دفتر 1 مکتوب 305: نماز کے اسرار کے بیان میں، اور مبتدی اور عامی کی نماز اور منتہی کی نماز کے درمیان فرق اور اس کے مناسب بیان میں۔

دفتر اول مکتوب 305

میر محب اللّٰہ ؂1 کی طرف صادر فرمایا۔

نماز کے اسرار کے بیان میں، اور مبتدی اور عامی کی نماز اور منتہی کی نماز کے درمیان فرق اور اس کے مناسب بیان میں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

(اللّٰہ تعالیٰ کی حمد ہے، اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)

اللّٰہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے! واضح ہو کہ نماز کو کامل طور پر ادا کرنے اور اس میں کمال حاصل ہونے سے مراد فقیر کے نزدیک یہ ہے کہ نماز کے فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات جن کا بیان کتبِ فقہ میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے (سب کو احتیاط سے ادا کرنا چاہئے) ان چاروں امور کے علاوہ اور کوئی امر ایسا نہیں ہے جس کو نماز کے کامل کرنے میں دخل ہو، نماز کا خشوع و خضوع بھی ان ہی (چاروں) پر وابستہ ہے۔ بعض لوگ ان امور کے جان لینے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل کرنے میں سستی و کاہلی کرتے ہیں اس لئے لازمی طور پر نماز کے کمالات سے بے نصیب رہتے ہیں، اور بعض لوگ حق سبحانہٗ کے ساتھ حضورِ قلب میں بڑا اہتمام کرتے ہیں لیکن اعمال ادبیۂ جوارح (یعنی ظاہری اعضا سے تعلق رکھنے والے مستحبات) کی طرف کم توجہ کرتے ہیں، صرف فرائض اور سنتوں پر کفایت کرتے ہیں، یہ لوگ بھی نماز کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور کمالِ نماز کو غیرِ نماز سے ڈھونڈھتے ہیں کیونکہ حضورِ قلب کو نماز کے احکام سے نہیں جانتے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے: "لَا صَلٰوۃَ إِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ" ؂2 ترجمہ: ”نماز حضورِ قلب کے بغیر کامل نہیں ہوتی“۔ ممکن ہے کہ اس میں حضورِ قلب سے مراد یہ ہو کہ ان امورِ اربعہ کے ادا کرنے میں دل کو حاضر رکھا جائے تاکہ ان امور میں سے کسی امر کے بجا لانے میں کچھ فتور واقع نہ ہو۔ اس حضور ِقلب کے علاوہ اور کوئی حضور فی الحال اس فقیر کی سمجھ میں نہیں آتا۔

سوال:

جب نماز کی تکمیل اور اس کا کمال ان چار امور کے بجا لانے پر وابستہ ہوا اور کوئی دوسرا امر کمالِ نماز کے لئے ملحوظ نہ رہا تو منتہی، مبتدی بلکہ عامی کی نماز میں کیا فرق ہوا، جو ان چاروں امور کو بجا لانے پر مشروط ہے؟

جواب:

(مبتدی و منتہی کی نماز میں) فرق عمل کرنے والے کی طرف سے ہے، نہ کہ عمل کی رو سے۔ ایک ہی عمل کا ثواب عمل کرنے والوں کے تفاوت سے مختلف ہوتا ہے۔ مثلًا وہ عمل جو کسی مقبول و محبوب عامل سے وقوع میں آئے اس کا اجر اس کے اجر سے کئی گنا زیادہ ہوگا جو اس عامل کے سوا کسی غیر کے اسی عمل پر مرتب ہو، کیونکہ عامل جتنا عظیم القدر ہوتا ہے اسی قدر اس کے عمل کا اجر بھی عظیم تر ہوگا۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ عارف کا نمائشی عمل مرید کے اخلاص والے عمل سے بہتر ہوتا ہے۔ پھر کس طرح بہتر نہ ہو جب کہ عارف کا عمل سراسر اخلاص سے لبریز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کے سہو کو اپنے صواب سے بہتر جانتے ہوئے حضور علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام والتحیۃ کے سہو کی آرزو کرتے تھے جیسا کہ (حضرت صدیقؓ) فرماتے ہیں: "یَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ سَھْوَ مُحَمَّدٍ" ترجمہ: ”اے کاش! میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا سہو ہوجاتا“۔ گویا ان کی آرزو یہی تھی کہ کلی طور پر آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کا سہو ہوجائیں۔ لہذا اپنے تمام اعمال و احوال کو آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام والتحیۃ کے عملِ سہو سے کم جانتے ہیں، اور پوری آرزو کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ ان کی تمام نیکیاں آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کے سہو کے برابر ہی ہوجائیں۔

اور آنحضرت علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام کے سہو کی مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ آں سرور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چار رکعت والی فرض نماز میں سہو کی وجہ سے دو رکعت پر سلام پھر دیا جیسا کہ مروی ؂3 ہے۔ پس منتہی کی نماز پر دنیاوی نتائج اور ثمرات کے با وجود آخرت کا بڑا بھاری اجر بھی مرتب ہوتا ہے بخلاف مبتدی اور عامی کی نماز کے۔

چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک

ترجمہ:

کہاں خاک اور کہاں ہے عالمِ پاک

منتہی کی نماز کی چند خصوصیات بیان کی جاتی ہیں، ان سے قیاس کر لیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ منتہی نماز میں قرأتِ قرآن کے وقت اور تسبیحات و تکبیرات کے اوقات میں اپنی زبان کو شجرۂ موسوی کی مانند پاتا ہے اور اپنے قُوٰی و اعضا کو آلات و وسائط سے زیادہ نہیں جانتا، اور کبھی ایسا محسوس کرتا ہے کہ ادائیگی نماز کے وقت اس کے باطن و حقیقت نے (اس کی )ظاہر و صورت سے اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے اور وہ عالمِ غیب سے ملحق ہوگیا ہے، اور غیب کے ساتھ مجہول الکیفیت نسبت پیدا کر لی ہے۔ اور جب نماز سے فارغ ہوتا ہے تو پھر اس عالم کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یا اصل سوال کے جواب میں کہتا ہوں کہ یہ مذکورہ چاروں اعمال (فرض، واجب، سنت اور مستحب) کا بتمام و کمال بجا لانا منتہی کے نصیب ہے، مبتدی اور عامی ان امور کو بہ تمام و کمال ادا کرنے کی توفیق سے دور ہیں، اگرچہ (ان کے لئے بھی) ممکن اور جائز ہے (لیکن ایسا کم ہوتا ہے) کیونکہ (حق تعالیٰ کا ارشاد ہے) وَإِنَّـهَا لَكَبِيْـرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِيْنَ (البقرہ: 45) ترجمہ: ”خاشعین کے علاوہ دوسروں پر (نماز) بہت گراں ہے“۔

وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی)