دفتر اول مکتوب 276
میاں شیخ بدیع الدین1 کی طرف صادر فرمایا۔ قرآن کریم کی آیات محکمات و متشابہات کا بیان اور علمائے راسخین اور ان کے کمالات اور ان کے مناسب بیان میں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی آلِہِ الطَّاھِرِیْنَ أَجْمَعِیْنَ جَعَلَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ مِنَ الرَّاسِخِیْنَ فِی الْعِلْمِ (سب تعریف اللہ تعالیٰ رب العالمین کے لئے ہے اور صلوۃ و سلام ہو حضرت سید المرسلین علیہم و علی آلہ و اصحابہ الطیبین الطاہرین اجمعین پر۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو راسخین فی العلم میں سے بنائے۔ (آمین)
اے بھائی! حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن) مجید (کی آیاتِ مقدسہ) کو دو قسموں پر نازل فرمایا ہے: (ایک) محکمات (دوسری) متشابہات ـــ قسمِ اول (محکمات) علم شرائع و احکام کا منشا و مبدا ہے، اور قسمِ ثانی (متشابہات) حقائق و اسرار کے علم کا خزانہ ہے۔
قرآن مجید اور احادیثِ شریفہ (میں حق تعالیٰ کے لئے جو الفاظ) یَدۡ (ہاتھ) وَجۡہ (چہرہ) قَدَم (پاؤں) سَاق (پنڈلی) اَصَابِع (انگلیاں) اور اَنَامِل (پورے) آئے ہیں، سب متشابہات میں سے ہیں۔ اسی طرح حروفِ مقطعات، جو قرآن مجید کی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں وہ بھی متشابہات میں سے ہیں کہ جن کی تاویل پر علماء راسخین کے علاوہ کسی کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ خیال نہ کریں کہ تاویل مراد قدرت سے ہے جس کی تعبیر "ید" سے کی ہے یا مراد ذات سے ہے جس کو "وَجہ" (چہرہ) سے تعبیر کیا ہے بلکہ ان کی تاویل ان گہرے اور پوشیدہ رازوں میں سے ہے جو اخص خواص پر ظاہر کئے گئے ہیں۔ (یہ فقیر) حروف مقطعاتِ قرآنی کے بارے میں کیا تحریر کرے کیونکہ ان حروف میں سے ہر ایک حرف عاشق و معشوق کے (درمیان) پوشیدہ رازوں کا بحرِ مواج (موجیں مارتا ہوا سمندر) ہے اور محب و محبوب کے دقیق اور پوشیدہ رموز میں سے ایک رمز2 ہے۔
اور محکمات اگرچہ کتاب کی امہات (یعنی اصلِ اصول) ہیں، لیکن ان کے نتائج و ثمرات جو متشابہات ہیں اور کتاب کے اصل مقاصد میں سے ہیں۔ امہات کی حیثیت نتائج حاصل کرنے کے لئے وسائل و ذرائع سے زیادہ نہیں ہے لہذا کتاب کا لُب یعنی مغز متشابہات ہیں اور محکمات اس کا قشر یعنی پوست ہیں۔ یہ متشابہات ہی ہیں جو رمز و اشارے کے ساتھ اصل بیان کو ظاہر کرتے ہیں اور بخلاف محکمات کے، مرتبہ کی حقیقتِ معاملہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ متشابہات گویا حقائق ہیں اور محکمات متشابہات کی نسبت ان حقائق کی صورتیں ہیں۔ عالمِ راسخ وہ شخص ہے جو لب یعنی مغز کو قشر کے ساتھ جمع کر سکے اور حقیقت کو ظاہری شکل و صورت میں لا سکے۔ علمائے قشریہ قشر کے ساتھ خوش ہیں اور صرف محکمات پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں، اور علمائے راسخین محکمات کے علم کو حاصل کر کے متشابہات کی تاویل سے بھی حظِ و افر (پورا پورا حصہ) حاصل کر لیتے ہیں اور صورت و حقیقت کو بھی جو محکم و متشابہ ہیں، جمع کر لیتے ہیں۔ لیکن وہ شخص جو محکمات کے علم کے بغیر اور ان کے موافق عمل کے بغیر متشابہات کی تاویل تلاش کرے اور صورت کو چھوڑ کر حقیقت کی طرف دوڑے وہ ایسا نا دان ہے کہ جس کو اپنی نا دانی کی بھی خبر نہیں ہے اور ایسا گمراہ ہے جو اپنی گمراہی کا بھی شعور نہیں رکھتا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ دنیا صورت اور حقیقت سے مرکب ہے جب تک یہ دنیا فانی ہے کوئی حقیقت اپنی صورت سے جدا نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ اعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتّٰى يَاۡتِيَكَ الۡيَـقِيۡنُ﴾ (الحجر: 99) أَیْ اَلْمَوْتُ کَمَا قَالَ الْمُفَسِّرُوْنَ ترجمہ: ”اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو، یہاں تک کہ تم پر وہ چیز آ جائے جس کا آنا یقینی ہے“ (یعنی موت آ جائے جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے) (اللہ تعالیٰ) نے عبادت کو موت کے وقت تک منتہی کر دیا جو دنیا کا بھی منتہا ہے۔ ''لِأَنَّ مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ''3 ترجمہ: ”جو شخص مر گیا اس پر قیامت قائم ہو گئی“
اور نشاءِ اُخروی (آخرت کی نشو و نما) میں جو حقائق کے ظہور کی جگہ ہے، وہاں حقائق سے صورتوں کا جدا ہونا حاصل ہو جاتا ہے۔ لہذا ہر جہاں کا حکم جدا گانہ ہے، ایک کو دوسرے کے ساتھ سوائے جاہل یا زندیق (بے دین) کے جس کا مقصد احکامِ شرعیہ کا جھٹلانا ہو، کوئی خلط ملط نہیں کرتا، کیونکہ شریعت کا ہر حکم جو مبتدی کے لئے ہے وہی منتہی کے لئے ہے (نیز) عام مومنین اور اخص خواص عارفین بھی اس معاملے میں برابر ہیں۔ اکثر متصوفینِ خام (کچے صوفیہ) اور بے سر و سامان ملحد اس امر کے در پے ہیں کہ اپنی گردنوں کو شریعت کی اطاعت سے نکال لیں اور احکامِ شرعیہ کو عوام کے لئے ہی مخصوص رکھیں۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف خواص معرفتِ الہٰی کے مکلف ہیں اور بس، جیسا کہ اپنی جہالت کے باعث امیروں اور بادشاہوں کو عدل و انصاف کے سوا اور کسی چیز کا مکلف نہیں جانتے اور کہتے ہیں کہ شریعت کے احکام بجا لانے سے مقصود یہ ہے کہ معرفت حاصل ہو جائے اور جب معرفت حاصل ہو گئی تو پھر شرعی تکلیفات بھی ساقط ہو گئیں۔ اور شہادت کے طور پر اس آیت کو پیش کرتے ہیں: ﴿وَ اعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتّٰى يَاۡتِيَكَ الۡيَـقِيۡنُ﴾ (الحجر: 99) ترجمہ: ”اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو، یہاں تک کہ تم پر وہ چیز آ جائے جس کا آنا یقینی ہے“ اور یقین کے معنی اللہ کرتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جائے) جیسا کہ سہل تستری4 رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ یعنی عبادت کی انتہا حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہونے تک ہی ہے۔ بظاہر جس شخص نے یقین کے معنی اللہ سبحانہٗ کے کئے ہیں اس سے اس کی مراد یہ ہو گی کہ عبادت کی تکلیف کی انتہا حق جل و علا کی معرفت حاصل ہو جانے تک ہے نہ کہ نفس ِعبادت کی انتہا، کیونکہ یہ امر الحاد و زندقہ تک پہنچانے والا ہے۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ عارفوں کی عبادت ریائی (دکھاوے کی) ہے یعنی عارف اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ ان کے مقتدی اور پیرو اُن کی اقتدا کریں نہ یہ کہ عارف عبادت کے محتاج ہیں، اور اس قول کی تائید میں مشائخ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب تک پیر منافق اور مرائی (ریا کار) نہ ہو، مرید اس سے نفع حاصل نہیں کر سکتے۔ خَذَلَھُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ مَا أَجْھَلَھُمْ (اللہ سبحانہٗ ان کو ذلیل و خوار کرے یہ لوگ کیسے جاہل ہیں)
عارفوں کو جس قدر عبادت کی ضرورت (اور احتیاج ہے) اس کا دسواں حصہ بھی مبتدیوں کو حاصل نہیں ہے کیونکہ ان کے عروج عبادت پر ہی وابستہ ہیں اور ان کی ترقیاں شرائع اور احکام کے بجا لانے پر ہی منحصر ہیں۔ عبادات کے ثمرات اور فائدے جن کی توقع عوام کو کل قیامت کے دن ہے، وہ ثمرات عارفوں کو آج ہی حاصل ہیں اس لئے یہ عبادت کے زیادہ مستحق ہیں اور ان کو شریعت کی زیادہ حاجت ہے۔
جاننا چاہیے کہ شریعت سے مراد صورت اور حقیقت کا مجموعہ ہے، جس میں صورت ظاہری شریعت ہے اور اس کی حقیقت باطنِ شریعت ہے، لہذا پوست اور مغز دونوں شریعت کے اجزا ہیں اور محکم و متشابہ دونوں اس کے افراد ہیں۔ علماءِ ظاہر نے صرف اس کے پوست پر ہی اکتفا کیا ہے اور علماء راسخین نے پوست اور مغز دونوں کو جمع کر کے صورت اور حقیقت کے مجموعے سے پورا پورا فائدہ حاصل کیا ہے، لہذا شریعت کو ایک ایسے شخص کی مانند تصور کرنا چاہیے جو صورت و حقیقت دونوں سے مرکب ہے۔ ایک جماعت نے صرف اس کی ظاہری صورت کے ساتھ تعلق پیدا کر لیا ہے اور اس کی حقیقت کا انکار کر بیٹھی ہے اور ھدایہ5 و بزدوی6 کے سوا اپنا پیرِ مقتدیٰ کسی کو نہیں سمجھتی، یہ گروہ علماء قشر (پوست) ہیں، اور دوسرے گروہ والے اس کی حقیقت میں گرفتار ہو گئے، مگر اس حقیقت کو شریعت کی حقیقت نہیں جانتے بلکہ شریعت کو ظاہر صورت پر محدود سمجھتے ہیں اور صرف پوست ہی پوست خیال کرتے ہیں اور مغز کو اس کے سوا تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح احکام شریعت کی بجا آوری میں بھی سرِ مو باز نہیں رہتے اور صورت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اور احکام شریعت میں سے کسی ایک حکم کے ترک کرنے والے کو جھوٹا اور گمراہ سمجھتے ہیں۔ یہی لوگ اللہ جل سلطانہٗ کے دوست ہیں جنہوں نے اس سبحانہٗ و تعالیٰ کی محبت میں اس کے ما سوا سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو شریعت کو صورت و حقیقت کا مرکب جانتے ہیں اور پوست و مغز کا مجموعہ یقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شریعت کی صورت کا حاصل کرنا اس کی حقیقت کے حاصل ہوئے بغیر اعتبار کے معیار سے ساقط ہے اور اس کی حقیقت کا حاصل ہونا اثباتِ صورت کے بغیر نا تمام و ناقص ہے بلکہ ظاہری صورت کو حاصل کرنے کے لئے حقیقت کے ثبوت کے بغیر بھی اسلام ہی سے جانتے ہیں اور اس کو نجات بخشنے والا تصور کرتے ہیں جیسا کہ علمائے ظاہر اور عام مومنین کا حال ہے، اور ثبوتِ صورت کے بغیر حقیقت کے حصول کو محالات میں سے تصور کرتے ہیں اور اس کے قائل کو بے دین اور گمراہ سمجھتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ظاہری اور باطنی کمالات ان بزرگواروں کے نزدیک کمالاتِ شرعیہ پر منحصر ہیں اور علوم و معارفِ الہیہ کا انحصار اہلِ سنت کی رائے اور ان کے عقائد کلامیہ (علم کلام) کے ثبوت سے پیوستہ ہیں اور ہزاروں شہود و مشاہدات کو صرف حق جل و علا کی بے چونی و بے چگونی کے ایک مسئلے کے برابر نہیں سمجھتے جو کہ مسئلہ کلامیہ میں سے ہے، اور ان احوال و مواجید اور تجلیات و ظہورات کو جو شرعی احکام کے کسی حکم کے خلاف ظاہر ہوں ان کو نیم جَو سے بھی نہیں خریدتے اور اس قسم کے ظہورات کو استدراج گمان کرتے ہیں: ﴿أُولٰٓئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ (الأَنعام: 90) ترجمہ: ”یہ لوگ وہ تھے جن کو اللہ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو“۔ یہ لوگ علماءِ راسخین ہیں کہ جن کو حقیقتِ معاملہ کی اطلاع بخشی گئی ہے اور آدابِ شریعت کی برکت سے ان کو حقیقتِ شریعت تک پہنچا دیا گیا ہے بخلاف دوسرے گروہ کے کہ وہ بھی اگرچہ حقیقت کی طرف متوجہ ہیں اور اس کے ساتھ گرفتار ہیں نیز حتی الامکان (شریعت کی بجا آوری میں) سرِ مو تجاوز نہیں کرتے لیکن چونکہ وہ اس حقیقت کو شریعت سے الگ سمجھ بیٹھے ہیں اور شریعت کو اس حقیقت کا پوست تصور کر لیا ہے اس لئے لازمی طور پر حقیقت کے ظلالوں میں سے کسی ایک ظل میں رہ گئے ہیں اور حقیقتِ معاملہ سے اصلِ حقیقت تک پہنچنے کی راہ نہیں پائی، لہذا لازمی طور پر ان کی ولایت ظلی ہو گئی، اور ان کا قرب صفاتی ہو گیا۔ بخلاف علماء راسخین کی ولایت کے کہ وہ اصل ہے اور انہوں نے اصل تک پہنچنے کی راہ کو حاصل کر لیا ہے، اور ظلال کے تمام پردوں سے گزر گئے ہیں، پس لازمی طور پر ان کی ولایت انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی ولایت ہے اور ان اولیاء کی ولایت، ولایتِ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات کا ظل ہے۔
ایک مدت تک یہ فقیر متشابہات کی تاویل کو صرف حضرت حق سبحانہ کے علم میں جانتا تھا اور علمائے راسخین کو متشابہات کے ساتھ ایمان رکھنے کے سوا بہرہ ور نہیں پاتا تھا، اور ان تاویلوں کو جو علمائے صوفیہ نے بیان کی ہيں، ان متشابہات کی شان کے لائق نہیں سمجھتا تھا اور وہ اسرار جو پوشیدہ رکھنے کے قابل ہیں ان کی تاویلات کا تصور نہیں کرتا تھا جیسا کہ عین القضاۃ7 نے بعض متشابہات کی تاویل میں کہا ہے، مثلًا الف، لام، میم سے اَلَمْ مراد لیا ہے جس کے معنی درد کے ہیں جو کہ عشق و محبت کے لوازمات میں سے ہے وغیرہ۔ آخر کار جب حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے متشابہات کی تاویل کا تھوڑا سا حصہ اس فقیر پر ظاہر کیا اور اس دریائے محیط میں سے ایک چھوٹی سی نہر اس مسکین کی استعداد کی زمین پر کھول دی تب معلوم ہوا کہ علمائے راسخین کو بھی متشابہات کی تاویلات سے بہت بڑا حصہ حاصل ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔
واقعاتِ مسطورہ کی تعبیر جو آپ نے طلب کی تھی اس کو حضور و ملاقات پر منحصر رکھا گیا ہے اسی لئے اس کی نسبت کچھ نہیں لکھا گیا۔ کیا کیا جائے، قلم دوسرے معارف کی طرف چل پڑا اور دیگر معاملہ سامنے آ گیا۔ امید ہے کہ معذور فرمائیں گے۔ وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلیٰ سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ عَلٰی إِخْوَانِہِ الصَّلوَاتُ وَ التَّسْلِیمَاتُ العُلٰی (اور سلام ہو آپ پر اور ان پر جو ہدایت کی راہ پر چلے اور حضرت محمد مصطفے علیہ و علی آلہ و علی اخوانہ الصلوات و التسلیمات العلی کی متابعت کو لازم جانا)
1 آپ کے نام دس مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 172 پر گزر چکا ہے۔
2 ان اسرار کی تھوڑی سی جھلک دفتر اول مکتوب 311 میں بھی بیان کی گئی ہے۔
3 اس حدیث کو دیلمی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔
4 سہل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابو محمد ہے۔ اکابرین صوفیہ میں سے ہیں اور انوار معرفت کے علماء میں آپ کا شمار ہے۔ حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر تھے۔ محرم الحرام سنہ 383ھ میں انتقال ہوا۔
5 "ہدایہ" فقہ حنفی کی مشہور و مستند کتاب ہے جو شیخ الإسلام برہان الدین علی بن ابی بکر مرغینانی المتوفی سنہ 593ھ کی تصنیف ہے۔
6 علم اصول فقہ میں فخر الاسلام علی بن محمد بزدوی حنفی المتوفی سنہ 482ھ کی تصنیف ہے۔
7 عین القضاۃ ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت اور نام ابو الفضائل عبد اللہ بن محمد المیاں جی ہے۔ آپ شیخ محمد بن حمویہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے صحبت یافتہ تھے۔ صوری و معنوی کمالات و فضائل کے جامع تھے۔