مکتوب 85
مرزا فتح اللہ1 حکیم کی طرف صادر فرمایا۔ اعمالِ صالحہ کے بجا لانے خصوصاً (فرض) نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی ترغیب میں اور اس کے مناسب بیان میں۔
وَفَّقَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ لِمَرْضِیَّاتِہٖ (حق تعالیٰ سبحانہٗ آپ کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرمائے) آدمی کے لئے جس طرح اعتقادات درست کرنے سے چارہ نہیں ہے اسی طرح اعمالِ صالحہ کے بجا لانے سے بھی چارہ نہیں ہے اور عبادتوں میں سب سے جامع عبادت اور طاعتوں میں سب سے زیادہ قرب والی طاعت نماز کا ادا کرنا ہے۔ حضور انور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "اَلصَّلوۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ فَمَنْ أَقَامَھَا فَقَدْ أَقَامَ الدِّیْنَ وَ مَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ ھَدَمَ الدِّیْنَ"2 ترجمہ: ”یعنی نماز دین کا ستون ہے، جس نے اس کو قائم کیا اس نے اپنے دین کو قائم کیا اور جس نے اس کو ترک کیا اس نے دین کو گرا دیا“۔ اور جس شخص کو ہمیشہ پابندی سے نماز ادا کرنے کی توفیق عنایت فرماتے ہیں اس کو برائیوں اور خلاف شرع کاموں سے بھی باز رکھتے ہیں آیت کریمہ: ﴿إِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت: 45) ترجمہ: ”بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے“۔ اس بات کی تائید کرتی ہے۔ اور جو نماز ایسی نہیں ہے وہ نماز کی طرف صورت ہے (نماز کی) حقیقت نہیں ہے۔ لیکن حقیقت نماز کے حاصل ہونے تک صورت کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہُ لَا یُتْرَکُ کُلُّہُ (جو چیز پوری حاصل نہ ہو سکے اس کو بالکل ترک بھی نہیں کرنا چاہیے یعنی جس قدر مل سکے حاصل کر لے)۔ اکرم الاکرمین (حق سبحانہٗ و تعالیٰ) اگر نماز کی صورت کو نماز کی حقیقت کے درجہ میں اعتبار کر لے تو کچھ بعید نہیں ہے۔ پس آپ پر واجب ہے کہ تمام (فرض) نمازوں کو خشوع و خضوع کے ساتھ جماعت سے ادا کریں کیونکہ یہی نجات و کامیابی کا ذریعہ ہے حق سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ 0 اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ﴾ (المؤمنون 1-2) ترجمہ: ”ان ایمان والوں نے یقینا فلاح پالی ہے جو اپنی نماز میں دل سے جھکنے والے ہیں“۔ کام وہی ہے جو اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالتے ہوئے کیا جائے، دشمن کے غلبے کے ساتھ سپاہی اگر تھوڑی سی جد و جہد بھی کرے تو بڑا اعتبار پیدا کر لیتا ہے۔ جوانوں3 کی نیکی بھی اسی وجہ سے زیادہ معتبر ہوتی ہے کہ انھوں نے خواہش نفسانی کے غلبہ کے با وجود اپنے آپ کو نیکی میں مشغول کیا ہوا ہے۔ اصحابِ کہف نے اس قدر بزرگی (جو ان کو حاصل ہے) دین کے مخالف (اپنے وقت کے کافر بادشاہ) سے ہجرت کرنے کی بنا پر حاصل کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث شریف میں آیا ہے: "عِبَادَۃٌ فِيْ الْھَرْجِ کَھِجْرَۃٍ إِلَيَّ"4 ترجمہ: ”ہرج (فتنہ) کے وقت میں عبادت کرنا ایسا ہے جیسا کہ میری طرف ہجرت کرنا“۔ پس عبادت سے روکنے والی چیز حقیقت میں عین عبادت کا باعث ہے۔ اس سے زیادہ کیا لکھا جائے۔
میرے فرزند شیخ بہاؤ الدین کو فقرا کی صحبت پسند نہیں آتی، دولت مندوں اور منعموں کی طرف مائل و راغب ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ ان کی صحبت زہرِ قاتل ہے اور ان کے مرغن لقمے ظلمت کو بڑھانے والے ہیں۔ الحذر الحذر ثم الحذر الحذر (ان سے بچو بچو، پھر بچو بچو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث وارد ہے: "مَنْ تَوَاضَعَ لِغَنِیٍّ لِغِنَاہُ ذَھَبَ ثُلُثَا دِیْنِہٖ فَوِیْلٌ لِّمَنْ تَوَاضَعَھُمْ لِغِنَاھُمْ"5 ترجمہ :”جس شخص نے کسی دولت مند کی اس کی دولت کی وجہ سے تواضع کی اس کے دین کا دو تہائی حصہ تباہ ہو گیا پس افسوس ہے جس نے دولت مندوں کی ان کی دولت مندی کی وجہ سے تواضع کی“۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُوَفِّقُ (اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ (ان کی تواضع سے بچنے کی) توفیق بخشنے والا ہے)
1 مرزا فتح اللہ حکیم کا مختصر تذکرہ دفتر اول کے مکتوب 80 کے حاشیے پر ملاحظہ فرمائیں۔
2 اس حدیث کو دیلمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور بیہقی نے شعب الایمان میں مرفوعًا روایت کیا ہے، ثُمَّ أَنَّ الَّذِیْ أَخْرَجَہُ الْبَیْھَقِيُّ ھِيَ الْجُمْلَۃُ الْأُوْلٰی یَعْنِي: "الصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ" فَقَطْ، وَ أَمَّا قَوْلُہٗ: "فَمَنْ تَرَکَھَا…الخ" قَدْ وَرَدَ بِطُرُقٍ مُّتَعَدَّدَۃٍ وَّ بِأَلْفَاظٍ مُّخْتَلَفَۃٍ أوْرَدَھَا شَارِحُ الْإِحْیَاءِ
3 بخاری و مسلم کی حدیث میں وارد ہے کہ: "شَابٌّ نَشَأَ فِيْ عِبَادَۃِ اللہِ"
4 رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَّ التِّرْمَذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ مِْعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ
5 رَوَاهُ الْبَیْھَقِيُّ فِيْ الشُّعَبِ وَ الْخَطِیْبُ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ بِلَفْظِ: "مَنْ دَخَلَ عَلٰى غَنِيٍّ فَتَضَعْضَعَ لَهٗ ذَهَبَ ثُلُثَا دِيْنِهٖ" وَ أَخْرَجَ الدَّيْلَمِيُّ عَنْ حَدِیْثِ أَبِيْ ذَرٍّ رَضِيَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: "لَعَنَ اللہُ فَقِیْرًا تَوَاضَعَ لِغَنِيٍّ مِنْ أَجْلِ مَالِہٖ، مَنْ فَعَلَ ذٰلِكَ مِنْھُمْ فَقَدْ ذَھَبَ ثُلُثَا دِيْنِهٖ" قَالَ السَّیُوْطِيُّ: وَ لَمْ یُصِبِ ابْنُ الْجَوْزِيُّ فِيْ إِیْرَادِہٖ فِي الْمَوْضُوْعَاتِ۔