حصہ 3 شجرہ نسب: مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ کے مؤلف صاحب کا شجرۂ نسب

شیخ صاحب عبد الحلیم کتاب مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ کے مصنّف اور حضرت شیخ المشائخ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شجرۂ نسب کا ضمیمہ اور شیخ صاحب کے بھائیوں کے نام اور شیخ صاحب کے فرزندوں کے نام اور کاکا صاحب کے مشہور مُریدوں کے نام

مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ کے مؤلف صاحب کا شجرۂ نسب:

ابو اسد اللہ مہتد اللہ بن عطاء اللہ صاحب بن حبیب اللہ صاحب معروف بہ کوکو صاحب بن شیخ دلبر صاحب بن شیخ غنی دل صاحب بن شیخ عبد الحلیم صاحب بن کاکا صاحب۔

شیخ عبد الحلیم صاحب سے لے کر حبیب اللہ صاحب تک تمام فاضلان عصر تھے۔

ابو اسد اللہ مہتد اللہ سکنہ میاں گھڑی جو ایک گاؤں ہے مضافات جلالہ علاقہ بائزائے نواحی مردان کا۔ مردان علاقۂ کمال زئی ضلع پشاور میں واقع ہے۔

کاکا صاحب المعروف بہ شیخ جی صاحب کا شجرۂ نسب:

معتبر تاریخوں، کتابوں اور بزرگوں کی تصانیف مثلًا شیخ یحییٰ صاحب المعروف حضرت جی صاحب اٹک جو فقیر جمیل بیگ صاحب کے مُرید تھے (یہ بات تحقیق طلب ہے) اور جمیل بیگ صاحب حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، کی تصنیف سے معلوم ہوتا ہے کہ کاکا صاحب ہاشمی سادات میں سے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شیخ رحمکار صاحب بن سید بہادر المعروف بہ ابک صاحب بن سید مست صاحب بن سید غالب بن سید آدم (ان کے روضے کوہاٹ اور پشاور میں موجود ہیں) اور سید آدم صاحب بن سید یاسین صاحب بن سید محبت صاحب معروف بن سید حسن صاحب (اور ان کا مزار شریف خوست اور کرم کے درے میں ہے) اور سید حسن صاحب بن سید باقر صاحب (جو کہ شیخ بطن العالم کے نام سے مشہور ہیں اور جن کی قبر مبارک غزنی میں موجود ہے) و سید باقر صاحب بن سید محمود صاحب مشہور بہ یونس صاحب بن سید احمد صاحب مشہور بہ انوس صاحب بن سیف الدین صاحب مشہور بہ کرامت صاحب بن سعید الدین صاحب مشہور بہ توری بابا بن سید علی اکبر مشہور بہ تورمان صاحب (ان کے مکانات پشین میں موجود ہیں اور یہی سید علی اکبر صاحب) بن سید گل صاحب مشہور بہ لقمان صاحب بن سید رجال صاحب معروف بہ ککی بابا بن سیفان صاحب معروف بہ سید قاف صاحب اور لقمان صاحب و ککی بابا صاحب و سید قاف صاحب (ان کی قبریں بخارا میں موجود ہیں) اور سید قاف بن سید خاتم صاحب (جو کہ سید رجال صاحب کے نام سے مشہور ہیں) بن سید خاتم اور سید رجال صاحب و سید کاظم صاحب اور سید اسماعیل صاحب کی قبریں مشہد میں ہیں۔ اور سید اسماعیل صاحب بن امام جعفر صادق صاحب کا روضہ مبارک بغداد میں ہے۔ اور امام جعفر صادق خلف امام سید باقر صاحب جن کی قبر علاقہ شام میں ہے۔ اور سید امام باقر صاحب ابن امام سید زین العابدین صاحب خلف الرشید سید امام حسین صاحب شہید کربلا، جن کا روضۂ مطہرہ کربلا میں ہے۔ اور امام حسین رضی اللہ عنہ خلف الرشید سیدۃ النساء خاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہرا بنت محمد رسول اللہ ﷺ۔ یہ حضرت جی صاحب اٹک کے شجرہ سے نقل کیا گیا ہے جو کہ فقیر جمیل بیگ صاحب کے مرید تھے اور فقیر جمیل بیگ صاحب فقیر صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت شیخ صاحب کے پانچ بیٹے تھے، بڑے بیٹے آزاد گل زیارت میں مدفون ہیں یہ صاحب کثیر الاولاد تھے، اکثر کاکا خیل ان کی اولاد ہیں اور تقریباً تمام کے تمام زیارت کاکا صاحب میں رہائش پذیر ہیں اور بہت کم باہر سکونت رکھتے ہیں۔ دوسرے بیٹے محمد گل صاحب ہیں، ان صاحب کی اولاد بہت کم ہے اور ایک نرینہ اولاد سے ان کی اولاد زیادہ نہیں اور وہ موضع کوٹ رانی زئی میں ہے۔ اُن کی قبر بھی زیارت میں ہے تیسرے بیٹے خلیل گل صاحب ہیں اور وہ والد صاحب کی زندگی میں موضع ٹوٹے علاقہ رانی زائی میں چلے گئے تھے اور وہاں اُن کا مزار ہے جو کہ منزری (شیر) بابا کے نام سے مشہور ہے۔ ان کی اولاد بھی کم ہے، صرف ٹوپی میں اور ہشت نگر میں دو چار گھر ہیں۔ چوتھے شیخ عبد الحلیم صاحب تھے جو مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ کے مصنف ہیں ان کی اولاد آزاد گل کی اولاد سے کم ہے، بعض اولاد زیارت میں رہتی ہے مگر اکثر باہر رہتے ہیں۔ علاقہ ہشت نگر بہت زیادہ ہیں، بعض پکلی مانسہرہ میں رہتے ہیں اور امازی گھڑی علاقہ مردان و اضا خیل علاقہ نوشہرہ میں بھی بعض سکونت پذیر ہیں۔ پانچویں بیٹا نجم الدین صاحب تھے جو بچپن میں فوت ہو چکے ہیں اور ان کی اولاد نہ تھی۔ شیخ جی صاحب کی تمام اولاد اولیاء اللہ میں سے تھی۔ اور حضرت صاحب کے دو بھائی تھے اور دونوں صاحبان ولایت تھے، ایک حیات خان اور دوسرے شیخ عفان تھے جو شیخ کے گنبد کے نزدیک دفن ہیں۔ اور حضرت شیخ صاحب کے مریدان کامل شمار سے زیادہ ہیں، اُن میں تین ہزار غلاموں کو آزاد کر دیا تھا اور یہ تمام صاحب کرامت گذرے ہیں۔ ان میں ایک مرید سعد اللہ خان نے دولت کی خواہش کی تھی جو شاہ جہان کا وزیر ہو گیا تھا اور سعد اللہ خان وزیر کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے علاوہ جو بہت زیادہ مشہور ہیں اور صاحبان کرامت تھے اور اُن کے مزار مشہور ہیں ذیل کی تفصیل کے ساتھ بیان کیے جا رہے ہیں:

پہلے غازی خان صاحب جو حضرت شیخ صاحب کے عزیز تھے اور آپ کے روضے سے مغرب کی جانب ان کا روضہ ہے۔ دوسرے عبد الرحیم جو شیخ رحیم خٹک کے نام سے مشہور ہیں، دوڑان کے رہنے والے تھے۔ تیسرے علی گل اور ملی گل جو حضرت صاحب کے خاص خادموں میں سے تھے، حضرت صاحب کے خاص روضے کے ساتھ دفن ہیں۔ چوتھے فقیر صاحب شگی جو شیخ جی صاحب کے روضے کے بائیں جانب دفن ہیں۔ پانچویں فقیر جمیل بیگ جو خٹک قبیلے کے تھے اور فقیر صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔ چھٹے مرزا گل صاحب جو مشہور ولی ہیں۔ ساتویں شیخ بابر صاحب، جن کی برکت سے ہر قسم کی ریحی دردوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ آٹھویں دریا خان چمکنی جو پہلے آدم بنوری کے مرید تھے اور آخر میں حضرت شیخ صاحب کے مرید بن گئے۔ نہم شیخ فتح گل صاحب جن کی زیارت نیلاب میں ہے۔ دسویں شیخ ادین صاحب جن کا مزار نیل بنڑ میں ہے۔ گیارہویں شیخ کمال صاحب جن کا مزار کمال زائی علاقہ بنگش میں ہے۔ بارہویں شیخ حیات جن کی زیارت خان پور میں ہے۔ تیرہویں پیر میاں جی صاحب جن کی زیارت شوہ گی میں ہے۔ چودھویں سر مست صاحب، پندرہویں نمیر صاحب، ان دونوں کی زیارت ریبازو میں ہے۔ سولہویں، سترہویں شیخ اختیار صاحب جو ہشت نگر میں آسودۂ خاک ہیں۔ اٹھارویں شاہی صاحب جن کا مزار شادی خیل علاقہ کوہاٹ میں ہے۔ انیسویں حسن بیگ اتمان خیل، بیسویں نور یوسف جن کی قبر مورہ علاقہ بونیر میں ہے، اکیسویں اخوند بلال صاحب جو ایک قلندر شخص تھے، بائیسویں اخوند اسماعیل، تئیسویں مظفر صاحب، یہ دونوں باپ بیٹے تھے اور دونوں مشہور زیارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے حضرت شیخ کی نسبت سے مناقب جمع کر رکھے تھے۔ چوبیسویں شیخ نذیر صاحب ساکن سوات جو آپ کی وفات کے بعد آپ کی اجازت سے شیخ جعفر اٹک کے مرید ہوئے اور وہیں رہتے تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں کیونکہ حضرت شیخ صاحب کیمیا نظر تھے۔ ان ناموں پر میں یہ کتاب ختم کرتا ہوں ان کا ذکر مشت نمونہ از خروارے کے طور پر کر دیا۔ کتاب کے خاتمے اور موت کے وقت کی حالت تک بالکل شیخ عبد الحلیم صاحب کی تصنیف ہے اور شجرۂ نسب کے بارے میں یہ ضمیمہ میں نے شمس الدین کی تصنیف سے بحوالہ فقیر صاحب اور حضرت جی اٹک جو دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے، اخذ کیا ہے۔

1؎: فقیر صاحب جو شہباز خان کے بیٹے اور خوشحال خان کے بھائی ہیں آپ کا مزار موضع تنگاڑو جو جہانگیرہ سے تقریبًا چھ میل بجانب جنوب مشرق واقع ہے موجود اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ (کوثؔر)

فائدہ:

مقامات قطبیہ میں بعض مقامات میں شیخ ابک صاحب کا نام بہادر خان اور کاکا صاحب کے بھائی کا نام حیات خان ہے اور ایک عزیز شیخ صاحب کا نام بہادر خان آیا ہے اور یہ نام عربی نہیں بلکہ افغانی ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ شیخ صاحب سید ہوتے تو ان کے والد اور عزیز کے نام خان نہ ہوتے۔ یہ عاجز مؤلف معترض کے اعتراض کے رفع کرنے کے لیے چند وجوہات بیان کر کے اس کی تسلی کرنا چاہتا ہے، پہلی وجہ اگر شجرۂ نسب پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ سید آدم سے لے کر سید بہادر صاحب تک پانچ پشت ہوتی ہیں، پانچ پشتوں سے یہ صاحبان کوہاٹ اور پشاور میں داخل ہیں، اور جو کوئی کسی ملک میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ اس ملک کے رسم و رواج اور طور طریقے قبول کرتے ہیں کہ نو وارد اور اصلی باشندوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جب شاہان مغلیہ نے ہندوستان میں سکونت اختیار کی تو وہ ہندوستانی رسم و رواج اور لباس اختیار کر گئے۔ اور اسی طرح قریش اور سید کے درمیان تمیز نہیں ہوتی اور سید لوگ بعض کیا نام رکھتے ہیں۔ اور بعض کے نام بڈھا شاہ اور بعض اسی طرح کے کچھ۔ اور میں نے دہلی میں ایک سیّد کی ایک قبر دیکھی تھی جس پر تحریر تھا کہ فلان سید المعروف بہ کلن خان علی ہذا القیاس۔ ہمارے صاحبوں نے افغانوں کے ساتھ رشتے ناطے کیے ہیں اور ان کی مائیں افغان تھیں اور اکثر بچوں کے نام مائیں رکھتی ہیں، شاید یہ نام اُن کے ماؤں نے رکھے ہوں۔ تیسری وجہ یہ کہ شاید شیخ ابک صاحب کا نام بہادر الدین، حیات خان کا نام حیات الدین اور غازی خان کا نام غازی الدین ہو مگر کسی وجہ سے دین کی بجائے خان کا نام شامل ہوا ہوگا اور کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا ہوگا۔ چنانچہ خود عاجز مؤلف کا نام مہتد اللہ ہے اور طالب علمی کے زمانے میں لاہور کے مدرسے میں مہتد اللہ خان درج ہوا تھا۔ اب میرا نام سرکاری کاغذات میں مہتد اللہ خان ہے حالانکہ میں صاحبزادہ یعنی کاکا خیل ہوں اور صاحبزادگی کو خانی پر ترجیح دیتا ہوں بشرطیکہ صاحبزادہ اپنے بزرگوں کے طریقوں پر عمل کرے۔ مگر میں نے خان کے لفظ پر کوئی اعتراض نہیں کیا اسی وجہ سے میرا نام مہتد اللہ خان رہ گیا۔ شاید موصوف صاحبوں کا بھی یہی حال ہو۔ چوتھی وجہ یہ کہ ہمارے بزرگوں نے نام رکھنے میں کبھی غور نہیں فرمایا۔ چنانچہ شیخ ابک صاحب کے والد صاحب کے والد بزرگوار کا نام شیخ مست صاحب اور دادا کا نام سید غالب تھا اور خود شیخ ابک صاحب نے جو کامل اور مکمل اور منصب قطب عالم پر متمکن تھے اپنے آخری بیٹے کا نام جو مرتبۂ معشوقیت کو پہنچے ہوئے تھے، کستیر یا کستیر گل رکھا۔ اب خدا جانتا ہے کہ کستیر کے کیا معنیٰ ہے اور یہ کس پھول دار درخت کا نام ہے یا اس میں کیا غرض تھی، کیونکہ مخلص لوگ ظاہر داری کا خیال نہیں رکھتے اور مدعی اور ریاکار لوگ ظاہر داری کا اہتمام کرتے ہیں اور نام وغیرہ رکھنے میں احتیاط فرماتے ہیں اور بڑے بڑے نام رکھتے ہیں۔ اور اللہ والے خود بھی سادہ ہوتے ہیں اُن کے کام بھی سادہ اور ان کے نام بھی سادہ ہوتے ہیں۔ اور یہ بات واضح رہے کہ میں نے شیخ عبد الحلیم صاحب کی تصنیف میں کوئی تحریف نہیں کی نہ تحریف معنوی کی جرأت کی ہے اور نہ تحریف لفظی کا اقدام کیا ہے کیونکہ دینی کتابوں میں تحریف کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کتاب کی تالیف سے میرا مقصود ثواب حاصل کرنا ہے، نہ کہ عذاب اور سزا حاصل کرنا۔ ہاں البتہ پہلے یہ کتاب بے ترتیب تھی اور میں نے ترتیب دے کر باب اور مقالہ جات کو مناسب کیا اور ایسا کسی قسم کا رد و بدل نہیں کیا کہ معنیٰ میں فرق پڑ جائے۔ اور اگر اپنی جانب سے کوئی چیز تحریر کی ہے تو وہاں فائدہ کا لفظ لکھ کر اپنی تحریر کو جدا طور پر ظاہر کیا ہے۔ میں نے تو فقط بزرگوں کی تصنیف کو مکرر کیا ہے اور مشاطہ (اس زمانے میں مشاطہ کا بہترین مفہوم میک اپ سے ادا کیا جا سکتا ہے) کا کام کیا ہے۔ اور شیخ عبد الحلیم صاحب کی یہ تصنیف سال 1063ھ سے یکم محرم 1318ھ تک تقریباً دو سو پچپن سالہ دُلہن کی طرح ایسے لباس میں گونگھٹ لگائے ہوئی تھی کہ کوئی بھی اس کی ملاقات کا شرف حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اور میں جتنی کہ میری لیاقت تھی، مقدور بھر اس کو خواہ اچھا ہو یا بُرا آراستہ و پیراستہ کر کے اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے حوالے کر کے امید کرتا ہوں جو کوئی بھی اس کو دیکھے گا اس کا عاشق ہو جائے گا۔ بیت۔

؎ افسوس آنکه طالب عشق خدا کم است

آں را کہ درد عشق نہ باشد کہ آدم است

افسوس کی بات یہ ہے کہ خدا کے عشق و محبت کے طلب کرنے والے بہت کم ہیں اور جو کوئی عشق کے درد اور افسوس سے واقف نہ ہو بھلا وہ آدمی کب ہو سکتا ہے‘‘۔

اور جب کوئی اس کو دیکھ کر عاشق ہو جائیں اور اس کے دیکھنے سے سرور و انبساط حاصل کریں تو یہ ضروری ہے کہ اُس عالم سرور و نشاط میں اُس وقت مغفرت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اس کتاب کے مصنف اور مؤلف (اور مترجم) کو دعا میں یاد فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے اُن کے لیے عفو اور بخشش کے طلب گار ہوں گے۔ تاکہ اگر گفتار میں کچھ بھول چوک اور سہو ہو یا نیت میں ریا کاری اور نام و نمود کا کچھ شائبہ شامل ہو گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور ان کی دعاؤں کے طفیل معاف فرمائے اور اس کتاب کے ثواب سے بے نصیب نہ فرمائے، کیونکہ اس سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص دعوت الی اللہ کرتے ہوئے لوگوں پر نگاہ ڈالے اور خدا کی رحمت سے دور پوشیدہ رہے۔ اور اس کتاب کے خاتمے میں عرض کرتا ہوں۔ "اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَ نَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ نَعُوْذُ مِنْکَ" ”اے بارِ الٰہا! ہم آپ کے عفو کے ذریعے آپ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اور آپ کی گرفت سے آپ کی رضا کے ذریعہ پناہ مانگتے ہیں اور آپ ہی کی پناہ مانگتے ہیں“۔ آمین

مُترجم:

عبد الرزاق کوثؔر لوند خوڑ ضلع مردان