مکتوب 64
یہ مکتوب بھی سیادت و ستائش کی پناہ والے شیخ فرید کی طرف صادر فرمایا۔ جسمانی و روحانی لذت اور رنج و غم کے برداشت کرنے کی ترغیب اور ان کے مناسب بیان میں۔
سَلَّمَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ عَافَاکُمْ فِی الدَّارَیْنِ بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الثَّقَلَیْنِ عَلَیْہِ وَ عَلَی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ (اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سید الثقلین علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل آپ کو دونوں جہان میں سلامتی و عافیت کے ساتھ رکھے)
دنیا کی لذت اور رنج و غم دو قسم کے ہیں: 1۔ جسمانی اور 2۔ روحانی، جس چیز میں جسم کے لئے لذت ہے روح کے لئے اس میں درد و رنج ہے، اور جس چیز سے جسم کو رنج پہنچتا ہے روح کو اس سے لذت حاصل ہوتی ہے، پس روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس جہاں میں چونکہ روح جسم کے مقام میں اُتری ہوئی ہے اور جسم و جسمانی کی گرفتار ہو گئی ہے اس لئے روح بھی جسم کے حکم میں ہو گئی ہے، اس کی لذت سے لذت یاب اور اس کے رنج و الم سے درد مند ہو گئی ہے۔ یہ عوام کالأنعام کا مرتبہ ہے (آیہ کریمہ) ﴿ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾ (التین: 5) ترجمہ: ”پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کردیتے ہیں“۔ (یعنی انسان نے کافر ہو کر اپنی فطرتِ سلیمہ کو ضائع کر دیا) انہی کے حال پر صادق آتی ہے۔ اگر روح اس گرفتاری سے رہائی حاصل نہ کرے اور اپنے اصلی وطن کی طرف رجوع نہ کرے تو ہزار ہزار افسوس ہے؎
پایہ آخر آدم است و آدمی
گشت محروم از مقامِ محرمی
گر نہ گردد باز مسکیں زیں سفر
نیست از وے ہیچ کس محروم تر
ترجمہ:
ہے نزولِ آخری میں آدمی
پس ہے محرومِ مقامِ محرمی
گر نہ لَوٹے اس سفر سے وہ غریب
کیا کہوں بس ہے نہایت بد نصیب
یہ روح کی بیماری ہی کی وجہ سے ہے کہ (انسان) اپنے درد و رنج کو لذت اور لذت کو درد و رنج سمجھتا ہے جیسا کہ صفراوی مزاج والا شخص صفرا کی بیماری کے باعث شیرینی کو کڑوی محسوس کرتا ہے۔ پس عقل مندوں پر اس مرض کے دور کرنے کی فکر کرنا لازم ہے تاکہ جسمانی رنج و مصائب میں خوش و خرم زندگی بسر کریں۔ بیت:
از پئے ایں عیش و عشرت ساختن
صد ہزاراں جاں بباید باختن
ترجمہ:
اس طرح کے عیش و عشرت کے لئے
صد ہزاراں جان کی بازی کرے
اور جب اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں درد و رنج اور مصیبت نہ ہوتی تو پھر دنیا کی قدر و قیمت جَو کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہوتی۔ اس (دنیا) کی ظلمتوں اور تاریکیوں کو (یہاں کے) مصائب و حوادثات زائل کرتے ہیں، حوادثات کی تلخی کڑوی دوا کی طرح نفع دینے والی ہے جو کہ مرض کو دور کرتی ہے۔
اس فقیر کو محسوس ہوا ہے کہ لوگ عام دعوتوں میں جو کھانا پکاتے ہیں وہ خالص نیت کا لحاظ نہیں کرتے اس کے کھانے والوں میں سے بعض لوگ گلہ و شکایت کرتے ہوئے اُٹھتے ہیں اور اس کھانے اور صاحبِ طعام میں نقص و عیب نکالتے ہیں اور صاحبِ طعام کا دل اس بات سے شکستہ ہو جاتا ہے، تو صاحبِ طعام کی یہی شکستگی اس ظلمت کو جو نیت میں خلوص نہ ہونے کی وجہ سے کھانے میں آ گئی تھی، دُور کر دیتی ہے اور قبولیت کے مقام میں لے آتی ہے۔ اگر اس جماعت کی طرف سے گلہ و شکوہ نہ ہوتا اور صاحبِ طعام کے دل میں انکساری و عاجزی پیدا نہ ہوتی تو کھانا سراسر ظلمت و کدورت سے بھرا رہتا، اس صورت میں قبولیت کی امید کی کیا گنجائش ہوتی۔ پس کام کا دار و مدار شکستگی اور بے چارگی پر ہے اور ہم ناز میں پَلے ہوئے عیش و عشرت کے طالبوں کے لیے یہ کام مشکل ہے: ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56) ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔ نصِّ قاطع ہے۔ اور عبادت سے مراد عاجزی و انکساری ہے، پس انسان کی پیدائش سے مقصود (خالق کائنات کے سامنے) عاجزی و انکساری کرنا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں اور دین دار لوگوں کے لئے کیونکہ دنیا اُن کے لئے قید خانہ1 ہے۔ قید خانے میں عیش و عشرت ڈھونڈنا عقل سے دُور ہے، پس آدمی کے لئے محنت اٹھانے کی مشق کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس بوجھ کے اٹھانے کی ورزش سے کوئی بچاؤ کا راستہ نہیں۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کے جد بزرگوار علیہ و علی آلہ من الصلوات أتمہا و من التحیات أکملہا کے طفیل ہم بے طاقتوں کو اس حقیقت پر استقامت مرحمت فرمائے۔
1 صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: "الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَ جَنَّةُ الْكَافِرِ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 5158)