دفتر ششم: حکایت: 78
حِکمت در آیۃ ﴿اِنِّی جَاعِلٌ فِيْ الْأَرْضِ خَلِيْفَةً﴾
اس آیت کی حکمت کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘
1
چوں مراد و حکمِ یزدانِ غفوربود در قدمت تجلّی و ظہور
ترجمہ: جب خداوندِ غفور (و رحیم) کا مقصود اور حکم علمِ قدیم میں یہ تھا کہ تجلی اور ظہور فرمائے۔
2
بے زِ ضدّے ضدّ را نتواں نمُودواں شہِ بے مثل را ضدّے نبود
ترجمہ: (اور) ایک ضد کے بدوں (دوسری) ضد کو (عادةً) ظاہرنہیں کیا جاسکتا۔ اور اس شاہِ بے مثل کی کوئی ضد نہ تھی۔
3
پس خلیفہ ساخت صاحب سینۂتا بود شاہیش را آئینۂ
ترجمہ: پس ایک صاحبِ سینہ (یعنی انسانِ کامل) کو (اپنا) خلیفہ بنایا تا کہ وہ اس کی شاہی کا آئینہ ہو (کہ ان کی وجہ صداقت نورِ قلب و سینہ تھی)۔
4
پس صفای بے حُدُودش داد اُووانگہ از ظلمت ضدّش بنہاد او
ترجمہ: پھر اس نے اس (خلیفہ) کو بے حد صفائی بخشی (جس سے وہ اس کی شاہی کا آئینہ بنا) اور اس وقت تاریکی سے اس کی ضد مقرر کی۔ (حدیث ’’اِنَّ اللہَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلیٰ صُوْرَتِہٖ‘‘ اس سے مراد صفت ہے۔ یعنی ان کو صفائی بخش کر اپنی شاہی کا آئینہ بنا دیا۔)
5
دو علَم برساخت اسپید و سیاهآں یکے آدم دگر ابلیسِ راہ
ترجمہ: (یعنی) دو جھنڈے سفید (نورانی) اور سیاه (تاریک) بلند کئے (جن میں سے) ایک حضرت آدم علیہ السلام (اور) دوسرا ابلیسِ راه (زن علیہ اللعنۃ مراد ہیں)۔
مطلب: حق تعالیٰ کو اپنے کمال کا ظہور منظور ہوا۔ اور کمالِ ظہور کسی شے کا یہ ہے کہ اس کی ذات کا بھی ظہور ہونے کی طرف التفات ہو۔ پہلا ظہورِ واقعی، دوسرا ظہورِ علمی اور ظہورِ واقعی کبھی بلا واسطہ ہوتا ہے۔ جب وہ شاہدِ مشاہدہ ہو۔ جیسے اجسام اور کبھی بواسطہ دیگر امور کے ہوتا ہے۔ جو اس کے ساتھ مناسب اور اس پر دال ہوں۔ جیسا کہ افعال و حرکات کے واسطہ سے اس کا ظہور ہوتا ہے اور ظہورِ علمی بواسطہ ایسی چیز کے ہوتا ہے جو اس کی ضد ہو۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ ’’اَلْاَشْیَاءُ تُعْرَفُ بِاَضْدَادِھَا‘‘۔ مثلاً دھوپ کہ اس کا ظہورِ واقعی تو طلوعِ آفتاب سے ہو جاتا ہے لیکن اس کا ظہورِ علمی یعنی اس کی طرف التفاتِ مشاہدہ ظل پر موقوف ہے جو اس کی ضد ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا کمالِ ظہور بھی موقوف ہوگا، ایک تو اس کی ذات کے ظہور پر اور دوسرے کسی ضد کے وجود پر۔ اور چونکہ وہ ذات مشاہدہ میں نہیں آ سکتی کیونکہ وہ غیب ہے۔ اس لیے ظہورِ ذات تو بواسطہ کسی دوسرے امرِ دال کے ہو گا جو اس کے مناسب ہو۔ ایسے امرِ دال کو عرف میں مظہر اور مِرآۃ کہتے ہیں۔ جس کا مصدق انسانِ کامل ہے۔ اور شعر:
؎ پس خلیفہ ساخت صاحبِ سینۂ تا بود شاہیش را آئینۂ
اس پر دال ہے۔ پس ظہورِ ذات تو بواسطہ اس مظہر و خلیفہ کے ہوا اور چونکہ اس کی کوئی ضد نہیں کیونکہ وہ یکتا اور اپنے مقابل و ہمسر سے منزّہ ہے۔ اور یہی مضمون ہے اس شعر کا کہ:
؎ بے ز ضّدے ضد را نتواں نمودواں شہِ بے مثل را ضّدے نے نبود
اس لیے ظہور علمی اس کی ضد کے واسطے سے تو ہو نہیں سکتا۔ اور ظہورِ علمی عادۃً موقوف ہے وجودِ ضد پر، اس لیے اس کی یہ صورت ہو گئی کہ وہ جو واسطہ تھا ظہورِ ذات کا یعنی انسانِ کامل، اس واسطہ کی ایک ضد موجود کی گئی۔ تاکہ وہ ضد اولاً اس واسطہ کی کاشف ہو اور ثانیًا بواسطہ اس واسطہ کے ذاتِ حق کی کاشف اور اس کے ظہورِ علمی کی سبب ہو۔ اور یہی مضموں ہے اس شعر کا کہ:
پس صفای بے حدودش داد اووانگہ از ظلمت ضدّش بنہاد او
آگے دُور تک ان مظاہر اور ان کے اضداد کا بالمقابلہ ذکر فرماتے ہیں:
6
در میان آں دو لشکرگاہِ زفتچالش و پیکار آنچہ رفت رفت
ترجمہ: (اور) ان دونوں لشکر گاہِ عظیم میں جنگ و پیکار جو کچھ بھی جاری رہی، جاری رہی۔ (چنانچہ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا مقابلہ دورِ اوّل میں ہوا۔)
7
ہمچناں دورِ دُوُم ہابیل شدضِدِّ نورِ پاکِ او قابیل شد
ترجمہ: اسی طرح دوسرے دور میں ایک ہابیل (مظہرِ حق) تھا (اور) اس کے نورِ پاک کی ضد قابیل تھا۔
8
ہمچناں ایں دو علَم از عدل و جَورتا بہ نمرُود آمد اندر دَور دَور
ترجمہ: اسی طرح یہ دونوں انصاف و ظلم کے جھنڈے سلسلہ وار نمرود تک آئے۔
9
ضدِّ ابراہیم گشت و خصمِ اُوواں دو لشکر کیں گذار و جنگ جُو
ترجمہ: وہ (نمرود مردود) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ضد اور ان کا مخالف ہو گیا۔ اور (ہدایت و ضلالت کے) وہ دونوں لشکر کینہ کیش اور جنگ جو رہے ہیں۔
10
چُوں درازیِ جنگ آمد ناخوششفیصلِ آں ہر دو آمد آتشش
ترجمہ: جب (اس) جنگ کی طوالت اُس (حق تعالیٰ) کو نا پسند ہوئی تو ان دونوں کا فیصلہ کرنے والی آگ قرار پائی۔
11
حکم کرد او آتشے را و نُکرتا شود حل مشکلِ آں دو نفر
ترجمہ: (پس حق تعالیٰ نے) آگ (کو فیصلہ کرنے والی) اور (منکر کے لیے) عذاب کو حکم دیدیا ۔ تاکہ ان دو شخصوں (کے تنازع) کی مشکل حل ہو جائے۔
12
دَور دَور و قرن قرن ایں دو فریقتا بفرعَون و بموسیِ شفیق
ترجمہ: (اسی طرح) یہ دونوں فریق (یعنی اہلِ ہدایت و اہلِ ضلالت) دَور بدَور اور قرن بقرن (کش مکش کرتے ہوئے) فرعون اور موسیٰ علیہ السلام مہربان تک (پہنچے)۔
13
سالہا اندر میانِ شاں حرب بُودچُوں ز حد رفت و ملولی می فزود
ترجمہ: برسوں ان کے درمیان جنگ ہوتی رہی۔ جب حد سے گذر گئی اور ملال بڑھانے لگی تو
14
آبِ دریا راحَکَم سازید حقتاکہ ماند کہ بَرد زیں دو سبق
ترجمہ: تو حق تعالیٰ نے (دریائے نیل) کے پانی کو پنچ بنا دیا تاکہ (یہ ثابت ہو جائے کہ) کون ہارتا ہے، کون ان دونوں سے جیتتا ہے؟
15
تا کہ فرعوں را بآں فرعَونیاںآبِ دریا غرق شاں کرد آں زماں
ترجمہ: حتٰی کے فرعون کو مع ان فرعونیوں کے (جو اس کے ہمنوا تھے) دریا کے پانی نے اسی وقت غرق کردیا۔
16
ہم نُکُر سازید از بہرِ ثمُودصیحۂ کہ جانِ شان را درربُود
ترجمہ: قوم ثمود کے لیے بھی اس سخت آواز کو عذاب بنایا۔ جس نے اُن کی جان سلب کر لی۔ (یہ قوم حضرت صالح علیہ السلام کی رسالت سے منکر ہوئی تھی۔)
17
ہم نُکُر سازید از بہرِ قومِ عادزُود خیزے تیز رَو یعنی کہ باد
ترجمہ: قومِ عاد کے لیے بھی ایک جلدی لپکنے والی، تیز چلنے والی یعنی ہوا کو عذاب بنایا۔ (یہ قوم حضرت ہُود علیہ السلام کی تبلیغ کے خلاف چلتی تھی۔)
18
ہم نُکُر سازید بر قَارُوں ز کینتا فرو بُردش چو اژدرہا زمیں
ترجمہ: نیز قارُون کے لیے انتقام کی وجہ سے (ایک) عذاب تجویز کیا حتٰی کہ اس کو زمین نے اژدہے کی طرح نگل لیا۔
19
تا حلیمیِّ زمیں شُد جُملہ قہربُرد قارُوں را و گنجش را بقَعر
ترجمہ: یہاں تک کہ زمین کی حلیمی سراپائے قہر بن گئی (اور) وہ قارُون کو اور اس کے خزانوں کو (اپنی) گہرائی میں لے گئی (اور تمہیں تعجب نہ ہونا چاہیے کہ زمین با ایں ہمہ حلم ایسی سخت گیر کیوں ہو گئی)۔
20
لقمۂ را کاں ستونِ ایں تن ست دفعِ تیغِ جوعِ نان چوں جوشن ست
21
چونکہ حق قہرے نہد در نانِ توچوں خناقِ آں نان بگیرد در گلو
ترجمہ: (کیونکہ)وہ لقمہ جو اس بدنِ (انسانی کی صحت) کا رُکن ہے۔ (اور) روٹی کی بھوک کی تلوار (سے بچانے) کے لیے بمنزلہ زرہ ہے۔ جب حق تعالیٰ تمہاری خوراک میں قہر رکھ دے تو وہ روٹی (کا لقمہ) خناق کی طرح حلق میں رُک (کر باعثِ ہلاکت ہو) جاتا ہے۔
22
این لباسے کہ ز سرما شد مُجیرحق دہد اُو را مزاجِ زمہریر
ترجمہ: (اسی طرح) یہ (گرم) لباس جو سردی سے بچانے والا ہے۔ حق تعالیٰ (چاہے تو) اس کو سخت سردی کا سا مزاج دے دے۔
23
تا شود بر جسمت ایں جبّۂ شگرفسرد ہمچوں یخ گزندہ ہمچوں برف
ترجمہ: یہاں تک یہ عمدہ جبّہ تمہارے جسم پر یخ کی طرح ٹھنڈا (اور) برف کی طرح ایذا ساں ہو جائے۔
24
تا گریزی از وَشق ہم از حریرزو پناه آری بسوئے زمہریر
ترجمہ: حتٰی کہ تم پوستین سے گریز کرنے لگو گے اور ریشم سے بھی (بلکہ اس کو اس قدر ٹھنڈا پاؤ گے کہ) اس سے (بھاگ کر) زمہریر کی طرف پناہ گیر ہو گے (کہ زمہریر ان سے کم ٹھنڈا ہو گا)۔
مطلب: جب حق تعالیٰ کی قدرت گرم لباس کو زمہریر سے بھی زیادہ خنک بنا سکتی ہے۔ تو زمین کے حلم کو مبدّل بقہر کر دینا اس کے لیے کونسی بڑی بات ہے۔ آگے حق تعالیٰ کے اس تصرف کا ثبوت دو تاریخی واقعات سے پیش فرماتے ہیں۔ ایک یومِ ظلّہ کا واقعہ دوسرا عصائے موسیٰ علیہ السلام کا۔
25
تو دو قلّہ نیستی یک قلُّۂ غافل از قصّۂ عذابِ ظُلَّۂ
ترجمہ: (اے مخاطب!) تو دو قُلہ (برابر پانی کی طرح کثیر و کامل) نہیں ہے (بلکہ) ایک قُلہ (پانی کی طرح قلیل و ناقص ہے (جبھی تو قدرتِ حق میں تجھ کو شبہ ہے اور اسی بنا پر) عذابِ ظلّہ کے قصے سے تو غافِل ہے۔
مطلب: مولانا نے یہاں کامل ہونے کی مثال دو قُلہ پانی کے برابر ہونے کے ساتھ دی ہے۔ جس سے یہ ایک عجیب بحث چھڑ جاتی ہے کہ مولانا شافعی المذہب ہیں یا حنفی المذہب۔ صوفیانہ تذکروں میں تو جابجا مولانا کو حنفی مانا گیا ہے۔ مگر یہ شعر مولانا کے شافعی المذہب ہونے کا ثبوت پیش کر رہا ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا قلتین کی مقدار کو کامل سمجھتے ہیں۔ اور قلتین کی مقدار کو کامل سمجھنے والے کا شافعی المذہب ہونا غیر مشتبہ ہے۔ حنفیہ کے نزدیک یہ مقدار ناقص و قلیل ہے۔ حنفی المذہب کبھی دو قُلہ کی مقدار کو کامل نہیں کہے گا۔ صاحبِ کلید اس مشکل کے حل میں فرماتے ہیں کہ چونکہ بعض فقہاء کے قول پر قلتیں کی مقدار کامل ہے۔ اس لیے یہ کنایہ کامل سے ہے۔ خواہ متکلم حنفی ہوں یا شافی۔ پس بعض محشین نے جو مولانا کا حنفی ہونا مناقب العارفین سے نقل کیا ہے، محلِ اشکال نہیں (انتہٰی)۔ یومِ ظلہ کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں آیا ہے﴿فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُـمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّـلَّـةِ ۚ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْـمٍ﴾ (الشعراء: 189) یعنی ”آخر ان (اصحابِ ایکہ) نے حضرت شعیب کو جھٹلایا۔ تو سایہ دار بادل کے دن عذاب نے ان کو گرفت میں لے لیا۔ بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا“۔ اُس روز گرمی پڑنے لگی۔ جس سے یہ لوگ بِلبلا اُٹھے۔ اس گرمی سے بچنے کے لیے وہ تہ خانوں میں گُھس گئے۔ تہ خانے خود تنور بن رہے تھے۔ وہاں سے نکلے تو ایک بادل ان پر چھا گیا۔ سمجھے کہ اس کی سردی سے راحت پائیں گے۔ مگر اس سے آگ برسنے لگی۔ جس سے وہ لوگ جل کر خاکِ سیاہ ہو گئے (تفسیر خازن)۔ غرض اس عذاب کی یہ کیفیت تھی کہ:
26
امرِ حق آمد بشہرِستان و دِہخانہ و دیوار را سایہ مِده
ترجمہ: (اصحابِ ایکہ کے) شہر اور گاؤں میں ہر گھر اور دیوار کو حکم آیا کہ (کسی کو) سایہ نہ دیں۔
27
مانعِ باراں مباش و آفتاب تا بداں مرسُل شدند اُمّت شتاب
ترجمہ: (اور) بارش اور دھوپ کے مانع نہ ہوں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ تنگ آ کر ان رُسولِ پاک علیہ السّلام کے پاس دوڑے گئے۔
مطلب: بارش سے مانع نہ ہونے سے مقصود یہ ہے کہ ان کی چھتیں ایسی نہ ہوں جن سے بارش کا بچاؤ ہو سکے۔ کیونکہ اگر ایسی چھتیں ہوں گی تو ان سے دھوپ کا بچاؤ بھی ہو جائے گا۔ اور اس کی نفی وہاں مطلوب تھی۔ بارش کا ہونا نہ ہونا مدِّ نظر نہ تھا۔ کیونکہ وہ عذاب پانی کا نہیں بلکہ گرمی اور گرم لُو اور آگ کا تھا۔ غرض وہ لوگ اپنے رسولِ پاک علیہ السّلام کے پاس جا کر یوں عرض کرنے لگے۔
28
کہ بُمردیم اغلب اَے مہتر اماںباقِیَش از دفترِ تفسیر خواں
ترجمہ: کہ یا حضرت! (امن دلایئے) ہم تو (بگمان) اغلب مر گئے۔ باقی قصہ تفسیر (القرآن) کے دفتر سے پڑھو۔
مطلب: مدعائے قصّہ یہ ہوا کہ دیواریں اور چھتیں محض اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ ان سے دھوپ، بارش، گرمی، سردی وغیرہ شدائدِ موسمیہ سے پناہ ملے۔ مگر جب خدا کا حکم اس کے خلاف ہو تو وہی آرام دہ گھر اور ٹھندے تہ خانے آگ کی بھٹی بن جاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا مقصودِ بیاں روایت کے صرف اسی قدر ٹکڑے کے ساتھ متعلق تھا۔ اس لیے باقی حصّۂ روایت کو کتب تفسیر پر موقوف کردیا۔ آگے دوسرے واقعہ کو بطورِ تائید پیش فرماتے ہیں:
29
چُو عصا را مار کرد آں چُست دستگر ترا عقلے ست ایں نکتہ بس ست
ترجمہ: (دیکھو) اس کامل القدرة نے لاٹھی (کی سی مفید چیز) کو کیونکر خطرناک اژدہا بنا دیا۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل ہو تو (خداوند تعالیٰ کی قدرت سے ایک مفید چیز کے مضر و پُر خطر بن جانے کا امکان سمجھنے کے لیے) یہی نکتہ کافی ہے۔ (آگے پھر وہی سلسلۂ بیان چلتا ہے جس میں زمین کے حلم کا ذکر بطور جملہ معترضہ آ گیا تھا۔ یعنی ہر مظہرِ حق کے ساتھ اس کی ضد کا معارضہ و مقابلہ ہوتا آیا ہے:)
30
ہمچنیں تا دَور و طورِ مصطفٰیؑ با ابوجہل آن سپہدارِ جفا
ترجمہ: (غرض) اسی طرح مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور و طور (عہد و زمانہ) تک (وہی ابرار و اشرار کے تقابل کا سلسلہ پہنچا۔ چنانچہ آپ کا مقابلہ) اس ابوجہل (نام کافر سردار) کے ساتھ (واقع ہوا) جو کفر (کی فوج) کا سپہ سالار تھا۔ (کلمۂ ’’جفا‘‘ یہاں بمعنی کفر استعمال ہوا ہے۔)
31
سنگ در تسبیح آمد در شتاباز میانِ اِصبعینِ آفتاب
ترجمہ : سنگریزہ اُن آفتابِ (حق صلی اللہ علیہ وسلم) کی دو انگلیوں کے درمیان فورًا تسبیح پڑھنے لگا۔
32
منکر آں دید و فرو ناوُرد سردشمنیِ او کور کردش از نظر
ترجمہ: (مگر) منکر (یعنی ابوجہل) نے اس (روشن معجزه) کو دیکھا (جو تصدیقِ رسالت کے لیے کافی تھا)۔ اور سر (تسلیم) خم نہ کیا (کیونکہ) اس کی عداوت (بحق) نے اس کو نظر (و فکر) سے اندھا کر دیا۔ (اس آخری شعر میں جو نظر کا ذکر آ گیا۔ تو اب اس کی مناسبت سے امکانِ نظر یعنی گہری نظر سے کام لینے کا ذکر فرماتے ہیں:)
33
تو نظر داری ولے امعانش نیستچشمۂ افسرده است و کرده ایست
ترجمہ: تو نظر تو رکھتا ہے مگر اس میں غور (و خوض) نہیں ہے۔ (تیری نظر) ایک منجمد چشمہ ہے اور وہ استادگی کئے ہوئے ہے (رواں نہیں)۔
34
زِیں ہمی گوید نگارنده فِکَرکہ بکُن اے بنده اِمعانِ نظر
ترجمہ: اسی لیے تو مصوّرِ افکار (تعالیٰ شانہ) حکم دیتا ہے۔ کہ اے بنده! گہری نظر سے کام لیا کر۔
مطلب: اس میں اس قسم کی آیات کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿فَانْظُرْ اِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَيْفَ يُحْيِی الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ (الروم: 50) ’’تو (اے مخاطب باران!) رحمتِ الہٰی کے نتیجے کی طرف نظر کر کہ (خدا) زمین کو اس کےمرنے کے پیچھے کیونکر جلا اٹھاتا ہے‘‘ ﴿اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ﴾ (الغاشیہ: 17) ’’تو کیا لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیا عجب پیدا کئے گئے ہیں‘‘۔ ﴿قُلْ سِيْـرُوْا فِى الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ﴾(العنکبوت: 20) ’’کہو کہ تم ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح اول بار (مخلوق کو) پیدا کیا“۔ ظاہر ہے کہ ان آیات میں جن چیزوں کو دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ خود تمام لوگوں کی نظر سے گذرتی ہیں۔ اور وہ ان سب کو رات دن دیکھتے ہیں۔ مگر ان کا یہ دیکھنا سرسری ہے اور حق تعالیٰ از راہِ بصیرت دیکھنے کا حکم دیتا ہے۔ جس سے ان کو عبرت حاصل ہو اور قدرتِ حق کا جلوہ ان کی آنکھوں میں پھر جائے۔ یہی امعانِ نظر ہے۔ آگے یہ ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ کے اس حکم کا یہ مطلب نہیں کہ خالی نظر ہی کرو اور اپنی نظر پر ہی بھروسہ رکھو۔ بلکہ اس کے ساتھ ایک اور بات کی بھی ضرورت ہے، وہ کیا؟ ﴿فَاسْئَلُواْ اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)۔ چنانچہ ارشاد ہے:
35
آں نمی خواہد کہ آہن کوب سرد لیک اَے پُولاد بر داؤدؑ گرد
ترجمہ: وہ (خداوند تعالیٰ) یہ نہیں چاہتا کہ (صرف نظر و فکر کے) ٹھنڈے لوہے کو پیٹے جاؤ۔ بلکہ (اس کا مطلوب یہ بھی ہے کہ) اے فولاد (طبع سنگ دل آدمی)! تو داؤدؑ کے پاس (ہی) آمدورفت کر (جو تجھ کو موم بنا دیں گے اور تیری نظر راست بین ہوجائے گی)۔
مطلب: اپنے زمانہ کے کسی بزرگِ کامل کی صحبت میں بیٹھا کر جو تیرے قلب کو قساوت سے پاک کر کے اپنے انوارِ فیضان سے منوّر کر دے۔ جس کے لیے صحتِ نظر و اصابتِ فکر لازم ہے۔ شعر میں آ ہن، پولاد، داؤد کی مناسبات پُر لطف ہیں۔ وَھٰذَا حَظُّہٗ رَحِمَهٗ اللّٰہُ۔
36
تن بمُردت سُوئے اسرافیل راںدل فسردت رَو بخورشیدِ رواں
ترجمہ: تیرا وجود مر گیا، اسرافیل کی طرف دوڑ (جن کی صدائے صُور سے مردے زندہ ہوں گے)۔ تیرا دل افسردہ ہوگیا، جا (کسی) آفتابِ رُوح (یعنی شیخِ کامل) کی طرف رجوع کر۔(جو اپنی توجہات سے اس کو گرما کر علوم و معارف کے انعکاس کے قابل بنا دے۔)
37
درخیال از بس کہ گشتی مُکتسِینِک بسوفسطائیِّ بدظن رسی
ترجمہ: (مگر افسوس صد افسوس کہ) تو چونکہ خیال (خام اور فکرِ باطل کے جامہ) میں (سرتاپا) ملبوس ہو رہا ہے (اس لیے کسی اہلِ کمال کی طرف تو کیا جائے گا۔ کسی) بدگمان سوفسطائی کے ہتھے چڑھے گا۔ (فرقہ سوفاطائیہ کا ذکر مفتاح العلوم کی پہلی جلد میں گزر چکا ہے۔)
38
او خود از لُبِّ خِرد معزول بودشد ز حس محروم و معزول از وجود
ترجمہ: وہ (سوفسطائی) خود مغز عقل سے برکنار تھا۔ (اور سو فسطائی ہونے کے سبب) وہ حِسّ سے بھی محروم ہوا اور(خود اپنے) وجود سے بیکار۔
39
گر ز خود و ز لُبِّ خود معزول گشتاز وجودِ حسِّ خود مفصول گشت
ترجمہ: وہ اگر اپنے (وجود کے اعتقاد) سے اور (اپنے مغز و) عقل سے بر کنار ہوا۔ تو (اس کے ساتھ ہی) اپنی حِس کے وجود سے بھی علیحدہ ہو گیا۔
مطلب: سوفسطائی تمام عالم کو خیالِ فاسد بتاتا ہے۔ حتٰی کہ اپنے وجود کو بھی ایسا ہی سمجھتا ہے۔ پس اس کے نزدیک خود اس کا وجود اور اپنی عقل لا شے محض ہے۔ اور جب وہ محسوسات کا انکار کر رہا ہے تو ظاہر ہے کہ حِس سے محروم ہے۔ پس ایسے بے حس، بے عقل اور جاہل مطلق کی صحبت میں تم کیا خاک امعانِ نظر حاصل کرو گے۔ یہاں پہنچ کر مولانا کے قلب میں کوئی ایسی بات آئی جس کا اظہار باعثِ فتنہ تھا۔ اس لیے اپنے آپ سے خطاب فرماتے ہیں:
40
ہِیں سخن خا، نوبتِ لب خائی ستگر بگوئی خلق را رسوائی ست
ترجمہ: خبردار اَے باتونی! (یہ) خاموشی کا موقع ہے۔ اگر تو (اس بات کو) لوگوں سے کہہ دے گا تو (بڑی) رسوائی ہے۔ (بس اپنی ہی اِمعان کی تحقیق کرو۔)
41
چیست امعان چشمہ را کردن رواں چوں ز تن جاں رست گویندش رواں
ترجمہ: (ہاں تو) امعان کے معنی کیا ہیں؟ (لو سنو) چشمہ کو جاری کرنا (دیکھو) چونکہ بدن سے رُوح چھوٹ جاتی ہے۔ (اس لیے) اس کو (فارسی میں) رواں کہتے ہیں۔
مطلب: مولانا کا مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِمعان کے معنی میں نظر و فکر کے لیے روانی ثابت کریں۔ ایک ہوتی ہے عام نظر جس میں امعان نہیں۔ وہ ایک سرسری اور عامیانہ نظر ہے جس کو پہلے شعر میں چشمہ استادہ سے تشبیہ دی تھی۔ ع ’’چشمہ افسرده است و کرده ایست‘‘ اور ایک نظر یا امعان یہ وہ نظر ہے جو نامعلوم امور کو علم کی گرفت میں لانے کے لیے چشمہ کی طرح جاری کی جائے۔ امعانِ نظر کے اس معنی کو ثابت کرنے کے لیے مولانا نے لغت کا حوالہ دیا ہے۔ یعنی امعان کے معنی از روئے لغت چشمہ جاری کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ کہ اسی طرح نظر کو بھی جاری کرنا چاہیے۔ اس میں سوال ہوسکتا ہے کہ چشمہ کے تو یہ معنی صادق آ سکتے ہیں، کیونکہ پانی کے لیے روانی مناسب ہے، غیرِ آب کے لیے روانی کیا معنی رکھتی ہے۔ اس کے جواب میں مولانا فرماتے ہیں کہ دیکھو جان کو روانی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خواب میں ایک وقت خاص کے لیے اور موت کے وقت ہمیشہ کے لیے رواں ہو جاتی ہے۔ تو یہاں غیرِ آب کے لیے روانی ثابت ہوئی۔ اسی طرح نظر کے لیے بھی روانی غیر موزوں نہیں۔ آگے روح کو رواں کہنے کا ثبوت ایک حکیم کے قول سے دیتے ہیں۔ جو فلاسفر پر جحت بھی ہے۔
42
آں حکیمے را کہ جاں از بندِ تنباز رست و شد رواں اندر چمن
43
یا رواں شد خود بسوئے ہاویہہمچو موش از زاویہ در زاویہ
44
دو لقب را او بریں ہر دو نہادبہرِ فرق اے آفریں بر جانش باد
ترکیب: ’’آں حکیمے‘‘ سے لیکر دوسرے شعر کے آخر یعنی ’’در زاویہ‘‘ تک مبتدا۔ ’’دو لقب‘‘ الخ خبر۔
ترجمہ: اس ایک فلسفی نے جس کی جان قیدِ جسم سے چُھوٹ کر (خدا جانے) چمن (بہشت) سدهاری یا دوزخ کی طرف گئی۔ جیسے ایک چوہا ایک کونے سے (دوسرے) کونے میں جا گُھستا ہے ان دونوں (روحوں) پر دو لقب رکھے ہیں۔ (دونوں میں) فرق کرنے کے لیے (جو اس نے حق گوئی سے کام لیا ہے۔) اے (مخاطب)! اس کی روح پر آفرین ہو۔
مطلب: فلسفی مذکور نے انسان کے لیے دو روحیں تسلیم کی ہیں۔ ایک رُوحِ حیوانی دوسری انسانی۔ رُوحِ حیوانی یعنی جان تو ایک بُخار ہے جو موت کے بعد چراغ کی طرح بُجھ جاتا ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ روحِ انسانی یعنی رواں نفسِ ناطقہ ہے۔ جو عالمِ بالا کو چلا جاتا ہے۔ پس اس فلسفی کا نفسِ ناطقہ عازمِ فوق کو رواں مان لینا۔ گویا اس کے لیے روانی کو تسلیم کرنا ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ اکثر شارحین نے یہاں فلسفی سے مراد شیخ بو علی بن سینا کو سمجھا ہے اور قولِ مذکور کی تصریح میں اس کے رسالہ معراجیہ سے یہ فقرہ نقل کیا ہے کہ ’’رواں نفسِ ناطقہ است و جان رُوح حیوانی‘‘۔
مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ عام خیال ہے کہ یہاں حکیم سے مراد شیخِ فلاسفہ بو علی سینا ہے۔ مولانا کو شک ہے کہ وہ چمنِ بہشت میں گیا ہے یا کنجِ دنیا سے نکل کر زاویۂ ہاویہ میں جا گھسا ہے اور یہ شک اس لیے ہے کہ شیخ نے اپنی تصانیف میں قِدمِ عالم کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور حشرِ اجساد کا انکار کیا ہے اور حق تعالیٰ کے لیے جزئیاتِ مادیہ کا علم نا ممکن قرار دیا ہے اور یہ سارے خیالات موجباتِ کفر ہیں، جو اس کے جہنمی ہونے کی دلیل ہیں۔ اور اس کے جنتی ہونے کا احتمال اس سے ہے کہ شاید مرنے سے پہلے تائب ہو چکا ہو۔ مگر شیخ مجد الدین بغدادی کا ایک خواب اس کے جہنمی ہونے کی تائید کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی۔ عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ابن سینا کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’ھُوَ رَجُلٌ اَرَادَ اَنْ یَّصِلَ اِلَی اللہِ تَعَالیٰ بِلَا وَاسِطَتِیْ فَاَحْجَبْتُہٗ بِیَدَیَّ ھٰکَذَا فَسَقَطَ‘‘ یعنی ”یہ وہ شخص ہے۔ جو بدون میرے واسطہ کے حق تعالیٰ سے مِلنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کو یوں اپنے دونوں ہاتھوں سے روکا تو وہ دوزخ میں جا گرا۔“ (انتہٰی ملخصًا)
صاحبِ کلیدِ مثنوی سلّمہ اللہ تعالیٰ نے خوب لکھا ہے کہ مولانا نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اس کے دعوائے اسلام کی وجہ سے اس کے انجام کا فیصلہ علمِ الہٰی کی طرف حوالہ کرنا اور اس کے موجباتِ کفر کی تاویل کرنا بہتر ہے۔ باقی رہا یہ کہ مولانا نے اس کو دعا دی جس کے لیے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ سو دعا کے لیے مجرد اسلام بھی کافی ہے۔ اور اس کے بہشتی یا دوزخی ہونے میں شبہ سے یہ معنی ہوں گے کہ اس کے بعض عقائدِ بدعیّہ پر عفو یا عذابِ محدود دونوں محتمل ہیں۔ اور نو مسلم مبتدع کے لیے جائز بلکہ افضل ہے (انتہٰی ملخصًا)۔ منہج القوی کے متن میں دوسرا شعر ؎ ’’یا رواں شد خود بسوئے ہاویہ‘‘ درج ہی نہیں۔ لہٰذا شارح نے اس حکیم کو صرف چمنِ خلد کی طرف روانہ کر کے چھوڑ دیا۔ اور شرح میں لکھا کہ شاید یہ حکیم سنائی ہیں۔ و الله اعلم۔
یہاں سے پندرہ شعر او پر مولانا نے فرمایا تھا ؎
چُوں عصا را مار کرد آں چُست دستگر ترا عقلے ست ایں نکتہ بس است
جس سے مدعا یہ تھا کہ حق تعالیٰ نے لاٹھی کی سی مفید چیز کو کس طرح ایک خطرناک و پُر ہیبت اژدہا بنا دیا۔ اگر تجھ میں کچھ عقل ہو تو یہی نکتہ کافی ہے۔ اس بات کے سمجھنے کے لیے کہ اسی طرح حق تعالیٰ اپنی قدرت سے زمین کے حلم کو مبدّل بقہر کر سکتا ہے۔ چنانچہ قارون کے لیے یہی ہوا۔ یہ مضمون پیچھے سے چلا آ رہا تھا۔ اس کے بعد سابقہ سلسلۂ تقریر میں ابو جہل کی بد فہمی کا ذکر آیا۔ تو اس سے احسان کی تعریف و تاکید کا ذکر چھڑ گیا۔ اب پھر وہی مفید چیز کے بحکمِ خدا مضر بن جانے کی طرف عود فرماتے ہیں:
45
در بیانِ آنکہ بر فرماں رودگر گُلے را خار خواہد آں شود
ترجمہ: (اب ہم تمہیں حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ اس بات کے ثبوت میں سناتے ہیں۔) کہ جو (بندہ حق تعالیٰ کے) حکم پر چلتا ہے، وہ اگر (خدا سے) پھول کا کانٹا (اور کانٹے کا پھول بن جانا) چاہے تو وہی بن جاتا ہے۔
مطلب: حق تعالیٰ تو سب کچھ کرنے پر قادر ہے ہی۔ مقبولانِ حق بھی جو تصرف مخلوقات میں چاہتے ہیں باذنِ حق وہی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام کی دعا سے جب قومِ عاد پر عذاب آیا تو ہوا جو جاندار مخلوق کے لیے مُمِدِّ حيات ہے اس قوم کے لیے باعثِ ممات بن گئی، اس سے پھول کا خار ہونا ثابت ہوا پھر عین اس حالت میں جب کہ افرادِ قوم ہوائے تند سے ہلاک ہو رہے تھے حضرت ہود علیہ السلام کی متبع جماعت کو اس سے بھی گزند نہ پہنچنا، یہ خار کے پھول ہونے کی دلیل ہے گویا پورا جملہ شعر کو سرخی کے ساتھ ملانے سے بنتا ہے۔ وَ هٰكَذَا صُوْرَتُھَا۔ (در بیان آنکہ ہر کہ بر فرمانِ حق رود اگر او از گلے خار شدن خواہد ہماں خواہد شد، معجزۂ ہود علیہ السلام بیان می کنیم)۔
وَقَالَ بَعْضُ شُرَّاحِ الفُحَولِ بَعْدَ مَا شَرَحَ هٰذَا البَيْتَ: اِنِّی اَمْعَنْتُ النَّظْرَ اَوْ اَحَلْتُ الفِكْرَ شَنَاعَةً اَوْ اَزِيدُ لِفَهْمِ هٰذَا البَيْتِ فَاُلْقِیَ فِی رَوْعِی مَا قُلْتُ وَ اَظُنُّ اَنَّهٗ لَا يُوْجَدُ اَحْسَنُ مِنْ هٰذَا۔ اِنْتَهٰى مَا قَالَ۔ وَ الْاِنْصَافُ مَفَوَّضٌ اِلٰى اَهْلِ العِلْمَیْنِ فَلْيَنْظُرُوْا هَلْ هٰذَا اَحْسَنُ مِنْ ذَاکَ اَمْ لَا۔ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ العَلِیِّ العَظِیْمِ۔