دفتر 1 مکتوب 297: حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے احاطہ و سریان کی تحقیق میں اور مثالوں کے ساتھ اس کی وضاحت اور وجوبی و امکانی مراتب کے تحفظ کی رعایت میں

دفتر اول مکتوب 297

مولانا بدر الدین سرہندی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے احاطہ و سریان کی تحقیق میں اور مثالوں کے ساتھ اس کی وضاحت اور وجوبی و امکانی مراتب کے تحفظ کی رعایت میں۔

جاننا چاہیے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا احاطہ اشیاء کے ساتھ ایسا ہے جیسا مجمل کا احاطہ مفصل کے ساتھ، اور (اشیاء میں) اس کا سریان ایسا ہے جیسا کہ "کلمہ" جو اپنی تمام اقسام میں جاری و ساری ہے خواہ وہ اسم ہو، فعل ہو یا حرف ہو، اور ان کی قسموں میں جیسے ماضی، مضارع، امر و نہی، مصدر، اسم، فاعل و مفعول اور مستثنیٰ، متصل، منقطع، حال، تمیز، ثلاثی، رباعی، خماسی، حرفِ جارہ و ناصبہ اور وہ حروف جو افعال کے ساتھ مخصوص ہیں، اور اسماء کے ساتھ مختص حروف اور ان پر داخل ہونے والے حروف اور دوسری اقسام جو نا متناہی تقسیم سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لہذا یہ تمام قسمیں کلمہ کے ساتھ مغائرت نہیں رکھتیں بلکہ یہ سب اعتبارات ہیں جو کلمہ کے تحت مندرج ہیں اور کلمے سے ان کی تفصیل و تمیز پانے میں اور باہم ایک دوسرے سے متمیز ہونے میں اعتبار عقلی کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا، اور خارج میں کلمے کے علاوہ اور کچھ موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ حمل صحیح ہے لیکن مراتب میں سے ہر مرتبے میں (کلمے کا) ایک الگ نام ہے جس کے ساتھ وہ مخصوص ہے اور کچھ احکام ایسے ہیں جو اسی مرتبے کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلًا اقترانِ زمانہ کے ساتھ معنی مستقل پر دلالت کرنے والا کلمہ فعل کہلاتا ہے. اور جو بالاستقلال اپنے معنی پر دلالت کرے اور اس میں زمانے کا تعلق نہ ہو تو وہ اسم ہے، اور جو اپنے معنی پر بالاستقلال دلالت نہ کرے اس کو حرف کہتے ہیں۔ اسی طرح جس میں گزشتہ زمانہ پایا جائے اس کو فعل ماضی کہتے ہیں اور جس میں زمانہ حال و استقبال پایا جائے اس کو مضارع کہتے ہیں اور جس میں نو مشہور علتوں میں سے دو علتیں پائی جائیں اس کو غیر منصرف کہتے ہیں ورنہ منصرف ہے، اور وہ حروف جن کا عمل "جر" ہو ان کو "جارہ" کہتے ہیں اور وہ حروف جن کا عمل "نصب" ہو ان کو "ناصبہ" کہتے ہیں، لہذا ایک مرتبے کے اسم کا اطلاق دوسرے مرتبے پر کرنا اور ایک کے احکام کو دوسرے پر جاری کرنا ایسا ہے جیسے فعل ماضی کو مضارع پر اور منصرف کو غیر منصرف پر اور جارہ کو ناصبہ پر اطلاق کریں، حالانکہ یہ سب مراتب کے اعتبار سے کلمہ ہی ہیں لیکن ایک کے احکام کو دوسرے پر جاری کرنا سرا سر گمراہی اور راہِ راست سے خارج ہونا ہے۔

پس ہم کہتے ہیں کہ اللّٰہ سبحانہٗ ہی بہتر جانتا ہے کہ تنزل وجود سبحانہٗ کے مراتب میں سے ہر مرتبے کے لئے ایک خاص اسم ہے اور ایک خاص حکم ہے جو صرف اسی مرتبے کے ساتھ خاص ہے اور اس کے علاوہ نہیں پایا جاتا۔ لہذا وجوبِ ذاتی اور استغنائے ذاتی مرتبۂ جمع اور الوہیت کے ساتھ مخصوص ہیں، اور امکانِ ذاتی اور افتقارِ ذاتی (ذاتی احتیاج) مرتبۂ کون و فساد (دنیا جہان) کے ساتھ مخصوص ہیں۔ مرتبہ اولیٰ ربوبیت و خالقیت کا مرتبہ ہے اور مرتبہ ثانیہ عبودیت و مخلوقیت کا مرتبہ ہے، پس اگر ایک مرتبے کے اسماء کا اطلاق دوسرے مرتبے پر کریں یا ایک مرتبے کے مخصوص احکام کو دوسرے مرتبے پر جاری کریں تو وہ خالص زندقہ اور کفرِ محض ہو گا۔

تعجب ہے کہ بعض بے دین ملحد اور زندیق کس طرح مراتب کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں اور ایک مرتبے کے احکام دوسرے پر کیسے جاری کرتے ہیں اور ممکن کو واجب کی صفات سے اور واجب کو ممکن کی صفات کے ساتھ موصوف کرتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ممکن جو ایک ہی مرتبہ ہے لیکن اس کی صفات ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں اور ان کے احکام میں بھی اختلاف ہے، اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مرتبۂ کونیہ میں ان کے اتحاد کے با وجود ان کا باہمی تمائز اور ان کے احکام کا اختلاف ہرگز زائل نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ حرارت اور روشنی آگ کی مخصوص صفات میں سے ہے، اس میں سے کوئی صفت بھی پانی میں نہیں پائی جاتی اور پانی کو بھی ان صفات سے موصوف نہیں کیا جا سکتا، اور اسی طرح برودت (سردی) جو پانی کے ساتھ مخصوص ہے آگ میں موجود نہیں، اور اسی طرح (یہ لوگ) اپنی بیویوں اور ماؤں میں بھی امتیاز کے قائل ہیں، اور دونوں کے احکام جدا جدا ہونے کا حکم کرتے ہیں۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الھَادِیْ إِلَی سَبِیْلَ الرَّشَادِ (اور اللّٰہ تعالیٰ ہی سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے) وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی (اور سلام ہو اس پر جو راہ راست کی پیروی کرے)۔

؂1 آپ کے نام چار مکتوبات ہیں اور مختصر تذکرہ دفتر اول مکتوب 289 پر ملاحظہ کریں۔