دفتر 1 مکتوب 284: اس بیان میں کہ احوال و مواجید عالمِ امر کا حصہ ہیں اور ان کے احوال کا علم، عالمِ خلق کے احوال سے متعلق ہے۔ یہ معرفت (حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی) سابقہ معرفت سے متعلق ہے۔ حقیقتِ معاملہ وہی ہے جو حضرت مخدوم زادہ کلاں (خواجہ محمد صادق )علیہ الرحمہ کے مکتوب 260 میں طریقت کے بیان میں تحریر ہوا

دفتر اول مکتوب 284

ملا عبد القادر انبالوی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ احوال و مواجید عالمِ امر کا حصہ ہیں اور ان کے احوال کا علم، عالمِ خلق کے احوال سے متعلق ہے۔ یہ معرفت (حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی) سابقہ معرفت سے متعلق ہے۔ حقیقتِ معاملہ وہی ہے جو حضرت مخدوم زادہ کلاں (خواجہ محمد صادق )علیہ الرحمہ کے مکتوب 260 میں طریقت کے بیان میں تحریر ہوا۔

جاننا چاہیے کہ انسان مرکب ہے عالمِ خلق سے، جو اس کا ظاہر ہے اور عالم امر سے، جو اس کا باطن ہے۔ احوال و مواجید اور مشاہدات و تجلیات جو ابتدا اور وسط میں ظاہر ہوتے ہیں، انسان کے عالم امر کا حصہ ہیں، اور اسی طرح حیرت و نا دانی اور عجز و یاس جو انتہا میں حاصل ہوتے ہیں وہ بھی عالمِ امر ہی کا حصہ ہیں جو کہ انسان کا باطن ہے اور ظاہر کے لئے (اس مصرع کے مصداق) حکم ہے۔ مصرع

وَ لِلْأَرْضِ مِنْ کَأْسِ الْکِرَامِ نَصِیْبٌ

حالاتِ واردہ کے قوی ہونے کے وقت اس ماجرے سے حصہ ملتا ہے، اگرچہ اس میں ثبات و استقامت نہیں ہے لیکن تھوڑا سا اس کا رنگ آ جاتا ہے اور اصل معاملہ کہ جس کا تعلق ظاہر سے ہے، ان احوال کا علم ہے کیونکہ باطن کو احوال حاصل ہوتے ہیں لیکن ان احوال کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ظاہر نہ ہوتا تو عقل و تمیز کی راہ نہ کھلتی۔ مثالیہ صورتیں اور معارج و مقامات کا ظہور ظاہری ادراک کے لئے ہے، لہذا حال، باطن کے لئے ہے اور اس حال کا علم ظاہر کے لئے۔

اس بیان سے معلوم ہوا کہ وہ اولیاء جو صاحبِ علم ہیں اور وہ اولیاء جو علم سے بے بہرہ ہیں، نفس حصول احوال میں کچھ بھی فرق نہیں رکھتے، اگر کچھ فرق ہے تو علم کی راہ سے اس کے احوال میں ہے اور (دوسرا گروہ احوال) کا علم نہ ہونے سے متعلق ہے۔ مثلًا ایک شخص جس پر بھوک کی حالت طاری ہے اور (بھوک) کی وجہ سے بے قرار و بے آرام ہے اور ساتھ ہی وہ (یہ بھی) جانتا ہے کہ اس حالت کو جوع (بھوک) کہتے ہیں، اور اسی طرح ایک دوسرا شخص ہے کہ اس پر بھی وہی حالت طاری ہے لیکن وہ اس حالت کو نہیں جانتا کہ اس کو جوع سے تعبیر کرتے ہیں لہذا یہ دونوں شخص اس حالت کے حصول میں برابر ہیں مگر صرف علم اور عدم علم (جاننے اور نہ جاننے میں) فرق ہے۔

جاننا چاہیے کہ وہ جماعت جو علم نہیں رکھتی وہ دو قسم پر ہے: ایک وہ گروہ جو احوال کے نفس حصول کا بھی علم نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی تلوینات سے واقف ہیں، اور دوسرا گروہ وہ ہے جو احوال کی گونا گوں حالتوں کی خبر رکھتے ہیں لیکن وہ احوال کی تشخیص نہیں کر سکتے۔ یہ جماعت اگرچہ احوال کی تشخیص نہیں کر سکتی لیکن اربابِ علم کے زمرے میں داخل ہے اور مشیخت کے شایاں ہے (یعنی شیخ بننے کے لائق ہے) اور احوال کی تشخیص کرنا ہر شیخ کا کام نہیں بلکہ یہ دولت صدیوں گزر جانے کے بعد ظہور پذیر ہوتی ہے یہاں تک کہ کسی ایک کو اس دولت سے نواز دیا جاتا ہے اور دوسروں کو اس کے علم کے حوالے کر کے اس کا طفیلی بنا دیا جاتا ہے۔ (جس طرح کہ) انبیاء اولو العزم صلوات اللّٰہ تعالیٰ و تسلیماتہٗ علیہم بہت عرصہ گزر جانے کے بعد مبعوث ہوتے تھے اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقامِ متمیزہ کے ساتھ مخصوص ہوتا تھا اور دوسرے انبیاء علیہم الصلوات و التحیات ان کی پیروی کے ساتھ مامور ہوتے تھے اور دین کی دعوت میں انہی کے احکام پر اکتفا کرتے تھے۔ مصرع:

خاص کند بندۂ مصلحتِ عام را

ترجمہ:

عام کے فائدے کو خاص آیا

و السلام

؂1 آپ کے نام چار مکتوب ہیں دفتر اول مکتوب 284، دفتر دوم مکتوب 56، 94، دفتر سوم مکتوب 118۔ مولانا عبد القادر انبالوی بن محمود پانی پتی ثم اجینی۔ آپ نے شیخ عبد الملک بن عبد الغفور پانی پتی سے جو آپ کے بنی اعمام میں سے تھے، علم حاصل کیا، پھر شیخ عبد الرزاق جھنجھانوی کے مرید ہوئے۔ بعد ازاں حج و زیارت حرمین سے مشرف ہوئے۔ صاحبِ تصانیف تھے، سنہ 1011ھ اجین میں میں وفات پائی۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 5، صفحہ نمبر: 236) یا کوئی اور صاحب ہیں۔