دفتر 1 مکتوب 46: س بیان میں کہ حق تعالیٰ و تقدس کا وجود اور اس کی وحدت بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اور وہ تمام احکام جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے بدیہی ہیں اور کسی فکر و دلیل کے محتاج نہیں ہیں اور ان سب کے بدیہی (یعنی جس میں دلیل کی حاجت نہ ہو) ہونے کی وضاحت کے لئے بہت سے دلائل بیان فرمائے ہیں

مکتوب 46

یہ مکتوب بھی سرداری و شرافت کی پناہ والے شیخ فرید کی طرف صادر فرمایا، اس بیان میں کہ حق تعالیٰ و تقدس کا وجود اور اس کی وحدت بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اور وہ تمام احکام جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے بدیہی ہیں اور کسی فکر و دلیل کے محتاج نہیں ہیں اور ان سب کے بدیہی (یعنی جس میں دلیل کی حاجت نہ ہو) ہونے کی وضاحت کے لئے بہت سے دلائل بیان فرمائے ہیں۔

ثَبَّتَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَلَی جَادَّۃِ آبَآئِکُمُ الْکِرَامِ أَوَّلِھِمْ وَ أَفْضَلِھِمْ أَوَّلًا وَّ عَلٰی بَوَاقِیْھِمْ ثَانِیًا الصَّلوۃُ وَ السَّلَامُ (اللہ سبحانہٗ آپ کو اپنے بزرگ آبا و اجداد کے راستے پر ثابت قدم رکھے اول ان سب میں سے اول و افضل پر اور پھر باقی سب پر صلوۃ و سلام ہو)

حق تعالیٰ و تقدس کا وجود اور اسی طرح اس کی وحدت بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت بلکہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں وہ سب بدیہی ہیں اور کسی فکر و دلیل کے محتاج نہیں ہیں بشرطیکہ انسان کی قوتِ مدرکہ تمام ردّی آفتوں اور باطنی بیماریوں (مثلاً تکبر، حسد، طولِ امل، طبع، ریا اور بغض وغیرہ) سے صحیح و سالم و محفوظ ہو۔ ان امور میں نظر و فکر کرنا قوتِ مدرکہ میں کسی (باطنی) بیماری و آفت کے موجود ہونے تک ہے لیکن امراضِ قلبی سے نجات حاصل کرنے اور باطنی آنکھ کا پردہ دور ہو جانے کے بعد بداہت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مثلاً صفراوی مزاج والا آدمی جب تک مرض صفرا میں گرفتار ہے قند و مصری کی شیرینی اس کے نزدیک دلیل کی محتاج ہے لیکن اس مرض (صفرا) کے دور ہو جانے کے بعد قند و مصری کی شیرینی پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی، اور جس احتیاج کا مبدا آفت و بیماری کا وجود ہے وہ ہدایت کے مخالف نہیں ہے۔ بے چارہ احول (بھینگا، ٹیڑھی آنکھ والا آدمی) جس کو ایک آدمی دو نظر آتے ہیں اور اس شخص کے ایک نہ ہونے کا حکم کرتا ہے، وہ معذور ہے اور احول میں بیماری کا وجود اس شخص کی وحدت کو بدیہی ہونے سے خارج نہیں کرتا اور نہ ہی اس کو دلیل و نظر کا محتاج کرتا ہے۔

اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ استدلال کا میدان بہت تنگ ہے اور دلیل کے ذریعے یقین کا حاصل ہونا بہت دشوار ہے، پس یقینی ایمان حاصل کرنے کے لئے قلبی امراض کو دور کرنے کی فکر کرنا ضروری ہے۔ صفراوی مزاج والے کو قند و مصری کی شیرینی کا یقین حاصل کرنے کے لئے صفرا کی بیماری کا دور کرنا اس بات سے زیادہ ضروری ہے کہ قند و مصری کی شیرینی کے یقین پر دلیل قائم کرے۔ بھلا اس کو دلیل کے ساتھ یقین کس طرح حاصل ہو سکتا ہے جب کہ اس کا وجدان (باطنی ذوق و علم) صفرا کی بیماری کے باعث قند و مصری کے تلخ ہونے کا حکم کرتا ہے جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس کا یہی حال ہے۔

نفس امارہ بالذات (فطری طور پر) شرعی احکام کا منکر ہے اور طبعی طور پر ان کے بر خلاف حکم کرنے والا ہے۔ پس ان سچے احکام کا دلیل کے ذریعے یقین حاصل کرنا جب کہ استدلال کرنے والے کا وجدان ان کا انکار کرتا ہو نہایت دشوار ہے، پس نفس کا تزکیہ (یعنی رذائل سے پاک کرنا) نہایت ضروری ہے۔ تزکیہ حاصل کئے بغیر یقین کا حاصل کرنا بہت دشوار ہے۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا 0 وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 9-10) ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے“۔ پس ثابت ہو گیا کہ اس روشن شریعت اور واضح ملت کا انکار کرنے والا قند و مصری کی شیرینی کے منکر کی طرح ہے۔ مصرع:

خورشید نہ مجرم ار کسے بینا نیست

ترجمہ:

دیکھ سکتا نہیں جو نا بینا

دن کو دیکھے اگر نہ چمگادڑ

اس میں سورج کی کچھ نہیں ہے خطا

پس سیر و سلوک و تزکیہ نفس و تصفیہ قلب سے مقصود ان باطنی آفتوں اور قلبی امراض کو دور کرنا ہے جن کی طرف آیت کریمہ: ﴿فِيْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ﴾ (البقرۃ: 10) ”ان کے دلوں میں روگ ہے“۔ میں خبر دی گئی ہے تاکہ ایمان کی حقیقت حاصل ہو جائے، اور ان امراض و آفات کے موجود ہوتے ہوئے اگر ایمان حاصل ہے تو وہ صرف ظاہر کے اعتبار سے ہے کیونکہ نفسِ امارہ کا وجدان (باطنی ذوق) اس کے بر خلاف حکم کرتا ہے اور اپنے کفر (سر کشی) کی حقیقت پر مستعد اور اڑا ہوا ہے۔ اس قسم کے ایمان اور ظاہری تصدیق کی مثال ایسی ہے جیسے قند و مصری کی مٹھاس کے ساتھ صفراوی مزاج والے کا ایمان ہوتا ہے کیونکہ اس کا وجدان اس کے (ایمان کے) خلاف گواہ ہے۔ شکر کی مٹھاس کے ساتھ حقیقی یقین کا حاصل ہونا مرض صفرا کے دور ہو جانے کے بعد ہی پایا جاتا ہے پس تزکیہ نفس اور اس کے مطمئنہ ہو جانے کے بعد ایمان کی حقیقت حاصل ہوتی ہے اس کا ایمان وجدانی ہو جاتا ہے اور اس قسم کا ایمان زوال سے محفوظ ہے۔ آیت کریمہ: ﴿أَ لَآ اِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ﴾ (یونس: 62) ”یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے“۔ ایسے ایمان والے لوگوں کے حق میں صادق آتی ہے۔ شَرَّفَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِشَرَفِ ھٰذَا الْإِیْمَانِ الْکَامِلِ الْحَقِیْقِیِّ بِحُرْمَۃِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الْقَرَشِیِّ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اللہ تعالیٰ اپنے امّی قرشی نبی محمد مصطفٰے علیہ و علی آلہ من الصلوات أفضلہا و من التسلیمات أکملہا کے طفیل اس قسم کے کامل اور حقیقی ایمان سے مشرف فرمائے، آمین)