہی نہیں

اب بھی ملتا ہے ان کی نظر کے طفیل

ان کی تعلیم دیں پر اثر کے طفیل

ہے بشر زندہ خیر البشر کے طفیل

نام لیوا اگر نہ رہے ان کا توپھر خدا کی قسم یہ جہاں ہی نہیں

پڑھ کے سیرت میں ان کی ہی ، انساں بنوں

ان کے پیچھے رہوں مرد میداں بنوں

ان کو میں چھوڑ کر کیسے حیراں بنوں

گر محبت نہ حاصل ہو ان کی شبیر ؔتو کہوں یو ں کہ پھر تو ایماں ہی نہیں

پیغامِ محبت

عشاق کے لیے ہے یہ پیغامِ محبت

دل کی ہیں باتیں اس میں ہے اک جامِ محبت

 

احوالِ شیخ اس میں کچھ بیان ہوۓ ہیں

ہم جانتے اگر ہیں تو بس نامِ محبت

 

کچھ اور بھی عشاق کے احوال ہیں اس میں

ہم نے کیا ہے ان کو بھی سلامِ محبت

 

اشعار کی صورت میں ہے اک ِجذب کا طریق

کچھ اس میں ہے بیان بھی مقامِ محبت

 

بندہ خدا کا کیسے بنے اس میں ہے بیان

اور یہ کہ ہو دنیا کا اختتامِ محبت

 

دل سے خدا کا بندہ اگر تو بنے شبیر

تب ہی کھلے گا تجھ پہ یہ نظامِ محبت

 

جو پیغامِ محبت ہے عمل میں آئے

 

اب جو پیغامِ محبت ہے عمل میں آئے

کوئی احکامِ محبت ہمیں بھی سمجھائے

 

جبکہ محبوب کرےبات اور عمل اس پہ نہ ہو

کیسے ہو یہ اور محبت یہ کیسے کہلائے

 

جو ہے محبوب کا محبوب ہے ہمارا محبوب

کیسے انکار اس سے ہو جو کہ وہ فرمائے

 

جو ہیں محبوب کے محبوب طریقے ان کو

جب ہوں موجود کوئی کیسے ان کو ٹُھکرائے

 

بات کریں صاف عمل چاہیے شبیرؔ بات پر

عشق ترا نعرو ں میں تحلیل نہ ہونے پائے 1

محبت کی دنیا

محبت کی دنیا ، ہے دنیا نرالی

تکبر حسد اور ریا سے ہے خالی

 

جو تنگی نظر کی ہے ، اس میں نہیں ہے

وفا عفو کی نہر ہے اس میں جاری

 

کوئی وسعتیں جانے دل کی ہیں کتنی

کہ انگشت بدنداں ہے یہ عقل ساری

 

یہاں ہے جلن نفس کی خواہشوں کی 2

وہاں ٹھنڈی آہوں کی 3 بھرمار پیاری

 

اسے 4 اب بٹھاہی دے دل میں تو اپنے

ب ِ نا اس کے عمر تو نے کیسے گزاری

 

جو پیارا ہے اس کا تمہیں بھی ہو پیارا

اگر تم پہ اس کی محبت ہے طاری

 

طریقہ اگر اس کا پایا ہے تو نے

بشارت تجھے ہو ہو محبوب ِ باری 5

 

جو مانے نہیں اس کو 6 اس کو توچھوڑو

ہے محرومی اس سے سزا اسکی بھاری

 

وہ مجھ پر جو ہےمہربان مجھ سے زیادہ

کروں زندگی کیوں نہ میں اس پہ واری

نہ چھیڑو شبیر ؔ دل کے نغمے رکو اب

دبی ہی رہے بہتر 7 آوازتمھاری


دل کی دنیا

دل کی دنیا ذکر سے آباد کر

دل کو دنیا چھوڑ کر تو شاد کر

جب تو چاہے یہ کہ اس کو یاد ہو

تو بھی اس کو دل میں اپنے یاد کر

 

محبت کیسے حاصل ہو؟

جب محبت سے ہے سب کچھ 8 تو کہے اک سائل

یہ محبت پھر ہمیں کیسے ہوسکے حاصل

 

بولے اک شخص کہ چند باتوں پر گرکر لیں عمل

شاید پھر باب ِ محبت میں آپ ہوں داخل

 

ذکر اللہ کا اگر آپ کو دائما ً ہو نصیب

اور تربیت کے لیے کوئی مل سکے کامل

 

ان کی صحبت میں اسے ڈھونڈ اگر یہ نہ ملے

مطالعے میں کتابیں ہوں پھر ان کی شامل

 

نقص دنیا کی محبت کا دل سے نکلے ترا

پھر یہ ممکن ہے بن سکے تو بھی اس کا حامل 9

 

دل میں اللہ کی محبت کا نور پاو ٔ اگر

پھر نہ دنیا کی محبت کی طرف ہومائل

 

ہاں مگر جس کا دل بھی حب ِّ ال ٰ ہی پائے

وہ دل میں اس کی محبت کا کیسے ہو قائل 10

 

یہ محبت وہ سمندر ہے جس کی حد ہی نہیں

اس کے ہوتے نظر آئے کسی کو کیا ساحل 11

 

بس تڑپنا ہی محبت کا تقاضا ٹھہرا

آگے شبیر ؔ کوئی کیسے کہیں ہو نازل 12

 

اتنا حاضر کہ تو گم ہوجائے

ایسا حاضر ان کے دربار میں ہو کہ اپنی ذات سے گم ہوجائے 13

تو اسکا ہو وہ تیرا بن جائے پھر ابدی زندگی تو یوںپائے 14

 

عشق منزل کو جانتا ہی نہیں منزلیں کیوں تجھے مطلوب ہوں پھر 15

تو تو مٹ مٹ کے بنے گا باقی 16 مٹنے دو مٹتے رہیں گے سائے 17

 

دل سے دو دل کہ دل قبول بھی ہو 18 اس کے دربار میں وہ پیش بھی ہو 19

اب کہ جب پاس کچھ رہا ہی نہیں کیسا شکوہ زبان پرآئے 20

 

اپنی چاہت کو اس کی چاہت پرکردو قربان کہ تجھ کو وہ چاہے 21

سر تسلیم کر دو خم اپنا 22 یہ مرا ہی ہے وہ یہ فرمائے 23

 

قدر کرنا کوئی اس سے سیکھے پھو ل دے کر کوئی گلزار لے لے 24

ہاں مگر تنگ دل شبیر ؔ نہ ہو 25 تجھ کو دشمن 26 کہیں نہ بہکائے

 

ایک دروازہ کھلا اس کا تو بس کیا دیکھا

میں نے دنیا کا یہاں خوب تماشا دیکھا

ہر طرف میں نے تو بس اس کا ہی چرچا دیکھا 27

 

اس نے کس پیار سے دروازے کئے بند سارے 28

ایک دروازہ کھلا اس کا تو بس کیا دیکھا 29

 

عشق کی آنکھ ہر اک غیر سے کیوں اندھی ہے 30

اب نظر آئے کیا اس کا جو جلوہ دیکھا

 

ہم جہاں گرتے ہیں وہ پھر سے اٹھادیتے ہیں 31

ہے اٹھایا ہمیں جب بھی ہمیں گرتا دیکھا

 

میں نے جانا کہ ہے مطلوب اس کا پانا ہی 32

کس نے پایا ہے اسے اس کو نہ پیدا دیکھا 33

 

میں نے مخلوق کو دیکھا ہے ہر اک رخ سے شبیرؔ 34

میں نے دیکھا تو یہ دیکھا کہ بس خدا دیکھا 35

 

قدر ٹوٹے ہوئے دل کی مرے محبوب سے پوچھ

ہم ہیں ٹھکرائے ہوئے اور ہیں دھکے کھائے

اک ہی در تو کھلا ہے اورکدھردل جائے

 

قدر ٹوٹے ہوئے دل کی مرے محبوب سے پوچھ

اس قدر قدر کوئی اور کہاں کر پائے

 

ایک ہی ہے کہ جو بے لوث تجھے پیار کرے

تو ترے دل میں علاوہ پھر اس کے کون آئے

 

مانگ لے مانگ تو مانگنے سے نہ کر شرم کبھی

وہ کہاں دینے سے رکتے ہیں اور تو شرمائے

 

جب پڑی اس کی شبیر ؔ دل پہ نظر دل میرا 36

مر مٹا اس پہ، کرے اس کو قبول اب ہائے 37

 

 

لوگوں کے کہنے سننے کی پرواہ نہیں مجھے

کیسے کہوں کہ اس نے بلایا نہیں مجھے

کافی ہے اپنے در سے اٹھایا نہیں مجھے 38

 

چپکے سے میرے کان میں کچھ ایسا کہہ دیا 39

لوگوں کے کہنے سننے کی پرواہ نہیں مجھے

 

بے کار اگر لوگ کہیں مجھ کو تو کہیں

اب اس کو چھوڑنے کا حوصلہ نہیں مجھے

 

اس کا ہوں اس کا ہی رہوں اس کا ہی بنوں میں

روکے اب اس سے کوئی بھی رشتہ نہیں مجھے

 

میں اس کے سہارے سے ہی قائم رہوں شبیر ؔ 04

اب دوسروں پہ کوئی بھروسہ نہیں مجھے

 

 

کسی قابل بھی ہے ہستی اپنی

اس پہ واروں میں زندگی اپنی

اس نے ہی دی ہے کب یہ تھی اپنی

 

وہ مجھے ہوش میں جب لاتے ہیں 41

بھول جاتا ہوں میں مستی اپنی 42

 

اس کے کہنے پہ جاو ٔ ں قرباں میں

کسی قابل بھی ہے ہستی اپنی 43

 

سر کے بل جاو ٔ ں اس کی خدمت میں

گر کوئی چیز مانگ لی اپنی 44

 

بھول جانے کو بھی میں بھول گیا

پیش کرتے ہوئے نیستی اپنی 45

 

اس نے جو کرلیا شبیر ؔ قبول

کیسی خوش بخت ہے شاعری اپنی

 

 

 

عمق کیا جانیں بحرِعشق کی

در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا 46

میں مستی میں یہاں پر کب سے آیا اور کب نکلا 47

 

عمق کیا جانیں بحرِ عشق کی سادہ ہیں ہم کتنے 48

نتیجہ اس کی پیمائش کا بھی سوئے ادب نکلا 49

 

یہاں چپ باش کچھ پوچھو نہیں یہ بحرِ حیرت ہے

یہاں پر سر جھکانا ہی تو ملنے کا سبب نکلا 50

 

ذرا چشمِ تصور سے جمال اس کا تو دیکھونا 51

کہ یوں محسوس ہوتا ہےکہ دم نکلا تواب نکلا

 

مرے تارِ نفس 52 کو نفس کے تاروں 53 نے الجھایا

مرے دستِ طلب 54 کواس نے جب پکڑا 55 تو تب نکلا 56

 

قبول درخواست آنے کی 57 کی پردہ نشین 58 نے تب

شبیر ؔ بے آبرو نامحرم اس کا 59 دل سے جب نکلا

 

 

جو اس کا نام لیتا ہوں

زباں میٹھی سی ہوتی ہے جو اس کا نام لیتا ہوں 60

مئے عشقِ حقیقی 61 کا میں روز اک جام لیتا ہوں 62

 

جو غیر اللہ ہے اس کو لا الہ سے دور پھینکتا ہوں

میں الا اللہ سے پھر اس کے در کو تھام لیتا ہوں 63

 

پھر اس کا رنگ میں اللہ ُ اللہ کہہ کے اپناو ٔ ں

پکڑواکر میں خود 64 کو سانس زیِر دام لیتا ہوں 65

میں اس کی یاد میں مست ہو کے جب اس کو پکارتا ہوں

کرم کی اک نظر کے پیار کا انعام لیتا ہوں 66

 

مجھے پھر وہ محبت سے جو دیکھے کیا ہے بات اس کی

میں تیرا ہوں تو میرا ہے میں یہ پیغام لیتا ہوں

 

جب اسمِ ذات اللہ کا زباں پر طاری ہوتا ہے

تو دل پھر جاری ہوتا ہے میں اس سے کام لیتا ہوں 67

میں ہاں بیکار ہوں بیکار ہوں کچھ بھی نہیں ہوں میں

میں اپنے سر پہ دنیا کا ہراک الزام لیتا ہوں 68

 

مرا دل کیا ہے سمجھونا شبیر ؔ یہ عرشِ اصغر ہے

تجلی گاہ حق پر اس سے کچھ احکام لیتا ہوں 69

 

 

 

مراقبہ

دل میرا اس طرف ہے اس کی مجھ پہ ہے نظر

اور اس کی ہی نظر کا مرے دل پہ ہے اثر

 

یکسو ہوں اس طرف اور ماسوا سے منقطع

یہ ہی مراقبہ ہے تصور ہو یہ اگر

اب تو شرابِ عشق ہی پیا کرے کوئی

اس کا بنے اگر نہیں تو کیا کرے کوئی

پھر کیسے زندگی کا حق ادا کرے کوئی 70

 

مطلوب وصلِ یار ہے اس زندگی میں جب

اس وصل سے پھر خود کو کیوں جدا کرے کوئی 71

 

اس امتحانِ زیست میں مقصود وہی ہے

ہر آن میں بس اس کو ہی دیکھا کرے کوئی 72

 

سب کچھ بھی کھو کے ٹھیک ہے پاؤں اگر اسے

میری بلا سے غیر کو چاہا کرے کوئی 73

 

مقصودِ کائنات کا دنیا نہیں مقصود 74

دھکے کیوں اس کے واسطے کھایا کرے کوئی 75

 

یہ دل جو اس کے واسطے پیدا کیا گیا

جو غیر ہے اس میں نہ اب آیا کرے کوئی

جو درد ِ دل نصیب تھا رومی کو عشق میں

پڑھ مثنوی کو کیوں نہ پھر جلا کرے کوئی 76

 

شبیر ؔ اتر اب ذرا میخانہِٗ دل میں 77

اب تو شرابِ عشق ہی پیا کرے کوئی 78

 


 

 

 

شراب محبت

مرا کلامِ عارفانہ دیکھ

اس کا ا ندازِ عاشقانہ دیکھ

پی یہ شراب ِ محبت ہے پی

دل ہی تو اس کا ہے نشانہ دیکھ

چھلک پڑنے کو تھا گویا وہ پیمانہ مرے دل کا

شرابِ عشق سے پھر پور میخانہ مرے دل کا 79

وفورِ شوق سے بار بار اٹھ جانا مرے دل کا 80

 

مرے دل میں وہ آئے جب تو تب سے مست دل میرا 81

چھلک پڑنے کو تھا گویا وہ پیمانہ مرے دل کا 82

 

مرا دل اس کا وہ میرا میں کیسے چھوڑ دوں اس کو

وہ اس سے لے کے پانا اور پا جانا مرے دل کا 83

 

میں اس کے گھر میں جا بیٹھوںوہ میرے دل میں آجائے 84

ابھی کچھ اور ابھی کچھ اور فرمانا مرے دل کا 85

 

یہ دولت مفت نہیں ملتی جگر خون کرنا پڑتا ہے 86

کہیں سے رستہ پائے رستہ جانانہ مرے دل کا 87

ہیں عقلیں سن ذہن تھک رک گئے اس شور دنیا سے

سنے اب تو کوئی یہ نعرہ مستانہ مرے دل کا 88

 

میں جاو ٔ ں اس کے پیچھے جسکے پیچھے جانے کو کہہ دے

ہو مستی سے شبیر ؔ عشقی سکوں پانا مرے دل کا 89

دل دینا

نہیں آسان پروانہ بننا

اور جل جل کے مستانہ بننا

کھیل تماشہ نہیں دل کا دینا

اور پھر کسی کا دیوانہ بننا

وہ نظر آئے بہر صورت

میں دائیں بائیں دیکھوں وہ نظر آئے بہر صورت 90

مٹے میری نظر میں جو بھی تھاموجود ثمر صورت 91

 

تجلی اس کی ہر اک چیز پر حاوی نظر آئے 92

پڑے جس پر بھی جیسے ہی وہاں پائے اثر صورت 93

 

جو کرنیں آتی ہیں سورج سے رستے میں نہ روشن ہوں

یہ روشن خود کو کرتی ہیں پہنچنے پر ہی بر صورت 94

 

حقیقت پر نظر پڑتی ہے جس کی بھی جہاں میں تو 95

بس حیرت ہی وہ پاتا ہے جو ہوتی ہے مفر صورت 96

 

وہ اندھا بنتا ہے شبیرؔ صورت سے بظاہر کہ 97

ادھر وہ اک کو دیکھے جب 98 تو غائب ہو ادھر صورت 99

 

 

عاشقِ مستور

عاشقِ مستور ہوا ہوں

میں عشق کے پیغام پہ مامور ہوا ہوں

تب سے میں ایسا لکھنے پہ مجبور ہوا ہوں

 

جس نے مجھے پیغام محبت کا دیا ہے 100

دل سے کبھی سے اس کا میں مشکور ہوا ہوں

 

دنیا کی کثافت سے جو لبریز ہے وہ چھوڑ 101

کر میں شرابِ عشق سے مخمور ہوا ہوں 201

 

اب مجھ کو وہی چاہیےجو چاہیےاس کو 103

اب نفس کی خواہشوں سے بہت دور ہوا ہوں 104

وہ حسنِ ازل 105 چھپ گیا اسباب و علل 106 میں

میں بھی مگر اب 107 عاشقِ مستور 108 ہوا ہوں

 

پھایا 109 مجھے شبیر ؔ اس کے در کا 110 چاہیے

زخموں سے میں دنیا کے 111 بہت چور ہوا ہوں

 

 

موت بھی اک حسیں تصور ہے

موت بھی اک حسیں تصور ہے دوست کو دوست سے ملائے گا

دل جب اس کا ہے کتنا خوش ہوگاجس وقت اس کے پاس جائے گا 112

 

زندگی اک حسیں امانت ہے اپنے محبوب کی محبت کی 113

کتنا وہ خوش نصیب ہو گا پھر اس سے جو فائدہ اٹھائے گا 114

 

اپنا دل خوب سجا لینا اب تجھ کو دن جتنے بھی ملیں یاں پر 115

ذکر سے اس کو خوب روشن کر مال ِ کِ دل یہاں پہ آئے گا 116

 

اپنی آنکھوں کو گند سے موڑو اس طرف جس طرف ہے یا ر موجود 117

کچھ تو دیکھو بھی دل کی آنکھوں سے اس کے جلوے جو وہ دکھائے گا 118

 

اس کے دشمن کی جو آوازیں ہیں اپنے کانوں کو روک لیں ان سے 119

دل کے کانوں کو اس طرف کردو سن لے کچھ وہ جو وہ سنائے گا 120

 

وہ تمہیں دیکھ جو رہا ہےشبیر 121 تم بھی سمجھو کہ اسے دیکھتےہو 122

دل کو دنیا سے خالی کردے 123 تواپنے دل میں پھر اس کو پائے گا 124

اُس کا پاک نام دل پہ نقش کر

جاتی نہیں ہے میری جو دل کی ہے تشنگی

اس بے قرار دل کو ملے کیسے تسلی

 

بس ہم کو چاہیے ہے کہ ہم وہ کریں فقط

جو چاہے وہ اور اس میں ہی گزرے یہ زندگی 125

 

دنیائے دل آباد کریں ذکر سے اس کے

کرلے ہمارے نام سے وہ یاد ہم کو بھی 126

 

وہ دل میں تو آتے ہیں سمجھ میں نہیں آتے

سمجھا کہ ذاتِ بخت 127 کی پہچان ہے یہی

 

شبیر ؔ اس کا پاک نام دل پہ نقش کر

دنیا کی محبت تو ہےبس دل کی گندگی

 

پھر دل کو اس کے ذکر سے آباد کریں ہم

پھر دل کو اس کے ذکر سے آباد کریں ہم

ہر بار اس سے ملنے کی فریاد کریں ہم

 

جو اس سے ہو منسوب وہ غم غم کہاں رہے

اس غم سے اپنے دل کو بھی اب شاد کریں ہم

 

جو قید میں اس کی ہو تو آزاد وہی ہے

کروا کے قید خود کو اب آزاد کریں ہم 128

 

چیزوں کی فراوانی نے دل کردیا ویراں

مانوس اس سے اب دل ِ برباد کریں ہم 129

 

جو بھول گیا خود کو اس کی یاد میں شبیر ؔ

اپنے کو بھول جانے کا استاد کریں ہم 130

 

کس لیے آیا تھا اور کیا کرلیا

کس لیے آیا تھا اور کیا کرلیا

دامن اپنا کس سے میں نےبھر لیا 131

 

پیٹھ اپنے بوجھ سے تو تھی جھکی

دوسروں کا بوجھ اپنے سر لیا 132

 

قول تو اپنے بہت اچھے رہے

پر عمل میں اس کا کیا اثر لیا

 

جو پڑے تھے در پہ جھک کر بچ گئے 133

سمجھے خود کو کچھ تو اس کو دھر لیا 134

 

تاک میں دشمن ہے بیٹھا مستعد 135

ساتھ میرا ساتھی بھی اندر لیا 136

 

تیر کھینچے ہےکمان میں ہر وقت 137

دل دماغ میرا نشانہ پر لیا 138

 

ایک دم غفلت کی گنجائش نہیں

کیا نہ ہووے اس کو ہلکا گر لیا 139

 

ہم نے بھی شبیر ؔ توبہ کی ہے اب

اس سے بدلہ اس طرح بہتر لیا 140

 

 

 

غیر مناسب حالت

خواہش ِ نفس اگر کم ہی نہ ہو

دیکھ کر سب یہ دل کو غم ہی نہ ہو

خود پہ ماتم تمہیں کرنا پڑے گا

زندگی ختم یہ ختم ہی نہ ہو

 

کتنے طوفان سمندر نے چھپا رکھے ہیں

کتنے طوفان سمندر نے چھپا رکھے ہیں

کتنی ضربوں کے اثر دل نے دبا رکھے ہیں 141

 

ضرب لگنے سے محبت کی لہر نے دل سے

جانے کیا کتنے حجابات اٹھا رکھے ہیں 142

 

آپ جب سامنے ہوتے ہیں میرے ہر پل تو

سرِ تسلیم ہے خم کندھے جھکا رکھے ہیں 143

 

ٹوٹ کر ٹوٹنے سے میں ہوں جو بنا تو ایسے

توڑ کر کتنے ہی عشاق بنا رکھے ہیں 144

 

آپ ہیں ساتھ تو اس ساتھ کے میں ساتھ رہا

کتنے نقشے مرےاس ساتھ نے سجا رکھے ہیں 145

 

مٹی ہے گود میں ہیرا ، یہ عاجزی ہے شبیر ؔ 146

مٹنے نے مٹنے کے خاکے یوں مٹارکھے ہیں 147

جو کاغذ پہ تصویر اپنی تھی دل میں

جو سوچا تھا چھوڑا ہےاب کیا بنوں 148

میں نظروں میں خود اپنی کیسے رہوں 149

 

جو کاغذ پہ تصویر تھی دل میں پہلے

اسے پھاڑ کر اب تو تجھ سے کہوں 150

 

پسند جو بھی تصویرمیری ہو تجھ کو 151

بنالے مری کورا کاغذ میں ہوں 152

 

میں ویسے رہوں جو ہو تجھ کو پسند

جو تجھ کو ہو مطلوب میں وہ کروں

 

مجھے اپنا اب کہلوا دیجئے

یہی اپنے بارے میں اب میں سنوں

 

مرا نقص ثابت ہے ہر چیز میں 153

ہے غائب مری جو کہ تھی اکڑ فوں 154

کرم کی نگاہ کا میں طالب شبیر ؔ

کرم کی نگاہ لے کے آگے چلوں

 

 

 

دل اور وہ

یہ دل صرف اس کا ہےاور اس کا ہی رہے گا

یہ اس میں مبتلا ہے مبتلا ہی رہے گا

اب غیر کی کیا مجال ہے رکھے اس میںجو قدم

اغیار سے ہمیشہ یہ چھپا ہی رہے گا

 

 

 

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کے سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

 

میں سرِ مو بھی اس کے رستے سے کبھی نہ ہٹوں

یہ مرا ذوق بنے ایسی طبعیت دے دے

 

تو مرے دل میں رہے اور مرا دل اس کی طرف

تو ہی جب چاہے تو اس پر استقامت دے دے

 

حق مجھے حق ہی نظر آئےاور باطل باطل

دل ِ بیدار ہو نصیب نور ِ فراست دے دے

 

سامنے میرے ہمیشہ ہو ترا حسن ِ ازل

اس پہ میں مر مٹوں دنیا سے تو نفرت دے دے

 

اپنے محبوب کی سیرت سے روشناس فرما

پھر اتباع میں اس کی حسنِ سیرت دے دے

 

ہر ادا اسکی یقینا ً جو تجھے پیاری ہے

اس کے پانے کی مجھے بھی تو سعادت دے دے

 

تو نے ہی ڈالی تھی دل میں جو اسکے فکر ِ اُمت

طفیل اس کے مجھے بھی درد ِ اُمت دے دے

 

میرے مولا میں ہوں کمزور اور ناتواں انساں

میں تجھ کو راضی کروں اس کی توقوت دے دے

 

میں تجھے یاد کروں اور تو مجھے یاد رکھے

فہمِ قرآں ہو نصیب ذوقِ تلاوت دے دے

 

میں ترے سامنے گم سم کھڑا ہونا سیکھوں

تو مجھے دیکھ کے خوش ہو ایسی حالت دے دے

مجھ سا ناچیز کبھی تیری ثنا کیا کرسکے

کچھ بھی ہو میرے خدایا قبولیت دے دے

 

اب جان و مال وقت و اولا د ہو شبیر ؔ کی قبول

اس کے پیش کرنے کی مجھ کو استطاعت دے دے

 

دو باتیں اک ساتھ

آپﷺ کی ذات سے محبت ہو اور آپ کی سنتوں سے بھی ہو پیار

زندگی آپ کی سنت پہ گزرے اور دل ہو آپ کی محبت سے سرشار

ان میں ہو کوئی ایک بات معدوم تو دوسری کی حقیقت نہ رہے

دونوں اک ساتھ ضروری سمجھیں چلنا سنت پہ ہو دل آپ پہ نثار

 

 

تو

چوٹ پر چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

 

جو ہیں گم گشتہ راہِ منزل سے

ان کو رستہ بھی دکھائے ہے تو

 

غلطیاں اور گناہ جو کرلیں

ایک توبہ سے مٹائے ہے تو

 

ہم پہ ہے ہم سے مہربان زیادہ

خود سے خود سے ہی ملائے ہے تو

 

ہوکے ہر چیز میں ظاہر بھی تو

کس طرح خود کو چھپائے ہے تو

 

دل مرا تجھ پہ مر مٹا ہے جو

اس کو بھی کھینچ کے لائے ہے تو

میں کسی اور کا کیا ذکر کروں

جب سے دل میں مرے آئے ہے تو

 

کر قبول اب یہ بندگی میری

بندہ اپنا جو بنائے ہے تو

 

رستہ اپنے حبیب کا دے دے

اپنوں کو جس پہ چلائے ہے تو

 

جاگنے دینا نہ ان کو تو کبھی

جن رذائل کو سلائے ہے تو

 

اب کسی اور کی پرواہ کیا کروں

مرےدل میں جب سمائے ہے تو

 

کیا کہوں یہ جو ہیں اشعار ِ شبیر ؔ

فضل سے مجھ کو سکھائے ہے تو

یہ مرا خدا تو ہے

وہ مری آنکھ سے چھپا تو ہے

پر مرے دل میں سمایا تو ہے

 

وہ نہ ہو دل میں چین ہو رخصت

مرا دل اس کا آشنا تو ہے

 

سب سے کٹ کر میں اس کے ساتھ ہوں خوش

مرا دل اس میں مبتلا تو ہے

 

دل بیمار کا دارو ہے وہ

کہ تعلق اس سے رہا تو ہے

 

وہ مجھے یاد رکھ رہا ہوگا

ذکر میں نے بھی کچھ کیا تو ہے

 

دور سے ہم کو کریں کتنا قریب

سن شبیر ؔ یہ مرا خدا تو ہے

 

 

وہ مرے دل میں رہے

اسکے وعدوں پہ یقیں کرتے ہوئے یا د سے اس کی سکوں پاتا رہوں

دل مرا اسکی یا د سے ہو پر شکر اس کا میں بجا لاتا رہوں

 

عشقِ ال ٰ ہی کے سمندر کا میں شناور بنوں اور مست رہوں

دنیا سو بھیس بدل کے آئے اس سے دامن اپنا بچاتا رہوں

 

اس رب کے لئے ہو وقف ہاں جو ذرہ ذرہ میرے جسم کا ہے

ہر وقت اتنا خوش نصیب بنوں کہ ا س کی یا د میں میں آتا رہوں

 

دل مرا تخت ہے تجلی کا وہ کہ جو سب سے بے نیاز کرے

اس تجلی کے میں آثار پھر خود ایسے عشاق کو سنا تا رہوں

 

دنیا ظلمت ہے اور بوجھ ہے اک اس سے ہجرت کروں اور دور رہوں

ذکر کے نور سے پر نور رہوں اور اس نور میں نہاتا رہوں

 

دکھ یہاں کے جوہیں وہاں کے ہیں سکھ اس کا انعام گر سمجھتا رہوں

سکھ وہاں کتنے ملیں گے ان پر ، خود کو میں بار بار سمجھاتا رہوں

 

بس مرا دل قبول ہوجائے باقی اعضا ء تو اس کے خادم ہیں

وہ مرے دل میں رہے اور میں دل سے اس کے احکام بجا لاتا رہوں

 

آنکھ اٹھے تو وہ اس طرف ہی اٹھے کان سنیں وہ جو ہو پسند اس کو

اور زبان پر ہوحمد جاری شبیر ؔ زیرِ لب اس کو گنگنا تا رہوں

 

 

 

 

اخلاص

مل گئی اخلاص کی دولت اگر

ہو رہیں اعمال اپنے پر اثر

سب شریکوں سے ہے وہ بیزار جب

ہر عمل میں ہو فقط اس پر نظر

 

میرا دل ہے میخانہ

میخانہ 155 جاو ٔ ں کیونکر میرا دل ہے میخانہ 156

عاشق تو دل میں چاہے بس محبوب کا آنا

 

دنیا کی میکدوں کی کثافت کو کیا کروں

ہم چاہیں اس کی یاد سے ہردم لطف پانا

 

یہ آنکھ ہو عاشق تو ہر اک چیز میں دیکھے

وحدت کے سمندر 157 کے نور کا تانا بانا

 

یہ کان ہوں عاشق تو ہر طرف سے سنیں یہ

نغمے وہ پوشیدہ کیا اُنکا سننا سنانا

 

عاشق زبان گر ہو تو ہر بول میں ہو عشق

گرما گرمئیِ عشق سے ہو دلوں کا گرمانا

 

شبیر ؔ کوئی پوچھے ہے طریق ترا کیا

میرا طریق کیا ہے ؟ ہے طریقِ جانانہ 158

 

 

نعت شریف

عجب نہیں ہے یہ وہ میرے خیالوں میں ہے

جو خوش نصیب ہیں لوگ وہ ان کے دلوں میں ہے

 

یہ کائنات ہر اک چیز اس کے دم سے ہے

جو اس کو جان لے تو وہ ہی سیانوں میں ہے

 

جس کو محبوب ہوں ہر وقت سنتیں اس کی

ہو وہ مؤمن بخدا رب کے وہ پیاروں میں ہے

 

دل محبت سے ہو پر اس کی زباں پر ہو درود

اور سنت پر ہو عمل کام یہ کاموں میں ہے

 

سارے محبوبوں کے ست سے ہے بنا یہ محبوب

وہ عقلمند ہے جو اس کے دیوانوں میں ہے

 

میرے ليے یہ سعادت کچھ کم نہیں ہے شبیر

کہ میرا نام اس کے چاہنے والوں میں ہے

 

 

 

 

دل ترا اُس کی امانت ہے

خود کوجب ہا ر کے دیکھو گےتم جیتنے کا مزہ تو پاو ٔ گے

ہو بلند اتنا جتنا خود کو تم یا ں اس کے واسطے گراو ٔ گے

 

مٹی ہو مٹی سے بنے ہو تم مٹی بن جانا ذرا سیکھ بھی لو

عاجزی اس سے ہوگی جب حاصل سیڑھیاں خود ہی چڑھتے جاو ٔ گے

 

دل سے ہر غیر اس کا پھینکنا ہےدل میں بس صرف وہ ہی رہ جائے

وہ ہی جب سامنے ہوگا تو پھر ہاتھ سامنے کس کے پھیلاو ٔ گے

 

موت سے پہلے مرنا سیکھنا ہے وہاں میزان کے تصور سے

جان و مال وقت استعمال کرکے اپنے اعمال کو بڑھاو ٔ گے

 

ہر جگہ اس کا تجھ کو احساس ہو اس سے غافل کسی لمحے نہ رہو

پھر عبادت بنے تیری جاندار خود کو محبوب اس کا بناو ٔ گے

 

ساری باتیں نظر آئیں مشکل تم اگر دل نہ اس کو دے پائے

دل تو اس کی ہی امانت ہے شبیر ؔ یہ امانت اس کو پہنچاو ٔ گے

میں دیوانہ بن کےسدھر گیا

میںبکھربکھر 159 کےسمٹ گیا 160 میںسمٹ سمٹ 161 کےبکھر 162 گیا

مرا دل تھا اس کی ا ما نت اک تبھی دل مرا یہ اُدھر گیا

 

نہ یہ خواب ہے نہ خیا ل ہے کو ئی قیل اس میں نہ قال ہے

یہ عجب نہیں ، تھا یہ اس کا ہی ، یہ جہاں کا تھا وہاں پھر گیا

 

کبھی قرب اپنا عطا کیا کبھی ناز سے خود سے جدا کیا 163

مجھے کیا غرض ہے کہ کیا کیا میں وہاں گیا وہ جدھر گیا

 

مرے ساتھ اب تو وہی ہے بس کوئی اور پاس نہیں ہی ہےاب 164

میں رکوع میں سجدوں میں جب ملا اسے مل کے اور نکھر گیا 165

 

مری سوچ اس کی طرف رہے سارا دن نہ جانے وہ کب ملے

رات اک گھڑی مجھے مل گئے مرے دل سے بوجھ اتر گیا

 

کبھی دل میں میرے سمائے 166 ہے کبھی مجھ میں خود کو دکھائے ہے 167

عجب عشق شبیر ؔ سکھائے ہے میں دیوانہ بن کےسدھر گیا 168

 

 

دلِ بیتاب سنبھلتا ہی نہیں

دلِ بیتاب سنبھلتا ہی نہیں

میں جوسمجھاو ٔ ں سمجھتا ہی نہیں

 

کچھ کہا آپ نے پیار سے اس کو

اب کسی اور کی سنتا ہی نہیں

 

دل میرا ہاتھوں سے گیا ہے نکل

میرے سینے میں اب رہا ہی نہیں

 

آپ نے کب سے چن لیا اس کو

مجھ گناہ گار کو پتا ہی نہیں

 

دنیا تو لائے خواہشوں کی طرف

اس سے اس کو مزہ ملتا ہی نہیں

 

عقل قابو میں ہے اس کے اور یہ

تو شریعت سے نکلتا ہی نہیں

 

نفس اس کو دیکھ کے ہاتھ ملتا ہے

کہ اس کے ہاتھ کچھ رہا ہی نہیں

 

مجھ کو ہو یار کی آغوش نصیب

یہ ہی ہے اور تمنا ہی نہیں

 

باتیں شبیر ؔ کی دل کی باتیں

اس کو جو اور کچھ آتا ہی نہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

دل تو اب تیرا ہی شیدائی ہے

دل تو اب تیرا ہی شیدائی ہے

راہ کچھ یوں اسے دکھلائی ہے

 

دل کے خانے میں ہے تصویر یار

وہ ملے جو نظر جھکائی ہے

 

ہر طرف نور ہے سرور ہے بس

میں ہوں اور تو ہے اور تنہائی ہے

 

مجھے کیا کھینچے رونق دنیا

دل کو اک بات جو سمجھائی ہے

 

مرے دل میں بسا ہے تو جب سے

دل نے دنیا الگ بسائی ہے

 

جلوت و خلوت کی اب بات کہاں

اب تو تجھ سے ہی شناسائی ہے

 

سامنے تیرے ہیں اعضاء سجدہ ریز

سب کی خواہش یہی جو پائی ہے

 

حیات تھی وگرنہ مرجاتا

اب تو کچھ چوٹ ایسی کھائی ہے

 

بوجھ دن بھر مرے دل پر تو رہا

رات مستی پہ اتر آئی ہے

 

عشقِ نادان 169 کے اشاروں پہ شبیر ؔ

ہیں خموش جن کو سمجھ آئی ہے

 

پیاس بجھتی نہیں

پیاس بجھتی نہیں ہے جام چڑھانے کے بعد 170

ساقیا ہاتھ نہ روکنا اس پیمانے کے بعد

 

ہے یہ میخانۂِ عشاق صبح شام ملے 171

صبح کی صبح ملے اورشام آنے کے بعد

 

پی کے دیوانے بنے ہیں پر اتنے ہوش میں ہیں

جتے ہیں کام میں اشارہ سا ہی پانے کے بعد 172

 

کون پلاتا ہے مجھے گوشہ ِ ء تنہائی میں

ڈالتا پانی بھی ہےآگ سلگانے کے بعد 173

 

عشق جب اور بڑھےگا تو مزہ آئے گا

دل دِکھائے گامرا دل کے چھپانے کے بعد 174

 

یہ محبت ہے یہ اک آگ ہے کیسے یہ چھپے

کیا پتہ کیا ہو پیمانہ چھلک جانے کے بعد 175

کب تلک یوں ہی پیمانوں کی بات چلتی رہے

دور سارے ہوں مگر اس کے پلانے کے بعد

 

آگ پٹرول کی جب پانی سے بجھتی ہے نہیں

کیا بجھے آگ مری اس کے جلانے کے بعد

 

اب سمندر بھی نہ کافی ہو بجھانے کے لیے

ہاں بجھے یہ تو بجھے اس کے ہی پانے کے بعد

 

بے قراری مرے دل کی تجھے معلوم تو ہے

میں سب کا غیر ہوا تیرے اپنانے کے بعد

 

حد اس کے پیار کی کوئی نہیں ہوسکتی ہے

آگ ہے اک اور ابھرتی ہے دبانے کے بعد

 

موت خوشرنگ مرے دل کو نہ ہوکیوں اب شبیر ؔ

وعدہ کہ اس کا جو ملنے کا ہے مرنے کے بعد

B

 

 

 

مرے دل کو کیسے سکون ہو

مرے دل کو کیسے سکوں ہو آگ اس میں اک جو لگی سی ہے

مری آہ گرم سی لگی مجھے کوئی بوٹی جیسے جلی سی ہے

 

مری آنکھ برسے نہ کھل کے کیوں اسے روک کون سکے گا اب

جسے آنکھ دیکھ سکے نہیں وہ ہی ذات دل میں بسی سی ہے

 

دور دنیا مجھ سے تو دور ہو مرے دل میں کوئی جگہ نہیں

مجھے تجھ سے واسطہ ہے اب کہاں، تیری چاہ بڑی بُری سی ہے

 

کروں یاد اس کو زباں سے اب کروں اس کو یاد سے تر بتر

مرا دل تو اس کا مکان ہےتبھی ہوک اس سے اٹھی سی ہے

 

مرے دل سے غیر نکل تو جا کبھی بھول کے بھی نہ آنا اب

مرے دل میں آئے وہ آئے اب دھوم اس کی جیسے مچی سی ہے

 

مرے لب سے اب یہ اٹھے صدامیں رہوں نہ اس سے کبھی جدا

مرے دل میں وہ ہے شبیر ؔ اب یہ زباں پہ بات چلی سی ہے

 

دل مبتلائےیارکوبہلاو ٔ ں میں کیسے

دل مبتلائے یار کوبہلاو ٔ ں میں کیسے

میں وصلِ یار چاہوں مگر پاو ٔ ں میں کیسے

 

اس زیست کا ہر لمحہ امانت ہے اس کی جب

اس کے لئے ہی صرف ہو اس پہ آو ٔ ں میں کیسے

 

ہر دم وہ چاہے میری نظر اس کی طرف ہو

اغیار کے اشاروں سے دل بچاو ٔ ں میں کیسے

 

دل مطمئن تو اس پہ ہے کہ اس کا ہی رہے

پر نفس کو اس پہ مطمئن کراو ٔ ں میں کیسے 176

 

آنکھوں کے سامنے شر ہےجس میں خیر ہے مخفی 177

اس خیر میں شر سے آنکھیں اب ہٹاو ٔ ں میں کیسے

 

جو شیخ کی دہلیز ہے پکڑو اسے شبیر ؔ

بہتر ہواس سے بھی وہ گر بتاو ٔ ں میں کیسے

 

 

خیالوں میں وہ موجود

دل عشق سے لبریز خیالوں میں وہ موجود

سورج کی روشنی میں ہواؤں میں وہ موجود

 

اس کے ہی ارادے سے ہر اک چیز ہے قائم

ہے چاند میں موجود ستاروں میں وہ موجود

 

جس دل میں بصیرت ہو وہ دیکھے اسے ہر وقت

ہر آن ہر جگہ مشاہدوں میں وہ موجود

 

کیا فعل ہے ممکن اگر اس کا نہ ہو فاعل

ایسے ہی سوالوں کے جوابوں میں وہ موجود

 

فطرت کے مطابق ہے رخ بگاڑ کی طرف 178

اجزائے منتشرسے تعمیروں میں وہ موجود

 

تھوڑی سی اپنے آپ کی تخلیق ہو سامنے

انسان میں موجود نظاموں میں وہ موجود

 

گر عقل نفس زدہ نہ ہو اور حق کی طلب ہو

سر بستہ کائنات کے رازوں میں وہ موجود

شبیرؔ تم طلب دل بیدار تو کرلو

سچی طلب کے ساتھ دعاؤں میں وہ موجود

 

 

معرفتِ الٰہی

دل اگر اللہ کو جانے نہیں

نفس آسانی سے پھر مانے نہیں

دل اگر اللہ سے مانوس ہو

پھر ملیں اس نفس کو بہانے نہیں

 

جان لو یہ فقط اشعار نہیں

مرا دل عقل سے بیزار نہیں

ہاں مگر اس کا تابعدار نہیں

 

نفس کو عقل سے دبا لینا

کیسے ہو دل اگر بیدار نہیں

 

جذبِ خالص تو ایک نعمت ہے

کہ اس کا نفس پہ مدار نہیں

 

جان لے گا تو فرقِ عشق و ہوس

ہوس تجھ پر اگر سوار نہیں

 

نفس کو قابو مجاہدے سے کر

کیونکہ اس پر تو اعتبار نہیں

 

دل کو اذکار سے مانوس کرلے

لے کے پھرنا دلِ بیمار نہیں

دل کی اصلاح تو اس کی یاد میں ہے

ورنہ اس پر تو اختیار نہیں

 

یہ تو الہامِ ربانی ہے شبیر ؔ

جان لو یہ فقط اشعار نہیں

 

 

 

 

 

 

 

فکر کی فکر

تعلق سب سے کرنا ٹھیک تو منظور

فکر اس کی نہیں اللہ سے ہوں دور

خرابی ساری دل کی ہے یہ شبیر

مگر آنکھوں سے رہتی ہے یہ مستور

 

بس اس کا بن جانا

دل خون کے آنسو روئے گا

جب اپنا مقام تو کھوئے گا

 

تجھ پر غیرت خدا نے کی 179

کیا اس پر بھی تو سوئے گا

 

تو اس کو وہاں پر کاٹے گا

جو چیز یہاں پر بوئے گا

 

واں خون کے آنسو نہ دھوئیں

یاں آنسو سے جو دھوئے گا

 

بس اس کا تو بن جانا شبیر ؔ

پھر دیکھ لینا جو ہووے گا

 

 

دیوانہ یا فرزانہ

دلِ عاشق کو کہیں لوگ اگر دیوانہ

کچھ نہیں تو ہی اگر سمجھے اسے فرزانہ

 

گھومتے شمع کے گرد ہیں اور جل جاتے ہیں

کچھ نہیں تو ہی اگر سمجھے اپنا پروانہ

 

نالے آتے تو زباں پر ہیں مگرشکوہ نہیں

عذر اپنا ہو قبول نالے ہیں یہ مستانہ

 

خود کو آسان نہیں ہے یہ مٹانا لیکن

ہے یہ مٹ جانا کہاں، ہے یہ باقی بن جانا

 

جو خواہشیں تھیں مری دل کی ہوگیٔں رخصت

یہ خود کا چھوڑنا ہے یا یہ اس کا ہے پانا

 

دلِ بیدار مجھے دے، قلبِ غافل سے بچا

شبیرؔ تیرا ہے تیرے ہی طرف ہے آنا

کہ اس کا دل ہے ٹھکانہ جس کا

گناہ سے بچنا گناہ نہ کرنا اگر یہ ہووے تو توبہ کرنا

پسند رب کو ہے تیر ی توبہ بگڑ گئے جب تو پھر سدھرنا

 

بڑائی جتنی بڑی کر یں ہم ، بڑا ہے اس سے وہ یاد رکھنا

بڑے بنو نہ ، بڑا وہی ہے ، بڑا بس اس کو ہی ت م سمجھنا

 

کرم تو اس کا عظیم تر ہےت م جھولی اپنی بھی کھولے رکھنا

نہ سمجھو خود کو تو مستحق ہاں کہ ایسی جرا٫ت سے بھی ہے ڈرنا

 

وہ عاجزوں پہ ہےمہرباں جب تو عاجزی کیوں کرو نہ حاصل

کہ ماننے کا ارادہ لے کے تو مانگتے مانگتے ہے آگے بڑھنا

 

اسی نے محبوب کو اپنے محبوب طریقے خود ہی بتادیئے ہیں

انہی طریقوں پہ چلتے جانا گراس کا محبوب ہے تجھ کو بننا

 

ہے اس کا محبوب ہمارا محبوب طریقے محبوب کے کیوں نہ محبوب

اے کاش سمجھیں کہ ایسا کیوں ہےہمارا دشمن کے پیچھے چلنا

ہمارے نفسوں کی خواہشیں بھی کشش ہیں رکھتی بہت ہی زیادہ

نہ ہوں جو جائز ، مجاہدے سے انہیں ہمیشہ دبا کے رکھنا

 

ہمارا نفس ہے ہماری گاڑی تو دل کو اس پہ سوارکرلے

کہ ایسے سائق 1 80 کو نفس کے واسطے بھی چاہیے ہے تو کچھ سنورنا

 

سنورنا یہ ہے سمجھ وہ جائے کہ میرا محبوب اصل میں ہے کون

میں کس کو مانوں میں کس کو چھوڑوں مجھے ہے کس سے و کیسے بچنا

 

ملے جو رہبر طریق طے ہو طریق میں پھر آ سا نیا ں ہوں

تو دل بھی رستہ عجیب پائے کہ مشکلوں سے ہے یوں نکلنا

 

یہ برکتوں کے ہی سلسلے 1 81 ہیں انہی پہ تائید ہے اس کی ملتی

رہ ِ نبی (ﷺ) پہ ہے دل سے چلنا کبھی نہ تم کو ہے اس سے ہٹنا

 

یہ دل کی باتیں ہیں ان کو سمجھو قلم ہے شبیر ؔ کا اب رواں جب

کہ اس کا دل ہے ٹھکانہ جس کا 1 82 وہ چاہے اس کا ہی اس میں بسنا

عشق کی آگ

عشق کی آگ چپکے چپکے جلے

اور دل خدا سے چپکے چپکے ملے

 

تیرتی رہتی نمی آنکھ میں ہو

پر ادب سے کوئی آنسو نہ گرے

 

شمع کی طرح پگھلنا تو ہو

پر ادب سے قدم اپنا نہ ہلے

 

دل میں اک آگ عشق کی برپا ہو

پر نظر آئیں نہ اس کے شعلے

 

آنکھیں دید کو ترستی رہیں

منہ سے چپ ہو اور کوئی اف نہ کرے

 

عشق کی آگ لگائے تو لگے

لگے شبیر ؔ تو پھر وہ نہ بجھے

دنیا کی محبت

دل سے دنیا اگر نکل جائے

پھر خدا خود ہی ہم کو مل جائے

 

توبہ کرنے سے کیا ہوتا ہے

معصیت کا پہاڑ ہل جائے

 

جہد ہے نفس کا علاج مگر

ذکر سے دل کا باغ کِھل جائے 183

 

وہ تو دینے پہ تلا ہے لیکن

اس کے در پہ کوئی سائل جائے 184

 

دل اگر بن گیا شبیر ؔ تیرا

وہاں جانا جہاں پہ دل جائے 185

 

 

طلبِ محبت

نہ چاہوں میں اب عاجلہ 186 کی محبت

میں مانگوں خدا سے خدا کی محبت

 

اور ان کی بھی اس سے محبت جو رکھیں

وہ سب انبیاء اولیاء کی محبت

 

ذرائع محبت کے ہوں مجھ کو محبوب

ملے مسجد و درسگاہ کی محبت

 

مشائخ کی صحبت میسر رہے

ملے مجھ کو ہر خانقاہ کی محبت

 

خطاو ٔ ں کی جڑ حب ِّ دنیا ہے شبیر ؔ

یہ مال کی یا جاہ 187 کی یا باہ 188 کی محبت

 

 

پوٹلی ہی جل گئی

اک چوٹ دل پہ لگ گئی جو ضربِ دل بنی

تیری خوشی ہے جس میں وہی میری بھی خوشی

 

میں حالِ دل بیان کن الفاظ میں کروں

تیری نظر پڑی تو زندگی بدل گئی

 

اک پیار کی نظر نے مجھے کاٹ ہی دیا

جس کے لیے گزرگیا ہر رہگزر سےہی

 

کہہ دوں وفورِ عشق سے عاشق ترا میں ہوں

پر ہوش سے دیکھوں نظر آؤں کہیں نہیں

 

اس نور کی بارش نے مجھے کردیا بے کل

ایک چوٹ جب لگی ہے تودل پہ چل ی چھری

 

اب فکر ہے کوئی نہ کوئی غم مجھے شبیر ؔ

دنیا کی خواہشات کی پوٹلی ہی جل گئی

جُہد کن در بیخودی خود را بیاب

مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا

کرفنااپنی جو ہے یہ آب و تاب

 

نفس کی آلائشوں کو دور کر

چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب

 

آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں

دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب

 

کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں

اور نہ سنوائے غلط نفس ِ خراب

 

خود سے تو گم ہو صرف وہ یاد ہو

پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب

 

تو سمجھ جائے کہ تو کچھ بھی نہیں

اور سب کچھ اس کا ہی ہے لاجواب

 

اپنے خود کو عشق میں معدوم کر

تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب

 

جس میں تو اس کا ہی ہے اور وہ ترا

ہر وقت سنتا ہو تو اس کا خطاب

 

تو کرے وہ جو اسے منظور ہو

وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب

 

خود کو پہچانو شبیر ؔ کہ کیا ہو تم

ختم شد واللہ اعلم بالصواب

ہم کو دعواۓ محبت ہے

ہم کو دعوائے محبت ہے مگر کیا ہے یہ

نام ویسے ہی بس زبان پر چلا ہے یہ

 

پوری ہوں خواہشیں اپنی تو محبت ہو ہمیں

اور ایسا نہ ہو کہتے ہیں جانے کیا ہے یہ

 

ناامیدی کے ہوں الفاظ زباں پر جاری

دل میں شکوہ بھی ہوہر ایک سمجھتا ہے یہ

 

عشق کا نور تو شعلوں کو بھی بجھا ہی دے

بیٹا قرباں ہو عجب یہ کہ باپ چاہے یہ

 

کیسے معشوق کی چاہت کو نہ چاہے عاشق

ہے اگر ایسا، محض عشق کا دعویٰ ہے یہ

 

ہم تو بس اس کی اطاعت بڑا مقصد جانیں

بڑوں سے ہم نے شبیرؔ ایسا ہی سیکھا ہے یہ

خدا کے لئے ہو

یہ ہنسنا یہ رونا خدا کے لئے ہو

یہ جاگنا یہ سونا خدا کے لئے ہو

 

خدا کی مدد اور تائید ہووے

اگر کام ہونا خدا کے لئے ہو

 

یہ پانا ہے بالکل یہ پانا ہے بالکل

اگر خود کو کھونا خدا کے لئے ہو 189

 

دھلے حبِ دنیا سے دل میرا ہو صاف

مگر اس کا دھونا خدا کے لئے ہو 190

 

جو بوئے یہاں پر وہاں کاٹے شبیر ؔ

مگر اس کا بونا خدا کے لئے ہو 191

 

 

تو مرے د ل میں رہے

قلب میرا ہو سلیم ایسا بنانا مجھ کو

جن کے تو ساتھ ہے ایسوں سے ملانا مجھ کو

 

تو مرے دل میں رہے میں تری نظروں میں رہوں

اپنی نظروں س ے ال ٰ ہی نہ گرانا مجھ کو

 

وسعت قلبی کا شیشہ مجھے عطا کرنا

تنگ نظری سے ہمیشہ تو بچانا مجھ کو

 

نفس میرا ہو شریعت پہ مطمئن یا رب

اور تو اپنا بنادینا دیوانہ مجھ کو

 

آمد شعر ہے اور کیف ہے ، ہے فضل ترا

اپنے آدابِ محبت بھی سکھانا مجھ کو

 

ترا بندہ ہوں میں خاکی جو ہے شبیر ؔ موسوم

رہِ شبیر ؔ حقیقت میں دکھانا مجھ کو

مجرم سے تو محرم بنے

سر حق کی معرفت میں ذرا تو جھکاکے دیکھ

جو تُو ہے ترے دل میں اسے تُو مٹا کے دیکھ 192

 

کتنے فضول کام ہمارے نظر آئیں

تھوڑا سا شہرتوں سے تصور ہٹا کے دیکھ 193

 

مسئلے جو تیرےحل نہ ہوئے مال سے اگر

کچھ اس سے تو نادار کو بھی توکھلا کے دیکھ 194

 

کب تک تو بے مہار لذتوں میں رہے گا

ان کو تو شریعت کے دائرے میں لا کے دیکھ 195

 

اخلاق حمیدہ سے مسلح تو خود کو کر

اخلاق ذمیمہ کے رذائل دبا کے دیکھ

 

یہ کام ہے ضروری مگر آسان نہیں ہے

ہاں شیخ جو کامل ہو اس کے پاس آکے دیکھ

 

دنیا کی چیزیں آئیںنظر ساری تجھ کو ہیچ

اللہ کا تصور ذرا دل میں سجا کے دیکھ

 

ہر چیز کے ڈر نے تجھے بزدل بنا دیا

ناراضئِ خدا سے تو دل کو ڈرا کے دیکھ

 

کتنوں کو منانے میں تو ناکام ہوا ہے

توبہ سے ذات بخت 196 کو ذرا تو منا کے دیکھ

 

دل عشق سے ہو لبریز عقل اس کی ہو خادم

اور قیِد شریعت میں بھی دونوں کولاکے دیکھ

مجرم سے تو محرم 197 بنے اک آن میں شبیر ؔ

دنیا کو چھوڑ اس کو تو دل میں سما کے دیکھ

 

 

w

ہم کو بس تیری محبت کا سہارا کافی

کیا وہ انساں ہے جو مشغول عبادت پہ نہ ہو

شکر نعمت پہ نہ ہو صبر مصیبت پہ نہ ہو

 

عافیت مانگتے یا رب ہیں کہ کمزور ہیں ہم

پر کہیں داغ 198 خدایا یہ محبت پہ نہ ہو

 

مجھ کو بس تیری محبت کا سہارا کافی

دل مرا تجھ پہ رہے 199 مال پہ لذت پہ نہ ہو

 

ہم تو دیوانے ہیں تیرے اور یہی چاہتے ہیں

دل کا گوشہ کوئی مرکوز وجاہت پہ نہ ہو

 

یہ جہاں تیرا ہے ہم تیرے ہیں سب تیرا ہے

دل کہیں میرا یہ سرشار ملکیت پہ نہ ہو

 

تن آسانی پہ میرا نفس نہ مائل ہو کبھی

نفس شرمندہ کبھی بھی میرا مشقت پہ نہ ہو

 

قبول میرے خدایا مرے ہوں قلب و نظر

ذہن تاریک نہ ہو قلب بھی ظلمت پہ نہ ہو

 

سامنے تیرے رہوں دل سے ترا بندہ بنوں

دل ہو احسان پہ کسی اور کیفیت پہ نہ ہو

 

دلِ شبیر ؔ کو اپنی یاد سے کرلے روشن

تو اسے یاد رہے اِس سے یہ غفلت پہ نہ ہو

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کاش میں ایسا رہوں اس کے لئے زندہ رہوں

 

کاش میں ایسا رہوں اس کے لئے زندہ رہوں

موت ہو اس کے لئے اس پر بھی شرمندہ رہوں

 

دل مرا اس کے لئے ہو اور دماغ اس کے لئے

ہو زبان پر ذکر اس کا اس کا نام لیتا رہوں

 

دوستی اس کے لئے ہو دشمنی اس کے لئے

مجھ سے چاہے جیسے کرنا اس طرح کرتا رہوں

 

بولنا اس کے لئے ہو چپ رہوں اس کے لئے

خوش رہوں اس کے لئے اس کے لئے روتا رہوں

 

دل میں بس اک وہ سمائے دوسرا کوئی نہ ہو

دل سے الا اللہ کا نعرہ میں لگاتا رہوں

 

اس سے مانگوں اس سے لوں بس اس کے در پر سر رہے

اس کے در پرسر کو ہر دم بار بار رکھتا ر ہوں

اب تو بس اس کی محبت کا ہی آسرا ہے شبیر ؔ

اس سے جو غافل کرے میں اس کو بھول جاتا رہوں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اللہ ہی اللہ

جب کوئی کام تم نے کرنا ہو

اس میں اس سے ہمیشہ ڈرنا ہو

بس شریعت کےمطابق ہو کام

اور صرف اس کا ہی دم بھرنا ہو

 

تجھ کو کیا معلوم؟

اشارہ جو “ھو” کا ہوا ہے تجھ کو کیا معلوم

دل مرا کس سے آشنا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

جھک کیوں جاتی ہے گردن مری محفل میں اب

کون اس وقت بلاتا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

کیسے غافل رہوں اس سے کہ ہر طرف ہے وہی

اپنی آغوش میں چھپاتا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

ہر وقت اس کی نظر اپنی نظر پر محسوس

عرش سے کیا برس رہا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

بھلا دیا ہےجس نے مجھ سے ہر اک کام میرا

لگا ہوں جس میں کام اس کا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

نہیں پیا ہے تو نےعشق کا جب جام ابھی

جو اس نے مجھ کو پلایا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

رات دعاو ٔ ں کے رستے میری ملاقات ان سے

ملن کا وقت وہ کیسا ہے تجھ کا کیا معلوم؟

 

کہا جب اس نے کہ تم میرے ہو تو ہاں اس وقت

دل کا کیا حال پھر ہوتا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

بہا بہا کے جوآنسو میں دل کو دھو ڈالوں

پھر مرے دل میں کون آتا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

کیسے گم سم خموش میں نہ رہوں شبیر ؔ کہ

دھیا ن حاصل کس کا ہوا ہے تجھ کو کیا معلوم؟

 

 

دل سے دیکھا اسے

دل میں میں یاد اس کو کرتا رہوں

اور ہر دم اس کا دم بھرتا رہوں

 

ذرہ ذرہ مرا اس کا جو ہے

دے کے اس کو اس پہ میں ڈرتا رہوں

 

مٹتے مٹتے مرا مٹنا بھی مٹے

اس طرح روز میں سنورتا رہوں

 

دل پہ اس کی ہو نظر پیار کی اک

ذکر سے اس طرح نکھرتا رہوں

 

دور اغیار مرے دل سے اب

سامنے باغ ہے میں چرتا رہوں

 

دل سے دیکھا اسے ہےجب سے شبیر ؔ

اس پہ ہر روز اب تو مرتا رہوں

کیا حد ہے تباہی کی اسے چھوڑدیا گر

دنیا کی محبت کا سرا کیا یہاں ملے

پھر حبِ ال ٰ ہی کی انتہاء کہاں ملے

 

جب اس کی نظر سے کوئی کیسے ہی گر گیا

اس کو کیا ملے اگر سارا جہاں ملے

 

جو اس کے پاس بھیج دیا وہ ہی ہے محفوظ

کتنا یہاں سے بڑھ کے وہ سارا وہاں ملے

 

کیا حد ہے تباہی کی اسے چھوڑدیا گر

کتنی ہی اس کو یاں پہ دعوتِ بتاں ملے 200

 

دنیا کی لذتوں سے وہ لذات ہوں محسوس

اور ان کی پھر طلب ہوتو سرِ نہاں ملے

 

اس زیست کے اک کام کا طالب بنوں شبیر ؔ

بس اس کا ہی ہونے کا جو جذبہ جواں ملے

اللہ اللہ کریں

صراط ِ مستقیم پر اب ہم چلا کریں

دل سے بھی اور زبان سے اللہ اللہ کریں

 

ہیں قیدِ شریعت میں کان دونوں اپنےبند

جائز اگر نہ ہو تو اسے کیوں سنا کریں

 

بیشک ہماری آنکھیں بھی ہیں اس کی امانت

غیر محرم دیکھنے سے نہ مجرم بنا کریں

 

اک گوشت کا لوتھڑا ہے زباں میرے منہ میں بند

جائز نہ ہوں جو بول اسے کیوں ادا کریں

 

اس سر میں جو دماغ ہے کنٹرول پہ مامور

تو اس کا استعمال غلط کیوں کیا کریں

 

یہ دل بھی امانت ہے مرے رب کی جب شبیر ؔ

تو اس کے علاوہ نہ کسی کو دیا کریں

نہ ہوں منزلوں کی تلاش میں

نہ ہوں منزلوں کی تلاش میں نہ ہی درجوں کی ہے طلب مجھے 201

بس یہی تو دل کی ہے آرزو کہ اب ا پنا بنا ہی لے رب مجھے

 

یہ دیوانگی ہی کی تو بات ہے کہ حجاب اب نہ ہو درمیاں 202

مرا مانگنا ا ِ س کا عجیب تر مگر کیا ہوا ہے یہ اب مجھے 203

 

میری خلوت و جلوت بھی اس ک ی ہو مرا دل و دماغ بھی اس کا ہو

میں دیوانہ ہوں ہاں دیوانہ ہوں کہ یں یہ کہ یں لوگ سب مجھے 204

 

جو سبب ہے اس کا ہے حکم 205 ہاں میں کروں گا پورا ، ضروری ہے

م یرے دل کی نگاہ سے وہ دور ہو کبھی کھینچے یوں نہ سبب مجھے 206

 

نہ ہو لمحہ بھر کی بھی غفلت اب مجھے کیا پتہ کہ ہوجائے کیا 207

کہیں بے خبر رہوں میں یوں اور کرم سے دیکھے وہ کب مجھے 208

 

مرے سجدے عبادتیں اس کا حق 209 ، مرا حق تو اس پہ کوئی نہیں

یہ کرم ہے اس ک ا کرے قبول سنو خود سے کھینچے وہ جب مجھے 210

م جھ پہ فضل رب کا ہے اے شبیر ؔ م جھے اہل ِ حق سے ملا دیا 211

اب خدا ک ے کرم سے نصیب ہو ان ہی اہل ِ حق کا ادب مجھے 212

 

 

 

 

 

اغیار سے دوستی

اغیار کی اب دوستی سے ہے مری توبہ

کہ ان کی بے وفائی نے ہے مجھ پہ یہ کھولا

دنیا ہو جس کے دل میں تجھے دل میں کیا سمجھے

جو ہے غلام نفس کا کرے کیسے وہ وفا

 

 

اللہ والوں کو دیکھ لینا

اللہ کے ہونے کے لئے اللہ والوں کو دیکھ لینا 213

اللہ کو دیکھ سکتے نہیں اس کے بندوں کو دیکھ لینا 214

 

سورج کی شعائیں رستے میں غائب ہوتی ہیں بالکل تو

جس پر پڑیں وہ روشن ہوں تب ان شعاو ٔ ں کو دیکھ لینا 215

 

تو روشن دل سے روشن ہو یہ روشنی کہاں سے آئی ہے 216

روشنی ک ے سفر کو دیکھ لینا 217 روشن راستوں کو دیکھ لینا 218

 

دل پر دنیا کی چ ھ اپ ہو تو دنیا ہی نظر آئے فقط 2 19

گر دل کو بنانا چاہتے ہو ان کے دلوں کو دیکھ لینا 2 20

 

جو مٹ مٹ کے باقی بنے رحمت کے سائے میں ہیں وہ

تم بھی ذرا طالب بنو اور ان سایوں کو دیکھ لینا 2 21

 

تجھ سے لینا کیا چاہیں گے تو ان کو کیا دے سکتا ہے؟ 2 22

اللہ کے طالب ہیں وہ فقط ان کے کاموں کو دیکھ لینا 2 23

بات ان کی کان میں رس گھولے آنکھیں دید سے بھی ٹھنڈی ہوں

آنکھوں سے لٹائے جائیں 2 24 شبیر ؔ تو ان جاموں کو دیکھ لینا

 

 

 

 

 

 

اہلِ دل سے ملنا

جو ظاہر میں خرابی ہو تو لوگ وہ درست کردیں گے

اگر دل میں خرابی ہے تو نفس اور سست کردیں گے

تو اہلِ دل سے ملنا اس لئے ہوتا ضروری ہے

کہ دل کے ٹھیک کرنے کے لئے وہ چست کردیں گے

 

اک طرف ہی جائے نظر

کتنی اپنی کوئی چھپائے نظر 225

وہ ہر صو رت میں اس کی پائے نظر 226

 

سر کی آنکھوں سے نظر آئے نہیں 227

دل کی آنکھوں سے مگر آئے نظر 228

 

جو نظر اس کے ساتھ ہو نامانوس

پڑے جہاںوہ غضب ڈھائے نظر 229

 

جو مجھے اس سے آشنا کردے

کوئی مجھ کو بھی وہ بتائے نظر 230

 

میں تو جو بھی کروں شبیر ؔ یہاں

بس مری اک طرف ہی جائے نظر 231

 

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے 232 مرا اپنا رنگ نہیں ہے

ترا رنگ اپنا بھی رنگ ہو مرے دل کی آرزو یہی ہے

 

ترا رنگ سب پہ ہے غالب سارے رنگ جذب ہوں اس میں

گو نظر آۓ سیاہ یہ ہے یہی جو روشنی ہے 233

 

مرا رنگ فانی مٹے گا ترا رنگ اس پہ چڑھے گا 234

یہ فنا بقا کا ہے رستہ یہی بات میں نے سنی ہے 235

 

میں ہوں خاک خاک کا میں ہوں مگر دیکھ بندہ ہوں کس کا 236

میں خطا کا پتلا یقینا ً پر امید اس سے توبھی ہے

 

مری لاج رکھ لے خدایا کروں سلسلہ نہ میں بدنام

ترے عفو سے ہے امید اب مجھ میں گو بہت ہی کمی ہے

 

میں شبیر ؔ حقیر کہوں کیا میں اٹھاو ٔ ں آنکھ تو کیسے

مرے لفظ اچھے تو ہوں گے مگر حالت کتنی گری ہے

کیا ہے؟

تیرا تکلیف پہ یہ شور اور غوغا کیا ہے

ارے ناداں محبت کا تقا ضا کیا ہے

 

تو کہ دنیا کے تقاضوں سے خبردار ہے خوب یہ بھی تو جان لے کہ عشق کی دنیا کیا ہے


تو جب اس کا ہے تو تیری تو کوی َ ی چیز نہیں
سب کچھ اس کا جو ہے پھر سوچ کہ ترا کیا ہے


دل تو بادشاہ ہے یہ بادشاہ بھی جب اس کو ہے دیا
پھر تیرے پاس ذرا دیکھ کہ رہتا کیا ہے


یہ تکا لیف تو ہر ایک کو پیش آتی ہیں
اس پہ تو چیخ لے گر، چیخ سے ہوتا کیا ہے


قدم قدم پہ نعمتوں کو کرتے ہو تم وصول
ان نعمتوں پہ کبھی شکر بھی کیا کیا ہے؟

 

عقل سے کام لے اور نفس کو دبانا ہے شبیر ؔ
پھر تو جان لے گا کہ اچھا کیا برا کیا ہے

ایک انتظار

مرا مالک جب بلاۓ گا مجھے رکھا سامان بھی میں نے ہے تیار

چھت ہے کلمے کی مرے سر پہ ہمیش اور زبان پہ میں رکھوں استغفار

 

بڑا غفور ہے رحیم ہے وہ اور وہ سبحان بھی ہے عظیم بھی ہے

تو ہے بے رنگ رنگ میں اس کےرنگ جا وہ کرے کیا پھر تجھے باغ و بہار

 

ارے نادان گلاب کیسے کھلیں جب مناسب نہ ہو ماحول اس کا

دل گناہوں کی طرف مائل ہو کیسے آئے اس پہ رحمت کی پھوار

 

ہاں مگر چاہے تو کہ اس کا بنے گندگی سے تجھے مڑنا ہوگا

رک جا، کر عزم پھر نہ کرنے کا، دل گزشتہ پہ ہو بھرپور شرمسار

 

نظر اٹھا کے دیکھوں میں تھوڑا چار سو دنیا کے نقشے موجود

ہاں مگر دل میں اگر جھانک سکوں وہاں موجود ہے تصویر ِِ یار

 

بے وفائی اور محبت دل میں کیسے دونوں جمع ہوسکتے ہیں

عشق کا بھی ہے اک اٹل قانون کہ یہ ہوتا ہے بس صرف اک بار

اب سنو دل میرا کہتا ہے کیا؟ اس کی آغوش میں خاموش رہوں

اور چھپ جاو ٔ ں میں اغیار سے اب شاید نہ ہوسکے مزید انتظار

 

سر مرا سجدے میں رہے صبح و شام اور سامنے آنکھوں کے قرآن رہے

کعبہ نظروں میں، دل میں یار رہے، کہیں یہی شبیرؔکے اشعار

 

 

 

 

 

 

موت کی یاد اور ذکر

موت کی یاد جگائے تجھ کو

ذکر غفلت سے بچائے تجھ کو

راہِ سنت سے تو محبوب بنے

فضل جنت میں پہنچائے تجھ کو

میں دیوانہ ہوں

میں دیوانہ ہوں دیوانہ میں دیوانہ ہوں دیوانہ

کروں گا ذکر ہردم یہ مرا نعرہ ہے مستانہ

 

میں جل جاو ٔ ں بکھر جاو ٔ ں گریبان چاک میں کردوں

میں خود کو خاک کردوں اور مجھے روکے کوئی نہ نہ

 

میں پگھلوں عشق میں اس کے، مری آنکھوں میں بس وہ ہو

میں تیرا ہوں تو میرا ہے یہی اس کا ہو فرمانا

 

ریا کاری کا لیبل بھی قبول میں شوق سے کرلوں

یہ کیا ہے عشق میں مجھ کو قبول ہر بات ہر طعنہ

 

جلے جو عشق میں اس کو ملے جسم جدید ہر دم 237

یہی تھا گفت ِ عشق کاکی کا، تھا جس میں گزرجانا

 

کبھی وہ سامنے آۓ کبھی پردوں میں چھپ جاۓ

یہ ہے اک امتحان ِ عشق اس میں نہ پھسل جانا

 

کمال ہے حسنِ فانی کب مقابل اس کے ٹھہرے یاں

جو اس میں مار کھائے اس کا کیا پھر ذوقِ جانانہ

 

ہوس میں عشق میں کیا فرق ہے شبیر ؔ گر پوچھو

یہاں خود غرضی، اس میں مٹنے میں ہے کچھ پانا

 

 

 

 

 

 

 

 

سنبھل کے

دلِ ناداں ذرا سنبھل کے عشق کے رستے پہ جانا سنبھل کے

ادب یہاں پہ ہے پہلی سیڑ ھی اس پہ توچڑھ کے آنا سنبھل کے

 

قدم قدم پہ ہیں چھپے رہزن کتنے کتنے نئے بہروپ بھرے

اپنی منزل کو طے تو کرنا ہے ان سے خود کو بچانا سنبھل کے

 

یہ عشق کی آگ ہے اس کو دیکھومگر اندر سے یہ گلزار سمجھو

اس سمندر کو خود میں بھرنا ہے خود کو اس سے جلانا سنبھل کے

 

یہاں پر وصلِ یار کے واسطے روئےتُو بار بار تُوروئے

یہ کوئی کھیل کی نہیں ہے بات عشق ہے اس کو پانا سنبھل کے

 

تو کہ جس راہ پہ گامزن ہے اب اس میں کانٹے ہیں وسوسوں کے بہت

زخمی زخمی ہیں گو قدم تیرے ان پہ مرہم لگانا سنبھل کے

 

طور بھی عشق کی آگ میں جل جائے کبھی معراج بھی ہوجائے نصیب

عشق لگے پر نظر یہ آئے نہیں سر نہ اوپر اٹھانا سنبھل کے

تیرا اس عشق میں جل جانے میں جانتا ہوں میں کہ تیرا ہے سکوں

تیرا جل جانا ہو منظور اسےجل کے خود کو دکھانا سنبھل کے

 

اب کہ منزل یہ تیری سیدھی ہےاب تو رکنے کا نام بھی تو نہ لے

در یار پر بھی جاکے رکنا نہیں خود کو اس کا بنا نا سنبھل کے

 

توہے شبیرؔ کا پر شبیرؔکی نہ مان، مان اس کی جسے دیا ہے تجھے

عشق میں ایسا ہی تو پھر ہوتا ہے یہی سب کو سکھانا سنبھل کے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دیدار کا عالم

اُف کیا خوب نظارہ ہوگا

سامنے محبوب ہمارا ہوگا

 

ہم تو مر مر کے جینا چاہیں گے

اذن جینے کا جو پایا ہوگا

 

وہ کیا مدہوشی کا عالم ہوگا

هُو کا عالم ہی جو چھایا ہوگا

 

وقت گزرنے کا تو احساس ختم

چہرہ اپنا جو دکھایا ہوگا

 

سمجھے ہم کیا پھر اس عالم کو شبیر ؔ

سب کیسے ہوں گے اور کیا ہوگا

 

شوقِ جنوں

شو ق دل میں مرے مچلتا ہےکہ حق بندگی ادا میں کروں

ہاتھ میں کیا ہے مرے کیا ہوں میں سوچتا رہتا ہوں کہ کیا میں کروں

 

دل سے آواز ایک آئی ہے یہ مرا نفس جس کا باغی ہے

اسے پابندِ سلاسل میں کروں جو کہے وہ اس پہ چلا میں کروں

 

جان و مال وقت مجھے دے کر اس نے کام ان کا مجھے بتا یا ہے

جن سے بچنے کو کہا ہے ان کو جان لوں اور ان سے بچا میں کروں

 

مجھے اپنا بنا کے زور دے کر کہا کہ غیر کا کبھی بھی نہ بنو

اس کا غیر جو بھی ہے کہیں بھی ہے کبھی اس سے نہ اب ملا میں کروں

 

مجھے شوقِ جنوں کہے اپنا ہر وقت یاد رہے وہ ہی شبیر ؔ

پھر اس کی یاد میں مست ہوہو کر جو کہوں اس کو پھر لکھا میں کروں

 

جذب

جذب کچھ اس طرح سے آتا ہے

وہ کرشمے نئے دکھاتا ہے

 

وہ وہی چاہے جو کہ چاہے وہ

یعنی اس کا ہی وہ بن جاتا ہے

 

دل پھر اس کا بنے عرشِ اصغر

جو وہ چاہے اس سے کراتا ہے

 

دنیا مقصود نہ رہے اس کی

وہ آخرت کے گن ہی گاتا ہے

 

وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ شبیر ؔ

کا جو مفہوم ہے یہ سکھاتا ہے

 

اندازِ محبت

کبھی فردوس کی جانب خود کو اٹھتا دیکھا

زمیں سے نیچے کبھی اپنا تماشا دیکھا

 

عجب اندازِ محبت مجھے اس کا ہے نصیب

دیکھتے دیکھتے مٹی سے بنتے ہیرا دیکھا

 

کبھی خیالات کے صحرا میں اکیلے بھٹکوں

اور کبھی چاہنےوالوں کا بھی میلہ دیکھا

 

میں اندھا نور کی تلاش میں چل پڑا تو پھر

جو خود پہ دیکھا اس کے نور کا جلوہ دیکھا

 

بے بسی سے کبھی میں یوں جب اشکبار ہوا

بولے کیوں مجھ کو نہیں آپ نے اپنا دیکھا

 

جب کبھی اس کی چاہتوں پہ مجھے ناز ہوا

تو معا ً لطف پہ اس کے خود کو مٹتا دیکھا 238

 

جو رضا میری ہے وہ اس کی رضا میں ہوئی گم

پھر ہر اک کام مطابق اپنی رضا کا دیکھا

 

یہی تو عشق کی دنیا ہے بھلادے سب شبیرؔ

میں نے دیکھا مگر کچھ اس کے نہ سوا دیکھا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سفرِ عشق

سکوں ظاہر پہ میرے گو ہے طاری

پر اندر اضطراب ہے دل پہ جاری

 

زباں خاموش میری چپ ہوں لیکن

کوئی جانے نہیں حالت ہماری

 

دبایا مجھ کو ہے شہواتِ نفس نے

ہے جنگ جاری مگر دشمن ہے بھاری

 

وساوس زور پہ شیطان کے ہیں

چلائی میں نے ہے لاحول کی آری

 

قدم میرے پھسل جائیں کہیں نہ

قیامت میں نہ ہووے شرمساری

 

وقت کوتاہ ہے کرلے فکر اپنی

تو نوری بن کہیں نہ ہو تو ناری

 

دکھایا راستہ محسن نے عشق کا

بنوں اللہ کاہے کوشش یہ ساری

 

سفر ہے عشق کا اب شبیر ؔ جاری

کہ جس میں جان مری اس پر ہو واری

 

 

 

 

 

 

 

 

تعلیم و تربیت

علم کا نور بھی ضروری ہو

بلا تربیت بات ادھوری ہو

دل کو اللہ کی یاد سے کر روشن

نفس کی اصلاح کی بات پوری ہو

کیفیات

ہجر کی آگ میں سلگتا ہوں ترستا رہتا ہوں میں انتظار میں

یہ کوئی گپ نہیں حقیقت ہے ایسا ہی ہوتا رہتا ہے پیار میں

 

میں کیسے چپ رہوں خموش رہوں دل مرا پھٹ نہ جائے اس غم سے

گو کہ معلوم ہے حقیقت اپنی کہ نہیں ہوں میں کسی بھی شمار میں

 

تجھ کو کیا ہےخبر اے دل میرے ترا محبوب کون ہےدیکھو

تجھ کو سنبھالوں میں کیسے اب کہ کچھ بھی نہیں ہے میرے اختیار میں

 

پیار میں جلنا تو کوئ ی بات نہیں کہ جلانا تو پیار کا حق ہے

مجھ کو ہے خوف کہ کروں نہ کبھی اپنے کپڑوں کو اس سے تار تار میں 239

 

پلایا ساقی نے مجھ کو اتنا چھلک نہ جائے پیمانہ میرا

چھپانا راز دوست کا ہے شبیر ؔ کہیں ناکام نہ ہوں اعتبار میں

یادوں کے دریچے

دل کی یادوں کی دریچوں کو کھٹکھٹاؤں میں

جو میں جانوں کچھ کو پی جاؤں کچھ بتاؤں میں

 

وہ مجھے یاد رکھے میں جب اس کو یاد کروں

اب ایسی پیار کی باتیں ذرا سناؤں میں

 

یاد ہے مجھ کو فخر اس نے کیا تھا ہم پر

اس لئے چھوڑ کے سب، اس کی طرف آؤں میں

 

میں کیا پیار کروں پیار تو کرتے ہیں وہ

میں تو گڑ بڑ کروں اس پر بھی نہ شرماؤں میں

 

وہ تو ظاہر ہے اس کا پیار بھی ظاہر باہر

کھول کے رکھ دیا سب کچھ، کیا چھپاؤں میں

 

مجھ سے جو پیار پہ دیکھا تو جل گیا دشمن

اب تو شبیر ؔ اس کو اور بھی جلاؤں میں

 

کیا سے کیا ہوگیا

کچھ کہتے کہتے رک میں گیا کچھ رکتے رکتے کہہ بھی دیا

آے ٔ جب میرے دل میں وہ تو اس میں فنا میں ہو بھی گیا

 

محبوب کی بات محبوب سے ہو آشکارا نہ ہو یہ غیروں پہ

بے صبری سے کچھ کہہ جو دیا تو اس پہ یہ پیغام ملا

 

وہ مجھ کو کرے ہے اشارا یہ میں دیکھتا رہوں بس اس کو ہی

جب دیکھا میں نے اس جانب تو روتے روتے ہنس پڑا 240

 

ہے کس کو خبر وہ چاہے مجھے ہاں چاہے مجھے بے حد بے حد

یہ اس کی ادا معلوم ہوئ ی تو اس کی جانب میں لپکا

 

اس نے کہا اب صبر کرو کہ وقت ملن اب دور نہیں

میں شرم کے مارے پگھل ہی گیا جو اس کا پیار ایسا دیکھا

 

ہر جانب میرے وہ ہی ہے تو وصل کی کیا اب بات کروں

جو غم بھی ملن کا ہے دیکھو وہ بھی تو ہے میٹھا میٹھا

 

وہ کیا تھی زباں شبیر ؔ جس میں وہ دل کی کتاب میں لکھتا ہے

میں دل کی آنکھ سے پڑھنے لگا تو اس سے غزل یہ لکھنے لگا

 

 

 

 

کیا کہنا

دل کی دنیا کی ہر اک بات کا ہے کیا کہنا

اپنے محبوب کے تصورمیں ہمیشہ رہنا

اس کی ہر پیار کی نظر پہ ہو قربان ہونا

اور اس کی یاد میں چپکے چپکے یہ آنسو بہنا

 

عشق آگ ہے

عشق اک آگ ہے جس دل میں جلے

دل میں معشوق ہو کوئی اور نہ رہے

 

اور اگر یوں نہیں تو عشق ہی نہیں

اس کو گو عشق کو ئی کتنا کہے

 

جب تلک عشق کسی دل میں نہ ہو

عشق کے حال کا یقین نہ کرے

 

یادِ معشوق میں عاشق رہے مست

چپکے چپکے بہیں آنسو اس کے

 

ہر وقت لب پہ ہو ذکر معشوق

اور اس کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرے

 

ایک ہی خوف دل پہ چھایا رہے

اس سے محبوب کبھی ناراض نہ رہے

 

نفس کی چاہتیں اس کے ہوں خلاف

تو وہ ان چاہتوں سے کیسے دبے

 

خوش قسمتی سے یہ خالق سے ہو گر

اس کو شبیر ؔ جی پھر کیا نہ ملے

 

 

 

 

 

نفس کی مثال

نفس اگر گاڑی ہے دل اس کا سوار

کردے ذکر اللہ سے اس کو پر بہار

جہد سے اس نفس کو مغلوب کر

تاکہ طاعت کے لئے ہو یہ تیار

خمار آلود کیفیت

ان کی نظروں کے جب حصار میں ہوں

میں اک عجیب سے خمار میں ہوں

 

کبھی ہے امتحان کبھی منزل

کبھی صحرا کبھی گلزار میں ہوں

 

کیا بنا خوب ہے اب ذوق حیات

ان کے در پر لگی قطار میں ہوں

 

یہ محبت ہے یا عقیدت ہے

کہ اک عالم اضطرار میں ہوں

 

سوچتے سوچتے میں اس کا پیار

اپنے مذکور کے اذکار میں ہوں

 

آپ کے قدموں میں ہو دیدار نصیب

میں اسی دن کے انتظار میں ہوں

کھوٹے سکوں کو جمع کرکے شبیر

فضل کا اس کے امیدوار میں ہوں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عبث جان دینا

تُو اگر اپنا دل اسے دے گا

تیرے کھوٹے سکوں کو لے لے گا

اور مگر دل میں اگر غیر آۓ

تو پھر عبث تُو جان دے دے گا

 

مِٹوں اس کے لیے

مٹایا پیار سے مجھے یوں کہ مٹوں اس کے لیے

اور مٹتے مٹتے لٹتے پٹتے بنوں اس کے لیے

 

موم ہوں موم کی طرح تو پگھل جاؤں میں

پھر وہ جلا ۓ تو میں کیوں نہ جلوں اس کے لیے

 

عشق آتش ہے لگے تو وہ بجھاۓ نہ بجھے

اسی آتش ہی میں میں کیوں نہ رہوں اس کے لیے

 

نظر کرم کی تھی اس کی جوپڑی مجھ پہ یوں

نور ہی نور ہوا نور ہی ہوں اس کے لیے

 

وفا یہی ہے کہ دیکھوں وہ ہے راضی کس پر

اور اس کو دیکھ کے سب کچھ میں کروں اس کے لیے

خون روتی ہیں یہ آنکھیں مری دیدار کے لیے

آنکھیں ہیں اس کے لیے کیوں نہ رؤوں اس کے لیے

 

چھلک چھلک جاۓ ساغر مری نظروں سے مگر

دل شبیرؔ چاہتا ہے اور بھروں اس کے لیے

 

 

 

معرکہ حق و باطل بسیف عشق

عشق آتش ہے جلاتا ہے یہ

دل میں معشوق ہی لاتا ہے یہ

حق کا ہو جب ہو کاٹ باطل کی

ایسے باطل سے بچاتا ہے یہ

نفس کی کارگزاری

مرا نفس اس سے مجھ کو تو کبھی ملنے نہیں دیتا

جو شیطاں ہے مجھے اللہ کا بننے نہیں دیتا

 

اگر میں بات اس کی مان لوں تو اور وہ مانگے

کسی اک بات پہ مجھ کو کبھی ٹکنے نہیں دیتا

 

مگر خوبی جو اس میں ہے کہ مانے جبر سے بھی یہ

ہلاؤ اس کو ہل جاٖۓ گو یوں ہلنے نہیں دیتا

 

طریقہ اس کی اصلاح کا ہے کہ مانو نہیں اس کا

بغیر اس کے کسی بھی طرح سنبھلنے نہیں دیتا

 

کوئی ہو رہنما اپنا جو گر اصلاح کا جانتا ہو

کراۓ اس سے جو ہم کو کبھی کرنے نہیں دیتا

 

دل اپنا بھی منور ہو کہ راستہ جان لے اپنا

کہ ہر گز حق کو گندہ دل کبھی پڑھنے نہیں دیتا

 

اگر ہو نفس گاڑی تو بنے دل اس کا ڈرائیور پھر

ہو ان میں نقص کسی میں آگے وہ بڑھنے نہیں دیتا

 

ذکر سے دل ہو ٹھیک اور نفس کو دینا جہد کی گولی

ہو رہبر ساتھ کہ داؤ شیطان کا وہ چلنے نہیں دیتا

 

چراگاہیں وہ جنت کی ملیں ہم کو چریں ان میں

مگر شیطان کبھی بھی مکر سے چرنے نہیں دیتا

 

جو شر ہے بڑھ رہا ہے خوب رکاؤٹ خیر کے واسطے ہے

خدا سے ہم کو وہ ظالم کبھی ڈرنے نہیں دیتا

 

کریمی کا مگر در ہے کھلا رب کا کریں توبہ

کہ مایوسی کا کوئی لفظ وہ سننے نہیں دیتا

 

شبیرؔ پھر فضل رب کا ہو تو مقصد پورا ہوجاۓ

کبھی شیطاں جو دال اپنی ہے وہ گلنے نہیں دیتا

سوزِدل

 

سوزِدل اپنا چھپانا تو ہے

کہ تعلق کو بچانا تو ہے

 

وہ مجھے جو کہے کروں گا وہی

اپنا دل اس سے ملانا تو ہے

 

غیر سے دل کو کیوں نہ خالی کروں

کہ وہیں اس کو بلانا تو ہے

 

میں کہاں اور کہاں وہ دلبر

خیر مگر اس کو منانا تو ہے

 

پیش کرنے کو پاس کچھ بھی نہیں

زخمی دل اس کو دکھانا تو ہے

 

دل میں ہے وہ ہی اور آنکھوں میں بھی

مرا دل اس کا نشانہ تو ہے

 

اپنے اشعار میں اسے دیکھوں شبیر

یہ بھی ملنے کا بہانا تو ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

آنکھوں کا سودا

دل کی آنکھوں سے گر محبوب اپنا دیکھ سکو

پھر ہر طرف سے کٹ کے اپنے ہی محبوب کا رہو

آج تو نفس کی چاہتوں سے ورے دیکھ اسے

تاکہ دیدار وہاں خوب ان آنکھوں سے کرو

 

فغانِ دل

 

کیا کہوں دل نے کیسے کیسے سلسلے دیکھے

عشق کے نام پہ ہوس کے نظارے دیکھے

 

خواہشیں نفس کی سوار دل پہ ہیں ہر وقت

ان کے جواز میں ہم نے لکھتے فتوے دیکھے

 

سوزِ دل ختم ہوا جاتا ہے دھیرے دھیرے

سوزشِ لب کے بہت ہم نے تماشے دیکھے 241

 

گند دنیا کی محبت تو روز روز بڑھے

مگر اصلاح کی فکروں کے جنازے دیکھے

 

مسجد و مدرسہ خانقاہ کا جو سنگم تھا شبی ؔ ر

اپنوں کے ہاتھو ں سے اس کے ہوتے ٹکڑے دیکھے 242

 

تقابل

کیا عشقِ لیلیٰ زیادہ ہو اور عشق مولا کم رہے

فارمولا ہو جس کایہ اس کے عقل پہ ماتم رہے

 

یہ دنیا جو چند روزہ ہے اس پر مر مٹنا کیسا ہے

آخر کی طلب جو اصلی ہے دل میں وہ کالعدم رہے

 

دنیا کو حقیقت سمجھا ہے اور جنت کو اک افسانہ

اب دل پر کچھ ہم رحم کریں کب تک یہ ظلم و ستم رہے

 

لوگوں میں نمازی اور اندر دنیا کی محبت خوب بھری

ظاہر میں سجدے میں ہیں مگر جو دل ہے اس میں صنم رہے

 

آخر کی دنیا باقی ہے اور خیر بھی ہے رب کہتا ہے

جس میں عقل کی رتی بھی ہو اس پر ہی محکم رہے

 

شیطان اور نفس کے ہاتھوں میں کب تک کھیلوں گا میں شبی ؔ ر

اب اٹھ،کچھ کرلے کب تلک دل میں صرف بس غم رہے

 

 

ایک آرزو

کاش دل میں جو ہے وہ سب قلم پہ آجاۓ

دلِ مجذوب جذب کا راستہ دکھا جاۓ

 

اپنے محبوب کی ایک ایک ادا جانوں خوب

غیر کی ساری ادائیں یہ علم کھا جاۓ

 

دلِ بیدار کی آنکھوں سے اسے دیکھوگے تو

سب سمجھ آۓ اگریہ کوئی سمجھا جاۓ

 

ایک خواہشات کی محفل اک ذاکرین کی ہے

باہمی دست و گریبان اس کو پاجاۓ

 

دل عاشق کو اتارا ہے اکھاڑے میں یہاں

کاش عشق کا شعلہ نفس کے زور کو جلا جاۓ

 

نفس کو باندھ یہ باندھنے میں بھلا رہتا ہے

عشق کا ہار مگر دل کو تو پہنا جاۓ

ہر ادا اپنی تو سرشار ِسنت کرلے شبیر

ہر ادا حسنِ ازل کو پھر تری بھا جاۓ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نفس کا مقابلہ

ارادہ تیرا اس کے ہونے کا، ہوا تو دے دیا سہارا تجھے

چلنا اس کی طرف ہوا آسان اور یوں چلانے لگا پیارا تجھے

اب تو سنبھل مقابلے کا ہے وقت پیٹھ دکھا نا نہیں ہے نفس کو سن

جو کہ مطلوبِ زیست ہے اس کے لیے اس اکھاڑے میں ہے اتارا تجھے

دانا بصورتِ دیوانہ

وہ دانا ہے اصل میں جو ترا دیوانہ بن جاۓ

لٹاۓ چشم سے اور اس کا دل میخانہ بن جاۓ

 

وہ خوشبو یار کی محفل میں پھیلاتا رہے ایسا

کہ جس سے مست ہو کر کوئی بھی مستانہ بن جاۓ

 

دل اس کا ہو کمان اور چشم اس کے تیر پھینکے یوں

کہ جو دیکھے اسے اس تیر کا نشانہ بن جاۓ

 

جدارِعشق کے اس پار ہے خلدِ بریں موجود

شمع روشن ہے عشق کا کوئی بھی پروانہ بن جاۓ 243

 

شبی ؔ ر رکنا نہیں نظریں لگی ہیں تیری ساغر پر

وصل کے واسطے شاید یہ غزل پیمانہ بن جاۓ 244

 

 

چشتیہ نسبت

جلنا پروانے نے ہم سے سیکھا اورہمیں دیکھ کے پگھلی شمع بھی ہے

پھول نے ہم کو دیکھ کے پھاڑ دیئے کپڑے اپنے یہی دیوانگی ہے

 

سب حسینوں نے حسن ان سے لیا میرا محبوب ہو پھر کتنا حسین

آگے پھر سوچنا ممکن ہی نہیں آگے حیرانگی ہی حیرانگی ہے

 

دنیا سو بھیس بدل کے آئے آگے عاشق کے ہو ذلیل رسوا

جس کے دل میں ہو یا د یار کی بس اس کی آنکھوں کے سامنے یار ہی ہے

 

علم دولت ہے لازوال مگر گر اُس کے حسن کا دیوانہ نہ ہو

نفس اس کو بھی جال میں لے لےبات کچھ اس کی یوں نشیلی ہے

 

جو عبادت پہ اپنی نازاں ہے عشق کی اس کو ہوا لگی ہی نہیں

کیونکہ عاشق کا ناز صرف اور صرف زلفِ معشوق کی اسیری ہے

 

دیکھ شیطان تھا عابد عالم اور عارف بھی مگر بچ نہ سکا

دیکھ اس عشق کے بنا نفس کی کتنی مضبوط دادا گیری ہے

نفس کی چال بہت سخت ہے مگر عشق کے سامنے اس کی نہ چلے

عشق کے سامنے کوئی آئے کیسے یہ تو سوچو مجال کس کی ہے

 

عقل بھی نفس آلودہ ہو اگر نفس کا شر نظر نہ آئے اسے

عقل خاموش سامنے ہو شبیر ؔ جس کا بھی عشق عشق ِ حقیقی ہے

 

 

 

 

علم و ذکر کے مراکز

ہیں مدرسہ خانقاہ علم و ذکر کے مراکز

ان دونوں کا سنگم بلاشبہ سمجھو جائز

تعلیم مدرسے سے ہو حاصل ہے ضروری

خانقاہ میں پھر احسانی کیفیت پہ ہو فائز

دل کی اصلاح

دل کی دنیا اگر بدل جائے

پھر آخرت کا کام چل جائے

 

دل ہے بادشاہ سارے اعضا ء محکوم

سلطنت اس کی پھر سنبھل جائے

 

سارے پھر حکم شریعت پہ چلیں

صدر ِ شیطاں پہ مونگ دل جائے

 

غیر محرم کو آنکھ دیکھ نہ سکے

اور شر کان کا بھی ٹل جائے

 

اور زباں سوچ سوچ کر بولے

سارا گند ذہن سے نکل جائے

 

نفس ہو تیار مجاہدے کے لیے

اور اس کے شر کا پر بھی جل جائے

 

حالتِ دل پہ فیصلہ ہے شبیر ؔ

جو بھی میزان میں عمل جائے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

الہام رحمانی

جن کے دل اللہ کے جانب ہی مائل ہوتے ہیں

دور ہوں جب جو درمیاں میں حائل ہوتے ہیں

ان کے دل خود ہی پھر اللہ سے وصول کرتے ہیں

ایسے الہام جو ان کے دل پہ نازل ہوتے ہیں

اصلاحِ نفس

سات قسموں کے بعداللہ نے ایک بات کہی

نفس کو الہام کیا فجور اور تقوی ٰ بھی

 

اور پھر جزم سے تشدید سے اعلان کیا

جو کرے نفس اپنا پاک ہے کامیاب وہی

 

جو بدنصیب زندگی میں ایسا کر نہ سکے

توتباہ حال ہے خائب ہے اور خاسر ہے یہی

 

اس کی تشدید سے اصلاح نفس فرض ہوئی

نفس کی اصلاح کے بغیر کام نہیں ٹھیک کوئی

 

دیکھ شیطان کو بھی نفس نے دھوکہ ہے دیا

منطقی بحث جو اللہ سے ظالم نے کی

 

اک طرف حکم خدا ہے براہ راست اس کو

اک طرف علتوں کی بات اور یہ کج بحثی

نفس کی اصلاح نہیں ہوتی مجاہدے کے بغیر

دل ہے ڈرائیور اپنی منزل کا اور نفس گاڑی

 

نفس جب تک تم اپنے شیخ کے حوالے نہ کرو

اس کی اصلاح کسی صورت بھی نہیں ہے ہوتی

 

جو ترا نفس کرے تجویز مجاہدہ وہ نہیں

مجاہدہ مخالفت ہے نفس کی بھائی

 

جو ترا شیخ کہے نفس کو گوارا وہ نہ ہو

مجاہدہ ہے یہی اس میں ہے اصلاح تیری

 

یہ قال سے حال کا لمبا سفر ہو کیسے طے

نفس پامال کرو پیش ِ شیخ کامل ہی

 

خدا کو پیار اس اخلاص پہ آجاتا ہے

جس نے شبیر ؔ کیا یہ، فلاح اس کو ملی

 

w

 

معرفتِ ال ٰ ہی

ذات میں غور تو ممکن ہی نہیں ہاں مگر اس کی کچھ صفات سمجھیں

اس کی دنیائے خلق کو دیکھیں اور کچھ اس کی کائنات سمجھیں

 

ہر طرف وہ ہی نظر آتے ہیں اپنے تخلیق کے پردوں میں چھپے

اپنے اندر بھی ذرا غور کرلیں اور کچھ اپنی نفسیات سمجھیں

 

لوگ تحقیق بہت کرتے ہیں پر نتائج میں غلطیاں کرکے

ڈھونڈنے والا ہو نمایاں اس میں اس سے ہم اصل کیا حالات سمجھیں

 

جو بنا تا ہے اس کا ذکر نہ ہو ان ہی تخلیق کے شہہ پاروں میں

جس وجہ سے ہے یہ غلطی ممکن آیئے ایسے خیالات سمجھیں

 

فکر اچھی ہے مگر ذکر کے ساتھ ذکر ہے یاد اس کے صانع کی

اس سےکھل جائیںغلطیاں اپنی اب سمجھنا ہے یہی بات سمجھیں

 

اس سے مل جائے معرفت اس کی وہ تو سبحان ہے اور ہم عاجز

اس کی تخلیق میں باطل ہی نہیں ہم اگر اس کی تخلیقات سمجھیں

 

آگے تخلیق نار کی بھی ہے اس کے وجود سے انکار نہیں

ہم کو اللہ اس سے محفوظ کرے یہی تحقیق کی مناجات سمجھیں

فکر جس کی ہو ذکر سے ماخوذ اس سے مل جائے معرفت اس کی

بس یہی لوگ اولو لالباب ہی ہیں پھرآگے ان کے مقامات سمجھیں

 

فکر جس کی بغیر ذکر کے ہو یہ عیاشی ہے ذہن کی بس فقط

یہ شہرتوں کے سمندر میں ہیں غرق ان بے چاروں کی یہ اوقات سمجھیں

 

فانی دنیا کے لیے چھوڑدیا جو تھا لافانی فائدہ اس کا

حشر میں ان کی پھر زبانو ںپر ہائے افسوس اور ہیہات سمجھیں

 

تو بھی ان میں تھا مختلف ہوگیا ، وجہ اس کی تو کوئی ہوگی شبیر ؔ

مختصر یہ خدا کا فضل ہی ہے اور بزرگوں کی برکات سمجھیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

خود آگاہی

خود اپنے آپ پہ کرتے ہیں ہم ظلم اس پروہ روٹھ جاتے ہیں

پھر اگر ان سے معافی مانگیں معاف کرکے پھر اپناتے ہیں

 

روٹھنا بھی ان کا ہمارے لیے پھر ہمارے لیے ہی مان جانا

اس طرح روٹھ روٹھ جانے سے اور پھر ماننے سے بچاتے ہیں

 

کتنے پہلے سے ہم تھے یاد اس کو پوری کرلیں ضرورتیں اپنی

اور پھر جس کی ضرورت ہو ہمیں خود سے پھرخود ہی دے دلاتے ہیں

 

تھوڑی تکلیف اگر دے دیں ہمیں تاکہ کچھ اور اس سے دے جایئں

بے سمجھ ہم کہاں سمجھ پائیں جانے کیا کیسے منہ بناتے ہیں

 

اس طرح نعمتیں ہمیں جو ملیں کاش کچھ اس کا ہوادراک ہمیں

وہ تو جب شکر اس پہ کرتے ہیں نعمتیں اور بھی بڑھاتے ہیں

 

دل کو اب کھول روشنی کو دیکھ وہ جو قرآ ن سے آتی ہے رہی

دل کی کانوں سے ذرا سن تو سہی اس میں آیات جو سناتے ہیں

 

دیکھ ہم کو فضل سے کتنا عظیم جو رسولوں میں تھا وہ دے ہے دیا

کتنے محبوب طریقے ہیں اسے جو کہ سنت میں ان کی پاتے ہیں

 

کاش کوئی ہو جو یہ سمجھاۓ کتنا رب ہم پہ مہربان ہے یہاں

کتنا خوش ہوتا ہم سے ہے وہ شبیر ؔ جس وقت ہم اسے مناتے ہیں

 

 

 

 

تواضع اور شکر

ان کے قدموں میں آکے پڑجائیں

رفعتوں پر مزید چڑھ جائیں

شکر جب نعمتوں پہ حاصل ہو

نعمتیں پھر مزید بڑھ جائیں

کیسا ہے؟

جو بات ہو سچی اور پکی تو اس کا بتانا کیسا ہے

کمزور بھی ہوں محتاج بھی ہوں تو جان چھڑانا کیسا ہے

 

جب ظلم خود پر کر لیںہم اس پر ہم سے وہ روٹھے تو

احساس اگر کچھ ہوجائے روٹھے کو منانا کیسا ہے

 

وہ ہم سے تو کچھ مانگے نہیں اس پر بھی دینا چاہتا ہو

تو اس کے سامنے سوچ ذرا پھر خودکو جھکانا کیسا ہے

 

وہ آیٔندہ کی تکلیفوں سے ہم کو بچانا جو چاہیں

تو ان کی مان کر رو رو کر پھر خود کوبچانا کیسا ہے

 

جو دشمن ہے ہم ساروں کا وہ دور کرے اس سے ہم کو

تو بھاگ کر اس کے پہلو میں پھر خود کو لانا کیسا ہے

 

ہم ٹسوے چند بہائیںجب اور اس پر بھی وہ مانے جب

تو اس کے در پر رو رو کر آنسو بہانا کیسا ہے

 

ہم اس کے سامنے پڑ جائیںتو اس کے جواب میں تر جائیں

تو اس کے سامنے پڑجانے سے یوں تر جانا کیسا ہے

 

دشمن چھوڑے ہم کو نہیں اور نفس اپنا مانے نہیں

اس بگڑے نفس کو پھر شبیر ؔ تربیت دلانا کیسا ہے

 

 

 

 

دوست اور دشمن

اللہ کی بات جو مانتے نہیں ہیں

اس کا نقصان جانتے نہیں ہیں

دشمن کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں وہ

اور اپنے دوست پہچانتے نہیں ہیں

داستانِ زوال

حسن کی دنیا سر راہ لٹ رہی ہے آج

یہ بے حسی کی ہوا کیسے اب چلی ہے آج

 

نفس نے حسن کا سنگھار کیا ہے آج خوب

عقل ایمانی کی میت بھی یہ پڑی ہے آج

 

قہقہے کھوکھلے ہر سمت سنے جاتے ہیں

دلوں کی دنیا پہ ویرانی سی چھائی ہے آج

 

نعمت ہر ایک ذریعہ خدا کے شکر کا ہے

ان نعمتوں کا تقاضا شکر کا بھی ہے آج

 

ہم شہوتوں کی ہی دنیا میں ڈوبے جاتے ہیں

دلوں کی دنیا اس کی ذکر سے خالی ہے آج

 

عشق سینے سے لگا لینا اس کی ذکر کے ساتھ

نفس کو شبیرؔ دے لگام یہ باغی ہے آج

رنگینی میں سنگینی

یہ مناظر یہ آوازیں یہ رنگینی یہ شباب

تھام لے دل کہیں ہو نہ اس میں جاؤ خراب

 

ہر ایک پتہ اس کی یاد کا پتا دیتا ہے

بشرطیکہ ترے دل میں اس کی یاد ہو جناب

 

یہ اپنی آنکھیں ،اپنے کان و زبان دیکھ لینا

ہیں کسی اور کے جو دینا پڑے گا ان کا حساب

 

اب تو تو محو خواب غفلت دنیا ہے یہاں

خود سے ہی جاگ ورنہ تجھ کو جگا لے گا عذاب

 

دل پہ ضربوں سے دستکوں کا عمل تیز کرلے

سوتا رہنا نہیں ہے سخت کہ ہے اس کا عتاب

 

یہ مزے دنیا کے جنت کے مزوں کی ہے خبر

تجھ پہ کھل جاۓ شبیرؔ اصلی مزوں کا آب و تاب

جانا پڑے گا

جو آیا ہے اسے جانا پڑے گا

سبق خود کو یہ سکھانا پڑے گا

 

یہ دنیا آنی جانی ہے سمجھ لے

یہ اپنے نفس کو سمجھانا پڑے گا

 

جو گند دنیا کی دل میں ہے پڑا تو

اسے دل سے نکلوانا پڑے گا

 

چڑھایا خود کو جو تو نے ہے اب تک

تو اب خود کو اتروانا پڑے گا

 

نفس آزاد کا جو باگ ہے اب

کسی کے ہاتھ میں دلوانا پڑے گا

 

یہاں رولے شبیر ؔ ہنس لے وہاں پر

وگرنہ اس جہاں رونا پڑے گا

 

داستانِ بے بسی

سمجھ میں آجاۓ اے کاش شاعری میری

ورنہ ہے سامنے اپنی تو بے بسی میری

 

کس طرح روح کی آواز میں پہنچادوں انہیں

جس نے کانوں سے گو غزل تو ہے سنی میری

 

دل کی آواز دل کے کان ہی سن پاتے ہیں

نہ رکاؤٹ بنے کہیں اس میں کمی میری

 

نفس و شیطان کہاں ان کو یہ سننے دیں گے

جو نہ چاہے تو سنے بات وہ کیسی میری

 

بس دعا ہے کہ اب شبیرؔ کی مدد ہو خدا

گو کامیاب نہ ہو کوشش ہے اک سہی میری

W

لا الہ الا اللہ

زبان پہ جاری رہے لا الہ الا اللہ

نہیں میرا کوئی مقصود مگر ایک خدا

 

میرا سب کچھ خدا کے واسطے ہو میں بھی ساتھ

مگر ہو کیسے ؟ سکھائے یہ محمد مصطفے ٰ ﷺ

 

جب محمد ﷺ کا طریقہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

اور خدا کے لیے نہ ہو یہ تو پھر کیا رہا

 

اسے طریقِ محمد ﷺ ہی چاہیےہے فقط

راستے بند ہیں سبھی صرف یہی ہے راستہ کھلا

 

ہو محبت خدا کی دل میں مجتبی ٰ کی طرح

کہ اتباع ہی سے اس کے بنیں گے ہم مجتبی ٰ

 

دل کو خالی کرو دنیا سے شبیر ؔ بالکل ہی

دل میں دنیا کی طلب ہو تو وہ نہیں آتا

 

بہت

فضل اس کا ہے بے حساب بہت

اپنی حالت گو ہے خراب بہت

 

بار بار کرتا میں گڑ بڑ تو ہوں

اس سے ہوتی ہے پیچ تاب بہت

 

جب اس کے در کی طرف دیکھتا ہوں

کرم اس کا ہے لاجواب بہت

 

ہاں اس کی حلم پہ جرأت بھی نہ ہو

کیونکہ ہے سخت اس کا عذاب بہت

 

خوف اور امید کے درمیان ہوں شبیر ؔ

صحیح طریق ہے یہ جناب بہت

 

ذوقِ اعلیٰ

دل کی دنیا کی بات اور ہی ہے

عشقِ اعلی ٰ کی بات اور ہی ہے

 

فکرِ دنیا میں لوگ غرق ہیں سب

فکرِ عقبی ٰ کی بات اور ہی ہے

 

جانتا ہوں شراب ہوگی لذیذ

عشق کے مینا کی بات اور ہی ہے

 

جس کو حاصل ہو فقر کی شاہی

اس ارتقا کی بات اور ہی ہے

 

دل پہ جم جاے ٔ یار کے يار کا

اُس نقش پا کی بات اور ہی ہے

 

میں اس کی یاد میں آجاؤں شبیر ؔ

ذکرِ مولی ٰ کی بات اور ہی ہے

عشاق کا اجتماع

سوختہ دل اس کی محبت میں جمع ہوتے ہیں جب

ایک ہی فکر میں مشغول ہو کے روتے ہیںسب

 

دل کی دنیا کی ہوں باتیں اوراس کی یاد بھی ہو

دوسری دنیا کی جو فرصت ہے ان کو ہوتی ہے کب

 

نظر اس پر لبِ گریان دل عشق سے سرشار

مانگتے ایسے ہیں ہوتے ہیں جیسے جان بلب

 

شور اذکار کا پر لطف نظارہ بھی ہو

دل جلا جاتا ہے ہوتا ہے مگر پاسِ ادب

 

پاس ان کے جو ہیں بیٹھے وہ بھی محروم نہیں

ڈھونڈشبیر ؔ انہیں بغیر کسی نام و نسب

W

یہ یوں ہی جلتے رہتے ہیں

پگھلنا ہے مقدر میں یہ یوں ہی جلتے رہتے ہیں

کہ عاشق اپنے محبوبوں پہ ہر دم مر تے رہتے ہیں

 

یہ آنکھیں کیسی ان کی ہیں کہ نہریں ان سے جاری ہیں

کسی کی یاد میں وہ ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں

 

یہ کیسی بات ہے ان کی کہ ہر پل ان سے ملتے ہیں

جدائی کی مگر شکوہ برابر کرتے رہتے ہیں

 

سکوں طاری ہے ظاہر میں مگر طوفان ہے اندر

کہ ہوسکتا ہے کچھ بھی اس سے ہر دم ڈرتے رہتے ہیں

 

یہ دھوتے رہتے ہیں دل کو جب آنسو بہتے ہیں ان کی

زبانِ حال سے یوں عشق کا دم بھرتے رہتے ہیں

 

مقام جانے گا ان کا کیا کوئی شبیر ؔ دیکھونا

یہ دوست کا راز رکھنے کے لئے سنبھلتے رہتے ہیں

دنیا کی یا اس کی محبت

پائے دنیا سے بھی وفا کوئی

مجھ کو ایسا نہیں ملا کوئی

 

اس کے ہاں کتنی قدردانی ہے

اس پہ ہوجائے تو فدا کوئی

 

اس کے غم نے کیا ہے سب کچھ صاف

جیسے اب غم نہیں رہا کوئی

 

اس کے در پر میں رکھوں اپنا سر

پھر کہوں اور کرے کیا کوئی

 

واسطے اس کے ہی ہم آئے ہیں

کرے نہ کام یہ بھی بھلا کوئی

 

اس پہ پڑ کر ہی نظر پاک ہوئی

اثر اس کا جو ہے جدا کوئی

 

میں زباں پر نہ اس کا نام لوں کیوں

کچھ ہو اس کا بھی حق ادا کوئی

 

دل سے دیکھوں شبیر ؔ میں اس کی طرف

اور تو بس کام نہ ہو مرا کوئی

 

 

 

 

دنیا کی محبت

ہے جڑ سب خطاؤں کی یہ دنیا کی محبت

کنجی ہر سعادت کی ہے اللہ کی محبت

دنیا کی محبت کا گلا گھونٹ دے شبیر

راسخ ہو دل میں تیرے پھر خدا کی محبت

تصورِ شیخ

نظر آۓ شیخ جب تجھے سوچتا ہوں

تو ياد آۓ اس کو جو میں دیکھتا ہوں

 

مرا شیخ مجھ کو تجھی سے ملا دے

میں عاشق ہوں تیرا تجھ ہی کو میں چاہوں

 

مرا شیخ مجھے دیکھ کر مسکراۓ

ہو خوش دیکھ کر یہ کہ میں بھی ترا ہوں

 

یہ دل کا تعلق ہی ہے اس کےدل سے

جدھر بھی وہ جاۓ تو میں بھی وہاں ہوں

 

میں ان میں فنا ہو کے تجھ ہی کو دیکھوں

کہ نقش قدم پہ میں ان کی چلا ہوں

 

محبت میں شیخ کے ہوا تیرا شبیر

فنا ہو کے اس میں میں تجھ پر مٹا ہوں

 

 

ایک چسک

ذکر سے تیری زباں میری ہمیشہ رہے تر

اور ترے در پہ خدایا پڑا رہے مرا سر

 

اپنا دل تجھ کو خدا یا میں اس میں پیش کروں

اور اس کے نور سے روشن ہو مرا قلب و نظر

 

میں تجھ کو یاد کروں اور خود کو بھول جاؤں

جمگا اٹھے تیری یاد سے مرے شام و سحر

 

شوق سے پڑھتا رہوں تیرا ال ٰ ہی میں کلام

اور مرا دل ہو ہمیشہ یا ال ٰ ہی ترا گھر

 

لمحہ لمحہ اور بال بال پیسہ پیسہ مرا

کروں قرباں میں ترے واسطے پھروں نگر نگر

 

آنکھ کان اور زباں میں حیا شبیر ؔ کے ہو

قلب پر نور ہو مرا اور زباں پہ ہو اثر

تہجد

تہجد میں مانگو یہ وقت قیمتی ہے

کہ اس وقت مانگنے کی دعوت جو دی ہے

جو تنگ ہو مرض سے ہو بیمار کوئی

کہیں بھی نہ ہو اس کی گر اشک شوئی

تہجد کے بعد گڑ گڑا کے تو مانگیں

کہ کتنوں کو راحت اسی سے ملی ہے

جو وقت دینے کا کوئی خود ہی بتاے ٔ

تو کیوں کوئی سائل نہ لینے پہ آے ٔ

جو فرمایا خود ہے کہ ہے کوئی سائل

تو اس وقت مانگنا طریقہ صحیح ہے

ہوں سوے ٔ ہوے ٔ سارے تو ان میں جاگے

تو جو کامیابی ہے ہو تیرے آگے

تجھے پیارے رب نے کہا اٹھنے کو ہے

تو چھوڑے یہ نعمت یہ کیا سادگی ہے

تعلق خدا سے تو اس میں بنادو

جہنم کی آگ سے تو خود کو بچا لو

ہمارے مسائل کا حل اس میں پنہاں

تقاضا محبت کی شبیر ؔ بھی ہے

تہجد میں مانگو یہ وقت قیمتی ہے

کہ اس وقت مانگنے کی دعوت جو دی ہے

وقت آئےگا

وقت آئے گا یہاں سے ہمیں جانا ہوگا

جو کیا ہوگا یہاں، واں پہ وہ پانا ہوگا

 

ایک ایک بات ہماری یاں لکھی جاتی ہے

ان پہ سب فیصلے ہونے کا زمانہ ہوگا

 

اپنا دل دنیا کی چیزوں میں نہ گھسا اتنا

ہوگی مشکل ان سے جب دل کو ہٹانا ہوگا

 

دولت اور اہل عیال سب یہاں رہ جائیں گے

ایک عمل ہی ہے جو کہ شانہ بہ شانہ ہوگا

 

کچھ ہوں گے لوگ جن پہ سختی کے حالات ہوں گے

اور بعض کیلئے منظر اک سہانا ہوگا

اپنے محبوب کا دیدار بھی ممکن ہے وہاں

واسطے اس کے جس نے حکم یاں مانا ہوگا

 

چاہیں گر ہم کہ شفاعت نبی کی ہووے نصیب

ان کی اُسوہ پہ خود کو دل سے یاں لانا ہوگا

 

علمِ نافع پہ ہو نصیب حسن ِ عمل اے شبیر ؔ

کہے قبول ہے جب ہم کو بلانا ہوگا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چند حقیقتیں

پھول کے ساتھ تو کانٹا بھی لگا ہوتا ہے

خوشی کے پیچھے کبھی غم بھی چھپا ہوتا ہے

 

نہ دیکھو یہ کبھی بھولے سے بھی کہ کیا نہ ملا

ہے کامیاب جس نے شکر کیا ہوتا ہے

 

شکر کر شکر کہ ہوں اور نعمتیں زیادہ

ناشکری سے بھلا کس کا بھلا ہوتا ہے

 

جو ہو راضی برضا اس کی کامیاب ہے وہ

ان ہی کو اس نے تو آغوش میں لیا ہوتا ہے 245

 

زندگی بھر ہو ترا کام اس کو یاد کرنا

سکون قلب اس نے اس میں رکھا ہوتا ہے

 

چھوڑ دو اپنی خواہشات وہی چاہ تو بھی

جو وہ چاہتا ہے تو پھر دیکھ کیا ہوتا ہے 246

 

کر نظر اپنے عمل پر کیا بندگی ہے یہی

جو ہو بندہ تو وہ آقاپہ مٹا ہوتا ہے

 

ابتلاء اور محبت یہ ہے لازم ملزوم

عشق عمارت ہے تو دروازہ فنا ہوتا ہے 247

 

وصل چاہتے ہو تو پھر دیکھو واصلین 248 کے دل

وہ واصلین کے شبیر ؔ دل میں بسا ہوتا ہے

 

 

 

 

 

 

 

کیفِ ذکر

دل میں ہے جوش بپا فیضِ ذکر کا ہے ظہور 249

میں بیاں کیسے کروں دل میں ہے کیا کیف و سرور

 

لاالہ دل سے کہوں دل ہو غیر سے خالی 250

اورالااللہ سے دل میں مرے ہو نور ہی نور 251

 

پھر الا اللہ سے میں دل کو کہوں وہ ہی ہے 252

تب دل سے اس کی سنوں ہو یہ مرا کوہِ طور 253

 

ضرب اللہُ اللہ کی لگائی دل پہ میں نے

د ل میں جو غیر تھا باقی وہ ہوا چکنا چور 254

 

دل میں جب بھی کیا ہے یاداسے ،پیار ملا 255

سرورِ دل ملا ہم سے ہے اس کو پیار ضرور 256

 

خوفِ گناہ ہے مگر فضل کی امید بھی ہے 257

کہ مرا رب بڑا کریم ہے بڑا ہی غفور

 

دل کو کر تربتر خوشبو سے اب تو اپنا شبير 258

درود شوق سے پڑھ ،ہے ریئسِ کل عطور 259

 

شیخ کا تصور

ہم تصور میں شیخ کو دیکھیں اور شیخ کے فیض سے ملے ہم کو خدا

شرک کیسے یہ تصور ہے کہ اس سے کیا ہوتے ہیں خدا سے جدا

 

یہ تو اک پل ہےجس پہ ہم گزر کے آگے پاجائیں منزلِ مقصود

شیخ کا کام ہے ملانا اس سےفرض اپنا کرتے ہیں وہ اس سے ادا

 

ہاں مگر جس میں احتیاط نہیں، نہیں جائز اسے تصور یہ

ممکن ہے اس کے منہ سے نکلے کبھی غیب میں بصیغہءِ حاضر کچھ ندا

 

اس لئے اپنے بزرگ دیتے نہیں یہ تصور عوام کو آج کل

کسی ناسمجھ کے کلام سے نہ ہو کوئی لفظ شرک کا کبھی ہویدا

 

ہاں مگر خود بخود کسی کو ملے اس کو روکتے بھی نہیں اس سے کہ

اپنی نعمت کی لاج رکھتے ہیں وہ شبیر ؔ اس کی یہ عادت ہے سدا

 

 

توبہ

یاال ٰ ہی مری توبہ قبول کرلینا

خراب حال ہے میرا اسے سنور لینا

 

ہو تیرا فضل تو توبہ پہ رہوں میں قائم

مرے دامن کو اپنے فضل سے توبھر لینا

 

مری آنکھوں کو حیا اب نصیب ہوجائے

نصیب دل کو ہو ہر خیر سے اثر لینا

 

مرے اب کان جو جائز ہو سنے صرف وہی

نہ غیبتوں ، کانا پھوسی کا کوئی شر لینا

 

اور زبان میری ترے ذکر سے تر رہتی رہے

کہ دائمی ہو ترا نام برابر لینا

 

سستی میں چھوڑ دوں چستی سے کروں کام سارے

نصیب شبیر ؔ کو ہو نفس کی خبر لینا

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

 

اسی کا میں بندہ اسی سے میں مانگوں

اسی سے مدد ہر جگہ چاہتا ہوں

 

اسی نے عطا کی ہے ایماں کی دولت

اسی سے ہی اس کی بقاء چاہتا ہوں

 

ھدایت کا طالب میں اسکے حضور ہوں

جو سیدھی ہوبالکل وہ راہ چاہتا ہوں

 

اگرچہ میں عصیاں کی گرد سے اٹا ہوں

میں اس سے کرم کی نگاہ چاہتا ہوں

 

نہ کھینچیں مجھے دوسری بھول بھلیاں

طریقِ محمدﷺصفا چاہتا ہوں

 

نہ جبہ نہ قبا نہ دستار بندی

جو مقبول ہو وہ ادا چاہتا ہوں

 

میں اس کی محبت کی دولت کا طالب

اسی کو ہے معلوم کیا چاہتا ہوں

 

خدایا مجھے اب تو اپنا بنا دے

خدایا میں تیری رضا چاہتا ہوں

 

کرم کر کرم کر کریموں کے خالق

کرم کی نظر میں سدا چاہتا ہوں

 

میں صدق ِ صدیق ؓ اور عم ؓر کی فراست

اور عثماں ؓ کی جود و سخاچاہتا ہوں

 

علی ؓ کی شجاعت سے حصہ میں پاو ٔ ں

حسن ؓ کا طریق ِ وفا چاہتا ہوں

 

میں شبیر ؔ سجدہ ٴِ شبیر ؓ نہ بھولوں

ترے واسطے ہونا فدا چاہتا ہوں

 

جو سوچا یہ دل میں کہ کیا چاہئے؟

نہ تسخیرِ ارض و سما چاہئے

نہ دستار و جبہ قبا چاہئے

 

جو سوچا یہ دل میں کہ کیا چاہئے؟

جواب آیا اس کی رضا چاہئے

 

جو چاہوں یہاں اسکی چاہت سے چاہوں

خدا کیلئے ہی خدا چاہئے

 

میں اللہ کا بندہ ہاں اللہ کا بندہ

جو مقبول ہو وہ ادا چاہئے

 

کرم کی نظر کا طلبگار ہوں

مجھے یہ ملے یہ دعا چاہئے

 

کروں یاد اس کو رہوں اس کو یاد

رہے یاد وہ ، یہ سدا چاہئے

 

جو محبوب میرا ہے اس کا بھی ہے

تو کیوں دل نہ اس پر فدا چاہئے

ہوں لاکھوں درودوسلام اس پہ کہ

یہاں سے بھی کچھ تو وفا چاہئے

 

قیامت کے دن بارے شبیر ؔ کے

اشارہ کرے ہے مرا چاہئے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چار چیزوں پہ جنت

جو بھی سلام کو پھیلاتا ہے

اور کھانا بھی وہ کھلاتا ہے

صلہ رحمی کرے تہجد پڑھے

داخل جنت میں کیا جاتا ہے

 

دہر میں آئے ہیں ہم اسکی محبت کیلئے

محفلِ ناجنس میں ہر گز نہ جانا چاہئے

اس سے بچ جائیں ہمیں یہ گر بھی آنا چاہئے

 

بس میں جو ہیں ان کو سستی سے نہ چھوڑیں ہم کبھی

اور جو بس میں نہیں ان کی نہ پرواہ چاہئے

 

وسوسے آنے کی صورت میں نہ ہو کچھ التفات

وسوسے لانے سے ہر صورت میں بچنا چاہئے

 

معصیت سے بچنا ایسا ہو کہ جیسے زہر سے

سب بدکتے ہیں تو اس سے بھی بدکنا چاہئے

 

جو ذرائع ہیں تو رکھ ان کو ذرائع کی جگہ

جو مقاصد ہیں انہیں مقصد بنانا چاہئے

 

کیا ہے کرنا کیا نہیں کرنا بس اس کا علم ہو

اور نامقصود قصوں میں نہ پڑنا چاہئے

 

ذکر میں مشغول ہو اپنی زبان و د ِ ل ہمیش

اپنے فارغ وقت کو ضائع نہ کرنا چاہئے

 

دہر میں آئے ہیں ہم اسکی محبت کیلئے

اس در ِ مطلوب کو شبیر ؔ پانا چاہئے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دنیا اور آخرت

دل کبھی دنیا سے لگانا نہیں

اور آخرت کو بھول جانا نہیں

آخرت اچھی ہے اور باقی بھی

پیٹھ اس کو کبھی دکھانا نہیں

پکی باتیں

سمجھنا دین کا موقوف بصیرت پر ہے

اور آگے اس کا حصول نفس کی تربیت پر ہے

 

سمجھ نہ دیں کی ہو حاصل تو اسی حال میں پھر

بچت موقوف صالحین کی صحبت پر ہے

 

صحبتِ سوء سے بہتر خلوت از روئے حدیث

صحبتِ نیک کو فوقیت نری خلوت پر ہے

 

صحبتِ شیخ صالحین کی صحبت کا اصل

اور اس سے اخذ پھر اپنی صلاحیت پر ہے

 

یہ تو ٹونٹی ہے اسے کھول جتنا چاہے تو

ٖ لازما ً نفع اس میں شیخ سے محبت پر ہے

 

اور ہو شیخ سے محبت اور صلاحیت بھی

تو باقی کام منحصر سارا ہمت پر ہے

 

تین نقطوں کی مستوی سب سے مضبوط تو ہو 260

فیصلہ اس کا پھر اللہ کی مشیت پر ہے

 

تمہارا کام تو اسباب جمع کرنا ہے

نتیجہ اس کا پھر ان کی قبولیت پر ہے

 

در پہ مسببُ الاسباب کے پھر پڑجانا

خود کو چھوڑ، دل کو تو دیکھ، یہ کہ کس حالت پر ہے

 

جمع اسباب ِ دعا کر کہ یہ قبول بھی ہو

یہ ہو قبول یہ مانگنے کی کیفیت پر ہے

 

نہ سمجھ خود کو کچھ ، ہو اس کی کریمی پہ نظر

نظر کرم کی جو اس کی مسکینیت پر ہے

اور اس سے اچھی امید اس میں لازم ہے

کامیابی پھر بہر حال استقامت پر ہے

 

ہوں میں شبیر ؔ پر امید بھی ان سب ک ے لیے

طریق میں جن کی نظر ایسی نصیحت پر ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حبِّ جاہ نہ ہو

چاہیےہے کہ حبِّ جاہ نہیں ہو

اور کسی قسم کا دعوی ٰ نہیں ہو

خوف اور امید کے درمیاں ہے ایماں

نتیجتا ً کوئی انا نہیں ہو

جس کو کرنا تھا کیا وہ کام کیا؟

کس طرح ہم نے صبح شام کیا؟

جس کو کرنا تھا کیا وہ کام کیا؟

 

ہر کسی سے یہ پوچھ ہوگی ضرور

وقت کس کام میں تمام کیا

 

جس کے لینے پہ پابندی ہی نہیں

اپنا نام لینا کتنا عام کیا

 

عشق کو فسق سمجھتے ہیں لوگ

فسق نے عشق کو بدنام کیا

 

کامیابی انہیں ہی ملتی ہے

جنہوں نے نفس اپنا رام کیا

 

آخرت میں وہ ہی کامیاب ہیں بس

جس نے بھی اس کا انتظام کیا

 

اور اس کی قبولیت کے لیے

پھر دعاو ٔ ں کا اہتمام کیا

 

شبیر ؔ دنیا سے بچنے کے لیے

میں نے تو دور سے سلام کیا

 

 

 

 

 

حال کو قابو کر

ماضی مستقبل ہیں حجاب مگر

حال ترے پاس ہے اس کو قابو کر

حال میں توبہ گناہوں پہ کریں

اس سے غافل نہ ہو تو لمحہ بھر

جنجال

یہ دنیا جال ہے اس میں بڑا جنجال ہوتا ہے

بھلا جنجال میں یوں بھی کوئی خوشحال ہوتا ہے

 

جو اس جنجال میں رہ کر وہاں کا سوچ لیتا ہے

تو اس کا موت کے دہلیز پہ استقبال ہوتا ہے

 

نہ مستقبل کو پکڑیں ہم نہ ہم ماضی کو صرف رویئں

حقیقت میں ہمارے ہاتھ تو بس حال ہوتا ہے

 

اگر میں قال کو سیکھوں نہ اس میں حال حاصل ہو

تو خالی ہاتھ میرے ہاتھ قیل و قال ہوتا ہے

 

بس اک وہ دل سلیم اپنا ہمارے کام آئے گا

نہ آئیں کام بیٹے اور نہ وہ جو مال ہوتا ہے

 

عقیدہ گر صحیح ہو اور اعمال ٹھیک ہوں سارے

حاصل احسان سے تب اعمال میں کمال ہوتا ہے

 

تو اس احسان کے واسطے پکڑنا شیخ ہوتا ہے

شبیر ؔ جس سے اسی نسبت کا انتقال ہوتا ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نفس کا اثر دل پر

نفس ہو بد وہ دل خراب کرے

اس میں داخل شر بے حساب کرے

دل وساوس کا پھر اثر لے لے

لازم اپنے لیے عذاب کرے

 

ہم آلے ان کے ہاتھ میں ہیں

ہم آلے ان کے ہاتھ میں ہیں وہ کام کرائے جاتے ہیں

کچھ کرنے کی توفیق ہو جب تو ان کو پیچھے پاتے ہیں

 

وہ کرواناجب چاہیں تو خود ہی سب کچھ ہوتا ہے

ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں بس اسباب وہ خود بناتے ہیں

 

وہ چاہیں تو ناسمجھوں کو اک آن میں سمجھدار کرے

اور اس کو اپنی جانب سے پھر کیا کیا گر سمجھاتے ہیں

 

ہے شکر خدا کا بار بار ہے شکر خدا کا بار بار

یہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو ہم جیسوں کو دلواتے ہیں

 

کیفیت کس پر طاری ہے اور قلم کس کا جاری ہے 261

یہ فضل بھی ان کا بھاری ہے جو ہم سے یہ کرواتے ہیں

 

مخلوق ہے ان کا کنبہ اور اس پر مہرباں ہیں وہ

ان کی ہدایت کے واسطے رستے ان کو دکھاتے ہیں

 

ان کی غضب پر غالب ہے رحمت کی ان کی صفت جب

ان کی غضب کی لہروں کو رحمت کے پردے کھاتے ہیں

 

ان کی دو انگلیوں میں دل ہر ایک کا ہر دم ہوتا ہے

جس جانب ان کی چاہت ہو وہ دل اسکا گھماتے ہیں

 

مجھ سا بے ڈھب شاعر کوئی اور ایسا کلام وہ کہہ بیٹھے

یہ ان کا ہی تو کرم ہے شبیر ؔ کہ وہ تجھ سے کہلواتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اب

ساری چیزوں کی محبت کو سمیٹوں میں اب

بس اک خدا کی محبت کو ہی رکھوں میں اب

 

ان سے ہو پیار جو محبوب رکھے اس کو ہی

جو اس کا پیار دلادے اس کو چاہوں میں اب

 

اس نے مجھ سے بھی جو بے لوث محبت کی ہے

اس پہ بے لوث ہی یہ زندگی واروں میں اب

 

عشق بے لوث محبت کا صلہ کیا مانگے

جو اس کاحق ہے اس پہ کیا صلہ مانگوں میں اب

 

جو اس کے پیار میں حائل ہو کوئی چیز بھی اب

مری دشمن ہے اک نظر بھی نہ دیکھوں میں اب

 

حسنِ فانی اک امتحان ہے اسے کیا دیکھوں

کیا اس کے واسطے حسنِ ازل چھوڑوں میں اب

 

دل پہ دستک میں اسکے نام کی ہر وقت دے دوں

تو دل میں اور کسی کو بھی نہ لاو ٔ ں میں اب

 

باندھ لوں خود کو حسیں پیار کی رسی سے اسکی

میں صرف اس کو ہی دیکھوں اس کو سنوں میں اب

 

کفر ہے اس میں جو غافل رہے دل اس سےشبیر ؔ

دل کو تب ذکر سے ہر دم ہی جگالوں میں اب

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ایک فکر

حسن اخلاق سے گرے کتنے فسق کے عشق پہ مرنے والے

کتنے محروم ہوگئے حق سے عشق کو فسق سمجھنے والے

 

حق تو یہ ہےکہ حق کو چھوڑ نہیں اورباطل سے رشتہ جوڑ نہیں

آگ سے بچنا ہو جن کو وہ بنیں فسق سے ہر حال میں بچنے والے

 

حسنِ فانی پہ دل نہ آئے ترا تو ہے جب حسنِ ازل کے سامنے

جو بھی ہو اس کی اجازت سے ہو جیت جاتے ہیں سنبھلنے والے 262

 

خوف و غم سے وہ پریشان ہوں گے آج ڈر سے جو ہیں آزاد اس کے

خوف و غم سےوہاں آزاد ہوں گےاس سے ہر حال میں ڈرنے والے

 

اپنی آنکھوں کے گرادے پردے آج بے پردہ ہیں کچھ پردہ نشین

دل کی آنکھوں پہ ہے جن کا پردہ وادیِٔ شر میں بھٹکنے والے

 

کاش ان کو بھی کچھ سمجھ ہوتی اس کی ظلمت کا کچھ احساس ہوتا

کچھ عاقبت کا خیال کرلیتے حد سے شبیر ؔ نکلنے والے

ایک سوچ

بھلا کیا چیز ہیںتصویریں لوگ ان پر جو مرتے ہیں

کہ ان کے واسطے لوگ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں

 

یہ اپنے گھر میں رکھنے کے لیے کیا چیز کھوتے ہیں

وہ کھونے سے ہو جب نقصان تو اس پر یہ روتے ہیں

 

کوئی کتا ہو گھر میں یا کوئی جاندار کی تصویر

ذرا دیکھو بڑی کتنی ہے یہ شیطان کی زنجیر

 

کہ رحمت کے فرشتے پھر وہاں پر آنہیں سکتے

ہے رحمت ساتھ ان کی جو یہ ہر گز پا نہیں سکتے

 

تو جوق در جوق پھر شیطان کی افواج آتی ہیں

جو دل میں ڈال کے پھر وسوسے ان کو لڑاتی ہیں

 

تلاوت ذکر کرتے ہیں مگر فائدہ نہیں ہوتا

کوئی جذبہ عموما ً حق کا پھر پیدا نہیں ہوتا

 

یہ خود کو دنیائے رحمت سے یوں ہی کاٹ دیتے ہیں

یہ گند شیطانیت کا اس طرح پھر چاٹ لیتے ہیں

 

یہ پھر معمول ساحر کے لیے آسان ہوتے ہیں

کہ ان کے گھر میں چپے چپے پہ شیطان ہوتے ہیں

 

اگر ہو ساتھ موسیقی بھی کیوں نہ ان کی بن آئے

توشیطان بھنگڑا ڈالے گھرمیں اور یہ خود کو پھنسائے

 

تو گھر میں جنگ ہوتی ہے جو دل پھر تنگ ہوتے ہیں نرالے شوق ہوتے ہیں نرالے ڈھنگ ہوتے ہیں

 

گر اس کے ساتھ موجود گھر میں ان کے ہو کوئی ٹی وی

تو یہ ڈبہ تباہی کا محرک ہو ہمیش ان کی

نظر آئے کھلے بندوں ہمیشہ ان میں غیر محرم

اور ان کے ساتھ موسیقی کا شر بھی رہتا ہے ہر دم

 

تو اندازہ کرو اس سے کیا نقصان ہوگا پھر

جوسٹیرنگ پرہاں ان کے دل جب شیطان ہو گا پھر

 

وہ ان کے نفس کی شہوات کو مہمیز کردے گا

تو خوب پھر انتقام آدم کا ان کی نسل سے لے گا

 

یہ دجالی جو آلے ہیں انہیں بس چھوڑدینا ہے

دلوں کا رخ شبیر ؔ اب حق کی جانب موڑ لینا ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عقل اور جذبات

وقتی جذبہ کوئی انگڑائی سی اگر لے لے 263

عقل کمزور ہےاس سے اگر اثر لے لے

 

عقل تسلیم کرے خود سے حقیقت کوئی

دو آتشہ بنے اس کو اگر دل پر لے لے 264

 

پھر اسی بات کی تایئد وحی سے بھی ہو

اور پرزور بنے اس کو تو خاص کر لے لے 265

 

حسنِ فانی نرے جذبات اور حسنِ ازل

عقل سے ہےیہ اثر جذب سے مگر لے لے 266

 

حسنِ فانی تو محض امتحان ہے اپنا

یہ ہے کیا حسنِ ازل سے اگر ٹکر لے لے

 

جس نے اس حسنِ ازل سے کیا سودا دل کا

وہ اس کے واسطے سبق ایک مختصر لے لے

 

بہ تقاضائے وفا کوئی تقاضا ہی نہ ہو

ہو نظر اس پہ نام اس کا برابر لے لے

 

وہ قدردان ہے تو قدر نہ مانگو اس سے

وہ جتنا دے شبیر ؔ تو بھی اس قدر لے لے

 

 

 

 

 

ذوق و شوق

ذوق و شوق دین نہیں دنیا ہے یہ

دین کا ہو تو پھر اچھا ہے یہ

ختم ہو گر تو یہ مقصود نہیں

کام جاری ہو ابتلا ہے یہ

ایک منصوبہ بندی

کہاں جرأت مری گناہ اپنے شمار کروں

بجائے اس کے میں کیوں نہ استغفار کروں

 

میں غلطیوں کا ہوں پتلا میں تو انسان ہوں نا

اس طرح رہ کے خود کو اور بھی کیوں خوار کروں

 

میں اس کا بندہ ہوں بندوں پہ مہربان ہے وہ

اس مہربانی پہ میں کیوں نہ اس سے پیار کروں

 

فضل اس کا جو ہوسب کچھ مرا ہو ٹھیک فورا ً

یہ نہ ہو تو کیا کوشش اگر ہزار کروں

 

دست بہ دعا ہوں ال ٰ ہی فضل مجھ پر فرما

بس ترا بن کے تجھ پہ خود کو میں نثار کروں

 

کہیں گمراہ نہ بنوں نہ کہیں خود رائے بنوں

میں صرف اور صرف ترے محبوب پہ اعتبار کروں

 

مجھ کو سنت ترے محبوب کی ہو حاصل ہر دم

موت کے وقت میں شیطاں کو شرمسار کروں

 

موت کے وقت مجھے کلمہ طیبہ ہو نصیب

ابھی بھی پڑھ میں اس میں کیوں ادھار کروں

 

تو کہے حشر میں دیکھ کر مجھے میرا ہے شبیر ؔ

بابِ جنت پہ پھر میں شکر کا اظہار کروں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

میں

تجھ کو چاہوں میں توکچھ اور کیا چاہوں میں

تری آغوش کے سوا اور کیا مانگوں میں

 

کچھ میں چاہوں تو اس لیے کہ تو یہ چاہتا ہے

اب تو روکنا نہیں جب تیرے طرف آو ٔ ں میں

 

تو کہے اس کو نہ روک یہ تو مرا عاشق ہے

اس سے بہتر بھلا کیا اور صلہ پاو ٔ ں میں

 

آ مرے دل میں یہ دل کب سے منتظر ہے ترا

تو نہ ہو اس میں تو پھردل کو کیا سمجھاو ٔ ں میں

 

اس کی رحمت کی نظر اور مرے دل پر ہو

تو شبیر ؔ شکر اس کا کیسے بجالاو ٔ ں میں

 

تو کہے میرے ہی ہو

ترا بن جاو ٔ ں میں اور تو مرا یہ چاہوں میں

جوہے مقصودِ زندگی تویہی مانگوں میں

 

تڑپ تڑپ کے ملا ہے مجھے محبوب مرا

مزہ میں اس کا کہیں اور سے کیا لاؤں میں

 

دل میں آجا تو مرے کب سے منتظرہے ترا

ترے آنے سے ہی آباد ہو یہ کہہ پاو ٔ ں میں

 

دل میں ہے آگ لگی میری یہ ویسے تو نہیں

تری نظر سے ہے اب اور اس کو بھڑکاو ٔ ں میں

 

مرے جاں دل تو تری یاد میں جل بھن ہی گئے

اب کیا باقی ہے اب ساتھ ہی جل جاو ٔ ں میں

 

روک لئے کتنے سمندر ہیں اپنی آنکھوں میں

دل کی طوفان سے کہیں ویسے نہ پھٹ جاو ٔ ں میں

 

آنکھ ترے رخ پہ دل میں تو کان بھی ہیں تیری طرف

تو کہے میرے ہی ہو یہ تجھ سے سن جاو ٔ ں میں

 

اب صرف آس تو تیری ہی تسلی سے ہے

بے قرار دل شبیر ؔ کا آج اس سے بہلاو ٔ ں میں

 

 

 

 

محبوب جانتے ہیں

محبوب جانتے ہیں مجھے خوب کہ کیا ہوں میں

دیوانگی کے راہ پہ جب دل سے چلا ہوں میں

میں اس کا بننا چاہوں تو وہ میرے بنیں گے

قادر ہے کردکھائیں گے وہ گو کہ برا ہوں میں

الہامی باتیں

کیسے ممکن ہے یہ شاعر سے بھلا اپنے اشعار کی تعریف کرنا

لوگ اس کو کریں ملامت خوب اس ملامت سے اس کو ہو ڈرنا

 

یہ شاعری جو ہے میری تو نہیں خدا کا فضل ہے الہامی ہے

اس لئے موقع ملامت کا نہیں اس شاعری کا میرا دم بھرنا

 

میرا کوئی بیان اپنا نہیں اس کی تعریف میں خوب کرتا ہوں

یہ میں اگر نہ کروں ہوجائے تحدیث نعمت کے خلاف ورنہ

 

یہ بزرگوں کی دعائیں ہی ہیں کروں تقسیم آج ان کے فیوض

اس کو منسوب کروں اپنی طرف حقیقت سے نہیں مجھ کو لڑنا

 

میں تو اللہ سے دعائیں یہ کروں ان کے راستے پر چلائے شبیر ؔ

وہ رہنما ہیں ان کے پیچھے رہوں ان کے پیچھے نصیب ہو چلنا

 

 

تماشا

رستے کے تماشے میں نہ بن جا خود تماشا

جو اس تک پہنچاے ٔ رکھنا یاد وہ رستہ

 

جو اس سے ملاۓ تجھے اس پر چلے چلو

اور اس میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو ترا

 

رستے کی بھول بھلیوں میں گم تم نہ ہو کبھی

خوب دل پہ جمال لینا جو جانے کا ہے نقشہ

 

راہبر سے رکھنا تجھ کو تعلق ہے ضروری

تو جس کا ہے، رکھنا ہمیشہ اس پہ بھروسہ

 

دینے میں کبھی وہ کمی کرتے نہیں شبیر ؔ

سب کچھ لٹا کے لینا ہے اس سے اپنا حصہ

 

 

 

ٹھیک

جو موافق ہوں شریعت کے وہ الہام ہیں ٹھیک

چاہے اخبار ہوں اشعار ہوں سب کام ہیں ٹھیک

 

ان سے قرآن سنت کی مخالفت نہ ہو اور

جن کا الہام ہے گر ان کے صبح شام ہیں ٹھیک

 

ان کی صحبت میں ملا کرتا ہے اللہ کا عشق

وہ جو آنکھوں سے لٹاتے ہیں عشق کے جام ہیں ٹھیک

 

ان کے الفاظ کی تاثیر دل بدل ڈالے

ان میں سارے ہی سفید فام سیاہ فام ہیں ٹھیک

 

دل سے سنتے ہیں دل کے نالے جو پوشیدہ ہیں

اس پہ حیرت نہ ہو ممکن ہیں یہ نظام ہیں ٹھیک

 

دل کو اللہ کے لیے ان کے دل سے جوڑلینا

شبیرؔ شک نہ کریں ایسے انتظام ہیں ٹھیک

 

 

اللہ کی نظروں میں گرنا

جب کبھی دل میں یہ آئے کہ میں ہوں اچھا تو

کہے وہ خود کو کہ پہلے اگر تھے اب نہیں ہو

 

کیونکہ جس وقت کو ئی خود کو سمجھے اچھا اگر

تو اسی وقت گرا اللہ کی نظروں میں ہے وہ

 

اپنی اچھائیوں میں فضل اس کی آۓ نظر

تو اس کا فضل اس کو سمجھو اس پہ شکر کرو

 

جب کبھی تجھ کو دکھاۓ تجھے دشمن اچھا

تو بھگانے کے لیے اس کے تعوذ بھی پڑھو

 

برائی اپنی نظر آنا کشف اعلیٰ ہے

پھر ساری عمر نظر ان کی ہی اصلاح پہ رکھو

 

بندگی اس کی بہت اعلیٰ ہی حالت ہے شبیر

لے کے تو اس کو شرع پر استقامت سےچلو

 

 

 

حمدِ باری تعالی ٰ

دن میں تو رات میں تو چاند ستاروں میں ہے تو

اپنی تخلیق کے لازوال اشاروں میں ہے تو

 

یہ سمندر میں جو چلتی ہیں کشتیاں اور جہاز

باربرداری کے انسانی سہاروں میں ہے تو

 

یہ بارشیں یہ آندھیاں یہ نہریں اور دریا

رات میں خموشی سے شبنم کے پھواروں میں ہے تو

 

اتنے اونچے اور فلک بوس عالیشان یہ پہاڑ

یہ جو سبزے کی ہیں اوڑھی ان چادروں میں ہے تو

 

نیلے آسمان کو دیکھوں شگاف کوئی نہیں

بے ستون چھت کےان پرکیف نظاروں میں ہے تو

 

یہ ہر اک چیز کے ذرات میں کائنات اک الگ

ان الیکٹران کی حرکتوں اور رفتاروں میں ہے تو

 

کہاں افلاک کی و سعتیں کہاں یہ باریکی

ان لاتعداد اشاروں اور شاہکاروں میں ہے تو

 

زمیں کے ٹیڑھ سے دن رات بڑا چھوٹا ہو

اسی ہی ٹیڑھ سے بدلتے موسموں میں ہے تو

 

نہ ابتدا کی سمجھ ہے نہ انتہاء کی سمجھ

ہمارے ذہن کے حیرت کے پہاڑوں میں تو

 

تری اک چیز کے پانے سے بھی قاصر ہے شبیر ؔ

پھر بھی ہو کتنے قریب دل کی دھڑکنوں میں ہے تو

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حمدِ باری تعالیٰ

ذکر ایسا ہو کہ ہر چیز سے وہ یاد آجاے ٔ

اور اس کی یاد سے ٹھنڈک سی دل میں چھا جاے ٔ

 

ایک ایک پتے پہ دفتر ہے معرفت کا لکھا

اس کے پڑھنے کا اگر گر کوئی سمجھا جاے ٔ

 

یہ پہاڑ اور یہ چشمے یہ چرند اور پرند

دیکھنا غور سے انہیں، راستہ دکھا جاے ٔ

 

یہ جو آسماں پہ ہیں ان گنت ستارے روشن

ان سے اک نور معرفت دل میں سما جاۓ

 

تر رکھو ذکر سے اس کے زباں اپنی شبیر ؔ

دل اس کے ساتھ ہو تو سب کچھ تُو اس سے پاجاے ٔ

 

حبِِّ رسول

اُمت کا درد اصل میں حبِّ رسول(ﷺ) ہے

جب کام یہ بڑ ا ہے اس سے کیوں زہول ہے

 

جب تک نہ سارے لوگوں سے پیار ے ہوں محمد (ﷺ)

کچھ بھی نہیں گفتار کا عبث ہی طول ہے

 

اُمت کے لیے سوچنے اور فکر میں رہنا

منشائے الہی ٰ ہے خدا کو قبول ہے

 

سنت کے طریقے پہ ہمہ وقت ہم چلیں

ہر کام ہے خراب اگر اس میں جھول ہے

 

اصلاح اپنے نفس کی قرآن سے ثابت

اور قلب حدیث میں اس کا اصل الاصول ہے

 

فکرِ اُمت نصیب ہو اصلاحِ نفس کے بعد

شبیر ؔ ٹھیک ہے ، یہ گر نہ ہو توبھول ہے

نعت شریف

اپنے محبوب کے محبوب کو میں یاد کروں

یاد آنے سے اس کے دل کو اپنے شاد کروں

 

کتنا ہے پیار اس کو ہم سے ہمیں یاد رکھا

اب اس کی یاد سے خانۂِ دل آباد کروں

 

کتنے آسان طریقے ہیں سکھائے ہم کو

دین میں ان کے علاوہ کیوں ایجاد کروں

 

جوصحابہؓ تھے فنا اس میں ہوگئے تھے فقط

تو عمل میں ان صحابہؓ کو میں استاد کروں

 

اور پھر ان سے فقہاءؒ نے جو حاصل ہے کیا

ان کو اخلاص سے میں آج زندہ باد کروں

 

دل مرا دل ہو اس کے دل کی طرح کیسے شبیر ؔ

واسطے اس کے میں صوفی کے دل پہ صاد کروں

نعت شریف

عجب نہیں ہے یہ وہ میرے خیالوں میں ہے

جو خوش نصیب ہیں لوگ وہ ان کے دلوں میں ہے

 

یہ کائنات ہر اک چیز اس کے دم سے ہے

جو اس کو جان لے تو وہ ہی سیانوں میں ہے

 

جس کو محبوب ہوں ہر وقت سنتیں اس کی

ہے وہ مو ٔ من بخدا رب کے وہ پیاروں میں ہے

 

دل محبت سے ہو پر اس کی، زباں پر ہو درود

اور سنت پر ہو عمل کام یہ کاموں ہے

 

سارے محبوبوں کے ست سے ہے بنا یہ محبوب

وہ عقلمند ہے جو اس کے دیوانوں میں ہے

 

میرے لیے یہ سعادت کچھ کم نہیں ہے شبیر ؔ

کہ میرا نام اس کے چاہنے والوں میں ہے

اڑا دل میرا دیکھنے گنبدا خضرا مدینے میں

اڑا دل دیکھنے کو گنبدا خضرا مدینے میں

میں دیکھوں تو نظر آتا نہیں ہے میرے سینے میں

 

سلام ان پر پڑھوں دل سے ہو دل میں یاد بھی اس کی

درود بھیجوں زباں سے اور کیاہو لطف جینے میں

 

کروں میں رب کے واسطے اتباع ان کی محبت سے

کہ بے حد قیمتی ہے کام یہ رب کے خزینے میں

 

سلام ان پر درود ان پر کروڑوں اربوں ہر وقت ہوں

جو رحمت عالمیں کا ہے رہیں ان کے سفینے میں

 

کرے بس اتباع ان کی کہ یہ ہے اس کی جب چاہت

رہے تب اتباع شبیر ؔ شراب ِ عشق کے پینے میں 267

 

 

نعت شریف

رسول پاک کی تعریف کس زباں سے کروں

تنگیِٔ دامنِ اشعار کے بیاں سے کروں

 

خدا نے کیا نہ دیا ان کو قابلِ تعریف

متردد ہوں کہ بیان کس عنواں سے کروں

 

خدا کے بعد یقینا ً بزرگ تر ین ہستی

وہ آپ ہی ہیں تو شروع اسی اعلاںسے کروں

 

نبی ہمارا وہ ایسا ہو اور یہ ہم کیا ہیں

اس کا شکوہ میں جلے دل سے مسلماں سے کروں

 

آپ (ﷺ) کے ہوتے نقل اوروں کی کرلیں کیسے

میں ہر بزرگ سے کہوں، بات ہر جواں سے کروں

 

ہر طریقہ ان کا محبوب خدا کو ہے جب

کیوں نہ اپنانے کی شروع میں اپنی جاں سے کروں

 

خدا کا ذکر جب ہو گا تو ان کا بھی ہوگا

میں اشارہ حدیث قدسی کے فرماں سے کروں

 

آپ مخلوق میں خلق عظیم پر فائز

بیان آپ کے بارے میں گر قرآں سے کروں

 

جو طریقے پہ چلے آپ کے محبوب ہیں وہ

خدا کے سچے یہ ثابت قول رحماں سے کروں

 

اور ہیں باذنِ ال ٰ ہی شفیع اعظم آپ

دل چاہے ذکر شبیر ؔ اس کا کل جہاں سے کروں

 

u

لمحۂِ شکر

خدانے نعت کی تو فیق بخشی آج مجھے

تسلی حبِ نبی(ﷺ) کی ہے جو دی آج مجھے

 

اپنی نظروں میں گڑگیا زمیں میں آج مزید

جگہ جو چاہنے والوں میں ملی آج مجھے

 

کہاں یہ خاک کہاں عالمِ پاک کا یہ ذکر

باوجود اسکے ملی کتنی خوشی آج مجھے

 

بفضلِ رب درود پاک کے تحفے بھیجوں

کہ نعت لکھنے کی توفیق ہوئی آج مجھے

 

دعا ہے ان کے ہی قدموں میں جگہ پاو ٔ ں شبیر ؔ

روکے مانگنے سے نہ کوئی بھی کمی آج مجھے

 

 

نعت لکھنا مشکل کیوں؟

ہے کام مشکلوں میں نعت ِ رسول مشکل

تلوار پہ چلنا ہے تلوار پہ ہاں بالکل

 

ان کا مقامِ اعلی ٰ کچھ اور بڑھاو ٔ تو

صفات ِ ال ٰ ہی میں ممکن ہے کر دو شامل

 

اور کم اگر کرو گے تو بھی کباڑا ہووے

اپنا کباڑا جو بھی کرے گا ہوگا پاگل

 

بے شک نیک نیتی سے ہو بول خلافِ واقعہ

ہو آپ کے بارے میں ہے آگ کی اک دلدل

 

پس چپ شبیر ؔ اس میں صدیق کی ہے سنت

باہر تو خموشی ہو دل میں ہو چاہے ہلچل

 

 

نعت شریف

حسن میں یکتا ہے تو عالی نسب

رحمۃ اللعالمین تیرا لقب

 

تیری ہر نسبت ہے پیاری رب کو جب

اسلئے ہر ایک کا کردوں ادب

 

تیری اُمت پر خدا ہے مہربان

اور یقینا ً تو ہی ہے اس کا سبب

 

بھیجوں میں تجھ پر درود و السلام

یہ عمل میرا رہے اب روز و شب

 

تو شفیع ہے دور ہو تیرے طفیل

ہم گناہگاروں سے اللہ کا غضب

 

تیرے پاس مرقد شبیر ؔ کو ہو نصیب

اور وہاں سے ہی اٹھاے ٔ میرا رب

نعت شریف

دل میں ہو حبِّ رسول اور عمل میں سنت

ہوجب اللہ کے لیے پھر نہیں کوئی حاجت

 

جب یقیناً ہیں وہ محبوب خدا تو جان لو

ہو عمل ان کی سنتوں پہ بھی محبوب حالت

 

کہے خدا و رفعنا لک ذکرک کتاب میں

ان کی پھر شان پہ کیسے ہو اور کیوں حیرت

 

میں تمہیں جان سے پیارا بنوں آقا جب کہے

اس پہ قربان نہ کروں کیوں میں جان و دل غیرت

 

اپنے آقا کی پیروی کیوں نہ اعمال میں کروں

جس پہ محبوب بناۓ مجھے رب العزت

 

ان کی تعریف کے لیے کہاں قابل ہے شبیر

بس پہنچاتا ہوں اس سے اپنے دل کو راحت

کئ زبانوں میں نعت

دل میں ہو حبِّ رسول اور عمل میں سنت

ہوجب اللہ کے لیے پھر نہیں کوئی حاجت

 

او کہ محبوبِ خدا است یقیناً بعدازاں

ہو عمل ان کی سنتوں پہ بھی محبوب حالت

 

قال ربی و رفعنا لک ذکرک فی الکتاب

ان کی پھر شان پہ کیسے ہو اور کیوں حیرت

تاسو ته ځزان نه دےې نزدےې شمه آقا ويیٔلي

اس پہ قربان نہ کروں کیوں میں جان و دل غیرت

 

Why should not I follow path of Muhammad the Grea t

جس پہ محبوب بناۓ مجھے رب العزت

 

اناں دی تعریف لیٔ میں کتھے قابل شبیر ؔ

وہ ہے محمود ہی،ہے نعت مرے دل کی راحت

 

نعت شریف

نعت لکھنے کو چاہے دل مگر لکھوں کیسے

یہ تو تلوار پہ چلنا ہے تو چلوں کیسے

 

اک طرف پاس ِ ادب اک طرف یہ سوزشِ دل

درمیاں دونوں کے میں معتدل رہوں کیسے

 

دل تو چاہے کہ میں دل اپنا اس میں پیش کروں

اپنے اعمال کے ہوتے سامنے آؤں کیسے

 

ایک حسرت ہی ہے دربار میں اسے پیش کروں

مانگنا ہے تو بہت کچھ مگر مانگوں کیسے

 

مجھ کو اللہ مرے اس در کا بنا لینا غلام

بات زباں پر میں شبیر ؔ دوسری لاؤں کیسے

 

 

شریعت پہ چلوں

دل میں ہے تیری محبت تو شریعت پہ چلوں

اور ساری زندگی عقیدۂِ وحدت پہ چلوں

 

آپ نے زندگی بھر جو یہاں کی ہے محنت

وہ مری جان ہےمیں بھی اُسی محنت پہ چلوں

 

کیا یہ ممکن ہے تجھے چاہوں اور مانوں نہ ترا

بلکہ ہروقت میں تیری مخالفت پہ چلوں؟

 

ہو کسی کام میں آپ کابھی طریقہ موجود

میں اسے چھوڑ دوں بدبخت بنوں بدعت پہ چلوں؟

 

تجھ سا کوئی نہیں مخلوق میں، عقیدہ ہے مرا

تو ہی محبوب مجھے، تیری اطاعت پہ چلوں

 

مجھے عزیز اپنی جاں سے تری ہر نسبت

میں اس کی لاج رکھوں اس سے محبت پہ چلوں

جو اہل بیت ہیں سارے وہ ہیں محبوب آپ کو

قریب ان کے ہوں ہر دم اور سعادت پہ چلوں

 

ہماری مائیں اور ازواج مطہرات جو ہیں

وفا شعار ہوں ان کی ان کی خدمت پہ چلوں

 

جو صحابہؓ ہیں آپ ﷺ کے آپﷺ کو کتنے ہیں عزیز

ان کے بارے میں بھی میں عشق و عقیدت پہ چلوں

 

آپﷺ کا پیغام سمجھ کے میں اس کو پھیلاؤں

مصداق آیت میں کنتم خیر امت پہ چلوں

 

یہی منشورِ زندگی ہے اور آئین میرا

اگر میں اس پہ چلوں تو بس ہدایت پہ چلوں

 

میں اگر حبِ الٰہی کا ہوں طالب شبی ؔ ر

میں کیوں نہ حکمِ الٰہی سے پھر سنت پہ چلوں

 

خیالِ مدینہ

دل میں نقشہ سا مدینے کا ابھر جائے ہے

جب مدینے کا مرے دل میں خیال آئے ہے

 

یہ تصور مرا آنے کا جالیوں کے سامنے

ایک دلآویز سا منظر مجھے دکھائے ہے

 

سامنے گنبد خضرا کي چھتریوں کے تلے

لوگ بیٹھے ہیں خیال یہ وہاں بلائے ہے

 

وہ فضائیں وہ ہوائیں اور وہ سلام و درود

یاد آتی ہیں خیال يہ مجھے رلائے ہے

 

قدموں میں بیٹھ کے تخیل میں چپکے چپکے شبیر ؔ

پڑھے درود و سلام یاں بھی سر جھکائے ہے

 

 

جسم اپنا ہے مشين اعمال کا

جسم اپنا ہے مشین اعمال کا

اور دل کیفیت و احوال کا

 

دل کی آنکھیں کان ہوں سب ٹھیک تو

ڈھنگ جانے نفس کے استعمال کا 268

 

نفس بھی مانے حکم جو دل کرے 269

حال بھی ہو خیال رکھے قال کا 270

 

اور ذہن بھی دل کا تابع بن سکے 271

بندہ بن جائے نہ اپنے خیال کا 272

 

بندگی رب کی ملے پھر خوب خوب

کیا مزہ ہوگا پھر اس کے حال کا 273

 

ہوں اگر یہ سب تمنائیںمحض

پھر محض ہے کھیل قیل و قال کا 274

 

ہاں ارادہ ہو پکا ہمت بھی ہو

شیخ مل جائے اگر کمال کا

 

پھر ہو خواب شرمندہ تعبیر شبیر ؔ

ہو فضل پھر رب ذو الجلال کا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دل ہی دل

دل سے رستے نکلتے سارے ہیں

کان آنکھ زبان جو ہمارے ہیں

دل ترا ٹھیک ہو یہ ٹھیک ہوں سب

بخت بیدار پھر تمھارے ہیں

 

شیخ کامل

ایک ہے بات ، ہے مشکل سمجھ میں آئے نہیں

بے اس کے سمجھے کوئی خیر کوئی پائے نہیں

 

جو سمجھ ہو نہیں رستے کا پوچھنا لازم

بے پوچھے ایسے ہی رستے پہ کوئی جائے نہیں

 

ایسے رستے پہ ہو چلنا اور راہبر نہ ہو ساتھ

غلطی اپنی ہو تو نقصان پہ چلائے نہیں

 

اور رہزن ہومگر رہبری کے جامے میں

اس کی شامت ہے جو خود کو اس سے بچائے نہیں

 

ہونا اللہ کا بطریق نبی(ﷺ ) ہے بس شبیر ؔ

شیخ کامل ہو جس کا وہ نقصان اٹھائے نہیں

 

 

بیادِ شیخ

ہوا مجھ پر یقینا ً ہاں یقینا ً فضل سبحانی

ملا جو شیخ کامل مجھ کو جب اشرف سلیمانی

 

وہ شفقت ان کی ہم سب کے لئے کیا اس کا کہنا ہے

محبت کی وہ ملتے وقت ہوتی جوفراوانی

 

وہ باتوں میں بتانا باتیں جو تھیں چاہئیے ہم کو

وہ اپنے دل کی باتیں ان کا منہ اور اپنی حیرانی

 

سوالوں کےجوابوں میں علوم انڈیلنا ان کا

نظر آنا عیوب اپنے ظہور سرِّ پنہانی

 

جو ان سے مل کے ملتا تھا سکوں دل کو وہ کیسا تھا

وہ ان سے بات کرتے وقت ختم ہوتی پریشانی

 

عطر ان کے لئیے بھیجا تھا جب فخر رسل نے پھر

تولائیں ہم کہاں سے اب کہ وہ اس کا بنے ثانی

 

وہ تکلیفیں مصائب اورتھیں بیماریاں کیا کیا

نہ کم ہوتی تھی اس سے بھی کبھی چہرے کی تابانی

جب اس درویش نے درویش مسجد کرنی تھی شروع

تو حیراں استقامت پر تھا اس کی جور ِ سلطانی

 

مصائب پر وہ دوسروں کے تو کڑھتا تھا اور روتا تھا

رہی اپنے مصائب پر ہمیشہ خندہ پیشانی

 

مناقب ان کا کیا لکھے قلم شبیر ؔ کا بس یہ

ملے ہم کو طفیل ان کے وہی کیفیت احسانی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اچھا مرید

زمین میں دفن کردے دانہ مالی

رہے دیتاپھر اس کو کھاد پانی

 

تو اُگ آتا ہے اس سے پودا باہر

خدا کی ہوتی ہے جب مہربانی

 

اسے گرمی اور سردی سے بچانا

ضروری ہے اب اس کی نگہبانی

 

تو ایک دن خوب دیتا ہے یہ پھر پھل

یہ مالی کی ہے ہوتی پھر نشانی

 

خدا بھی خوش اور لوگوں کو بھی فائدہ

سمجھ لو ایک حقیقت یہ کہانی

 

جو طالب شیخ کے پاس آئے سوالی

وہ کردے پیش خود کو اور جوانی

 

لگا دے شیخ اسے راہ فنا پر

یہ سمجھا دے کہ یہ دنیا ہے فانی

 

محبت کا لگا دے دل میں پودا

ذکر کرنے سے ہو یہ باآسانی

 

تلخ باتوں کی کھادبھی اس کو دے دے

پلادے جھاڑ اس کو ناگہانی

 

پرہیز طالب کرے جس کا ہےمطلوب

کہ محنت اپنی اس کو ہے بچانی

 

تو یہ پودا بڑھے پھر دن بدن خوب

اگر بات شیخ کی ہے اس نے مانی

وصل ہو فضل سے اس کو نصیب پھر

ہو حاصل ذوق اس سے لامکانی

 

محیط اس کی بھی صحبت پھرہو شبیر ؔ

غزل یہ ہے فقط ایک یاد دہانی

 

 

 

 

 

شیخ کی مرید کے لئے حیثیت

یہ یقینا ً بزرگوں سے ہے شنید

نبی(ﷺ) کا نائب شیخ برائے مرید

مظہر اللہ کی صفت ہادی کا

اور اخروی کامیابی کا نوید

نماز

نماز کیا ہے خود کو کھونا رب کا پانا ہے

اور رب کے سامنے کھڑا ہونا عاجزانہ ہے

 

اس میں کہنا ہےجو کہنے کو کہا جائے ہمیں

کنکشن دل کا اس کے ساتھ بھی ملانا ہے

 

اس میں افعالِ عبدیت کے پائے جاتے ہیں

تو اس سے خود کو اس کا بندہ بھی بنانا ہے

 

آنکھ سجدے کی جگہ سے نہ تجاوز کرلے

کھڑا ہونے میں خشوع دل میں اگر لانا ہے

 

سوچ لو خود کو ہو مسجود کے سامنے اس میں

ہوش میں رہنا ہےنس نس کو بھی جگانا ہے

 

یہ ہو مشکل تو تصور میں پہنچ کعبہ تو

ہو سامنے یہ تصور تجھے جمانا ہے

 

یہ بھی مشکل تو سوچ سوچ کے الفاظ کہو

کچے حافظ کی طرح ان کو ہی دھرانا ہے

 

یا پھر ہر رکن میں شامل ہو دل کی نیت سے

یعنی اعمال میں دل کو شامل کرانا ہے

 

پڑھ ہررکعت میں منشور ِ زندگی اپنی

خود کو احساس یہ ہرکام میں دلانا ہے

 

قیام تیرا عاجزی سے مزین ہو سب

رکوع میں سر کو اس کےسامنے جھکانا ہے

 

پھر جا مقامِ عبدیت میں یعنی سجدے میں

تُو تو بنده ہے وہ مالک کیا چھپانا ہے

التحیات سے معراج ہو مستحضر تجھ کو

ان کے ملنے کا یہ منظر کتنا سہانا ہے

 

تو اس کو دیکھ کے درود آپ پہ پڑھ لینا

حکمِ خدا ہے یقینا ً یہ ہم نے مانا ہے

 

دعا میں مانگ اپنے رب مہربان سے اب

جتنا تُو چاہے اس کا رنگ جدا گانہ ہے

 

اگر نماز تری ٹھیک ہوگئی تو شبیر ؔ

یہ ملا تجھ کو آخرت کا اک خزانہ ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ایک دعا

الہی ٰ بندہ تو خالص اپنا بنانا مجھے

راہ جو پسند ہے تجھے اس پر ہی چلانا مجھے

 

میں نفس کے دام میں ہر وقت پھڑ پھڑاتا ہوں

اب اس کے دام سے فضل سے تو نکلوانا مجھے

 

میں دل سے تیرا بنوں تو مجھے اپنا سمجھے

میرے محبوب کا جو راستہ ہے اس پر لانا مجھے

 

اب کوئی غیر میرے دل میں کبھی آ نہ سکے

ہے جو اغیار کی محبت اس سے چھڑا نا مجھے

 

میں تیری یاد میں مشغول رہوں تیرا رہوں

حلال رزق اپنے فضل سے کھلانا مجھے

 

میرا جان و مال اور اولاد ہوں قبول

فریب دے مجھےمکان اور نہ زمانہ مجھے

 

میرا ہر لمحہ با ل بال ہر ایک پیسہ شبیر ؔ

فدا ہو اس پہ ، ہو نصیب اس کا پانا مجھے

 

 

 

 

 

 

اسباب اور مسبب الاسباب

ہے حکم کہ اسبا ب کو کریں گے ہم اختیار

پر اس کے نتیجے میں نہ ہو ان پہ انحصار

ہو اس میں پھر مسبب الاسبا ب پہ بھروسہ

کرلیں دعا کہ بیڑا ہمارا کرے وہ پار

کے لئے

اٹھا دیجیے ٴ ہاتھ دعا کے لئے

دعا مانگ لیں اب خدا کے لئے

 

پریشان ہم کتنے ہیں اس سے اب

نکلنا ہو تو ایسی راہ کے لئے

 

وہ راستہ طریقہ نبی(ﷺ) ہی کا ہے

ہوسب کچھ صرف اس کی رضا کے لئے

 

یہ دنیا نہ مقصود اب اپنی ہو

تیاری ہو اپنی وہاں کے لئے

 

ہوئے پیدا ہم صرف اس کے لئے

زماں کے لئے نہ مکاں کے لئے

 

یہ پیغام محبت کا ہو وے قبول

پہنچے وہاں ، ہے جہاں کے لئے

 

رہیں اس کے ہی، ہوں جہاں بھی شبیر ؔ

نصیحت ہے پیر و جواں کے لئے

قبر کی زندگی

قبر میں روشنی اللہ کی معرفت کی ملے

سورۃ ملک کی ہمیشہ کی تلاوت کی ملے

 

ایک باغیچہ ہو جنت کی قبر میری وہاں

برزخی زندگی یوں مجھ کو سہولت کی ملے

 

ہو سوالات جب منکر نکیر کی جانب سے

بشارت مجھ کو چھوڑنے کی اجازت کی ملے

 

چہرہ انور میں رسول عربی کا دیکھوں

بفضل حق نظر پھراس کی محبت کی ملے

 

اک میرا مونس قرآن ہو اور دوسرا نماز

اور روزے کا بھی ساتھ قبر میں بچت کی ملے

 

کھڑکی جنت کی طرف کھول دی جائے پھر وہاں

خوشبویں ٹھنڈی ہوائیں اس سے فرحت کی ملے

میرے اعمال اس دار العمل میں ایسے بنیں

قبول ہوکہ اس سے گوشہ عافیت کی ملے

 

مجھ کو پیشاب کی ناپاکی کی قطروں سے بچا

کہیں اس کی نہ سزا قبر میں غفلت کی ملے

 

مجھ کو حاصل ہو ہمیشہ حیات کی دولت

یعنی آخر میں مجھے موت شہادت کی ملے

 

کیا مقدر ہو ملے ٹکڑا بقیع کا کوئی

اور برزخ میں نوید آپ کی صحبت کی ملے

 

میں کہاں اور یہ جذبات، ہوں مجبور دل سے

در کریم پہ مجھے بھیک اس کی رحمت کی ملے

 

وہ ہے تنہائی کا گھر پر شبیرؔ کو خوف نہ ہو

کچھ تسلی اسےگر اس کی معیت کی ملے

 

جنتی لوگ

کہا جنہوں نے کہ اللہ رب ہمار ے ہیں

عمر بھر اس پہ وہ قایٔم بھی رہنے والے ہیں

 

موت کے وقت فرشتے پھر ان سے ملتے ہیں

ان سے کہتے ہیں کہ اللہ کے وہ پیارے ہیں

 

تمہیں نہ خوف ہو نہ غم، تمارے ساتھ ہیں ہم

تمہارے ساتھ یہاں دن ہم نے گزارے ہیں

 

تم کو جنت کی بشارت ہو جس کا وعدہ تھا

وہاں پر لطف ہی لطف اور وار ےنیارے ہیں

 

وہاں من چاہی زندگی ہے اور منہ مانگی بھی

خدا نے دن تمہارے کیسے اب سنوارے ہیں

 

ہے مہربان تم پہ اب خدا غفور و رحیم

یعنی مہمانی ہے ان کی جو رب تمہارے ہیں

 

خدایا ان میں نہ شبیر ؔ کو شامل فرما

جو کہ نرغے میں ہیں شیطاںکےنفس کے مارے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

دنیا اک دارالعمل

وہی کاٹے گا جو تو بوئے گا

ہو گا محروم اگر سوئے گا

رولے خوب تو یہاں توبہ کرکے

ورنہ پھر خوب وہاں روئے گا

نہیں

ہے یہ شہید وفا یہ کوئی مہجور نہیں

ضرب باطل پہ اسی سے کوئی بھرپور نہیں

 

ہوئے شہید جو ان کو مرا ہوا نہ کہو

بلکہ زندہ ہیں البتہ تمہیں شعور نہیں

 

کہنا ہے کیا انہیں مردہ گمان کرنا نہیں

مردہ کہلانا ان کا رب کو جو منظور نہیں

 

تمہیں تکلیف و مشکلات سے آزمائے گا

صبر والوں کو بشارت دو، وہ دن دور نہیں

 

ہوں گے میزبان تمہارے اس میں غفور رحیم

وہ ملے گا تمہیں جس کا یہاں ظہور نہیں

 

جس نے تکلیف میں اناَّ لِلّہِ دل سے پڑھا

حق ہے کہ رب کائنات اس سے مستور نہیں

 

انا الیہ راجعون بھی ساتھ پڑھ لےجو

ملے گا اس سے، کسی سے بھی جو مجبور نہیں

 

اس پہ رحمت خدا کی خاص اتر جائے گی

پھر نظر آئے کیسے دل میں اس کو نور نہیں

 

یہی ہے راہ ہدایت یہ مہتدین ہیں شبیر ؔ

ان سے زیادہ درحقیقت کوئی مسرور نہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کردوں

مرا دل تو ترا تھا ، پیش میں اب جان بھی کردوں

میں تیرا ہوں، تو میرا ہے، میں یہ اعلان بھی کردوں

 

مری یہ جان فانی ہے اسے باقی بنانا ہے

اسے باقی بنا کر خود پہ میں احسان بھی کردوں

 

میں نے دل میں جگہ اس کے لیے کب سے بنائی ہے

تو اپنے گھر میں اس کو لا کے میزبان بھی کردوں

 

مرا دشمن مرا حاسد مرا بد خواہ کہاں مانے

چڑا کر اس کا منہ خوب اس کو پریشان بھی کردوں

 

یہ ہے اک زندگی فانی اسے دے کر میں لوں دوسری

شہادت سے میں خود کو زندہ جاویدان بھی کردوں

 

کہاں یہ زندگی اک میں کروں قربان یہ خود سے

زبان حال سے شکوہ تنگیٔ دامان بھی کردوں

شہادت مانگ لے شبیر ؔ کرے اس کو عنایت تو

سعادت کی یہی درخواست آویزان بھی کردوں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کامیاب

زندگی کا لمحہ لمحہ قیمتی ہے بے حساب

اس لئے اک ثانیہ اس کا کبھی نہ ہو خراب

ہاں مگر یکمشت سودا اس کا کرنا گر ہے تو

سر لٹا دو اس کی راہ میں تو رہو پھر کامیاب

ذکر کرنا

رستہ بھر کچھ نہیں کرتے ہیں ہم

ذکر کرلیں خدا کا کم سے کم

 

دل پڑا غفلتوں میں دنیاکی

کیوں نہ ہوعقل اپنے پہ ماتم

 

اتنا غفلت کو توڑنا ہے کہ

ذکر ہو یاد، کر سکے پیہم

 

پھر ترا دل کرے محسوس ظلمت

آنکھ سے لاۓ جو کہ غیر محرم

 

تو پھر مقام حضوری میں رہے

اور شریعت پہ رہے مستحکم

 

کلمہ کا ورد ہو شبیرؔ نصیب

جس وقت آۓ ترا آخر دم

 

زہد

کپڑا پہنا کسی نے موٹا ہو

اور کھانا بھی روکھا سوکھا ہو

 

یہ نہیں زہد ، زہد ہے بھائی

کہ لالچ کم کسی کو ہوتا ہو

 

زہد سیر چشمی ہے، ہو دل مطمٔن

چاہے چیز تھوڑی یا زیادہ ہو

 

اس کو چیزوں سے غرض ہو ہی نہیں

اس کے دل میں بس اس کا مولیٰ ہو

 

زہد پہ ناز زہد کیسے شبیر

ہاں کسی کو زہد کا دھوکا ہو

 

حیا

روشنی گر آنکھ میں حیا کی ہے

تو سمجھ یہ کہ دل میں پاکی ہے

 

بے حیا بن کے جو بھی چاہے کر

اس سے ہی نکلی ہوس ناکی ہے

 

لگتی اچھی نہیں ہے یہ حالت

نوجوانوں میں جو بے باکی ہے

 

کان حیا سوز گانے سنتے ہوں

یہ نشانی دلِ تباہ کی ہے

 

اور زباں پر بھی احتیاط نہ ہو

یہ علامت دل کی خطا کی ہے

 

دل میں گر اس کو بسا لوگے شبیرؔ

بہترین صورتِ تقویٰ کی ہے

 

 

 

شکر

شکر سے نعمتیں بڑھاے ٔ جا

خود کو اس رستے پہ مٹاے ٔ جا

 

ذکر سے تیل روحانیت کا

ڈال کے گاڑی اپنی چلاے ٔ جا

 

اور پھر خدا کی خوان نعمت سے

نعمتیں مختلف تو کھاے ٔ جا

 

جو ملیں تجھ کو نعمتیں، دوسروں کو

واسطے اس کے تُو کھلاۓ جا

 

وسوسوں کی طرف دھیان نہ ہو

اس سے دشمن کا دل جلاۓ جا

 

اس کو ہی دیکھو نظر اس پہ رہے

اس طرح خود کو تو بچاے ٔ جا

 

شعر خدا کی محبت میں شبیر ؔ

جذب کے واسطے سناے ٔ جا

 

تواضع

جس نےبھی اس کے واسطے خود کو گرا لیا

اس قدردان نے اس کوتو اوپر چڑھالیا

 

ناداں نے سر اٹھا کے خود کو کردیا معتوب

اور جو ہے سمجھ دار اس نے سر جھکالیا

 

جو بولتے بے حد ہیں وہ پکڑے گئے، ان میں

خاموش نے خاموشی سے خود کو بچا لیا

 

جو ہیں سمجھتے خود کوکہ کچھ ہیں وہ کچھ نہیں

سمجھے نہ خود کو کچھ بھی، انہوں نے کمالیا

 

اس در کی بڑائی کا کیا حساب ہے شبیر

اس میں فنا سے ہی در مراد پالیا

 

 

وسوسہ اور حدیث نفس

نفس چاہے کہ ہو خواہش پوری چاہے گناہ ہو یا ہو یہ ثواب

اور شیطان کی خواہش ہے یہ کہ عاقبت ہماری ہو وے خراب

 

جو مسلسل رہے اور ختم نہ ہو حدیث نفس ہے دبا دے اسے

بدل بدل کے برے خیال آئیں وسوسہ ہے بس اسے چھوڑ دیں جناب

 

وسوسہ آنا برا کوئی نہیں اس سے ڈرنا عبث ہے ڈرنا چھوڑ

اس طرف بالکل التفات نہ کر علاج اس کا بتاۓ یہ کتاب

 

تم اگر وسوسے پہ سوچنے لگو اور اس کے ساتھ تم بھی چلنے لگو

یہ ہو گناہ تو اس کا عزم کرنا اسے تو چھوڑ یہ گناہ کا ہے باب

 

تقاضے نفس میں گناہوں کے بہت پڑے ہوں تو کوئی نقصان نہیں

حدیث دل میں ان تقاضوں کا ہو تو دبا لینا چاہیے یہ شتاب

 

کسی مباح کی جانب تو سوچ تاکہ تیرا خیال بدل جاۓ

یہ ہی انداز بے نیازی شبیرؔ ،ہے ان دونوں کے لیے اچھا جواب

خشوع

کوئی پوچھے نماز میں کیا ہے خشوع

بتادے جیسے کہ ہوتا ہے وضو

 

وضو نماز کا ظاہر کرے ٹھیک

خشوع سے دل میں ترے آۓ هُو

 

وہ ترے سامنے ہو دیکھے اسے

دل کی آنکھوں سے اس کو دیکھے تو

 

ورنہ یہ ہو وہ تجھے دیکھتا ہے

اس طرح کرلے خود کو تو یکسو

 

یہ نماز پھول ہے شبیرؔ سمجھ

اور خشوع اس کی مگر ہے خوشبو

 

 

 

دعا

ہر ایک شخص کو ہے دعا کی ضرورت

کہ ہر چیز میں ہے خدا کی ضرورت

 

دعا کرنے والے نہ رکنا دعا سے

دعا تیری ارض و سماء کی ضرورت

 

دعا کرنے والے نہ مایوس ہونا

مسلسل ہے اس میں صدا کی ضرورت

 

وہ چاہے تو دے دے تجھے جو تو چاہے

کہ ہے یہ ہر اک مبتلا کی ضرورت

 

کرے دور تجھ سے مصیبت کوئی اور

تجھے اس میں بھی ہو عطا کی ضرورت

 

یا کردے جمع اس کا اجر وہاں پر

کرے پوری تیری وہاں کی ضرورت

دعا کرنا شبیر ؔ کہ حکم خدا ہے

کہ تجھ کو ہے اس کی رضا کی ضرورت

 

 

 

 

 

 

دعا کریں ہم

ہم کو ہے حکم کہ دعا کریں ہم

نہ کہ تقدیر پہ سوچا کریں ہم

حکم اس کا عبث ہو کیسے یہ ہو

ایسی باتوں سے تو بچا کریں ہم

 

 

دعا

خدایا مجھ کو زندگی میں عافیت دے دے

سب تکالیف و مصائب سے تو راحت دے دے

 

دور کرنا ان مشکلات کا آسان ہے تجھے

میں تجھ سے مانگ لوں ہر چیز اجازت دے دے

 

میں ترا بندہ ہوں آداب بندگی بھی سکھا

پسند تجھ کو جو آۓ وہی حالت دے دے

 

ترے حبیب (ﷺ)کی امت کو میں بد نام نہ کروں

کتنا پیارا ہے خدایا راہ سنت دے دے

 

اچھے اعمال کے لیے مجھے قبول فرما

زندگی لمبی عافیت اچھی صحت دے دے

 

تجھ کو پانے کا ہو جذبہ مجھے ہر وقت حاصل

تجھ کو یاد رکھنے کی ہروقت سعادت دے دے

قلب سلیم عطا کر مجھے اب یا معطی

نفس پہ قابو کے لیے بھی مجھے قوت دے دے

 

اور شریعت پہ مرا نفس مطمٔن کردے

میں ترا ہی رہوں یا رب ایسی حالت دے دے

 

وہی قابل ہے ترے در پہ جو قبول ہوا

واسطے اس کے الہٰی قبولیت دے دے

 

میں ایک آنکھ بھر گناہ کی طرف نہ دیکھوں

نظر تو پاک دے گناہ سے نفرت دے دے

 

مجھ کو حاصل رہے ہر دم ترا اب نظر کرم

تجھے پسند جو ہے وہ ہی کیفیت دے دے

 

روز محشر مجھے حاصل ہو تری لطف کی نظر

مانگتا شبیرؔ ہے رضا کی جگہ جنت دے دے

 

رمضان شریف

بارش ہے رحمتوں کی رمضان کے مہینےمیں

بہتات ہے اجروں کی رمضان کے مہینےمیں

 

جو نفل پڑھے اس میں فرضوں میں شمار ہووے

ہے حد عنایتوں کی؟ رمضان کے مہینےمیں

 

طے کرلیں جتنا کرلیں اصلاح کی سڑک یہ

تقویٰ کی منزلوں کی رمضاں کے مہینے میں

 

قرآن کا مہینہ ہے کیا شان نظر آۓ اس کی تلاوتوں کی رمضان کے مہینےمیں

 

فرضوں کا اجر اس میں ستر گنا بڑھ جائے

کیا حد ہے عطاو ٔ ں کی رمضان کے مہینےمیں

 

 

افطار جو کرادے لے اجر وہ روزے کا

ہے حد کوئی احسان کی رمضان کے مہینےمیں

 

تو بولے اور سنے وہ، وہ بولے اور سنے تو

بہار ہے قرآن کی رمضان کے مہینےمیں

 

اخلاص کا پیکر ہے اور عشق کی اک صورت

انسان کی پہچان کی رمضان کے مہینےمیں

 

پیر نفس پہ رکھنا ہے دل نور سے بھرنا ہے

ہے سیر گلستاں کی رمضان کے مہینےمیں

 

اک رات اس میں یوں ہے شبیر ؔ وہ مل جائے

دولت ہے کل جہاں کی رمضان کے مہینےمیں

 

X

 

اک عشق کی منزل رمضان ہے

اک عشق کی منزل حج ہے اگر اک عشق کی منزل رمضاں ہے

دونوں سے اللہ ملتا ہے دونوں کے پیچھے رحماں ہے

 

اک دل دینا اللہ کو ہے اک نفس کو قابو کرنا ہے

اک قربانی کا منظر ہے اور اک کے اندر قرآں ہے

 

اک ڈوب جانے میں ملنا ہے اک ملنے میں ڈوب جانا ہے 275

وہ بھی تو رب کا احساں ہے یہ بھی تو رب کا احساں ہے

 

اک میں خود کو دیکھو نہیں اک میں خو د میں اس کو دیکھو 276

اک میں کرنا اس کے ل ِ ئے اک میں رکنے کا فرماں ہے

 

ایک بولتی اپنی بند رکھنا اک بولی اس کی سننا ہے 277

پہلے پہ پھر کیا ملتا ہے اور دوسرے کی بھی کیا شاں ہے

 

میں دونوں کا شیدا ہوں شبیر ؔ مٹ مٹ کے اس کا بن جاو ٔ ں

یہ دونوں میرے رستے ہیں اور منزل میری جاناں ہے

 

کلامِ ربی

قاری ِ قرآن ذراتو دیکھو کہ سامنے کیا ہے کلام ِ ربی

کلامِ حاکم کلامِ محبوب کیا خوش ادا ہے کلام ِ ربی

 

یہ تیرا آئین ، یہ تیرا منشور، ہے تیری زیست کا یہ ایک دستور

مقابلے کا نہ سوچو اس کے کہ بس جدا ہے کلام ِ ربی

 

لفظ لفظ میں ہے پیار کتنا تو ہم ہوں اس پر نثار کتنے

زبان کتنی ہے خوش نصیب وہ، چلا ہے جس پہ کلام ِ ربی

 

سکون دل بھی نصیب اس سے اَجر تلاوت کا اس کا زیادہ

تو طاق میں بند بغیر دیکھے کیوں رکھا ہے کلام ِ ربی

 

شفائے دل ہے دلوں کا نور ہے دلوں میں اس سے کیا سرور ہے

کثافتیں ہوں جو دل میں زیادہ تو پھر شفا ہے کلام ِ ربی

 

زبان مشغول ہواس میں اور آنکھ دیکھنے میں ہو اس کے محو

تلاوت اس کی ہوں سنتے کان سے مری دعا ہے کلام ِ ربی

کلام ِ ربی پہ غور کرنا کلام پر ہو اور رب پہ بھی ہو

شبیر ؔ دل سے ذرا تو پوچھو کبھی سنا ہے کلام ِ ربی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نورِ خارجی و باطنی

علم اک نورِ خارجی ہے سنو

وہ جو کہ حامل ِ وحی ہے سنو

جڑ پکڑتا ہے دل میں صرف اس وقت

دل میں گر نورِ باطنی ہے سنو

 

شرفِ انسانیت

خلق میں اشرف ہے جو بھی انساں ہے

منتخب ان میں ہر مسلماں ہے

 

بول پہنچے ہیں اس کے ہم تک جو

براہ راست تو وہ قرآن ہے

 

حکمِ حاکم ہے یادِ محبوب ہے

یہ جو ہم میں ہے رب کا احساں ہے

 

اس کو سمجھنے کی تُو کوشش کر

احکم الحاکمین کا فرماں ہے

 

اپنے محبوب کا ہے فرمودہ

آنکھ اشکبار قلب حیراں ہے

 

میں تروایح میں سنتا جاو ٔ ں اسے

خدا کا فضل ہے اور رمضاں ہے

 

نور سے دل کو میں معمور کروں

یہ فرحت دل کی آج مہماں ہے

 

شبیر ؔ قلب اس کے حوالے کر

پڑھ سکوں سے، کلامِ جاناں ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تعلیم و تربیت

علم کا نور بھی ضروری ہو

بے تربیت یہ بات ادھوری ہو

 

علم حاصل کرو اصلاح بھی کرو

اپنے نفس کی تو بات پوری ہو

قرآن سے عشق

عشق قرآن سے کرو حاصل

تاکہ محبوب سے ہو تم واصل

 

نور سے بھرپور ہے ہر لفظ اس کا

اس سے معمور کرو اپنا دل

 

دل سے رستے پہ گامزن ہوجا

لازمی پائے گا اپنی منزل

 

روانی اس کی ملائک کی طرح

کم نہیں اجر میں اس کی مشکل

 

بے رخی اس سے مہنگی ہے بہت

کہیں رہنا نہیں اس سے جاہل

 

جاری رکھنا ہے دور اس کا ہمیش

تجلیات ہوں حاصل کامل

 

ہو نصیب خدمت ِ قرآن مجھے

یا ال ٰ ہی شبیر ؔ ہے سائل

قرآن اپنا توشہ

کلام ِ ال ٰ ہی کلام پر اثر

نہ شعر ہے یہ اور نہ یہ نثر

 

اگر چاہے تو کہ خدا کی سنے

تو پڑھ اس کو تجھ کو بھی ہو کچھ خبر

 

خدا کو فضیلت جو مخلوق پہ ہے

تو اس کو کلاموں پہ ہے اس قدر

 

اگر دل میں تیرے یہ موجود ہو

تو بھٹکے خدا سے نہ تیری نظر

 

اگر تو عمل اس پہ کرلے تو بس

پھرے تو نہ دنیا میں پھر در بدر

 

اگر ظلمتیں چارسو ہوں ترے تو اس سے ملے گی نوید سحر

 

تراویح میں سننے سے کیا ملتا ہے

پتا ہو تو چاہو یہ ہو عمر بھر

 

وظیفہ بعض سورتوں کا ہے ٹھیک

مگر جاری کوشش رہے دور پر

 

تجلی ہر آیت کی اس کی جدا

ملے تجھ کو بھی یوں ہر اک کا ثمر

 

شبیر ؔ اپنا توشہ یہ رکھنا ہے پاس

اسے لے کے جانا تو ہے اپنے گھر

 

 

 

 

 

 

 

 

تلاوتِ قرآن

میں تلاوت اگر قرآن کی دھیان سے کروں

تو اس تلاوتِ قرآن میں خدا سے ملوں

 

میں دیکھوں سامنے میرے کلام ِ ربی ہے

وہ ہم کلام ہو مجھ سے میں اس کو جیسے پڑھوں

 

کہیں جنت دکھائے اور کہیں دوزخ یہ

کہیں ہو شوق مجھے اس سے اور کہیں میں ڈروں

 

کہیں قارون کا قصہ مجھے ڈرائے ہے

کہیں فرعون کے قصے سے میں عبرت پکڑوں

 

حبِّ دنیا سے خون سفید بھائیوں کا ہوا

صبرِِ یوسف سے البتہ مجھے مل جائے سکوں

 

دعوی ٰ کیا علم کا زیبا ہے علماء کے لیے

اس میں موسٰی  و خضر  کا جو واقعہ میں پڑھوں

 

دلِ قرآن ہے یٰس، ہے یہ معلوم ہمیں

اس کی دھڑکن ملے دھڑکن سے مری میں یہ کہوں

 

گردشِ لیل و نہار میرے لیے ایک عبرت

سورۃِ شمس سے میں پیغام ِ تزکیہ کیوں نہ لوں

 

پورے قرآن میں اصلاحِ نفس کے گر موجود

پورا قرآن تصوف ہے اور اس پر میں رہوں

 

اس کے الفاظ میں پنہاں عشقِ ال ٰ ہی شبیر ؔ

اور معانی سے میں اس کے دل و دماغ بھروں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

شبِ برات

شبِ برات کی اس رات کی برکات دیکھیں

اور پھر چشم تصور میں وہ حالات دیکھیں

 

فیصلے رب کے ہمارے لیے اترتے ہوں

ہمیشہ ہوتی جو ہیں اپنی وہ حاجات دیکھیں

 

کس طرح ہم ہوں مطمٔن اس اہم رات میں پھر

زباں پہ اہلِ قلوب کی پھر مناجات دیکھیں

 

آنکھ پر نم ہے پر امید مگر خوف کے ساتھ

کچھ خوش نصیبوں کایہ حال ساری رات دیکھیں

 

اس کی بخشش و داد کی لوٹ کی آواز بھی سن

کیا کرم اس کا ہے ہم پر بھی یہ ساعات دیکھیں

 

رات قیام میں گزرے اور دن میں روزہ ہو

دل ہو شرمندہ اور آنکھوں کی برسات دیکھیں

وه ہیں نادان جو رسموںمیں ہیں گم، ان میں تُو

شغلِ آتش کا ہندوؤں کی باقیات دیکھیں

 

دل سے میری ہے دعا مجھ کو لکھے وہ اپنا

کاش شبیرؔ ان سے ان کی آج یہ سوغات دیکھیں

 

 

 

 

 

 

 

مایوسی کے وساوس

جو ہو اس کا وہ ہو مایوس کیسے

لوگ وساوس میں گھرے ہیں ویسے

رستہ موجود ہے نظر آئے نہیں

متردد ہیں اندھے ہیں جیسے

لیلۃُ القدر

لیلۃ القدر ہے اجروں کی بہار

یہ اس اُمت سے ہے اللہ کا پیار

 

اس کی ایک رات کی عبادت ہے

اتنی جیسے کرے مہینے ہزار

 

اترتے اس میں جبریئل بھی ہیں

ساتھ ہوتے ہیں ملایٔک بے شمار

 

سب کے لئے وہ دعا کرتے ہیں

جو عبادت میں ہوں مشغول اس بار

 

داد اس کی ہے بے حساب اس میں

تم بھی اس کے لیے رہو تیار

 

معاف کرنا پسند ہے اس کو

اس میں خوب مانگ لے نہ ہمت ہار

آخری عشرے میں ہوتی ہے یہ

طاق راتوں کا زیادہ اعتبار

 

ستایئسویں میں ہے امکان زیادہ

صرف اس میں ہی نہیں ہے او یار

 

آخری عشرے کی ہر رات کوئی

گر رہے اس کے لئے شب بیدار

 

تو یقینا ً ملے اس سال شبیر ؔ

نقد لوگے نہیں ہے اس میں ادھار

اللہ کے بندوں پر رحم

رحم کر اس کے بندوں پر تو ہوگا رحم تجھ پر بھی

کہ بندے اس کا کنبہ ہیں خبر لے اس کے کنبہ کی

مگر وہ لوگ جو دشمن کنبہ کے ہیں پررحم کرنا

ہے ظلم مظلوم پر تو ان کا ساتھ نہ دینا کبھی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عید سعید

ایک رمضان کی خوشی اور پھر یہ عید سعید

اللہ بار بار ہمیں دے اور اس پہ مزید

 

اپنا دیدار ہمیں کردے نصیب جنت میں

ہم ہیں نالائق مگر اس س ے یہ رکھتے ہیں امید

 

سارے اعمال ہوئے اس کی ہی توفیق سے ہیں

اب وہ فرمائے قبول اس کی ملے ہم کو نوید

 

ایک افطاری کی لذت ملے روزے سے یہاں

ایک جنت میں وہ فرحت ملے بوقت دید

 

علتِ صوم یعنی تقوی ٰ ہمیں مل جائے

کیونکہ ایمان سے ملن اسکا ولایت کی نوید

 

وہ جو دشمن ہے ہمارا، ہماری تاک میں ہے

حملہ کرتا ہے وہ سخت سب پہ اسی لیلۃ العید

 

اور پھر عید کے دنوں میں کہاں چھوڑے گا

کردے زہریلا ترے پاس لبن تیرا خرید

 

تو اس میں جاری رکھے صالحیں کی صحبت گر

تو اس کو مل نہ سکے کوئی ترے دل میں چھید

 

یہی تقوی ٰ ترا رمضان کا کافی ہو شبیر ؔ

سال پورا رہے باقی بنے تو اس کا شہید

 

 

 

 

 

 

 

 

عید کے دن کیا کریں؟

نورِ تقوی ٰ سے تو نعمت کی شناخت کرلو

حکم سے اسکے استعمال وہ نعمت کرلو

 

نور تقوی ٰ کا ملا تم کو جو رمضان سے ہے

باقی رکھنے کیلئے تھوڑی سی محنت کرلو

 

لیلۃُ العید میں ناجنس کی صحبت سے بچو

رات اچھی ہے کچھ اس میں بھی عبادت کرلو

 

لیلۃُ الجائزہ مزدوری کے ملنے کی ہے رات

اس کے لینے کے لئے تھوڑی سی حرکت کرلو

 

عید روحانی خوشی کا ہے ذریعہ کیا خوب

جائز اعمال سے حاصل اسکی لذت کرلو

 

نفس کو نفس کی چاہتوں کے حوالے نہ کرو

یہ اگر چاہے تو اس کی مخالفت کرلو

 

کپڑے اچھے، کھانا اچھا ہو مبارک تم کو

ہاں کسی طرح نہ تم قصد معصیت کرلو

لب پہ تکبیر ہو اور دل شکر سے ہو لبریز واسطے اس کے قبول میری نصیحت کرلو

 

رشتہ داروں سے ہو ملنا صلہ رحمی کے لئے

دل سے کینے کو اور بغض کو رخصت کرلو

 

بھول جانا نہیں اس دن مرنے والوں کو بھی

ہو اگر صورتِ امکاں ان کی زیارت کرلو

 

ہاں مگر عورتوں کا جانا قبرستاں نہیں درست

لازم اپنے پہ پابندی ِٔ شریعت کرلو

 

اپنی خوشیوں میں غریبوں کی خوشی یاد رہے

صدقہ فطرانہ سے کچھ ان کی بھی خدمت کرلو

 

دینا بچوں کو ہو عیدی تو یہ بدلے پہ نہ ہو

اس طرح سود سے اپنی محافظت کر لو

 

تم اگر چاہو کہ دل کی خوشی کو پاجاؤ

یہ چند اشعار تم شبیر ؔ کے سماعت کرلو

 

شوال کے روزے

روزے چاہے کہ تو کچھ اور رکھے

اسی شوال کے مہینے کے

 

دس مہینے بنے رمضان کے جب

اور ان کے بھی دو مہینے ہوئے

 

اک کے دس ملتے ہیں خدا کے ہاں

گویا رکھے ہیں سال بھر روزے

 

ہم کو اُمید اس سے یہ بھی ہوئی

اثر اس کا پھر سال بھر ہی رہے

 

کیا کوئی حد ہے اس کے دینے کی

لینا چاہو گے تو مزید ملے

 

یہ بہانے ہیں اس کے دینے کے

شبیر ؔ کیوں رہیں پھر ہم پیچھے

ذی الحج کے روزے

روزے ذی الحج کے پہلے عشرے کے

دیکھ لینا کہ ہیں اہم کتنے

 

ایک روزے کا سال بھر ہے ثواب

اور عرفہ کے دن کی کیا بات ہے؟

 

وہ پچھلے سال اور آئندہ سال

کے گناہوں کا جب کفارہ بنے

 

لوٹ لیں لوٹ لیں نہ چھوڑیں یہ

اس کے دینے کے ہیں جو یہ رستے

 

اس کا بازار لوٹ کا ہے گرم

لے لے لیتا رہے کوئی لے لے

 

اب ہے موقع عمل کا آگے بڑھ

تاکہ شبیر ؔ پھر حسرت نہ رہے

عاشورے کا روزہ

مدینہ پہنچ کے نبی(ﷺ) نے جو دیکھا

ہیں رکھتے یہودی محرم کا روزہ

 

تو پوچھا یہ کیا ہے؟ سبب اس کا کیا ہے؟

بتایا گیا یہ خوشی کا ہے موقع

 

ملی موسٰی اور قوم کو اس دن نجات جب

تو اس سے بڑا دن ہمارا کیا ہوگا

 

تو بولے نبی (ﷺ) پھر ہمیں زیادہ حق ہے

کہ رکھیں یہ روزہ ہمارے ہیں موسی ٰ(علیہ السلام)

 

مشابہ نہ ہو پھر یہود کا کہیں یہ

بنے یوں نبی (ﷺ) سے سوالی صحابہ

 

یہ فرما یا اس سے نکلنے کے واسطے

رکھیں ہم یہ روزہ مگر اک زیادہ

ہو نیکی کہیں بھی نہ چھوڑیں ہم اس کو

مگر ایک بھی ہو نہ غیر کے مشابہ

 

صحابہ کا ہم پر ہے احسان کتنا

کریں ان سے ہر چیز میں استفادہ

 

تو سنت بنا یوں عاشورے کا روزہ

مگر اک اضافی کا ہو ساتھ ارادہ

 

شبیر ؔ ان کی در سے ملے جو وہ لے لیں

کہ عشق و محبت کا ہے یہ تقاضا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

صفر المظفر

نحس سے پاک مہینے سارے

کوئی منحوس نہیں ہے پیارے

 

اس طرح صفر المظفر بھی

غلط نہ سوچنا اس کے بارے

 

کہے منحوس اسے ہے منحوس

توہمات ہی اس کو مارے

 

جو بلائیں اسی میں مانتے ہیں

اُلٹے ہیں ان کی عقل کے دھارے

 

اپنی تقدیر کا مالک ہے خدا

کرسکیں کیا بے وقوفو تارے

 

کہے یوں ہوتا تو پھر یوں ہوتا

اس میں شیطان وسوسہ مارے

 

کہنا ایسا ہی تو مقدر تھا

اس میں شیطان سے کوئی کیوں ہارے

 

جھوٹے لوگوں کے جھوٹ کی شبیر ؔ

تو نے لی خوب کیا خبر واہ رے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

رب پر بھروسہ

اپنے رب پر بھروسہ ہی کرنا

وہ جو چاہے فکر اسکی کرنا

فکر دوسروں کی بھی ہے ٹھیک مگر

ان سے پہلے فکر اپنی کرنا

پیر کے دن

آپ کی ہے ولادت پیر کے دن

اور پھر آپ کی رحلت پیر کے دن

 

مدینے میں بھی آمد پیر کے دن

اور ابتدائے ہجرت پیر کے دن

 

ربیع اول میں سارے کام ہوئے یہ

بہت پائی ہے نعمت پیر کے دن

 

صدیق ؓ کو اس کی خواہش تھی بہت ہی

کہ ان کی بھی ہو رحلت پیر کے دن

 

بزرگی اس لئے اس نام میں ہے

ملی ہم کو سعادت پیر کے دن

 

تو دل میں موجزن شبیر ؔ کے ہے

تب آقا کی محبت پیر کے دن

ربیعُ الاول

ہے ماہِ ولادت ربیع الاول

سعادت سعادت ربیع الاول

 

مہینہ یہ آقا کی ہجرت کا ہے

بشارت بشارت ربیع الاول

 

اہم کام آقا کے اس میں ہوئے

محبت محبت ربیع الاول

 

خدا نے اسے چن لیا جب ہے تو

محبت کی دعوت ربیع الاول

 

اسی میں خدا نے بلایا بھی پاس

کہ ہے ماہِ رحلت ربیع الاول

 

ہواس ماہ میں بدعت کو کیسے فروغ

کہ ہے ماہِ سنت ربیع الاول

 

سر ِ مو ہٹے نہ سنت سے اُمت

یہ دیتا ہے دعوت ربیع الاول

 

صحابہ کے پیچھے چلو ہی چلو

کہے در حقیقت ربیع الاول

 

توبدعت سے شبیر ؔ ہمیں آئے گھن

سکھائے یہ نفرت ربیع الاول

 

 

 

 

 

 

 

 

اہل بیت کی محبت

لائق تو اتباع کے اہل بیت ہیں سارے

آسمان جو عزت کا ہے یہ ان کے ہیں تارے

 

افراد خاندان ِ رسول کے ہیں کیا عجیب

دنیا نے ان کے دیکھے کیا عجیب نظارے

 

جب حبِّ اہل بیت حبِّ نبی(ﷺ) سے ہے ناشی

اُمت کے مرد و زن کو پھر یہ کیوں نہ ہوں پیارے

 

ترغیب جب رسول کی ہے، ساتھ ان کے ہم رہیں

عامل ہیں اس پہ کیسے سب امام ہمارے

 

حسن و حسین و فاطمہ علی کی محبت

شبیر ؔ دل میں رکھ نہ لگا خشک تو نعرے

 

تعارفِ اہلِ بیت

کیا نسبتِ رسول(ﷺ) کا بھی پاس نہیں کوئی

کیسی بے وفائی کی ہوائیں ہیں اب چلی

 

یہ سوچو کیا نہیں یہ گھرانہ رسول کا

تب کچھ پتہ چلے کہ کیا غلط ہے کیا صحیح

 

قرآن و عترتی ہے جو فرمایا نبی نے

حدیثِ سفینہ بھی کیا تو نے نہیں سنی

 

مَنْ کُنْت ُ مُوْلَِاہ کے ساتھ آگے بھی تو دیکھو

مولاہُ جس کے بارے میں فرمایا ، ہے علیؓ

 

شَبَابِ اَہْلِ الْ جَنَّۃ کے سردار کون ہیں

پھر ان ہی کے بارے میں کیا سوچ ہو تیری

 

شبیر ؔ صحابہ کی محبت تو ہے لازم

یہ اہل بیت تو ہیں ہی ساتھ یہ ہیں صحابہ بھی

ٹکڑے نبی کے دل کے

ٹکڑے نبی کے دل کے اہل بیت ہیں طہار

ہے فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار

 

پڑھ سيدا شباب اهل جنة حسنين اور جاننے کا تجھ کو بھلا کیا ہے انتظار

 

مَنْ کُنْت مُوْلَِاہ سے اشارہ کیا مطلوب

مُوْلَِاہ ُ میں ہ کون ؟ ہیں وہ حید ر کرار

 

گر حبِّ اہل بیت کو کہتا ہے رفض کوئی

سن لیں امام شافعی کے پھر اس پہ اشعار

 

حبِّ یزید میں آگے نہ بڑھنا کہیں اتنا

سر پر ہاں نواصب کی کہیں آئے نہ تلوار

 

شبیر ؔ کہاں بھول سکے سجدۂِ شبیر

بے ساختہ اہل بیت پہ جب آئے اس کو پیار

صرف علم کافی نہیں

صرف علم ہی کافی نہیں ہمت بھی ضروری

اور اس پہ ہمیشہ استقامت بھی ضروری

 

تعلیم سے ہم کو ملے رستے کا پتا تو

اس رستے پہ چلنے کی ہے حرکت بھی ضروری

 

رستے میں اگر راستہ روکے

تو اس سے اپنے آپ کی حفاظت بھی ضروری

 

کھائی اگر ہو کوئی رستے میں تو پھر تو

اس سے بھی بچنے کے لیے محنت ہے ضروری

 

کھائی تقاضے نفس کےہیں شیطان ہے ڈاکو

ہے ان سے بچنے کی صلاحیت بھی ضروری

 

تعلیم سے معلوم ہو شبیر، کریں کیا

تو اس کے لئے پھر ہے تربیت بھی ضروری

 

خانقاہیں اور مدرسے

خانقاہیں اگر درست نہیں ساری آج کل

مدرسے کیا ہیں سارے اہل حق پہ مشتمل

 

کھوٹے سکوں کا چلنا ہے دلیل کھروں کی

موجودگی کے ماحول میں ان کو دیکھنے تو چل

 

یہ مدرسے تعلیم کے پانے کے لیے ہیں

پر تربیت کے پانے کا مسٔلہ بھی ہو وے حل

 

اس کے لیے نظام بھی کچھ سوچ لینا ہے

اپنے بڑوں کو دیکھو کہ کیسے بنے کامل

 

جب علم ضروری ہے مدرسے بھی ضروری

خانقاہیں کیوں نہیں ہیں اگر چاہیےعمل

 

یہ ہی بڑوں کا راستہ ہے اس پہ چل شبیر

خطرے کی یہ گھنٹی ہے نہ یہ راستہ بدل

دل کی غفلت

منہ سے دل تک رستہ بالشت بھر

اور نجات اس پر ہے ساری منحصر

 

ہر وقت باتوں میں ہم مشغول ہیں

دیکھ لے غفلت ہے دل میں کس قدر

 

دل اگر اللہ سے مانوس نہیں

آۓ باتوں میں کہاں سے پھر اثر

 

قال تو ہے خوب پر ہو حال بھی

تاکہ چھلکے میں ملے ہم کو ثمر

 

شیخ کامل ڈھونڈ اور پھر اس کی مان

حکم سے پھر اس کی سرتابی نہ کر

 

دل بنادے اس طرح شبیرؔ تو

اور نفس کی اس طرح تو لے خبر

خود سے خطاب

تو بن جا خدا سے دعا کرنے والا

کہ وہ ہے ہر اک کو عطا کرنے والا

 

تو مایوس بن کے دعاسے رکے تو

اے بندے خدا کے ہے کیا کرنے والا

 

ہے ممکن کہ حالت تری یہ پسند ہو

اسے ہے پسند التجاکرنے والا

ا

خزانوں میں اس کے کمی تو نہیں ہے

ہے باطل کو حق سے جدا کرنے والا

 

حقیقی طلب کس کو ہے دیکھے اور کون

ہے حق بندگی کا ادا کرنے والا

 

نہیں دنیا یہ بس جگہ امتحان کی

تو بن اس پہ سب کچھ فدا کرنے والا

 

یہاں دکھ جو پائے وہاں سکھ بنے وہ

نہیں یوں ہی وہ مبتلا کرنے والا

 

وہاں عیش پر مبتلا کو جو دیکھیں

تو محروم بنے یوں صدا کرنے والا

 

اے کاش قینچی سے کاٹی جاتی جلد اس کی

مگر آج ہوتا ایسا کرنے والا

 

یہ دن زندگی کے ہیں چند بولے شبیر ؔ

بنوں اس میں اس سے وفا کرنے والا

 

 

عورت

اپنا عورت ہونا عورت اگر تسلیم کرے

اس کی فطرت ہی بہت کچھ اس کو تعلیم کرے

 

خدا نے جس کو بنایا ہے جیسے حکمت سے

وہی اچھا ہے ، ہے اچھا جورب کریم کرے

 

مرد بس مرد رہے اور ہوعورت عورت

یہی احساس معاشرے کی بھی تنظیم کرے

 

مرد مردانگی دکھلائے اسے کم نہ کرے

کمی مردانگی کی اسے قسیم کرے

 

اورعورت کا ہے کمال نسوانیت شبیر ؔ

یہی مطالبہ اس سے قلب سلیم کرے

 

اقبال

شناخت قوم کو اقبال نے بھی دی ہے عجیب

حق کھلا اس پہ تھے کیسے بلند اس کے نصیب

 

یہ تجلی تھی کسی دل کی جو اس دل پہ پڑی

وہ فلسفی تھا مگر عشق کا ہوا کیسے قریب

 

یدِ بیضا کے تصرف نے بدل ڈالا اسے

وہ تھا جو کچھ بھی مگر بن گیا وہ حق کا نقیب

 

کس طرح عشق رسول اس کو ہوا تھا حاصل

فکرِ فردا سے بنا میرِِ حرم کا عندلیب

 

پیر رومی سے مستفید مریدِ ہندی

بنا شبیر ؔ قلب و روح کے سوالوں کا مجیب

 

رومی

طریِق جذب کا اک ترجمان رومی ہے

اک معرفتِ ال ٰ ہی کا نشان رومی ہے

 

جو خود کو بیچ کے اللہ کے ہے پانے کا حریص

اپنے شیخ شمس تبریزی کی زبان رومی ہے

 

جو آگ تھی حبِّ ال ٰ ہی کی شیخ کے دل میں روشن

اس آگ میں تپ کے ایک تیغِ فساں رومی ہے

 

وہ جو نعرہ دل ِ اقبال سے زبان پر آیا

غور کرلو کہ اس میں بھی تو نہاں رومی ہے

 

اپنا دل دیکھ کے پرکھ لے مثنوی پہ شبیر ؔ

عالم ِ جذب کا کیونکہ پیرِ مغاں رومی ہے

 

اقبال اور خودی

کہا اقبال نے جس کو خودی وہ بننا رب کا ہے

کہ اس کا سر ِ نہاں خود یہ کہتے ہیں کہ کلمہ ہے

 

بقول اس کے خود ی کو جو بھی کرتے ہیں بلند ان سے

خدا پوچھے ہے ہر تقدیر میں ان کی رضا کیا ہے

 

خدا کا بندہ بننے سے خدا بنتا ہے اپنا کہ

جو اللہ کا بنے فرمایا کہ اللہ بھی ا س کا ہے

 

تو رومی بے خودی کے واسطے کوشش کے قائل ہیں

کہ جوکوشش کرے اس کی وہ اپنے آپ کو پاتا ہے

 

خودی کا لفظ اور معنیٰ جدا لگتے ہیں آپس میں

ذہن نافہم لوگوں کا غلط سمت میں جاتا ہے

 

تو کیوں نہ لفظ بھی لیں پیر رومی سے ہم اس واسطے

کہ لفظ یہ بے خودی معن ً او لفظا ً ایک آتا ہے

 

مرید ہندی کے تحقیقات میں لفظ بے خودی لانا

ہمیں قرآن و سنت سے سہولت سے ملاتا ہے

 

جب وحدت کے شہود کے ساتھ وجود کا ہے بدلنا درست

کوئی شبیر ؔ اس تغییر پہ شور کیوں مچاتا ہے

 

 

 

 

 

 

 

اقبال کی خودی

خودی ہے کلمہ ٴِ توحید سے ماخوذ اگر

تو خود کو چھوڑ کے اس کا ہو بننا اس کا اثر

خودی کے لفظ کا تطبیق معنی ٰ سے مشکل

اس میں عنقا جو ہے تطبیقِ باطن و ظاہر

عورتوں کی تعلیم

تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر

تعلیم صرف وہی ہو اچھا جس کا ہو اثر

 

کیا وہ جو شریعت سے بھی آزاد کرے ہے

جانے وہ اپنے نفس کی ہر اک بات معتبر

 

تعلیمِ دین عورتوں کو دینا ضروی

پر ایک بات پر ہے ضروری بہت نظر

 

ہو تربیت بھی ساتھ کہ بن جاۓ ان کا دل

ورنہ رکھیں کم اپنی نظر میں اپنا شوہر

 

جو فرض علم ہے اس سے تو غفلت کہیں نہ ہو

فرضِ کفایہ پر نہ رہے زور اس قدر

 

ہر چیز اعتدال پہ رکھنا ہے اے شبیر

مل جاۓ تاکہ تجھ کو ہر اک چیز کا ثمر

 

 

تعلیم اور جہالت

 

تعلیم جو اللہ سے آزاد کرے ہے

اور آدمی کے دل کو وہ برباد کرے ہے

 

تعلیم جو ایسی ہو جہالت اس سے اچھی

شیطان کو جس میں کوئی استاد کرے ہے

 

تعلیم جو مذہب سے ہی بیزار کرے وہ

شیطان ہی کے دل کو اس سے شاد کرے ہے

 

سائنس میں دین کی نہ ضرورت کوئی سمجھے

اور دین میں سایٔنس سے وہ عناد کرے ہے

 

تعلیم جو اللہ کا بناۓ کسی کا دل

شبیرؔ کا دل اس پہ صرف صاد کرے ہے

 

مایوسی کا علاج

مایوسیوں کی فضا چھائی ہے

شمع امید کی ڈگمگائی ہے

 

بچا بجھنے سے اسے اس ہوا سے

بجھانے واسطے جو آئی ہے

 

ہمارا آسرا خدا ہے صرف

نہ کہ ظاہرکی یہ خدائی ہے

 

ہم اگر اب خدا کے بن جائیں

بہت قریب رہنمائی ہے

 

جو ہمیں راستہ دکھاۓ گی

بات ایسی سمجھ میں آئی ہے

 

سستی اسباب میں کرو نہ شبیر

پھر دعا کر یہی دہائی ہے

 

T

 

نظر کی حفاظت

نظر کی حفاظت بہت ہے ضروری

بدوں اس کی ہوتی خدا سے ہےدوری

 

نظر آئے سوچے کہ دیکھا نہیں ہے

ہاں قصداً نہ ڈالے یہ کوشش ہو پوری

 

اگر آۓ سامنے کوئی غیر محرم

ہٹا دے نظر تو بنے اس سے نوری

 

نظر کا جھکانا یہ سیکھوگے تب ہو

یہ چلنا ہے دین پرنہ کہ کھانا چوری

 

اگر دل شبیرؔ اس بلا سے بچا لے

ملے باآسانی مقام حضوری

 

 

صورتِ دین میں دنیا کی طلب ؟

دیں میں جن کو بھی حرام سے احتیاط نہیں

یہی وجہ ہے کہ خدا بھی ان کے ساتھ نہیں

 

یہ شہرتوں کے سمندر میں ڈوب جانا ہے

جو شوقِ غیر میں اس کا شوقِ ملاقات نہیں

 

ہم مکلف تو صرف جائز طریقوں کے ہی ہیں

کیونکہ ممنوع کبھی باعث نجات نہیں

 

صورتِ دین میں دنیا کی طلب ؟ اف کیسی

ہے کیا یہ دین ؟ جو مطلوب اس کی ذات نہیں

 

میں بینروں پہ جو تصویرِ مولوی دیکھوں

جو ہونی ان میں ہے سمجھوں کہ اب وہ بات نہیں

 

مرے اشعار تو ناراض کرے ہیں شبیر ؔ

کيا دن کو دن نہ کہوں؟ رات کو میں رات نہیں؟

اغیار کے طریقے

اغیار کے طریقے ہمیں مار رہے ہیں

یہ اس لیے کہ دل کے جو بیمار رہے ہیں 278

 

روز ان کی سازشوں کا گلہ سنتے ہیں رہتے

کیا ان کی طرح ہم کبھی بیدار رہے ہیں 279

 

کرتے ہیں جو زخمی اپنی تلوار سے ہم کو

لینے دوا کے ان سے خواستگار رہے ہیں 280

 

اے کاش کچھ کریں بھی کبھی عقل استعمال

آبا ہمارے کتنے سمجھدار رہے ہیں

جن کو مفاد اپنے ہوں ملک سے عزیز تر

اپنے بھی ہوںوہ خنجر ِ اغیار رہے ہیں 281

 

عاقل کبھی دشمن سے نہ مانگیں رحم کی بھیک 282

لڑنے کے لئے اس سے وہ تیار رہے ہیں

 

ہوتا ہے مو ٔ منوں کا بھروسہ خدا پہ ہی

وہ حبِّ ال ٰ ہی سے جو سرشار رہے ہیں

ڈھونڈ ایسی قیادت اب اپنے واسطے شبیر ؔ

جو حق کے راستے کے شہسوار رہے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دل کی اصلاح

 

جسم میں گوشت کا اک لوتھڑا ہے ہو سب کچھ ٹھیک اگر وہ ٹھیک رہے

اگر یہ ہو خراب اس کی خرابی سے کوئی بھی عضوبالکل نہ بچے

یہی لوتھڑا جسم کا قلب ہی ہےتو اس کا خیا ل بہت رکھنا ہے لازم

ہو ممکن جتنا بھی جلدی سے اس کا بہت لازم ہے کہ اصلاح کرے

 

 

دعویٰ اچھائی کا ہم کیسے کریں

غلطیاں ہر آن پے درپے کریں

دعوی ٰ اچھائی کا ہم کیسے کریں

 

نفس اور شیطان جب موجود ہے

ہم بھروسہ کس طرح خود پہ کریں

 

ہوگیا مردود شیطاں کس وقت

کیا خبر ہم لاکھ بھی سجدے کریں

 

گر عمر سمجھیں منافق خود کو تو

کیسے ہم محفوظ کے دعوے کریں

 

ہم ہیں غافل اور قوانین ہیں اٹل

دل کو ہم بیدار تو پہلے کریں

 

ہم صحابہؓ کے غلاموں میں رہیں

پیروی میں کام ان جیسے کریں

 

بخش دے ہم کو خدا ان کے طفیل

اور شبیر ؔ کے معاف گناہ سارے کریں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عجز کے برکات

اپنی تقصیر ماننا آسان اس سے انکار مشکلات کی جڑ

گر گناہوں میں پھنس گیا ہے تو، رکنا فوراً اس سے اور آگے نہ بڑھ

خود کو بالا سمجھ کے ٹوٹ جانا اور ہر اک خیر سے محروم ہونا

اس سے بہتر ہے عاجزی کرکےسیڑھیاں رفعتوں کی خوب تو چڑھ

مہربانی

دل میں موجود مہربانی ہو

یہ سمجھنے میں پھر آسانی ہو

 

ہم خطا کار جب ہیں سب پھر کیوں

جو خطاکار ہیں ان پہ گرانی ہو

 

جس کو ہو یاد بندگی اپنی

اپنے دعوے پہ پھر حیرانی ہو

 

کوئی بھی جانے حقیقت اپنی

شرم سے خود ہی پانی پانی ہو

 

دل سے بن جاۓ اس کا جلد از جلد

گر عاقبت اپنی بچانی ہو

 

دل مرا نفس پہ حکمراں ہو شبیر

اور دل پہ اُس کی حکمرانی ہو

 

 

 

غصہ

سوچ لے کچھ تُو کہ کتنی ہے حماقت غصہ

نفس کے جہل و سفاہت کی علامت غصہ

 

غلطیاں دوسروں کی اور سزا تجھ کو ہو

کتنا نقصان کرے تیری یہ حرکت غصہ

 

وقت پہ عقل نہ ہو بعد میں پچھتاوہ ہو

کہنا ہےٹھیک کہ ہے کوئے ملامت غصہ

 

جو طریقے سے ہو اک بات دل کو موم کرے

اور کتنی ہی بہا لے جائے محنت غصہ

 

تجھ کو دشمن کی ضرورت نہیں کچھ اور شبیر ؔ

بات کرنے میں اگر تیری ہے عادت غصہ

 

احساسِ کمتری

لعنت ہے اور عذاب ہے احساسِ کمتری

موجود اگر یہ ہو تو عنقا ہو بہتری

 

دوسروں کی بری چیزیں بھی اچھی نظر آئیں

اچھائیاں اپنی نظر آتی ہیں پھر بری

 

دشمن نے ہم کو اس کا بنایا جو ہے مریض

تو کیسے ہو سکیں پھر ان کے سامنے ہم جری

 

اس پوری کائنات میں اچھے جو سب سے ہیں

دیکھیں ہم ان کو خوب، نہ ہو یوں ہی سرسری

 

تب فرق نظر آئے پھر اچھے میں برے میں

ہر شاخ نظر آئے کہ وہ خشک ہے یا ہری

 

جو کان شکار احساسِ کمتری کے ہوں شبیر ؔ

منہ ان میں رکھ کے خوب سناو ٔ کھری کھری

حرص

مان لینا حرصِ دنیا نہ کرو

اپنے ہاتھوں خود کو تباہ نہ کرو

 

امُ الامراض ہے یہ اس میں کبھی

اس لیے خود کو مبتلا نہ کرو

 

اس کی بیماریاں بہت سخت ہیں

پیچھے ہو اس طرف بڑھا نہ کرو

 

اتنی تھوڑی عمر اور طولِ امل

لمبے منصوبے بنایا نہ کرو

 

جان نکلنے میں دیر لگتی نہیں

بوجھ اتنا بھی اٹھایا نہ کرو

 

آخرت اچھی ہے اور باقی بھی

اس کو غفلت سے یوں چھوڑا نہ کرو

 

حرص شبیر ؔ دین وعلم اچھی

ہاں جودنیا کی ہو کيا نہ کرو

 

اللہ پہ بھروسہ

کرتے ہیں جو ہر حال میں اللہ پہ بھروسہ

ان کا نہیں کم ہوتا کسی وقت بھی حوصلہ

جس کے ہم مکلف ہیں کئے جائیں ہم وہی

اور اس میں پھر اللہ کی مدد کا ہو آسرا

ریا

بے وقوفی سے عبارت ہے ریا

کتنی فضول حماقت ہے ریا

 

تیرا ہر معاملہ خدا سے ہے

پھر تری کیسی یہ حرکت ہے ریا

 

کوئی انسان تجھے کیا دے دے گا

بنتی کیوں تیری یہ محنت ہے ریا

 

وہ قدردان ہے اعمال کا جب

تُف ہے اس پر بھی جو عادت ہے ریا

 

دل سے اب غیر کو نکال دینا

بنتی یہ غیر کی محبت ہے ریا

 

رد ہوں اعمال سارے اس کے ساتھ

ایسا کوچہ ٴِ ملامت ہے ریا

 

اب خدا دل سے تو شبیر ؔ پہچان

جو بھی اس سے ہے جہالت ہے ریا

 

 

 

 

 

 

 

دنیا آخرت کی کھیتی

محبت کر نہ دنیا سے نہیں یہ چیز محبت کی

یہ کھیتی آخرت کی البتہ ہے اس کی محنت کی

ہر اک لمحہ ہر اک پیسہ جسم کا بال بال اس میں

لگالو راہ حق میں خوب یہ باعث ہے جنت کی

کینہ ایک عذاب

کینہ ہے دل میں تو تری حالت خراب ہے

دعا قبول ہونے سےجب یہ حجاب ہے

 

ہے مغزِ عبادت جب دعا اور قبول نہ ہو

پھرآپ کے ساتھ باقی رہا کیا جناب ہے

 

تو دل کو تنگ نہ کر جہاں جب اس کا ہےوسیع

دل صاف رکھنا، فضل اس کا بے حساب ہے

 

بن اب خدا کا تو اور کسی اور کا نہ بن

وساوسِ شیطاں کا یہ اچھا جواب ہے

 

غصہ نکالنا ہو اپنے نفس پہ نکال

کینہ شبیر ؔ اس کا ہی تو پیچ و تاب ہے

 

بزرگی

اس کو سنا بہت ہے مگر کیا ہے بزرگی

کتنے ہی سالکوں کی تمنا ہے بزرگی

 

سچ مچ اگر ملے تو ہے یہ نور کا ہالہ

جو جھوٹ سے سمجھے تو اندھیرا ہے بزرگی

 

شیطان کے تیروں میں یہ زہریلا تیر ایک

اور نفس کے سفلہ پن کی اک ادا ہے بزرگی

 

جو بھی بنے بزرگ سمجھے خاک وہ خود کو

کچھ بھی نہ ہو تو اس کا ہی دعوی ٰ ہے بزرگی

 

اپنی ہی بزرگی کا ہو قائل وہ ہے محجوب

محبوب بنے جس کی بھی فنا ہے بزرگی

 

خود پہ نظر ہو کیسے اگر یار دل میں ہو

طالب نہ ہو تو دل کا تماشا ہے بزرگی

 

تعجیل اس کو شیخ سے کرے ہے بد گماں

راہِ سلوک میں جس کا مدعا ہے بزرگی

 

اک شیخ پہ اعتماد ہی اس کا علاج ہے

بیماری اگر کوئی سمجھتا ہے بزرگی

 

شبیر ؔ اس کا فضل ہی مجھ کو بچائے گا

مہلک مرض بہت ہے یہ سنا ہے بزرگی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تصنُّعْ سے بچنا

میں کہوں کہ میں ترا عاشق ہوں ایسا کہنا تو ہے نہیں کہنا

تو کہے یہ ہے مرا عاشق اک یہی کہنا تو ہے اصلی کہنا

 

میں کہوں میں ترا بندہ ہوں اک ایسا کہنا مرا کیا کہنا ہے

تو کہے یہ مرا بندہ ہے اک سچ اگر ہے تو ہے یہی کہنا

 

میں کہوں میں مراقبے میں ہمیش اس سے ملتا ہوں روز روز تو کیا

تو کہے مل مجھ سے ہے وقت اس کا، حق ہے صحیح ہے بس یوں ہی کہنا

 

یہ کہوں رات کو میں اس کے لئے روز اٹھتا ہوں اپنے بسترسے

بات یہ ہے کہ تو کہے اب اٹھ ٹھیک پھر ہے وہ مرا بھی کہنا

 

تو ہے سچا مجھے سچا کردے اور سچے مرے احوال بھی ہوں

میں بچوں ہر قسم تصنع سے ہو جو واقعی تو ہو وہی کہنا

 

نفس کے جال بہت سخت ہیں شبیر ؔ کھولنا ان کا ہےبہت حکمت سے

بات مضبوط مگر کرنی ہے ہو نہ بس یوں ہی سرسری کہنا

تاریک راہوں کے مسافر

مرکوز کر نظر کچھ اس جائے امتحاں پر

اور سوچ کچھ ذرا اب زیر نظر عنواں پر

 

تاریک منزلوں کو تاریک راستوں پہ

چلتے ہوئے جو جائیںپہنچیں گے وہ کہاں پر

 

ہوں زہر کے شیدائی ا ور اس کے ہوں فدائی

اور اس کو لے کے گھر گھر پھیلائیں کل جہاں پر

 

دشمن ہیں روشنی کے اور چاند کی چاندنی کے

پھونکے بجھانے ماریں ہو چاند آسمان پر

 

یہ عقل کے دشمن ہیں اور دشمن گلشن ہیں

کتنا انہیں غص ّ ہ ہے گلشن کے باغباں پر

 

یہ حق سے منہ ہیں موڑے باطل سے ناطہ جوڑے

ان کی نظر بری ہے ہر حق کے آستاں پر

 

بدبخت یہ کہیں کے پاگل ہیں یہ وہیں کے

ہر خیر کے دشمن یہ بیٹھے آتش فشاں پر

 

دنیا کے وسائل پر قبضے پہ یہ مائل ہیں

داعی ہیں تباہی کے بدبخت یہ یہاں پر

 

اسبابِ معیشت پر قبضہ جماے ٴ بیٹھے

محوِ نظر ہیں ہر وقت ہر خیر کے زیاں پر

 

زن زر کو ساتھ لے کےیہ بے حیا کہیں کے

حاوی یہ ہونا چاہیں ہر پیر ہر جواں پر

 

آلے بے حیائی کے روز روز بڑھائیںیہ

مرکوز نظر ان کی ہروقت مسلماں پر

دولت سے مسلماں کی مسلم کو روز ماریں

مسلم جو جانتے ہیں گزرے کیا ان کی جاں پر

 

مسلم عوام چیخے اِس لوٹ کے عالم پر

جوں تک مگر نہ رینگے کچھ گوش ِ حکمراں پر

 

تاریک راستوں پہ دوزخ کے یہ راہی ہیں

جنت ہے ان کی دنیا بھگتیں گے اُس جہاں پر

 

یہ جانتے سب کچھ ہیں کینہ حسد کے مارے

سبقت ہی لے گئے ہیں اِس میں تو یہ شیطاں پر

 

الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ ہیں یہ ٹھیک بھلا کیا ہوں گے

تو خود کو بچا لینارکھ کر نظر قرآں پر

 

اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ کو پہچاننا سیکھو اب

کچھ وقت لگالینا اب ان کی تو پہچاں پر

بس چار ہی قسمیں ہیں ان میں تو لا کے بولو

ہیں انبیاء صدیقین اور شہداء زباں پر

 

اور صالحین بھی ان میں شامل ہیں بھائی مسلم

موجود ہیں یہی بس صحبت کو اِس زماں پر

 

بس اِن کے ساتھ رہنا تیرا کمال ہوگا

الضَّآلِّیْن نہ ہوجانا سوچو اب اس بیاں پر

 

الضَّآلِّیْن کو سمجھانا ترے ذمے رکھا ہے

روشنی انہیں دکھانادلیل اور برہاں پر

 

جو مان لیں گے ان میں وہ دوست ہیں ہمارے

کتنے لگیں گے پیارے پھر حق کے گلستاں پر

 

وہ حق اگر نہ مانیں آئیںاگر مٹانے

مینار ِ حق کو وہ گر ، پکڑیںپھر ہم وہاں پر

 

یہ وقت ِ معرکہ ہے جو حق کا فیصلہ ہے

لازم شبیر ؔ ہے یہ سب گروہ مومناں پر

 

پیسہ

آج کے دور کی دوستی کا ہے عنوان پیسہ

کسی کی ناک کسی کا پیٹ کسی کا جان پیسہ

 

لوگ پیسے میں اطمینان کو دیکھتے ہیں مگر

بھلا دیتا ہے کبھی دل کو اطمینان پیسہ

 

لوگ پیسے کے لیے بیچ دیتے ہیں عزت بھی

اور لذات کا سمجھتے ہیں سامان پیسہ

 

لذتیں خاک ہوں پیسے کی فراونی میں

جن کو مطلوب ہو ہرحال میں ہر آن پیسہ

 

ہر طرف پیسے کی تشہیر نظر آتی ہے

کیا ہے وہ اصل میں اس پہ تو ہےحیران پیسہ

 

پیسے پیسے کے لیے ناک رگڑتے ہیں لوگ

آخرت بھول گئے ایک ہے ارمان پیسہ

 

ایک نسخہ ذرا دیوانے کا بھی یاد رکھیں

دل کے زخموں کا کبھی بھی نہیں درمان پیسہ

 

اس سے کچھ آگے بڑھاو ٔ گے تو کچھ فائدہ ہو

اور صرف ساتھ ہی رکھوگے ہے نقصان پیسہ

 

جو کہ حاصل نہ ہو تجھ کو یہ بطریق جواز

اس کو تو چھوڑ دے کردے وہ پریشان پیسہ

 

یہ جب حلال طریقوں سے تجھ کومل جائے

پھر صحیح خرچ بھی ہو تب ہو مہر‏ با ن پیسہ

 

اللہ صدقے کو بڑھاتا ہے مٹادیتا ہے سود

اس سے سمجھو کہ کیا سمجھاتا ہے قرآن پیسہ

 

دیکھ قارون کے انجام سے عبرت پکڑیں

کہ کچھ نہیں تھا مگر اس کا تو تھا ایما ن پیسہ

 

حلال رزق بھی زکو ٰ ۃ سے محفوظ بنے

ورنہ غفلت سے اچک لیتا ہے شیطان پیسہ

تین دفعہ اس سے خریدی جنت جس نے ہے شبیر ؔ

کیوں نہیں دیکھتے کیا سمجھتے تھے عثمان پیسہ

 

 

 

 

 

تبذیر اور اسراف

رب نے گر کردیا عطا ہےتجھے اور ترے پاس ہے وافر پیسہ

بے شک شیطان کے وہ بھائی ہیںجو بے دریغ خرچ کریں بے جا

اس میں اسراف بھی پسند نہیںرب کوجس کی عطا ہے یہ ترے پاس

اس میں احکام اس کے معلوم کر اور عمل تیرا اس پہ ہو ویسا

 

خود پسندی

کرے اعمال جو ضائع وہ خود پسندی ہے

سوچ نتیجے پہ کہ عادت یہ کتنی گندی ہے

 

کاش دل میں ہو وہ پانے کی آرزو ہو اس کی

بجاے ٔ پستی کے قسمت میں پھر بلندی ہے

 

تو اگر غوث بھی ہے آنکھوں میں اپنی کیا ہوا

بھول جا خود کہ یہی تو عقلمندی ہے

 

اس کی نظروں میں رہوں ٹھیک وہ دیکھتا ہے مجھے

خودپسندی کی یہ خواہش بہت ہی اندھی ہے

 

جو کماؤ وہ کسی حال میں ضائع نہ ہو پھر

سن لے شبیر ؔ کہ بس یہ ہی ہنر مندی ہے

 

 

نفس کیا ہے؟

نفس بچے کی طرح نادان ہے

اس لئے ضد میں یہ نافرمان ہے

 

تربیت اس کی اگر ہوجائے تو

پھر یہ ساری خوبیوں کی جان ہے

 

یہ بگڑ جاۓ تو جانور سے بد تر

ٹھیک ہو پھر کیا یہ خوب انسان ہے

 

یہ نہیں جانتا مری خیر کس میں ہے

اس پہ طرہ یہ کہ ساتھ شیطان ہے

 

جو کہ جانے نفس کو وہ عارف بنے

جاننا اس کا شبیرؔ عرفان ہے

 

غضب

ہے غضب طاقت جو دشمن کے مقابل ہو چلے

اور اس میں بھی شریعت کے مطابق ہو رہے

 

اتنا غصہ کرنا اس پر جو ترے قابو میں ہے

جس کے تو قابو میں ہو برداشت اس کی کر سکے

 

ہاں مگر مغضوب ہو جو اللہ کا تیرا بھی وہ ہو

دوستی دل کی نہ ان کے ساتھ تو کوئی رکھے

 

جب غضب سے ہم نے پوچھا تو کہاں ؟ تو یہ کہا

سر میں ہوتا ہوں کوئی غصے کی صورت جب بنے

 

یہ کہاجب سر میں ہوتا عقل ہے تو تو کہاں

تو کہا آؤں میں جب تو عقل سر کو چھوڑ دے

 

جو علاج اس کا اصل ہے وہ ہے تکمیل سلوک

عارضی کچھ ہیں طریقے جس سے خطرے سے بچے

ہو کھڑے تو بیٹھ جاۓ بیٹھے ہو تو لیٹ جاۓ

اور غصہ پھر بھی نہ جاۓ اس وقت پانی پیٔے

 

سامنے آۓ نہیں مغضوب کے جب ہو بڑا

جس پہ ہو قابو تو اس کو سامنے آنے نہ دے

 

نفس کی مانو تو منواتا ہے یہ پھر اور بھی

اور دباؤ اس کو جتنا تو تو یہ اتنا دبے

 

یہ بڑا شیطان کا ہتھیار ہے شبیرؔ دیکھ

ہو غصہ بےجا تو فوراً مانگ پناہ شیطان سے

 

 

 

 

 

 

 

حسد

یہ دل میں حسد کی جو آگ ہے بجھادو

وجہ اس کی جو بھی ہے اس کو بھلادو

 

جلا دے گا یہ نیکیوں کا خزانہ

تباہی سے خود کو وہاں پر بچادو

 

جسے اللہ دے دے مرا کیسا حق ہے

کروں اعتراض اس پہ نفس کو بتادو

 

وہ لیتا ہے اس سے میرا کیا ہے جاتا

تصور یوں دل میں اب ایسا جما دو

 

یقین تیرا بن جاۓ اس کے ہی دیں پر

کوئی کُشتہ ایمانی دل کو کھلادو

 

جو محسود تیرے ہیں ان کے لیے تو

نہ بن بدخواہ بلکہ تو ان کو دعا دو

 

نکالو جو غیر گھس گیا تیرے دل میں

کرو ذکر خوب اس کو دل میں بسا دو

 

وہ اغیار کے نقشے ترے دل میں جو ہیں

انہیں ایک ایک کرکے دل سے مٹادو

 

جو دیکھے تو نعمت کسی پہ خدا کی

تو کہہ ماشا اللہ یہ خود کو سکھا دو

 

تو چیزوں سے دل کو نکالو تُو شبیر

ہے جس کا یہ دل تو اسی سے ملادو

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

غیبت

تجھ کو گر چاہیے غیبت کرنا

اس کا مطلب ہے حماقت کرنا

 

اپنے دشمن کو نیکیاں دینا

خود کو تنگ روزِ قیامت کرنا

 

مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے یہ

تُف ہے پھر بھی ایسی حرکت کرنا

 

ہووے شروع تو بدل دے موضوع

اس پہ ہو تھوڑی سی محنت کرنا

 

اس سے ہے روکنا زبان شبیر

نہ کبھی اس کی سماعت کرنا

 

کبر کی نفی

خود کو جو کوئی بھی بڑا سمجھے

کبر میں دل کو مبتلا سمجھے

 

بندے کو کبر راس آتا نہیں

اس لئے خود کو وہ تباہ سمجھے

 

جس کو آۓ نہیں سمجھ یہ تو

ایسے جاہل کو پھر خدا سمجھے

 

ہم حقیقت میں دیکھیں کچھ بھی نہیں

کوئی بر خود غلط یہ کیا سمجھے

 

کبر جب ہو تو نظر آۓ نہیں

اور نہ ہو تو اسے بلا سمجھے

 

ہم کو شبیرؔ نظر آۓ جو خود میں

تو اسے اس کی ہی عطا سمجھے

 

دنیا دوست کی دوستی

نہ رکھنا دوست ان کو جو بھی دنیا دوست رکھتے ہیں

کہ جن کا دوست ہو کوئی وہ ان کے ساتھ چلتے ہیں

 

جو دنیا دوست رکھتے ہیں تو چاہے تجھ سے وہ دنیا

زبانی گو بہت زیادہ ہی تیرا دم وہ بھرتے ہیں

 

کہاں تیرا بنے گا وہ تو ترجیحات کو دیکھو

ترا کیا خیال رکھے گا وہ جو دنیا پہ مرتے ہیں

 

ہے ممکن چوس لے تجھ کو، نہ رس باقی رہے تجھ میں

گرا دے پھوک کے مانند تجھے، ایسا وہ کرتے ہیں

 

جو سارے مؤمنوں کا دوست ہے بن تو بھی اس کا دوست

بغیر اس کے مقدر پھر کسی کے کیا سنورتے ہیں

 

جری بن، وہ اگر تیرا ہے، کیا پرواہ شبیرؔ تجھ کو

ڈرے اس سے جہاں سارا کہ جو بھی اس سے ڈرتے ہیں

نفس اور شیطان

نفس اپنا بہت ہی ناداں ہے

بہت ذہین ہے جو شیطاں ہے

 

دھوکہ دینے پہ یہ تلا ہے ہمیش

اور مرا نفس اس کا میزباں ہے

 

دونوں یہ مل کے مجھ کو مارتے ہیں

اور مرا روح اس پہ نوحہ کناں ہے

 

نفس مرا داؤ میں شیطان کے آۓ

نفس میں شیطانیت تبھی جواں ہے

 

نفس پہ پیر رکھ کے ذکرکرنا

علاج میرا اس میں ہی نہاں ہے

 

یہ دونوں کام بہت آساں ہو شبیر

گر میسر تجھے پیر مغاں ہے

 

جھوٹ بولنا

جھوٹ بولنا جو بری عادت ہے

اس کے بولنے کی کیا حاجت ہے

 

جھوٹ پہ بچنا بے عزتی سے کیوں ؟

پڑتی اس سے خدا کی لعنت ہے

 

جھوٹ بولنا مذاق میں بھائی

کچھ تو سمجھو بڑی حماقت ہے

 

جھوٹی عزت کے لیے جھوٹ بولنا

وادی شر میں اک سیاحت ہے

 

سچا اللہ کو جب پسند ہے شبیر

سچ بولنا پھر بڑی طاقت ہے

 

 

بےصبری

کیسے بے صبری سے تکلیف ہو دور

ہے مگر صبر کی درخواست منظور

 

اللہ جب ساتھ صابرین کے ہے

صبر سے ملتا معیت کا ہے نور

 

مانگنا صبر اور نماز سے ہو

دیتا اللہ ہے اس کا ہے دستور

 

صبر تکلیف پہ ذریعہ ثواب

ہاں مگر مانگنا عافیت ہے ضرور

 

صبر والوں کے ساتھ رب ہے شبیر

ہوتی ان کی ہے تب مدد بھرپور

 

 

کینہ

ترے دل میں اگر یہ کینہ ہے

جس سے تاریک تیرا سینہ ہے

 

اس کی تاریکی کو تو دیکھ لے گا

دل کی گر آنکھ تری بینا ہے

 

دل کے امراض میں مرض ہے ایک

اور بد بختی کا اک زینہ ہے

 

دل میں رکھا ہے نفرتوں کا جب

گم گشتہ قصہ پارینہ ہے

 

ہو خبردار بدولت اس کے

ڈوبنے کو ترا سفینہ ہے

 

جو دعا آسرا ہے اپنا شبیر

یہ بھی ٹوٹے تو پھر کیا جینا ہے

 

 

تکبر

تجھ سے کوئی پوچھے اگر کہ کیا ہے تکبر

تو یہ کہے کہ آگ کا شعلہ ہے تکبر

 

گر کچھ بھی میسر نہ ہو خدا کی محبت

تو اس کے نہ ہونے کے ہی سزا ہے تکبر

 

شیطان بھی مردود ہوا اس کی بدولت

وہ آگ ہے اور آگ سے پیدا ہے تکبر

 

کیسے کوئی اپنے کو یہ سمجھے کہ بڑا ہے

بس نفس کی حماقت کی انتہاء ہے تکبر

 

اندر ہمارے جسم کے ہر چیز ہے گندی

ہے گند گر بڑا بڑا گندا ہے تکبر

 

نیچے کئے ہوئے ہیں سر جن کو ہے کچھ سمجھ

جو بے سمجھ ہیں ان کا ہی شیوہ ہے تکبر

 

یارب شبیر ؔ مانگتا تجھ سے ہے عاجزی

کتنی بڑی خدایا ابتلاء ہے تکبر

 

 

 

هُو

دل میں میرے آۓ هُو نین میں میرے سماۓ هُو

آنکھ جس جانب دیکھے میری ہر طرف وہ پاۓ هُو

 

دل میرا اب اس کے پاس دل میرا اب اس کے پاس

مجھ پہ رحمت اس کی کہ اب خود ہی اسے چلاۓ هُو

 

هُو تو اب هُو ہی ہے اب تو هُو سے اس کو ہی پاؤں

هُو اللہ اور اللہ هُو کا ذکر مجھ سے کراۓ هُو

 

اس کا دشمن میرا دشمن توڑنا اس سے چاہے جب

جال بچھاۓ میرے واسطے اس سے نکلواۓ هُو

 

نفس اور شیطاں اپنے اپنے جالوں میں پھنساۓ ہیں

گتھیاں سلجھانے میں مشکل ہومجھے سمجھاۓ هُو

 

کوئی چاہے جب میں بولوں بولنا مجھ کو آۓ نہ

میں چپ کہ کیا بولوں لیکن بات خود ہی بولواۓ هُو

 

آگے پیچھے جانوں نہیں ماضی حال اور مستقبل

میری نظر محدود میں اندھاسب کچھ خود دکھاۓ هُو

 

کان پڑی سنائی نہ دے اس شور دنیا میں جب

کان مرے سنتے ہیں کچھ تو اپنی بات سنواۓ هُو

 

نام محمد جن کا ان کی امت میں پیدا کیا

ایسے من کے پیارے پہ شبیردل بولے ہاۓ هُو

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تصوف کے سلسلے

سلسلے سارے تصوف کی نور کی راہیں

اس سے سب طالبانِ حق ہی ہدایت پائیں

ایک منزل پہ پہنچنے کے ہیں رستے مختلف

جو مناسب ہو کسی کے لیے اس پر جائیں

 

 

صدقات دافعِ بلیات

دفع بلاؤں کو کرتے ہیں یقیناً صدقات

اپنے مالوں میں ہے لازم دینا ہر سال زکوٰۃ

 

ہیں جو نصاب کے مالک کریں وہ شکر ِ خدا

نہیں ہیں لینے کے، دینے کے ہیں ان کے حالات

 

کہا خدا نے صدقات کو بڑھاتا ہے وہ

دیکھنا ان کے ذرا غور سے چشم دید برکات

 

پانی کھڑے کھڑے تالاب میں خراب ہو وے

چشمہ بن، آگے کرو جو ہے ، اور آۓ سوغات

 

شکر کر نعمتوں کو شکر سے محفوظ کرلیں

نقلی خیرات سے ملے تجھ کو بھی اصلی خیرات

 

اس کے برعکس مٹا تا ہے جو مال سود کا ہو

ان کے چہروں پہ نظر آتے ہیں دور سے ظلمات

 

چاہتا رب ہے مؤمنوں میں خیر خواہی ہمیش

ہاں مگر طعنہ زنی اور جتلانانہ ہو ساتھ

 

کسی نادار کی دعا کہاں پہنچاۓ تجھے

یاد رکھنا شبیرؔ ہر وقت یہ ضروری بات

 

 

 

 

 

 

 

 

مال کی فنا اور بقا

مال محفوظ آگے کرکے کر

ہو نہ بیباک اس سے ڈر کے کر

فانی مال تیرا باقی بن جاۓ

اس سے پھر خوب مزے مر کے کر

 

اختتامی دعا

 

اپنا پیغامِ محبت قبول ہوجاۓ

جو پڑھے اس کو اس پیغام میں ہی کھوجاۓ

 

دل میں ہو تیری محبت کا بسیرا اس سے

یہ ترے عشق کو ہر مؤمن کے دل میں بو جاۓ

 

یہ مؤمنوں کے جگانے کا ذریعہ بھی بنے

جاگ اٹھے اس سے دل کسی کا اگر سو جاۓ

 

اس سے دل میں تری حب کی ضیاء ہو روشن خوب

حبِّ دنیا کے اثر کو یہ دل سے دهو جاۓ

 

رہنما اس کو بناۓ خدا شبیرؔ ان کا

لینے خدا کی محبت کا تخفہ جو جاۓ

 

 

محبت کی پڑیا

کہا بتاؤں طریقہ آسان اصلاح کا

کہا ضرور کہا کھا ئیے حب کی پڑیا

یہ محبت کی دکانوں سے ہی ملے گی تمہیں

جو پوچھا یہ کہاں سے؟ اس پہ یہ جواب ملا

خانقاہ میں پناہ

پناہ خانقاہ میں جا کے لینا امان دنیا سے گر تو چاہے

اگر ہو روز روز نہ ایسا ممکن تو آنا جانا ہو گاہے گاہے

جو زخمی دنیا کے وار سے ہوں آرام آئے نہ نفس کے مارے

تو مل لے خانقاہ میں شیخ سے تو وہ رکھے زخموں پہ تیرےپھائے

طریقِ جذب

نگاہِ شمس کا اثر دیکھو

رومی بسمل ہے کچھ ادھر دیکھو

قال کو گر حال سے بدلنا ہو

طریقِ جذب کو طے کر دیکھو

حسنِ ازل اور حسنِ عارضی

کرنی ہمت ہے جہاں تک بھی ہے انسان کا بس

حسن پرستی ہے جال یاد رکھ شیطان کا بس

اُس طرف خالقِ حسن و جمال کا دیدار

اِس طرف جلوہ فقط عارضی سامان کا بس

مطلوبہ حال

نفس طاعت کے لئے تیار ہو

دل بھی تیرا ذکر سے بیدار ہو

روح خوش نفس مطمئن اور دل سلیم

کیسے پھر نیک کام سے انکار ہو

حاصل فنا

بھلا کے خود کو بے خودی پائی

مٹا کے جاں کو زندگی پائی

دعا ہے یہ وصال ہوجائے

تجھ کو پاکر میں نے خودی پائی

کامل ایمان

اپنی اولاد و والدین سے ہوںپیارے جب آپ

بلکہ سب لوگوں سے نزدیک ہوں ہمارے جب آپ

خود سے بھی زیادہ ہوں محبوب تو ہو ایمان کامل

تب بنے بات بنیں آنکھوں کےتارے جب آپ

خوش نصیب مسلمان

خدا اپنا ہے مہربان بہت

لوگ پھر کیوں ہیں پریشان بہت

دس گنا نیکی ہو بدی ایک گنا

ہے خوش نصیب مسلمان بہت

جوش میں ہوش

ہے زبان چپ مگر ہے دل میں جوش

سر جھکا ۓ ہوۓ ہیں یوں مے نوش

جیسے ان پر کوئی اثر ہی نہیں

ان کی مے میں ہے جیسے جوش میں ہوش

مقام شکر

فضل خدایا سلسلے پہ ہمارا تیرا

بہت زیادہ ہے رحمت کی نظر ہے کیا تیرا

بس ہم تو شکر اب ہر آن کریں خدایا ترا

کبھی بھی شکر ہوسکا نہیں ادا تیرا

دلِ بیدار

دل بیدار ہی قرآن سے ہدایت لے لے

دلِ ذاکر ہی تو اللہ سے حکمت لے لے

ہاں جو ارد گرد ہمارے ہیں یہاں چیزیں سب وہ رکاوٹ نہ بنیں دل ہر سعادت لے لے

قال اور حال

قال سے حال کا سفر کرنا

دل کو اللہ سے باخبر کرنا

نفس کو احکام کا پابند کرکے

اپنے اعمال کو بہتر کرنا

بے لوث دوستی

غرض جن کو ہے ان کی دوستی دوستی غرض کی ہے

بھروسہ ان پہ کرنے میں توپھر مشکل بہت ہی ہے

مگر بے لوث دوستی میں تو یوں خطرے نہیں ہوتے

یہ کیوں کرتے نہیں اس سے کہ جس کی ایسی دوستی ہے

ایک سیدھی بات

سیدھی سی بات ہے ہم اس کے ہیں

اس کے اگر نہیں تو کس کے ہیں

اس کے بن جائیں تو پھر سب کچھ ٹھیک

کام جیسے بھی اور جس کے ہیں

دل میں دو راستے

دل میں الہام الٰہی کا انتظام بھی ہے

اور شیطاں کے وساوس کا تیز گام بھی ہے

اپنا دل کھول ذرا شیخ کامل کی جانب

تاکہ سب درست رہیں کام سو یہ کام بھی ہے

 

دین کا ظاہر اور باطن

ظاہرِ دین ایک چھلکا ہے

اصل معاملہ تو دل کا ہے

چھلکا اس دین کو سلامت رکھے

دل میں ہی راستہ منزِل کا ہے

ذکر اور صحبت صالحین

ذکر سے دل کی جب تیار ہو زمین

کر لے اختیار صحبتِ صالحین

اس سے اعمال ان کے پائے تو

اس سے حاصل ہو تجھ کو فوزِ مبین

فکرِ دنیا اور فکرِ آخر

فکرِ دنیا کو ذرا کم کرلے

فکرِ آخر کا بھی کچھ غم کرلے

تاکہ غمناکیوں سے بچ جاۓ

اور مستقبل کو بھی محکم کرلے

عشق کا جام

ذرا ساقی سے عشق کا جام لیجئے

ہے کام کی یہ چیز اس سے کام لیجئے

اگر پانا مطلوب ہے آپ کو عزیز

درِ ساقی جبڑوں سے تھام لیجئے

دل کی صفائی

ذکر سے دل اگر ہو جاۓ صاف

اس کو پھر حق بھی نظر آۓ صاف

نفس ہو قابو میں اور دل ذاکر

دل حقیقت کو پھر دکھاۓ صاف

 

اخفاء اور اظہار

ساقی نے مجھ کو خوب پلایا ہےعشق کا جام

جس سے بنا ہےخوب محبت کا یہ پیغام

اخفا کا دور اس کا گو طویل بہت تھا

پر اس میں ہی ہوا ہےاس اظہار کا انتظام

کامیابی

کامیابی تو کام سے ہوگی

اور حسنِ انتظام سے ہوگی

قال بے حال لاش بے روح ہے اس کی

تدفین اہتمام سے ہوگی

راز راز رہے

جو دوست کے راز نہیں رکھتے ہیں راز

کرتے وہ دوستی سے ہیں اعراض

کہا چشتی معین الدین نے یہ

قابل دوستی نہیں یہ انداز

دل اور نفس کا تقابل

دل ہو اچھا اور نفس پر زور ہو

ہر وقت خواہشوں کا پھردور ہو

دل توروئے گا اور تڑپے گا

نفس کی آرزو تو do more ہو

نظر اس پہ رکھ

بس تو ہر حال میں نظر اس پہ رکھ

دل کی آنکھوں سے دیکھ اس کی جھلک

کٹ کے ہر ایک سے بن اس کا تو

لطف پھر اپنی زندگی کا چکھ

دوسرے پہ نظر کیسی

ہم تو مٹنے کے لیے آۓ ہیں مٹیں ہم جتنے مٹ سکیں ہم یہاں

اور ہر طرف سے اٹھا اپنی نظر پڑی تھی تیری نظر جہاں جہاں

صرف وہ ایک ہی اب آۓ نظر دیکھ اس کی مثال کوئی نہیں

یہ نظر دوسرے پہ کیسے پڑے کوئی کمی ہے کیا سوچ وہاں

نفس اور محبوب

اک طرف نفس ہے اور دوسرے جانب محبوب

جو چلا نفس کی جانب وہ ہوگیا محجوب

اس کے آنکھوں پہ پٹی نفس کی چاہتوں کی ہے اب

وہ کیسے جان سکے کیا ہے ردی اور کیا خوب

محبوب کی ادائیں

اپنے محبوب کے محبوب کی ادائیں تُو جان

تو اس کا چاہنے والا ہے تو خود کو پہچان

اپنا دل اس پہ فدا کرلے تو پھر دل کی سن

وہ تجھے جو کہے وہ حق ہے تُو پھر اس کی مان

مدرسہ اور خانقاہ

ماضی میں بزرگوں کی جب خانقاہیں تھیں موجود

تھے مدرسے اور ساتھ تربیت گاہیں تھیں موجود

آج مدرسہ تو ہے مگرخانقاہ ہے اجنبی

کیوں ختم ہوں اصلاح کی جو راہیں تھیں موجود

نفسِ امارہ اور دل

نفسِ امارہ کا جب دل کبھی اثر لے لے

عقل پھر حصہ اس میں ساتھ برابر لے لے

پھر وساوسِ شیطانی کا یہ غلام بن کر

خیر کو چھوڑ کر خوب ہر طرف سے شر لےلے

کیا مقصود ہے؟

اپنا مقصود بزرگی نہیں ہے

بڑا ہونا کامیابی نہیں ہے

صرف یہ ہو کہ ہم گناہ نہ کریں

کہ اجازت بالکل اس کی نہیں ہے

شہوات اور تقوی ٰ

ہیں یہ دنیا کی خواہشات خس و خاشاک کی طرح

حمام تقویٰ ہے روشن ان سے یہ سوچ ذرا

اندھا کہہ دے کہ میں بد نظری نہیں کرتا کبھی

کیا ہے بس ان سے ہی معلوم ہو کھوٹا اور کھرا

نور اور ظلمت

نور آنے ہی سے ظلمت بھاگے

علم آنے سے جہالت بھاگے

دل ہو بیدار نور پر نور ہو

دل سے دنیا کی محبت بھاگے

دنیا کیا ہے؟

یہ جو دنیا ہے ہے محنت کی جگہ

اچھے کاموں کی ہے ہمت کی جگہ

مزے یہاں کہاں! وہاں ہیں صرف

یہ تو ہے بس استقامت کی جگہ

ریٹائرمنٹ

دنیا سے جانے کی ریہرسل ہے سروس سے یہ ریٹائرمنٹ اپنی

وقت پورا کرنے پہ خیریت سے دیتی پنشن ہے گورنمنٹ اپنی

یہ تو آرام سے جانا ہے کہ تو یہ جانتا ہے کہ کب جانا ہے

جانا دنیا سے اچانک ہوگا پوری کر اس سے کمٹمنٹ اپنی

مصیبت میں رحمت

جب مصائب کا دور آجائے

اناللہ تو بھی کہ پائے

انا الیہ راجعون بھی پڑھ

سایہ رحمت کا تجھ پہ چھا جائے

چاہت

ایک اس کی ہے اک مری چاہت

مجھ کو مطلوب ہے اس کی چاہت

مہرباں مجھ پہ مجھ سے زیادہ ہے جب

کیوں نہ چاہوں میں اس کی ہی چاہت

 

مفاہیم کی درستگی

چاہیےہے کہ مفاہیم ہوں درست اور اس کے واسطے تعلیم ہو درست

دل میں تقویٰ کا نور آجائے

بلا شبہ پھر ہر اک سکیم ہو درست

الہام ربانی اور الہام شیطانی

دل میں چینل ہے اک الہامِ ربانی کے لئے

دوسرا چینل ہے وساوسِ شیطانی کے لئے

دل ہو ذاکر تو وسوسئہِ شیطانی بند ہو

روک کوئی نہ ہو الہامِ رحمانی کے لئے

ابھی وقت ہے

کرلے کرنا جو ہے ہے وقت ابھی

نہ ملے گا تمہیں یہ وقت پھر کبھی

وقت گزرنے کے بعد ہے ہوتا کیا

ہاتھ ملتے رہتے ہیں پھر لوگ سبھی

 

دنیا کیا ہے؟

جو تجھے اللہ سے غافل کرے

حب حق تیرا جو ہے باطل کرے

وہ ہے دنیا اس کے تو درپے نہ ہو

پھر تو خود ہی ساتھ وہ واصل کرے

علم اور عمل

دنیا بس علم و عمل کا ہے محل

اور جو اچھے ہیں کریں ان کی نقل

علم سے جان لیں کیا کرنا ہے

اور اس پر کریں پھر دل سے عمل

چاہیے

خدا کی محبت مجھے چاہیے

یہی ہم سے بھی تو اسے چاہیے

محبت جو اس کی ہو دل پر رہے

اور اغیار سے دل پرے چاہیے

خبردار

رستہ صرف ہے ایک اسے بھول نہ جانا

منزل ہےاپنی ایسی کہ واپس نہیں آنا

خوب دیکھ کے قدم رکھنا پھسلنا بھی ہے ممکن

دشمن بھی سر پہ بیٹھا ہے دھوکہ بھی نہ کھانا

عاشق

عاشق محبوب کی باتوں میں کرے کیا تاویل

نہ وہ محبوب کو کہتا ہے کہ کریں تسہیل

عشق عقیدت سے کہیں بالا ہی رکھتا ہے مقام

عشق نامراد کی سمجھ میں کہاں ہے قال اور قیل

منصوبہ زیر نظر

 

وقت و جاں مال صلاحیتیں محدود ساری

سامنے منزلِ آخر کا خوف ہے طاری

ان کو منصوبے سے کردیں استعمال خوب ورنہ

کہیں بھگتیں نہ ہم وہاں سزا اس کی بھاری

جذبات بے نظیر

اتنی بڑی ہستی کہاں اور میں کہاں حقیر

میں اس کا وصل مانگوں ذرا سوچ لے شبیر

پر دل ہے کہ بِن اس کے گزارہ نہیں کرتا

معشوق بھی مانگے یہی جذبات بے نظیر

 

توتجھے پاؤں

اپنی سوچوں میں جو سوچوں میں توتجھے پاؤں

اپنی نظروں میں جو دیکھوں میں توتجھے پاؤں

جب ہر جگہ تو ہی تو ہےمرے ہر جانب تو

پھر کیوں نہ خود کو بھلاؤں میں توتجھے پاؤں

دنیا دارالعمل

وہی کاٹو گے جو تو بوئے گا

ہو گے محروم اگر سوئے گا

رولے خوب تو یہاں توبہ کرکے

ورنہ کتنا وہاں پہ روئے گا

شیخ کے ساتھ تعلق

اصلاح کے لئے شیخ کے پاس ہے جانا ضروری

اس واسطے ان سے ہے تربیت پانا ضروری

سستی نہ ہو، کرے جو کہے، پر نتیجے میں

تعجیل سے بھی خود کو ہے بچانا ضروری

شیخ زبان مرید کان

چاہیےشیخ کو کہ زبان بنے

اور ہر مرید کو کہ کان بنے

بولنے اور سننے کی اس محفل سے

اک معرفت کی پھر دکان بنے

نماز

ذرا بتاؤ کچھ کہ کیا ہے نماز

خدا سے لینے کا رستہ ہے نماز

اس میں احسان کی کیفیت ہو نصیب

خوب رفعتوں کا پھر زینہ ہے نماز

دعا

ہوشیاری ہے یہی کہ ہم ہر وقت دعا کریں

اور اس کے ذریعے سے ہم اس سے ملا کریں

ایاک نستعین کہلوا کے کہا یہ

ہم اس سے ہی ہر وقت ہر اک چیز کہاکریں

شکر کا مقام

ہم ہیں اک پر فتن زمانے میں

کتنی مشکل ہے دین پہ آنے میں

کردیا ہم کو اہل حق کے ساتھ

جو کہ مطلوب ہے اس کے پانے میں

شہید

جو ہو شہید کہاں وہ مردہ ہے

کہ وہ بے شک ہمیشہ زندہ ہے

اس کو مردہ کبھی گماں نہ کرو

وہ بامراد ہے رخشندہ ہے

شہادت

شہادت کا رتبہ کسی کو ملے گر

تو کیوں پھر نہ ہو بے حساب رشک اس پر

کہ قربان اس نے یہ جان اس پہ کردی

ہے زندہ ہمیشہ محبت میں مر کر

 

دعا میں

دعا میں جلدی مچانا نہیں ہے

اس میں مایوس ہوجانا نہیں ہے

ہمارا کام دستک دیتے رہنا

اور اس میں سستی دکھانا نہیں ہے

علم اور کیفیت احسان

جاننا ٹھیک مگر جان بھی ہو

یعنی کیفیت احسان بھی ہو

شیخ کامل کے پاس ہی یہ ملے

کچھ سنورنے کا تو سامان بھی ہو

دل بنا ہو

ہو دل نہیں بنا کوئی سمجھے کتاب کیا

جب عقل نفس زدہ ہو ملے پھر جواب کیا

نفس مطمئن ہو قلب ہو سلیم فہم ہو رسا

پھر تجھ کو نتائج ملیں ان کے جناب کیا

 

بجتا کٹورہ

بجتا زیادہ کٹورہ خالی ہے

جو بھرا ہو وہ شور سے عاری ہے

صرف ظاہر پہ جو ہیں مست ہیں وہ

گردن دل والوں نے جھکالی ہے

ظرف و مظروف

ظاہر و باطن ہے ظرف و مظروف

ہوتا ظاہر میں ہے باطن ملفوف

نہ ہو باطن قائم ظاہر کے بغیر

بغیر ظاہر کے نہ ہو باطن معروف

مایوس نہ ہو

مایوسیوں کی باتیں چھوڑنا اب

دل کو بس اس کی طرف موڑنا اب

لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا پڑھ

نفس کو اچھی طرح جھنجھوڑنا اب

غیر محرم کا ا ثر

جو کہیں ان پہ غیر محرم کا اثر نہیں تو وہ سمجھے ہی نہیں

دیکھنا ان کا جرم ،جب دیکھا تو وہ دیکھنے سے توبچے ہی نہیں

جو گناہ ہو اور گناہ نہ سمجھے کوئی اس کو بڑا گناہ ہے یہ

پیروی خواہش ِ نفس کی ہے یہ تو وہ اس سے ابھی نکلے ہی نہیں

ساتھ کس کا دیا جائے

کبھی رہو نہ ظالمین کے ساتھ

جو کہ شر ہے اور مفسدین کے ساتھ

شانِ دنیا تمہیں مرغوب نہ ہو

ارے خدا ہے صابرین کے ساتھ

خود پر بھروسہ

تیرا جو خود پہ بھروسہ ہے چھوڑ

تجھ کو جو مال کا نشہ ہے چھوڑ

یہ جو چیزیں ہیں وفادار نہیں

قلب میں جو ان کا تقاضہ ہے چھوڑ

نورِ قلب نبی (ﷺ)

کوئی پوچھے یہ سلسلے کیا ہیں

کہہ دے یہ نور کی ہیں نوری راہیں

جس سے نور آپ ﷺ کا دل تک پہنچا

اور استعمال ہوئی یہ خانقاہیں

رومی کی بے خودی

بے نفسی ہے مطلوب ،ہے یہ رومی کی بے خودی

دع نفس و تعال کا جو ہے الہام ہے یہی

پس لفظ میں معنیٰ میں تفاوت نہیں رہا

ایک خاص کیفیت کی بھی تشریح ہوگئی

دنیا اور امتحان

دنیا نہیں ہے ایک ہے یہ امتحان گاہ

ہر ایک کا پرچہ ہےمگر ہے جداجدا

کسی کو دیا بہت ہے کسی کو بہت ہی کم

پرچہ کسی کا شکر ہے اور صبر کسی کا

نفس کے شر سے بچنا

نفس کے شر سے بچانا خود کو

حق کے رستے پہ چلانا خود کو

اہل باطل سے کنارہ کرلے

اہل حق سے ہی ملانا خود کو

اعمال اورخلوص

سن لے دنیا یہ آنی جانی ہے

اپنی دنیا وہاں بسانی ہے

ترے اعمال ہیں درخت اس کے

ترا خلوص اس کا پانی ہے

ریا

ہر حال میں ہمارا ہے خدا سے واسطہ

رکھے تبھی عمل میں بھی اللہ سے واسطہ

جو غیر ہے کچھ بھی ہمیں وہ دے نہیں سکتا

اعمال میں پھر کیسے ہو ریا سے واسطہ

بزرگی ایک جال

ترا مقصود نہیں ہے یہ بزرگی چھوڑدے

یہ ہے باطن کی گندگی یہ گندگی چھوڑ دے

انگلیاں تیری طرف اٹھتی رہیں ہے یہ جال

خدا کے بندے اپنے نفس کی بندگی چھوڑدے

پیسہ اک امانت

پیسہ جو بھی تمھاری جیب میں ہے اس کو سنبھالو یہ امانت ہے

خود پہ گر خرچ کرلیا تو نے تو یہاں کی تری یہ راحت ہے

اپنے آگے وہاں پہ بھیج دیا اس سے اچھی تو کوئی بات نہیں

آخری عمر اپنی اچھی ہو سکھ ہو بیشک یہ سب کی چاہت ہے

غصہ پینا اور معاف کرنا

وعدہ ان سے ہے جنت کا جو ڈرا کرتے ہیں

ہر حال میں خرچ کریں غصہ پیا کرتے ہیں

کرتے معاف ہیں لوگوں کو ،محسنین جو ہیں

ساتھ ان کے تو خدا پیار کیا کرتے ہیں

 

حسد نہ کرنا

نہ حسد کسی سے کرنا کہ یہ کیوں ہے مجھ سے آگے

یہ مجاہدہ ہے تیرا کرلے کیوں تو اس سے بھاگے

اسے دیکھ کے تو کس لے کمر اپنی کام میں ڈٹ جا

کرلے تکیہ رب پہ اٹھ جا کہ ترے نصیب جاگے

 

الهامي کلام

کلام پیغام محبت کا ”ھُو” کا سارا ہے

اس میں جو ھُو کی محبت کا ہی اشارہ ہے

ہمیں وہ دیکھتا ہر وقت ہے اس میں شک ہی نہیں

ہمارے حال کے مطابق اسے اتارا ہے

حق کی خوشی صدقہ میں

صدقہ دافعِ بلیات ہے مگر کر نہ خراب اس کو طعنے سے

ٹال دینا ہو گر اچھی طرح سے، ہے وہ بہتر دے کے جتلانے سے

حق کا کنبہ ہے یہ مخلوق ساری ، ان کی خدمت میں ہے خوشی حق کی

کتنا خوش حق ہو مؤمنوں کو پھر صدقہ خیرات پہنچانے سے