دفتر اول مکتوب 266
حضرات پیر زادگان خواجہ عبد اللہ1 و خواجہ عبید اللہ کی طرف صادر فرمایاـ بعض عقائدِ کلامیہ کے بیان میں جو اہلِ سنت و جماعت شَکَرَ اللہُ تَعَالٰی سَعْیَہُمْ کی آراء کے موافق اور جو آپ کو الہام اور فراست کی بنا پر حاصل ہوئے نہ کہ تقلید و تخمین (گمان) کے مطابق۔ ابتدائے احوال میں حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی خواب میں زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ "تم علم کلام کے مجتہدوں میں سے ہو"۔ اس واقعے کو آپ نے حضرت خواجہ (باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں عرض کیا تھا۔ اسی روز سے حضرت والا (مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ) کی مسائل کلامیہ کے ہر مسئلے میں علیحدہ رائے اور جدا حکم ہے، البتہ اکثر مسائل میں مشائخِ ماتریدیہ سے موافقت رکھتے ہیں۔ (اور) فلاسفہ کے رد میں اور ان کی مذمت اور برائی کے بیان میں اور ملحدوں اور زندیقوں کے رد میں جنہوں نے صوفیہ کی مراد کو نہیں سمجھا اور گمراہ ہو گئے۔ (اور) بعض فقہی احکام کے بیان میں جو صلوۃ سے متعلق ہیں۔ (اور) طریقۂ عالیہ نقشبندیہ کے کمالات کے بیان میں کہ ان کا التزام سنت کی تابع داری میں ہے۔ (اور) سماع و سرود کے منع کرنے اور رقاصوں کی مجلس میں شرکت سے منع کرنے کے بیان میں اور ان کے مناسب بیان میں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رَبِّ یَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَیْرِ (اے رب! (ہمارے) کام کو آسان کر اور مشکل میں نہ ڈال اور خیر و خوبی سے مکمل فرما) حمد و صلوۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد مخدوم زادوں کی جناب میں عرض ہے کہ یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والدِ بزرگوار کے احسانات میں غرق ہے اور اس طریقہ (نقشبندیہ) میں الف ب کا سبق ان ہی سے حاصل کیا ہے۔ اس راہ میں حروف تہجی بھی ان ہی سے سیکھے ہیں، اور "اِنْدِرَاجُ النِّہَایَةِ فِي الْبِدَایَةِ" (ابتدا میں انتہا کا درج ہونا) کی دولت بھی ان ہی کی صحبت کی برکت سے حاصل ہوئی ہے، اور "سفر در وطن" کی سعادت بھی ان ہی کی خدمت کے صدقے میں ملی ہے۔ ان کی شریف توجہ نے "ڈھائی ماہ" میں اس نا قابل کو "نسبت نقشبندیہ" تک پہنچا دیا اور ان اکابر کا حضور خاص عطا فرما دیا۔ اس قلیل مدت میں جو تجلیات، ظہورات، انوار، الوان، بے رنگیاں اور بے کیفیتیں ان کے طفیل حاصل ہوئیں ان کی کیا شرح کروں اور کیا تفصیل بیان کروں۔ ان کی توجہ شریف کی برکت سے معارفِ توحید، اتحاد، قرب و معیت اور احاطہ و سریان میں شاید ہی کوئی دقیقہ رہ گیا ہو جو اس فقیر پر نہ کھولا گیا ہو، اور اس کی حقیقت کی اطلاع نہ دی گئی ہو۔ وحدت کا شہود کثرت میں اور کثرت کا مشاہدہ وحدت میں کرنا ان معارف کے مقدمات و مبادی میں سے ہے۔
مختصر یہ کہ جس جگہ نسبتِ نقشبندیہ اور ان بزرگوں کا حضور خاص ہے وہاں ان معارف کو زبان پر لانا اور شہود و مشاہدے کا نشان بیان کرنا کوتاہ نظری ہے، کیونکہ ان اکابرین کا کار خانہ بہت بلند ہے اور ہر زرّاق (مکار) اور رقاص (ناچنے والا) اس کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ جب اس قسم کے بلند درجے والی دولت ان (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) سے اس فقیر کو پہنچی ہو تو اگر تمام عمر بھی اپنے سر کو خدامِ بارگاہِ عالی (کے قدموں) میں پامال کرے تو بھی کچھ حق ادا نہ ہو۔
(یہ عاجز) اپنی کوتاہیاں کیا عرض کرے اور اپنی شرمندگیوں کا کیا اظہار کرے۔ لیکن معارف آگاہ خواجہ حسام الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت حق سبحانہٗ ہماری طرف سے جزائے خیر دے کہ انہوں نے ہم کم ہمتوں کا بوجھ اپنے اوپر اٹھانے کا التزام کر کے خدامِ بارگاہ کی خدمت کے لئے اپنی کمرِ ہمت کو باندھ لیا اور ہم دور پڑے ہوؤں کو اس سے فارغ کر دیا۔
گر بر تنِ من زباں شود ہر موئے
یک شکر وے از ہزار نتوانم کرد
ترجمہ:
ہر بال بھی گر زباں ہو
اک شکر بھی کیا بیاں ہو
یہ فقیر تین مرتبہ حضرت ایشاں (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی قدم بوسی کی دولت سے مشرف ہوا، آخری مرتبہ (کی حاضری پر) فقیر سے ارشاد فرمایا کہ "مجھ پر بدن کا ضعف غالب آ گیا ہے، زندگی کی امید کم ہے، بچوں کے احوال سے خبر دار رہنا ہو گا"، اور اپنے حضور میں آپ (دونوں) کو طلب فرمایا، اس وقت آپ دودھ پلانے والیوں کی گود میں تھے، اور فقیر کو حکم دیا کہ ان (بچوں) پر توجہ کرو۔ حسب الامر ان ہی کے حضور میں اس فقیر نے آپ (دونوں) کی طرف توجہ کی، یہاں تک کہ اس توجہ کا اثر ظاہر میں بھی نمایاں ہوا۔ بعد ازاں فرمایا کہ "ان بچوں کی والداؤں پر بھی غائبانہ توجہ کرو"۔ حسب الحکم ان پر بھی غائبانہ توجہ کی گئی۔ امید ہے کہ حضرت ایشاں (خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ) کی برکت سے اس توجہ کے نتائج و ثمرات حاصل ہوں گے۔ آپ ہرگز یہ تصور نہ کریں کہ ان کے واجب الاطاعت حکم اور وصیتِ لازمہ سے (کسی قسم کی) غفلت اور فراموشی واقع ہوئی ہے، ہرگز نہیں۔ بلکہ (یہ حقیر) آپ کی طرف سے اشارے اور اجازت کا منتظر ہے۔
فی الحال چند فقرے بطریق نصیحت لکھے جاتے ہیں، امید ہے کہ گوشِ ہوش سے سماعت فرمائیں گے، أَسْعَدَکُمْ اللہُ سُبْحَانَہٗ (اللہ سبحانہٗ آپ کو سعادت مند بنائے)
عقل مندوں پر سب سے اول فرض یہ ہے کہ علمائے اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم جو فرقہ ناجیہ ہیں، ان کی صحیح رائے کے مطابق اپنے عقائد کو درست کریں۔ چنانچہ بعض مسائل اعتقادیہ جن میں قدرے پوشیدگی ہے، ان کا اظہار کیا جاتا ہے۔
عقیدہ نمبر 1:
جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذاتِ مقدس کے ساتھ خود موجود ہے، اور تمام اشیاء اس تعالیٰ کی ایجاد سے موجود ہیں۔ حق تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یگانہ ہے اور فی الحقیقت کسی امر میں بھی خواہ وجودی ہو یا غیر وجودی، کوئی بھی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ (اس کی جناب میں) مشارکت اسمی اور مناسبت لفظی بحث سے خارج ہے۔ اللہ سبحانہٗ کی صفات اور افعال اس کی ذات کی طرح بے چون اور بے چگونہ ہیں اور ممکنات کی صفات اور افعال کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتے، مثلًا صفت العلم اس سبحانہٗ کی ایک صفت قدیم اور بسیطِ حقیقی ہے جس میں "تعدد اور تکثر" کو ہرگز دخل نہیں ہے، اگرچہ وہ تکثر تعددِ تعلقات کے اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ وہاں ایک ہی بسیط انکشاف ہے کہ ازل و ابد کی معلومات اسی انکشاف سے منکشف ہوتی ہیں اور (حق تعالیٰ) تمام اشیاء کو ان کے "متناسبہ و متضادہ" (موافق و مخالف) احوال کے ساتھ کلی و جزئی طور پر ہر ایک کے اوقات مخصوصہ کے ساتھ آنِ واحد میں بسیط جانتا ہے۔ یعنی اسی ایک آن میں "زید" کو موجود بھی جانتا ہے اور معدوم بھی اور جنین (ماں کے پیٹ میں) بھی، اور طفل، جوان اور بوڑھا بھی، زندہ اور مردہ بھی، کھڑا ہوا اور بیٹھا بھی، تکیہ لگائے ہوئے اور لیٹا ہوا بھی، ہنستا ہوا اور روتا ہوا بھی، لذت پانے والا اور تکلیف پانے والا بھی، عزت والا اور ذلیل بھی، برزخ میں بھی اور حشرات (عرصۂ قیامت) میں بھی، جنت میں بھی اور اس کی لذات و نعمتوں میں بھی جانتا ہے، لہذا تعددِ تعلق بھی اس مقام میں مفقود ہے۔ کیونکہ تعددِ تعلقات، تعدد اوقات اور وقت کی کثرت چاہتا ہے اور وہاں ازل سے ابد تک صرف ایک ہی آنِ واحد بسیط ہے جس میں کسی قسم کا تعدد نہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ پر نہ زمانہ جاری ہے اور نہ تقدم و تأخر کے احکام جاری ہو سکتے ہیں، لہذا اس تعالیٰ کے علم میں اگر ہم معلومات کے ساتھ تعلق کا اثبات کریں تو وہ صرف ایک تعلق ہو گا جو تمام معلومات کے ساتھ متعلق ہے اور وہ تعلق بھی مجہول الکیفیت ہے (یعنی اس تعلق کی کیفیت معلوم نہیں) اور صفت العلم کی طرح بے چون و بے چگونہ ہے۔
ہم اس تصور کے استبعاد (یعنی قیاس اور فہم سے دور اور بعید ہونے) کو ایک مثال کے ذریعے زائل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں ایک "کلمہ" کو اس کے "اقسام متبائنہ" (مختلف اقسام) اور "احوال متغائرہ" (متفرق احوال) اور "اعتبارات متضادہ" (مخالف اعتبارات) سے جانتا ہے، لہذا اسی ایک وقت میں اس "کلمہ" کو اسم بھی جانتا ہے اور فعل بھی، حرف بھی اور ثلاثی بھی، (یعنی تین حروف والا)، رباعی (چار حروف والا) بھی اور معرب بھی (یعنی جو تینوں حالتیں رفعی نصبی اور جری قبول کرے) مبنی بھی(عوامل کے ذریعے تغیر و تبدل نہ پانا)، متمکن (ٹھہرنے والا بھی) اور غیر متمکن بھی، منصرف (وہ اسم جو تنوین قبول کرے) بھی اور غیر منصرف بھی، معرفہ (خاص پہچانا ہوا) بھی اور نکرہ (عام جو نہ پہچانا جائے) بھی، ماضی بھی اور مستقبل بھی، امر بھی اور نہی بھی جانتا ہے، بلکہ اس شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ کہے کہ میں "کلمہ" کی تمام اقسام اور اعتبارات کو کلمہ کے آیئنے میں بیک وقت تفصیل کے ساتھ دیکھتا ہوں، جب کہ ممکن کے علم میں بلکہ ممکن کی دید میں اضداد کا جمع ہونا متصور ہے تو پھر اس واجب تعالیٰ ﴿وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْأَعْلٰى﴾ (النحل: 60) ترجمہ: ”اور اعلیٰ درجے کی صفات صرف اللہ کی ہیں“ کے علم میں یہ بات کس طرح بعید معلوم ہوتی ہے؟
جاننا چاہیے کہ اس جگہ اگرچہ ظاہر صورت میں "جمع ضدین" ہے لیکن حقیقت میں ان کے درمیان ضدیت (تضاد) مفقود ہے کیونکہ اگرچہ (حق تعالیٰ) "زید" کو آنِ واحد میں موجود اور معدوم جانتا ہے لیکن اسی آن میں یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے وجود کا وقت مثلًا ہزار سال سنہ ہجری کے بعد ہے اور اس کے وجود سے "عدمِ سابق" کا وقت اس سالِ معین سے پہلے ہے، اور اس کے عدمِ لاحق کا وقت گیارہ سو سال کے بعد ہے۔ لہذا حقیقت میں ان دونوں کے درمیان زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ باقی احوال کو بھی اسی پر قیاس کر سکتے ہیں، پس سمجھ لو۔
اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ حق تعالیٰ کا علم اگرچہ تغیر پانے والی جزئیات سے متعلق ہو لیکن اس کے علم میں تغیر کا شائبہ بھی راہ نہیں پاتا اور حدوث کا گمان اس کی صفت میں پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ فلاسفہ نے زعم (غلط دعوی) کیا ہے، کیونکہ تغیر اسی تقدیر پر متصور ہو سکتا ہے جب کہ ایک کو دوسرے کے بعد جانا ہو، اور جب سب کو آنِ واحد میں جان لے تو پھر تغیر و حدوث کی گنجائش نہیں ہے۔ پس اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ ہم اس (تعالیٰ) کے لئے متعدد تعلقات کا اثبات کریں تاکہ تغیر و حدوث ان تعلقات کے ساتھ راجع ہو، نہ کہ صفت علم کی صرف، جیسا کہ بعض متکلمین نے فلاسفہ کے شبہ کو دور کرنے کے لئے کیا ہے۔ ہاں! اگر معلومات کی جانب تعدد تعلقات کا اثبات کریں تو اس کی گنجائش ہے۔
اور اسی طرح ایک کلام بسیط ہے جو ازل سے ابد تک اسی ایک کلام کے ساتھ گویا (ناطق) ہے۔ اگر "امر" ہے تو وہ بھی وہیں سے پیدا ہوا ہے اور اگر "نہی" ہے تو وہ بھی وہیں سے ہے، اور اگر اعلام (خبر) ہے تو بھی وہیں سے ماخوذ ہے، اگر استفہام ہے تو وہ بھی وہیں سے، اگر تمنی یا ترجی ہے (آرزو کرنا۔ امید رکھنا) تو وہ بھی وہیں سے مستفاد ہے، تمام نازل شدہ کتابیں اور بھیجے ہوئے صحیفے اس "کلامِ بسیط" کا ایک ورق ہیں۔ اگر "توریت" ہے تو وہ بھی وہیں سے لکھی گئی ہے اور "انجیل" ہے تو اس نے بھی وہیں سے صورتِ لفظی حاصل کی ہے، اور اگر "زبور" ہے تو وہ بھی وہیں سے مسطور ہوئی ہے اور اگر "فرقان" ہے تو وہ بھی وہیں سے نازل ہوا ہے۔
و اللہ کلامِ حق کہ علی الحق یکے ست و بس
ترجمہ:
و اللہ بس کلام خدا ہے کلام حق
مصرع:
پس در نزول مختلف آثار آمدہ
ترجمہ:
ہاں نزول میں مختلف آثار آئے ہیں
اور اسی طرح ایک ہی فعل ہے اور اسی ایک فعل کے ذریعے اولین و آخرین کی مصنوعات وجود میں آ رہی ہیں۔ (جیسا کہ ارشاد ہے)﴿وَ مَآ اَمْرُنَـآ إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْـحٍ بِالْبَصَرِ﴾ (القمر: 50) ترجمہ: ”اور ہمارا حکم بس ایک ہی مرتبہ آنکھ جھپکنے کی طرح (پورا) ہو جاتا ہے“۔ اس آیتِ کریمہ میں (اس حقیقتِ مذکورہ کی طرف) اشارہ ہے کہ اگر زندہ کرنا یا مارنا ہے تو وہ اسی ایک فعل سے مربوط ہے، اور اگر ایلام (تکلیف) ہے یا انعام ہے تو وہ بھی اسی ایک فعل سے (منوط) ملا ہوا ہے، اور اگر ایجاد ہے یا اعدام (مٹا دینا) ہے تو وہ بھی اسی فعل سے پیدا ہوا ہے، لہذا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے فعل میں بھی تعددِ تعلقات ثابت نہیں ہے بلکہ ایک ہی تعلق سے مخلوقات اولین و آخرین اپنے وجود کے اوقاتِ مخصوصہ میں وجود پذیر ہو رہی ہیں اور یہ تعلق بھی حق تعالیٰ کے فعل کی مانند بے چون و بے چگونہ ہے، کیونکہ چون کو بے چون کے ساتھ کوئی راہ نہیں ہے: لَا یَحْمِلُ عَطَایَا المَلِکِ إِلَّا مَطَایَاہُ (بادشاہوں کی بخششیں ان کے اونٹ ہی اٹھا سکتے ہیں)
اشعری2 چونکہ حق جل سلطانہٗ کے فعل کی حقیقت سے واقف نہ تھے اس لئے تکوین کو حادث کہہ دیا اور اس سبحانہٗ کے افعال کو بھی حادث جان لیا اور انہوں نے یہ نہیں جانا کہ یہ سب حق سبحانہٗ کے فعلِ ازلی کے آثار ہیں نہ کہ اس تعالیٰ کے افعال۔ اسی قبیل سے یہ ہے کہ بعض صوفیہ جنہوں نے تجلئ افعال کا اثبات کیا ہے اور اس مقام میں ممکنات کے افعال کے آیئنے میں سوائے فعلِ واحد جل سلطانہٗ کے کچھ نہیں دیکھا، وہ تجلی حقیقت میں حق سبحانہٗ کے فعل کے آثار کی ایک تجلی ہے نہ کہ اس تعالیٰ کے فعل کی تجلی، کیونکہ اس تعالیٰ کے فعل کو جو بے چون و بے چگونہ ہے اور قدیم ہے اور اس تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے جس کو "تکوین" کہتے ہیں، محدثات کے آیئنے میں اس کی گنجائش نہیں اور ممکنات کے مظاہر میں اس کا کوئی ظہور نہیں۔
در تنگنائے صورت معنی چگونہ گنجد
در کُلبۂ گدایاں سلطان چہ کار دارد
ترجمہ:
صورت کے تنگ گھر میں معنی کہاں سے آئے
منگتے کی جھوپڑی میں کیوں بادشاہ جائے
اس فقیر کے نزدیک افعال و صفات کی تجلی ذاتِ تعالیٰ و تقدس کی تجلی کے بغیر متصور نہیں ہے کیونکہ افعال و صفات، حضرت ذاتِ تعالیٰ و تقدس سے جدا نہیں ہیں تاکہ ان کی تجلی ذات کی تجلی کے بغیر متصور ہو سکے اور جو کچھ ذات تعالیٰ و تقدس سے جدا ہے وہ اس سبحانہٗ کی صفات و افعال کے ظلال ہیں، لہذا ان کی تجلی افعال و صفات کے ظلال کی تجلی ہوئی نہ کہ افعال و صفات کی تجلی۔ لیکن ہر شخص کی سمجھ اس کمال تک نہیں پہنچ سکتی۔ ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
عقیدہ نمبر 2:
اب ہم اصل بات کی طرف رجوع ہوتے ہیں: کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کر سکتی ہے لیکن وہ تعالیٰ "محیطِ اشیاء" ہے (یعنی تمام اشیا کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے) اور ان کے ساتھ قرب و معیت رکھتا ہے، اور وہ احاطۂ قرب و معیت ایسا نہیں ہے جو ہماری فہمِ قاصر میں آ سکے کیونکہ یہ (بات) اس تعالیٰ کی جناب قدس کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اور (صوفیہ) جو کچھ کشف و شہود سے معلوم کرتے ہیں وہ تعالیٰ اس سے بھی منزہ ہے کیونکہ ممکن (بشر وغیرہ) کو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال کی حقیقت سے سوائے جہل و نا دانی اور حیرت کے کچھ نصیب نہیں ہے۔ غیب پر ایمان لانا چاہیے اور جو کچھ مکشوف و مشہود ہو اس کو "لَا" کی نفی کے تحت لانا چاہیے
عنقا شکار کس نشود دام باز چیں
کایں جا ہمیشہ باد بدست است دام را
ترجمہ:
اٹھا لے جال، ہے شکار عنقا محال
بس یہاں جال کا یہی ہے مآل
حضرت ایشاں (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی مثنوی کا ایک بیت اس مقام کے مناسب ہے
ہنوز ایوان استغنا بلند است
مرا فکر رسیدن نا پسند است
ترجمہ:
قصر استغنا تو اونچا ہے ہنوز
سخت مشکل واں پہنچنا ہے ہنوز
پس ہم ایمان لاتے ہیں کہ وہ تعالیٰ "محیطِ اشیاء" (یعنی تمام اشیاء کو محیط ہے) اور ان سے قریب ہے، اور ان کے ساتھ ہے لیکن اس احاطہ اور قرب و معیت کے معنی (و حقیقت) اس تعالیٰ کے ساتھ کیا ہیں، وہ ہم نہیں جانتے۔ اس کو احاطہ اور قرب علمی کہنا بھی تاویلات کے متشابہ سے ہے اور ہم اس تاویل کے قائل نہیں ہیں۔
عقیدہ نمبر 3:
اور حق تعالیٰ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہے اور اسی طرح کوئی چیز بھی اس سبحانہٗ کے ساتھ متحد نہیں ہو سکتی۔ بعض صوفیہ کی عبارات سے جو کچھ اتحاد کا مفہوم لیا جاتا ہے وہ ان کی مراد کے خلاف ہے کیونکہ ان کی مراد اس کلام سے جس سے اتحاد کا وہم ہوتا ہے: "إِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہُ" سے یہ ہے کہ جب فقر تمام ہو جائے اور نیستی محض (فنائیت) حاصل ہو جائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا، نہ یہ کہ وہ فقیر خدائے تعالےٰ کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے اور خدا بن جاتا ہے کیونکہ یہ کفر اور زندقہ ہے۔ تَعَالَی اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَمَّا یَتَوَھّمُ الظَّالِمُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ سبحانہٗ ظالموں کے وہم و گمان سے بہت بلند اور بڑا ہے)، اور ہمارے حضرت خواجہ (باقی باللہ) قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ "أنَا الْحَقُّ" سے یہ مراد نہیں ہے کہ "میں حق ہوں" بلکہ مطلب یہ ہے کہ "میں نہیں ہوں حق سبحانہٗ موجود ہے"۔
عقیدہ نمبر 4:
اور تغیر و تبدل کو اس تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی راہ نہیں ہے۔ فَسُبْحَانَ مَنْ لَّا یَتَغَیَّرُ بِذَاتِہٖ وَ لَا بِصِفَاتِہٖ وَ لَا فِيْ أَفْعَالِہٖ بِحُدُوْثِ الْأَکْوَانِ (پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی ذات و صفات اور افعال میں کائنات (موجودات) کے حدوث (حوادث) سے متغیر نہیں ہوتی)، اور جو کچھ صوفیہ وجودیہ نے تنزلاتِ خمسہ کے بارے میں اثبات کیا ہے وہ مرتبہ وجوب میں تغیر و تبدل کی قسم سے نہیں ہے کیونکہ وہ کفر و گمراہی ہے بلکہ ان تنزلات کو حق تعالیٰ کے کمال کے ظہورات کے مراتب میں اعتبار کیا ہے بغیر اس بات کے کہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی تغیر و تبدل راہ پائے۔
عقیدہ نمبر 5:
اور حق تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں غنی مطلق ہے اور کسی امر (کام) میں بھی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور جس طرح وجود میں محتاج نہیں ہے اسی طرح ظہور میں بھی محتاج نہیں ہے، اور یہ جو بعض صوفیہ کی عبارات سے مفہوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے اسمائی و صفاتی کمالات کے ظہور میں ہمارا محتاج ہے، یہ بات فقیر پر بہت گراں ہے بلکہ جانتا ہے کہ ان (مخلوق) کی پیدائش سے مقصود خود ان کے اپنے کمالات کا حاصل ہونا ہے نہ کہ وہ کمال جو حق تعالےٰ و تقدس کی بارگاہ کی طرف عائد ہو سکے۔ آیۂ کریمہ: ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات: 56) أَيْ لِیَعْرِفُوْنِ ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔ (یعنی اپنی معرفت کے لئے) اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔ لہذا جن و انس کی پیدائش سے مقصود ان کو معرفت کا حصول ہے جو کہ ان کے لئے کمال ہے، نہ یہ کہ ایسا امر جو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف عائد ہو سکے۔ یہ جو حدیثِ قدسی میں آیا ہے: "فَخَلَقْتُ الخَلْقَ لِأُعْرَفَ"3 ترجمہ: ”میں نے مخلوق کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ پہچانا جاؤں“۔ اس جگہ بھی ان کی اپنی معرفت مراد ہے نہ یہ کہ میں (یعنی حق تعالیٰ) معروف ہو جاؤں اور ان کی معرفت کے توسل سے کمال حاصل کروں۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ ان باتوں سے بہت بلند اور سب سے بڑا ہے)
عقیدہ نمبر 6:
حق تعالیٰ نقص کی تمام صفتوں (اقسام) اور حدوث کے تمام نشانات سے منزہ اور مبرا ہے۔ جس طرح وہ جسم و جسمانی نہیں ہے مکانی و زمانی بھی نہیں ہے، بلکہ تمام صفات کمال اسی کے لئے ثابت ہیں، جن میں سے آٹھ صفات کمال وجود ذات تعالیٰ و تقدس پر وجودِ زائد کے ساتھ موجود ہیں۔ اور وہ آٹھ صفات: حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر، کلام اور تکوین (پیدا کرنا) ہیں، اور یہ صفات خارج میں موجود ہیں، اور ایسا نہیں ہے کہ وجودِ ذات پر وجودِ زائد کے ساتھ علم میں موجود ہیں اور خارج میں نفسِ ذات تعالیٰ و تقدس ہیں جیسا کہ بعض صوفیہ وجودیہ نے گمان کیا ہے اور کہا ہے
از روئے تعقل ہمہ غیر اند صفات
با ذاتِ تو از روئے تحقق ہمہ عین
ترجمہ:
عقل کہتی ہے صفات اغیار ہیں
سچ یہ ہے وہ ذات میں ہیں عینِ ذات
کیونکہ اس میں در حقیقت صفات کی نفی ہے اس لئے صفات کی نفی کرنے والے یعنی معتزلہ اور فلاسفہ نے بھی تغایرِ علمی اور اتحادِ خارجی کہا ہے اور تغایرِ علمی سے انکار نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ علم کا مفہوم عین مفہومِ ذاتِ تعالیٰ و تقدس ہے یا عین مفہومِ قدرت و ارادہ ہے، بلکہ عینیت وجودِ خارجی کے اعتبار سے کہا ہے۔ لہذا جب تک یہ (صوفیہ) وجودِ خارجی کے تغایر کا اعتبار نہ کریں صفات کے انکار کرنے والوں میں سے نہیں نکلتے، کیونکہ تغایر اعتباری کچھ نفع نہیں دیتا، کَمَا عَرَفْتَ (جیسا کہ تو نے سمجھ لیا)
عقیدہ نمبر 7:
اور حق تعالیٰ قدیم اور ازلی ہے اور اس کے سوا کسی کے لئے "قِدم و ازل" ثابت نہیں۔ تمام ملتوں کا اس پر اجماع ہے اور جو شخص بھی حق جل و علا کے سوا کسی غیر کے قِدم و ازلیت کا قائل ہوا اس کی تکفیر کی ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وجہ سے ابن سینا اور فارابی اور ان جیسے عقائد والوں کی تکفیر کی ہے جو عقول و نفوس کے قِدم کے قائل ہیں اور ہیولیٰ اور صورت کے قدیم ہونے کا گمان رکھتے ہیں اور آسمانوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو بھی قدیم جانا ہے۔ ہمارے خواجہ حضرت (باقی باللہ) قدس سرہٗ فرماتے تھے کہ "شیخ محیی الدین ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کاملین کی ارواح کے قدیم ہونے کے قائل ہیں"۔ اس بات کو ظاہر کی طرف سے پھیر کر تاویل پر محمول کرنا چاہیے تاکہ اہلِ ملت کے اجماع کے مخالف نہ ہو۔
عقیدہ نمبر 8:
اور حق تعالیٰ قادر مختار ہے۔ ایجاب کی آمیزش اور اضطرار کے گمان سے منزہ اور مبرا ہے۔ بے عقل فلاسفہ نے کمال کو ایجاب میں جان کر واجب تعالیٰ سے اختیار کی نفی کر کے اس کے ایجاب کا اثبات کیا ہے، اور ان بے عقلوں نے ذاتِ واجب تعالیٰ و تقدس کو بے کار سمجھا ہے اور سوائے ایک مصنوع کے کہ وہ بھی ایجاب سے ہے زمین و آسمان کے خالق سے صادر نہ جان کر حوادث کے وجود کو عقلِ فعال کی نسبت دی ہے جس کا وجود ان کے وہم کے علاوہ کہیں ثابت نہیں ہے۔ ان کے فاسد زعم میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے ان کو کچھ کام نہیں ہے۔ لازمی طور پر چاہیے تھا کہ اضطراب و اضطرار کے وقت اپنی عقلِ فعال کی طرف التجا کرتے اور حضرت حق سبحانہٗ کی طرف رجوع نہ کرتے کیونکہ ان کے نزدیک حوادث کے وجود میں اس تعالیٰ کی کوئی مداخلت نہیں ہے، اور کہتے ہیں کہ عقلِ فعال ہی حوادث کی ایجاد سے تعلق رکھتی ہے بلکہ وہ تو عقلِ فعال سے بھی رجوع نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک بلیات کے دفع کرنے میں بھی ان کا اختیار نہیں ہے۔ یہ بد نصیب (فلاسفہ) اپنی بے وقوفی اور حمایت میں فرقۂ ضلالہ سے بھی آگے بڑھ گئے حالانکہ کافر بھی بخلاف ان بد بختوں کے حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں اور بلاوں کے دفعیے کو اسی تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں۔ تمام گمراہ اور بے دین فرقوں کی نسبت ان بد بختوں میں دو چیزیں زیادہ ہیں: ایک یہ کہ احکامِ منزلہ کا کفر اور انکار کرتے ہیں اور اخبارِ مرسلہ کے ساتھ عداوت و دشمنی رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ اپنے بے ہودہ اور واہی مطالب اور مقاصد کے ثابت کرنے میں بے ہودہ مقدمات کو ترتیب دیتے اور جھوٹے دلائل اور باطل شواہد کو عمل میں لاتے ہیں۔ اپنے مطالب و مقاصد کے ثابت کرنے میں جس قدر ان کو خبط لاحق ہوا ہے اور کسی بے وقوف کو اس قدر لاحق نہیں ہوا۔ آسمان اور ستارے جو ہر وقت بے قرار اور سر گرداں ہیں اپنے کاموں کا مدار ان کی حرکات اور اوضاع پر رکھا ہے، اور آسمانوں کے خالق اور ستاروں کے موجد و محرک اور مدبر (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں اور دور از معاملہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ کیا ہی بے خِرَد اور کتنے بے وقوف ہیں۔ ان سے بھی زیادہ بے وقوف اور احمق وہ شخص ہے جو ان کو دانا سمجھتا اور عقل مند جانتا ہے۔ ان کے منظم اور منضبط یعنی مرتب کردہ علوم میں سے ایک علم ہندسہ ہے جو محض لا یعنی بے ہودہ اور لا طائل ہے۔ بھلا مثلث کے تینوں زاویوں کا دو زاویہ قائمہ کے برابر ہونا کس کام آئے گا؟ اور شکلِ عروسی اور مامونی جو ان کے نزدیک بڑی مشکل اور جان کاہ ہے، کس غرض کے لئے ہے؟ اور علم طلب و نجوم اور علمِ تہذیبِ اخلاق جو ان کے تمام علوم میں سے بہترین علوم ہیں، انہوں نے گزشتہ انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوات و التسلیمات کی کتابوں سے چرا کر اپنے باطل اور بے ہودہ علوم کو رائج کیا ہے، جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالے "المنقذ عن الضلال" میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
اہلِ ملت اور انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کے متبعین اگر دلائل و براہین میں غلطی کریں تو کچھ ڈر نہیں کیونکہ ان کے کام کا مدار انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کی تقلید پر ہے اور اپنے مطالب عالیہ کے ثبوت کے لئے دلائل و براہین کو صرف بطور تبرع (بطور احسان) لاتے ہیں۔ یہی تقلید ان کے لئے کافی ہے، بخلاف ان بد بختوں کے جو تقلید سے نکل کر صرف دلائل کے ساتھ اپنے مطالب کو ثابت کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، ضَلُّوا فَأَضَلُّواْ (یہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا)
حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی نبوت کی دعوت جب افلاطون4 کو پہنچی جو ان بد نصیبوں کا سب سے بڑا سردار ہے تو اس نے کہا: "نَحْنُ قَومٌ مُّھْتَدَوُنَ لَا حَاجَۃَ بِنَآ إِلٰی مَنْ یَھْدِیْنَا" (ہم ہدایت یافتہ قوم ہیں اور ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں ہے جو ہم کو ہدایت دے) اس بے وقوف کو چاہیے تھا کہ ایسے شخص کو جو مردوں کو زندہ کر دیتا ہے اور مادر زاد اندھے کو بینا (دیکھنے والا) اور ابرص (جذامی کوڑھی) کو اچھا کر دیتا ہے، جو (ان کی) حکمت کے قانون سے نا ممکن ہے۔ پہلے ان کو دیکھتا اور ان کے حالات دریافت کرتا (پھر جواب دیتا) بغیر دیکھے جواب دینا کمال درجہ دشمنی اور کمینہ پن ہے۔
فلسفہ چوں اکثرش باشد سفہ پس کلِ آں
ہم سفہ باشد کہ حکم کل حکم اکثر است
ترجمہ:
فلسفہ اکثر سفہ ہے، بس سفہ
کُل کا حکم آخر رہے اکثر کا حکم
نَجَّانَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَنْ ظُلُمَاتِ مُعْتَقَدَاتِھِمُ السُّوْءِ (اللہ سبحانہٗ ان کے برے عقائد کی تاریکی سے ہم کو نجات دے)
ان ہی ایام میں فرزندی محمد معصوم نے "جواہر شرح مواقف" کو پورا کیا ہے۔ اثنائے سبق میں ان بے وقوفوں (فلاسفہ) کی برائیاں واضح طور پر سامنے آئیں اور ان کی وجہ سے بہت فائدے مترتب ہوئے۔ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔
شیخ محیی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی (بعض) عبارتیں بھی ایجاب کی طرف ناظر ہیں اور قدرت کے معنی میں فلسفے کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں کہ اس کے ترک کی صحت قادر (حق تعالیٰ) سے تجویز نہیں کرتے اور فعل کی جانب کو لازم جانتے ہیں۔
عجب معاملہ ہے کہ شیخ محیی الدین (اللہ تعالیٰ کے) مقبولین میں سے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اکثر علوم جو اہلِ حق کی آراء کے مخالف ہیں خطا اور نا درست ظاہر ہوتے ہیں شاید ان کو خطائے کشفی کے باعث معذور رکھا گیا ہے اور خطائے اجتہادی کی طرح ان سے ملامت دور کر دی گئی ہے ـــ شیخ محیی الدین کے حق میں فقیر کا اعتقاد یہی ہے کہ ان کو مقبولین میں سے جانتا ہے اور ان کے ان علوم کو (جو اہلِ حق کے) مخالف ہیں، خطا اور ضرر رساں دیکھتا ہے۔ اس گروہ (صوفیہ) کے بعض لوگ ایسے ہیں کہ شیخ (موصوف) کو طعن و ملامت بھی کرتے ہیں اور ان کے علومِ مخالفہ کو بھی غلط اور نا درست سمجھتے ہیں، اور اس گروہ کے بعض لوگ شیخ (موصوف) کی تقلید اختیار کر کے ان کے تمام علوم کو درست جانتے ہیں اور دلائل و شواہد سے ان علوم کی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان ہر دو فریق نے افراط و تفریط کا راستہ اختیار کیا ہے اور میانہ روی سے دور ہو گئے ہیں، شیخ (موصوف) کو جو کہ اولیائے مقبولین میں سے ہیں، خطائے کشفی کے باعث کس طرح رد کر دیا جائے اور ان کے علوم کو جو کہ صحت و صواب سے دور ہیں اور اہلِ حق کی رائے کے مخالف ہیں تقلید کی وجہ سے کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟ فَالْحَقُّ ھُوَ التَّوَسُّطُ الَّذِيْ وَفَّقَنِيَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِمَنِّہٖ وَ کَرَمِہٖ (پس حق اسی میانہ روی میں ہے جس کی توفیق اللہ سبحانہٗ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے بخشی ہے)
ہاں مسئلہ "وحدت الوجود" میں اس گروہ (صوفیہ) کی ایک بڑی جماعت شیخ کے ساتھ شریک ہے۔ اگرچہ شیخ (موصوف) اس مسئلے میں بھی ایک خاص طرز رکھتے ہیں لیکن اصل بات میں وہ سب لوگ (شیخ کے ساتھ) شریک ہیں۔ یہ مسئلہ بھی اگرچہ ظاہر میں اہلِ حق کے عقائد کے مخالف ہے لیکن توجہ کے قابل اور تطبیق دینے کے لائق ہے۔ اس فقیر نے اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے ہمارے حضرت (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی "شرح رباعیات" کی شرح میں اس مسئلے کو اہلِ حق کے عقائد کے ساتھ تطبیق دی ہے اور فریقین کے نزاع کو لفظ کی طرف پھیرا ہے (یعنی نزاعِ لفظی ثابت کیا ہے) اور طرفین کے شکوک و شبہات کو اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی: کَمَا لَا یَخْفٰی عَلَی النَّاظِرِ فِیْہِ (جیسا کہ اس کے دیکھنے والے پر پوشیدہ نہیں ہے)
عقیدہ نمبر 9:
جاننا چاہیے کہ تمام ممکنات خواہ جواہر ہوں یا اعراض، خواہ اجسام و عقول ہوں یا نفوس، افلاک ہوں یا عناصر، سب اسی قادرِ مختار کے ایجاد کئے ہوئے ہیں جو ان کو یہاں خانۂ عدم سے معرض وجود میں لایا ہے، اور جس طرح یہ سب اپنے وجود میں اس تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی طرح بقا (باقی رہنے) میں بھی اس سبحانہٗ کے محتاج ہیں، اور اس نے اسباب و وسائل کے وجود کو اپنے فعل کا روپوش بنا دیا ہے اور حکمت کو اپنی قدرت کے پردے بنا دیئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اسباب کو اپنے فعل کے ثبوت کے دلائل قرار دے کر حکمت کو اپنی قدرت کے وجود کا وسیلہ فرمایا ہے کیونکہ وہ عقل مند حضرات جنہوں نے حضرات انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی متابعت میں اپنی بصیرت کو سرمگیں اور روشن کر لیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ اسباب و وسائل اپنے وجود و بقا میں اس سبحانہٗ کے محتاج ہیں اور اپنا ثبوت و قیام اسی تعالیٰ و تقدس سے اور اسی کے ساتھ رکھتے ہیں۔ ورنہ حقیقت میں وہ جمادِ محض ہیں، وہ کس طرح دوسرے میں جو وہ بھی ان کے مثل (جماد) ہے، اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ اور ان میں احداث و اختراع کس طرح کر سکتے ہیں؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان کے علاوہ اور قادر ہے جو ان کو ایجاد کرتا ہے اور ہر ایک کے لائق و مناسب کمالات ان کو عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ عقل مند آدمی جماد محض سے فعل کو دیکھ کر اس کے فاعل اور محرک کا سراغ لگا لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ فعل اس (جماد) کے حال کے لائق نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور فاعل ہے جو اس فعل کو اس میں ایجاد کرتا ہے، لہذا عقل مندوں کے نزدیک جماد کا فعل، فاعلِ حقیقی کے فعل کا روپوش ہونا ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس کی جمادیت کی طرف نظر کرنے کے لحاظ سے اس کا وہ فعل فاعلِ حقیقی کے وجود پر دلیل ہو گیا۔ پس یہاں بھی اسی طرح ہے۔ البتہ اس بے وقوف کے فہم میں جماد کا فعل فاعلِ حقیقی کے فعل کا روپوش بن گیا جس نے اپنی حد درجہ بے وقوفی کی وجہ سے جمادِ محض کو اس ظاہری فعل کے سبب صاحب قدرت جان لیا ہے اور فاعل حقیقی کا منکر ہو گیا ہے: ﴿يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّ يَهْدِيْ بِهٖ كَثِيْرًا﴾ (البقرة: 26) ترجمہ: ”اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے“۔
یہ معرفت "مشکوٰۃِ نبوت" سے مقتبس ہے لیکن ہر شخص کی فہم اس تک نہیں پہنچی۔ ایک جماعت اس کمال کو اسباب کے دور کرنے میں جانتی ہے اور شروع ہی سے چیزوں کو بغیر اسباب کے توسط کے حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف منسوب کرتی ہے اور نہیں جانتے کہ اسباب کے رفع کرنے ہیں حکمت ختم ہو جاتی ہے جس کے ضمن میں بہت سی مصلحتیں مدِ نظر ہیں: ﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا﴾ (آل عمران: 191) ترجمہ: ”اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا“۔
انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات بھی اسباب کی رعایت کرتے ہیں اور (با وجود اس رعایت کے) اپنے کام کو حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مراعات سے جانتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے نظرِ بد لگ جانے کے خیال سے اپنے لڑکوں کو وصیت فرمائی تھی: ﴿وَ قَالَ یَا بُنَيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ﴾ (یوسف: 67) ترجمہ: ”اور (ساتھ ہی یہ بھی) کہا کہ : میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے (شہر میں) داخل نہ ہونا، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا“۔
اور (حضرت یعقوب علیہ السلام نے) اس احتیاطی تدبیر کی رعایت کے با وجود اپنے حکم کو جل سلطانہٗ کے سپرد کر کے فرمایا: ﴿وَ مَآ اُغْنِيْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ﴾ (یوسف: 67) ترجمہ: ”میں اللہ کی مشیت سے تمہیں نہیں بچا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ اسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے، اور جن جن کو بھروسہ کرنا ہو، انہیں چاہیے کہ اسی پر بھروسہ کریں“۔ اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے ان کی اس معرفت کو پسند فرما کر اس بات کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا: ﴿وَ إِنَّهٗ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَ لَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (یوسف: 68) ترجمہ: ”بے شک وہ ہمارے سکھائے ہوئے علم کے حامل تھے، لیکن اکثر لوگ (معاملے کی حقیقت) نہیں جانتے“۔ اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بھی اسباب کے واسطے کا اشارہ فرمایا ہے: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسۡبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِينَ﴾ (الانفال: 64) ترجمہ: ”اے نبی ! تمہارے لیے تو بس اللہ اور وہ مومن لوگ کافی ہیں جنہوں نے تمہاری پیروی کی ہے“۔
باقی رہا یہ کہ اسباب کی تاثیر روا ہے کیونکہ بعض اوقات حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اسباب میں بھی تاثیر فرما دیتا ہے تاکہ وہ موثر ہو جائیں، اور بعض اوقات ان میں تاثیر پیدا نہیں فرماتا لہذا نا چار اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم (روز مرہ) اسباب میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی ان اسباب پر مسببات کا وجود مرتب ہوتا ہے اور کبھی کوئی اثر ان سے ظاہر نہیں ہوتا۔ اسباب کی تاثیر سے مطلقًا انکار کرنا لغو و باطل ہے۔ تاثیر کو ماننا چاہیے لیکن اس تاثیر کو بھی اس کے سبب کی طرح حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی ایجاد سے جاننا چاہیے۔ فقیر کی رائے اس مسئلے میں یہی ہے، وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُلْھِمُ (اور اللہ سبحانہٗ ہی الہام فرمانے والا ہے)
اس بیان سے واضح ہو گیا کہ اسباب کا واسطہ توکل کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ناقصوں نے خیال کیا ہے بلکہ اسباب میں توسط کا خیال کرنا "کمالِ توکل" ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملہ کو حق جل و علا کے سپرد کرنے کو توکل فرمایا ﴿عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ﴾ (یوسف: 67) ترجمہ: ”اسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے، اور جن جن کو بھروسہ کرنا ہو، انہیں چاہیے کہ اسی پر بھروسہ کریں“۔
عقیدہ نمبر 10:
اور حق تعالیٰ خیر و شر کا ارادہ کرنے والا بھی ہے اور دونوں (خیر و شر) کا پیدا کرنے والا بھی، لیکن وہ خیر سے راضی ہوتا ہے اور شر سے ناراض۔ ارادہ اور رضا کے درمیان یہ ایک بڑا باریک اور دقیق فرق ہے جس کی طرف حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اہلِ سنت کو ہدایت عطا فرمائی ہے۔ باقی تمام فرقے اس فرق کو نہ سجھنے کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے معتزلہ نے بندے کو اپنے افعال کا خالق کہا ہے اور کفر و معاصی کی ایجاد کو اس (بندے) سے منسوب کیا ہے۔ شیخ محیی الدین رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی پیروی کرنے والوں کے کلام سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ "جس طرح ایمان و عملِ صالح" اسم الہادی" کے پسندیدہ ہیں اسی طرح کفر و معاصی بھی "اسم المضل" کے پسندیدہ ہیں"۔ (شیخ کی) یہ بات بھی اہل حق کے خلاف ہے اور ایجاب کی طرف میلان رکھتی ہے جو رضا کا منشا ہوئی ہے۔ جیسا کہ کہتے ہیں کہ آفتاب کا کام ضو فشانی (روشنی پھیلانا) ہے اور اس میں اس کی مرضی شامل ہے۔ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قدرت و ارادہ عطا کیا ہے کہ اپنے اختیار سے اپنے افعال کا کسب کرتے ہیں۔ افعال کا پیدا کرنا حق سبحانہٗ کی طرف منسوب ہے اور ان افعال کا کسب بندوں کی جانب منسوب ہے۔ اللہ سبحانہٗ کی عادت اسی طرح جاری ہے کہ بندہ جب اپنے فعل کا ارادہ کرتا ہے تو حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس فعل کو پیدا کر دیتا ہے۔ چونکہ بندے کا فعل اپنے اختیار سے صادر ہوتا ہے اس لئے لازمی طور پر اس کی تعریف اور برائی، ثواب اور عذاب بھی اسی سے متعلق ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے یہ کہا ہے کہ بندے کا اختیار کمزور اور ضعیف ہے اگر حق سبحانہٗ کی قوت اختیار کے اعتبار سے (اس بندے کے اختیار) کو ضعیف کہا ہے تو مسلم ہے، اور اگر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ جس کام کے کرنے میں اس کو مامور کیا گیا ہے وہ (قوت و اختیار) کافی نہیں ہے، تو یہ بات صحیح نہیں: فَإِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ لَا یُکَلِّفُ بِمَا لَیْسَ فِيْ وُسْعِہٖ بَلْ یُرِیدُ الیُسْرَ وَ لَا یُرِیدُ العُسْر (پس بے شک اللہ سبحانہٗ ایسے کام کی تکلیف نہیں دیتا جو بندے کی وسعت سے باہر ہو بلکہ وہ تو آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور تنگی کا ارادہ نہیں کرتا)
خلاصہ کلام یہ کہ "فعلِ موقت" (چند روزہ زندگی کے فعل) پر "جزائے مخلد" (دائمی عذاب) کا مقرر کرنا حق تعالیٰ کے حوالے ہے جس نے "کفر موقت" کی سزا اس کے اعمال کے موافق "عذاب مخلد" فرمائی۔ اور "تلذذاتِ دائمی" (یعنی بہشت اور جو کچھ اس میں ہے) کو "ایمانِ موقت" (زندگی بھر کے ایمان پر وابستہ کر دیا: ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ (یہ عزیز و حکیم کا مقرر کردہ ہے)
اللہ سبحانہٗ کی توفیق سے اس قدر ہم جانتے ہیں کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ جو ظاہری اور باطنی نعمتوں کا دینے والا اور آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جس کی بارگاہِ قدس کے لئے ہر قسم کی بزرگی اور کمال ثابت ہے، اس کی نسبت کفر اختیار کرنے کی سزا بھی ایسی ہی ہونی چاہیے جو سخت ترین سزاؤں میں سے ہو، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنا ہے۔ اسی طرح اس منعم بزرگ و بر تر پر ایمان بالغیب لانا اور نفس و شیطان کی مزاحمت کے باوجود اس کو راست گو جاننے کی جزا بھی ویسی ہی ہونی چاہیے جو سب جزاؤں سے بہتر اور اعلیٰ درجے کی ہو اور وہ دائمی نعمت و لذات میں رہنا ہے۔
بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ "در حقیقت بہشت میں داخل ہونا محض حق سبحانہٗ کے فضل پر موقوف ہے، اور اس کو ایمان کے ساتھ مربوط کرنا اس وجہ سے ہے کہ اعمال کی جزا لذیذ ترین معلوم ہو"۔ لیکن اس فقیر کے نزدیک حقیقتًا بہشت میں داخل ہونا ایمان کی وابستگی پر موقوف ہے لیکن ایمان بھی اس سبحانہٗ و تعالیٰ کا فضل اور عطیہ ہے، اور جہنم میں داخل ہونا کفر کے ساتھ وابستہ ہے اور کفر نفس امارہ کی خواہشات سے پیدا ہوتا ہے: ﴿وَ مَآ أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ وَ مَآ أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾ (النساء: 79) ترجمہ: ”تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے“۔
جاننا چاہیے کہ بہشت کے داخلے کو ایمان کے ساتھ مربوط کرنا حقیقت میں ایمان کی تعظیم اور تکریم ہے بلکہ "مؤمَن بہ" (جس پر ایمان لایا گیا) کی تعظیم ہے۔ جس پر اس قدر بڑا عظیم الشان اجر مرتب ہوا ہے، اور اسی طرح دوزخ میں داخل ہونے کو کفر کے ساتھ وابستہ کرنے میں کفر کی تحقیر ہے، اور اس ذات کی تعظیم ہے جس کی نسبت یہ کفر وقوع میں آیا اور اس طور پر دائمی عذاب اس پر مترتب ہوا۔ بر خلاف اس بات کے جو بعض مشائخ نے کہی ہے، وہ اس دقیقے سے خالی ہے۔ نیز دوزخ میں داخل ہونا بھی انصاف کے تقاضے پر ہے اور کوئی مثال اس طرح پر جاری نہیں ہے۔ کیونکہ جہنم میں داخل ہونا حقیقت میں کفر کے ساتھ مربوط ہے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ المُلْھِمُ۔ ھٰذَا (اور اللہ سبحانہ ہی الہام فرمانے والا ہے۔ اس کو یاد رکھیں)
عقیدہ نمبر 11:
اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو مومنین آخرت میں بے جہت، بے کیف اور بے شبہ و بے مثال جنت میں دیکھیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس میں اہل سنت کے علاوہ تمام اہل ملت اور غیر اہل ملت سب اس کے منکر ہیں اور بے جہت و بے کیف رویت کو جائز نہیں سمجھتے۔ حتیٰ کہ شیخ محیی الدین ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ بھی آخرت کی رویت کو تجلّی صوری کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس تجلی صوری کے علاوہ کچھ تجویز نہیں کرتے۔ ایک روز ہمارے حضرت (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) شیخ سے نقل کرتے تھے کہ اگر معتزلہ رویت کو تنزیہ کے مرتبے میں مقید نہ کرتے اور تشبیہ کے بھی قائل ہو جاتے اور اسی رویت کو تجلی (صوری) سمجھ لیتے تو ہرگز رویت کا انکار نہ کرتے اور محال نہ سمجھتے۔ یعنی ان کا انکار بے جہتی اور بے کیفی کی وجہ سے ہے جو مرتبۂ تنزیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ بخلاف اس تجلی کے جس میں جہت اور کیف ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ آخرت کی رویت کو تجلی صوری کی طرح بیان کرنا فی الحقیقت خاص رویت کا انکار کرنا ہے کیونکہ وہ تجلی صوری اگرچہ دنیاوی تجلیات صوریہ سے مختلف ہے لیکن حق تعالیٰ کی رویت نہیں ہے۔
یَرَاہُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِغَیْرِ کَیْفٍ
وَ إِدْرَاکٍ وَّ ضَرْبٍ مِّنْ مِّثَالٍ
ترجمہ:
جنتی کو دیدِ حق کی ہو گی سیر
کیف و ادراک اور مثالوں کے بغیر
عقیدہ نمبر 12:
انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی بعثت عالم (تمام جہان) کے لئے سرا سر رحمت ہے، اگر ان بزرگواروں کے وجود کا وسیلہ نہ ہوتا تو ہم جیسے گمراہوں کو ذات و صفات واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی معرفت کی طرف کون ہدایت فرماتا؟ اور ہمارے مولا جل شانہٗ کی مرضیات و نا مرضیات والی چیزوں میں کون تمیز کراتا؟ اور ہماری ناقص عقلیں ان (بزرگواروں) کے نور دعوت کی تائید کے بغیر اس کے سمجھنے سے معزول و بے کار ہیں اور ہمارے افہامِ نا تمام ان بزرگواروں کی تقلید کے بغیر اس معاملے میں عاجز و بے بس ہیں۔ بے شک عقل اگرچہ ایک حجت (دلیل) ہے لیکن یہ ایک نا تمام حجت ہے جو مرتبۂ بلوغ تک نہیں پہنچی ہے۔ "حجتِ بالغہ" (دلیلِ کامل) انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی بعثت ہے جس پر آخرت کا دائمی عذاب و ثواب وابستہ ہے۔
سوال:
جب آخرت کا دائمی عذاب بعثت پر موقوف ہے تو پھر بعثت کو "رحمتِ عالمیان" کہنے کا کیا معنی ہو گا؟
جواب:
بعثت (انبیاء علیہم السلام) عین رحمت ہے کیونکہ واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات و صفات کی معرفت کا سبب ہے جس میں دنیا و آخرت کی سعادتیں شامل ہیں۔ بعثت (انبیاء علیہم السلام) کی دولت کی وجہ سے معلوم ہو گیا کہ فلاں چیز حق تعالیٰ کی بارگاہِ قدس کے مناسب ہے اور فلاں نا مناسب۔ کیونکہ ہماری لنگڑی اور اندھی عقل امکان و حدوث کے داغ سے داغ دار ہے، وہ کیا سمجھے کہ اس حضرتِ وجوب کے لئے جس کے واسطے قدم لازم ہے، اس کے اسماء و صفات اور افعال میں سے کون سے مناسب ہیں اور کون سے نا مناسب تاکہ ان مناسب (اسماء و صفات) کا اطلاق کیا جائے اور نا مناسب سے پرہیز کیا جائے۔ بلکہ بسا اوقات (ہماری اندھی عقل) اپنے نقص کی وجہ سے کمال کو نقص جانتی ہے اور نقص کو کمال سمجھنے لگتی ہے۔ فقیر کے نزدیک یہ (مناسب و نا مناسب کا) امتیاز تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد بخت ہے جو نا مناسب امور کو اس تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کر دے اور نا شائستہ چیزوں کو حضرتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ نسبت دے۔ یہ بعثتِ (انبیاء) ہی کا کار نامہ ہے جس نے حق کو باطل سے جدا کر دیا۔ بعثت ہی کی وجہ سے غیر مستحقِ عبادت اور مستحقِ عبادت (حق جل و علا) کے درمیان تمیز قائم کی۔ یہ بعثت ہی ہے کہ جس کے ذریعے حق جل و علا کے راستے کی طرف دعوت دی جاتی ہے جو بندوں کو مولیٰ جل سلطانہٗ کے قرب اور وصل کی سعادت تک پہنچاتی ہے، اور بعثت ہی کے وسیلے سے مولیٰ جل شانہٗ کی مرضیات کی اطلاع میسر ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔ بعثت ہی کے طفیل اس تعالیٰ کی ملک میں تصرف کے جواز و عدمِ جواز کی تمیز حاصل ہوتی ہے۔ بعثت کے فوائد کی مثالیں بکثرت ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ انبیاء کی بعثت سراپا رحمت ہے۔ جو شخص اس نفسِ امارہ کا مطیع ہو گیا اور شیطان لعین کے حکم سے بعثت کا انکار کرتا ہے اور بعثت کے تقاضوں کے مطابق عمل نہیں کرتا تو اس میں بعثت کا کیا گناہ اور بعثت کس طرح رحمت نہ ہو گی؟
سوال:
ہر چند عقل اپنی ذات کی حد تک احکام الٰہی جل شانہٗ کی بجا آوری میں ناقص و نا تمام ہے لیکن ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ تصفیہ اور تزکیہ حاصل ہونے کے بعد عقل کو مرتبۂ وجوب تعالیٰ و تقدس کے ساتھ ایک بے تکیف مناسبت اور اتصال پیدا ہو جائے کہ جس مناسبت اور اتصال کے سبب وہ احکام کو وہاں سے اخذ کر لے اور اس کو اس بعثت کی جو فرشتے کے واسطے سے ہے کوئی حاجت نہ رہے۔
جواب:
اگرچہ عقل یہ مناسبت اور اتصال پیدا کر لے لیکن وہ تعلق جو اس کا جسمانی بدن کے ساتھ ہے وہ بالکل ختم نہیں ہوتا اور کامل طور پر علیحدگی حاصل نہیں ہوتی، لہذا قوتِ واہمہ ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے، اور قوتِ متخیلہ ہرگز اس کا خیال نہیں چھوڑتی اور قوت غضبیہ و شہویہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے اور حرص و لالچ کے رذائل ہر وقت اس کے ہم نشین رہتے ہیں۔ سہو و نسیان جو نوعِ انسانی کے لوازمات میں سے ہیں، اس کی عقل سے مکمل طور پر جدا نہیں ہوتے، اور غلطی و خطا جو اس جہان کا خاصہ ہیں، اس سے جدا نہیں ہوتے۔ لہذا عقل اعتماد کے لائق نہیں ہے اور اس سے ماخوذ احکام وہم اور تصرفِ خیال کے غلبے سے محفوظ نہیں رہتے اور نسیان و خطا کے گمان کی آمیزش سے محفوظ نہیں رہتے۔ بر خلاف فرشتے کے کہ وہ ان اوصاف سے پاک اور ان رذائل سے مبرا ہے تو لازمًا وہ اعتماد کے قابل ہے اور اس سے ماخوذ احکام وہم و خیال کی آمیزش اور نسیان و خطا کے گمان سے محفوظ ہیں۔
اور بعض اوقات وہ علوم جو تلقئ روحانی (القائے روحانی) سے اخذ کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کے متعلق تبلیغ کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قویٰ و حواس کے ساتھ بعض مقدمات مسلمہ غیر صادقہ جو وہم و خیال یا کسی اور ذریعے سے حاصل ہوئے ہیں، بے اختیار ان علوم کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہو جاتے ہیں کہ اس وقت ہرگز تمیز ممکن نہیں رہتی، اور دوسرے وقت میں ایسا ہوتا ہے کہ اس تمیز کا علم دے دیا جاتا ہے اور کبھی نہیں دیا جاتا۔ لہذا لازمی طور پر وہ علوم ان مقدمات کے مل جانے کی وجہ سے کذب کی ہیئت پیدا کر لیتے ہیں اور اعتماد کے قابل نہیں رہتے۔ یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصفیہ اور تزکیہ کا حاصل ہونا "اعمالِ صالحہ" کے بجا لانے پر موقوف ہے جو "مرضیات مولیٰ سبحانہٗ" ہیں اور یہ معنی بعثت (انبیاء) پر وابستہ ہیں جیسا کہ بیان ہو چکا۔
لہذا ثابت ہوا کہ بعثت کے بغیر تصفیہ اور تزکیہ کی حقیقت میسر نہیں ہوتی اور وہ صفائی جو کفار اور اہلِ فسق کو حاصل ہوتی ہے وہ نفس کی صفائی ہے نہ کہ قلب کی صفائی، اور نفس کی صفائی سوائے گمراہی کے کچھ نہیں بڑھاتی، اور سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بعض غیبی امور کا کشف جو صفائی نفس کے وقت کفار اور اہلِ فسق کو حاصل ہو جاتا ہے وہ استدراج ہے جس سے مقصود اس جماعت کی خرابی اور نقصان ہے۔ نَجَّنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَنْ ھَذِہِ الْبَلِیَّۃِ بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمُِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَِ آلِ کُلٍّ (اللہ سبحانہٗ حضرت سید المرسلین علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات و علی آلہ و آلھم کے طفیل ہم کو اس بلا سے نجات دے)
اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ تکلیفِ شرعی جو بعثت (انبیاء) کی راہ سے ثابت ہوئی ہے وہ بھی رحمت ہی ہے، نہ کہ جس طرح تکلیفِ شرعی کے منکروں یعنی ملحدوں اور زندیقوں نے گمان کیا ہے اور تکلیفِ شرعی کو مصیبت جان کر غیر معقول اور نا پسند قرار دیا ہے، اور کہتے ہیں کہ یہ کون سی مہربانی ہے کہ بندوں کو امورِ شاقہ کی تکلیف دی جائے پھر ان سے کہا جائے کہ اگر تم اس تکلیف کے مطابق عمل کرو گے تو بہشت میں جاؤ گے اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو دوزخ میں جاؤ گے۔ ان کو ایسے امور کی کیوں تکلیف دیتے ہیں اور ان کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ کھائیں پئیں اور سوئیں، اور جس طرح چاہیں اپنے طور پر زندگی بسر کریں۔ (یہ منکرین) بد نصیب اور بے عقل یہ نہیں جانتے کہ از روئے عقل "شکرِ منعم" ادا کرنا واجب ہے اور یہ تکلیفاتِ شرعیہ اس شکر کے بجا لانے کا بیان ہے۔ لہذا تکلیفِ (شرعی) عقل کی رو سے بھی واجب ہے۔ اسی طرح "نظام عالم" "تکلیفات شرعیہ" کے ساتھ وابستہ ہے، اگر ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو سوائے شرارت و فساد کے کچھ ظہور میں نہ آتا، اور ہر بو الہوس دوسرے کے جان و مال میں دست درازی کرتا اور خباثت و شرارت سے پیش آتا، اس طرح خود بھی ضائع ہوتا اور دوسروں کو ضائع کرتا۔ عَیَاذًا بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ اگر سختی اور شرعی موانع حائل نہ ہوتے تو معلوم نہیں کہ کس قدر شرارت و فساد ظاہر ہوتا۔ ﴿وَ لَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّا أُوْلِي الْأَلْبَابِ﴾ (البقرۃ: 179) ترجمہ: ”اور اے عقل رکھنے والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی (کا سامان ہے)“
اگر چوبِ حاکم نبا شد زپے
کند زنگئے مست در کعبہ قے
ترجمہ:
اگر چوب حاکم کا ہوتا نہ خوف
شرابی تو کعبے میں کر دیتا قے
یا ہم یہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ زمین و آسمان اور ہر چیز کا خود مختار مالک ہے اور (تمام) بندے اس سبحانہٗ کے مملوک اور غلام ہیں، لہذا جو حکم و تصرف وہ ان میں فرماتا ہے وہ عین خیر و اصلاح ہے اور ظلم و فساد کی آمیزش سے منزہ و مبرا ہے۔ ﴿لَا يُسۡـَلُ عَمَّا يَفۡعَلُ﴾ (الأنبیاء: 23) ترجمہ: ”وہ جو کچھ کرتا ہے اس کا کسی کو جواب دہ نہیں ہے“۔
کرا زہرۂ آنکہ از بیم تو
کشاید زباں جزبہ تسلیم تو
ترجمہ:
ترے خوف سے کس کو ہے حوصلہ
کہ تسلیم سے ہٹ کے کھولے زباں
اگر وہ سب کو دوزخ میں ڈال دے اور دائمی عذاب کا حکم فرمائے تو کسی کو اعتراض کی کیا مجال ہے؟ اور یہ غیر کی ملک میں تصرف نہیں ہے کہ اس میں ظلم و ستم کا شائبہ ہو، بر خلاف ہماری املاک کے جو فی الحقیقت اسی سبحانہٗ کی املاک ہیں۔ ان املاک میں تمام تصرفات (سوائے ان کو جو جائز ہیں) عین ستم ہیں۔ کیونکہ صاحب شرع نے بعض مصالح کی بنا پر ان املاک کی نسبت ہماری طرف کر دی ہے لیکن حقیقت میں وہ سب اسی سبحانہٗ کی ملکیت ہیں۔ لہذا ان میں ہمارا تصرف اسی قدر جائز ہے جس قدر مالک علی الاطلاق (بالکلیہ مالک حق تعالیٰ) نے اس میں تصرف کی اجازت دی اور مباح فرمایا۔ کیونکہ ان بزرگواروں (یعنی انبیاء) علیہم الصلوات و التسلیمات نے حق جل و علا کے احکام کے بارے میں خبریں دی ہیں اور جو احکام بیان فرمائے ہیں وہ سب سچے اور واقعہ کے مطابق ہیں۔ (علماء نے) احکامِ اجتہادیہ میں ان بزرگوار (پیغمبران) علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات سے اگرچہ خطا کو تجویز کیا ہے لیکن خطا کے بر قرار رکھنے کو ان کے حق میں جائز نہیں رکھا اور فرمایا ہے کہ ان کو ان کی خطا پر جلدی متنبہ کر دیتے ہیں اور ان کی خطا کا تدارک صواب سے کر دیتے ہیں فَلاَ اعْتَدَادَ بِذَلِکَ الخَطَإِ (لہذا یہ خطا کسی گنتی میں نہیں ہے)
عقیدہ نمبر 13:
اور قبر کا عذاب خاص طور پر کافروں کے لئے اور بعض گناہ گار اہلِ ایمان کے لئے "حق" ہے کیونکہ مخبر صادق علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات نے اس کی خبر دی ہے۔
عقیدہ نمبر 14:
اور قبر میں مومنوں اور کافروں سے منکر نکیر کا سوال بھی "حق" ہے۔ کیونکہ دنیا اور آخرت کے درمیان "قبر" ایک بزرخ ہے۔ اس کا عذاب بھی ایک وجہ سے دنیاوی عذاب سے مناسبت رکھتا ہے اور انقطاع پذیر (ختم ہونے والا) ہے اور دوسری وجہ سے اس کو عذاب اخروی کے ساتھ مناسبت ہے کیونکہ وہ حقیقت میں آخرت کے عذابوں میں سے ہے۔ آیتِ کریمہ: ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًا وَّ عَشِيًّا﴾ (المؤمن: 46) ترجمہ: ”آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح و شام پیش کیا جاتا ہے“۔ نَزَلَتْ فِيْ عَذَابِ القَبْرِ (یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے) اور اسی طرح قبر کی راحت بھی دو حیثیتیں رکھتی ہے۔ وہ شخص بہت ہی سعادت مند ہے جس کی لغزشوں اور گناہوں کو کمالِ کرم اور مہربانی سے معاف فرما دیں اور ہرگز اس سے مواخذہ نہ کریں اور اگر مقامِ مواخذہ میں آ جائے تو بھی اپنی کمال رحمت سے دنیاوی آلام و مصائب کی تکالیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ قرار دے دیں۔ اور اگر کچھ باقی رہ جائے تو قبر کی تنگی اور ان تکلیفوں کو جو اس مقام میں مقرر ہیں ان سے کفارہ کر دیں تاکہ پاک و پاکیزہ ہو کر حشر میں مبعوث ہو، اور جس کسی کے لئے ایسا نہ کریں اور اس کا مواخذہ آخرت پر چھوڑ دیں تو یہ بھی عین عدل ہے۔ لیکن گنہگاروں اور شرمساروں کے حال پر افسوس ہے۔ ہاں اگر وہ (گنہگار) اہلِ اسلام میں سے ہے تو اس کا انجام رحمت سے ہے اور وہ عذابِ ابدی سے محفوظ ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ عَلَیْھِمُ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ (اے ہمارے رب! سید المرسلین علیہ و علیٰ آلہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے طفیل ہمارے نور کو کامل فرما اور ہم کو بخش دے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے)
عقیدہ نمبر 15:
روزِ قیامت "حق" ہے۔ اس روز آسمان، ستارے، زمین، پہاڑ، سمندر، حیوان، نباتات اور معدنیات؛ سب کے سب معدوم و نا چیز ہو جائیں گے۔ آسمان شق ہو جائیں گے اور ستارے منتشر ہو کر گر جائیں گے، اور زمین و پہاڑ پراگندہ ذرات ہو جائیں گے۔ یہ تمام توڑ پھوڑ اور فنا کا تعلق نفخۂ اولیٰ سے ہے۔ نفخۂ ثانیہ (دوسرے صور) پر لوگ قبروں سے اٹھ کر محشر کی طرف روانہ ہوں گے۔ فلاسفہ (یعنی حکماء یونان وغیرہ) آسمانوں، ستاروں کے نیست و نا بود ہونے کو نہیں مانتے اور ان کا فانی اور فاسد ہونا جائز نہیں سمجھتے۔ وہ ان کو ازلی اور ابدی کہتے ہیں۔ اس امر کے باوجود ان میں سے متاخرین اپنی بے وقوفی کی وجہ سے اپنے آپ کو زمرہ اہل اسلام میں شمار کرتے ہیں اور اسلام کے بعض احکام بھی بجا لانے کا دعوی کرتے ہیں۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اہلِ اسلام ان کی ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور جرأت و دلیری کے ساتھ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بعض مسلمان ان لوگوں میں سے بعض کے اسلام کو کامل جانتے ہیں، اور اگر کوئی ان پر طعن و تشنیع کرے تو اس کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ نصوصِ قطعیہ کے منکر ہیں اور انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے اجماع کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ 0 وَ إِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ﴾ (التکویر: 1-2) ترجمہ: ”جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے“۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ وَ أَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَ حُقَّتْ﴾ (الانشقاق 1-2) ترجمہ: ”جب آسمان پھٹ پڑے گا اور وہ اپنے پروردگار کا حکم سن کر مان لے گا، اور اس پر لازم ہے یہی کرے“ اور اللہ فرماتا ہے: ﴿وَ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا﴾ (النبأ: 19) ترجمہ: ”اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس کے دروازے ہی دروازے بن جائیں گے“۔ اس قسم کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ صرف کلمۂ شہادت زبان سے ادا کر لینا اسلام میں کافی نہیں ہے، بلکہ ان تمام چیزوں کی تصدیق بھی ضروری ہے جن کا بجا لانا اور ان پر عمل کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے اور کفر و کافری سے تبرا اور بیزار ہونا بھی ضروری ہے تاکہ اسلام متصور ہو جائے۔ وَ بِدُونِہ خَرْطُ الْقِتَادِ (اس کے علاوہ بے فائدہ تکلیف اٹھانا ہے)۔
عقیدہ نمبر 16:
اور حساب، میزان (اعمال کا وزن ہونا) اور پل صراط "حق" ہے، کہ مخبر صادق علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے ان کی خبر دی ہے۔ (لیکن) نبوت کے اطوار سے نا واقفیت کی بنا پر بعض جاہلوں کا ان امور کو بعید از عقل سمجھنا درجہ اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ نبوت کے اطوار عقل کے اطوار سے بالا تر ہیں۔ حقیقت میں انبیاء کرام علیہم السلام کی سچی خبروں کو عقل کی نظر کے موافق کرنے کی کوشش کرنا حقیقت میں "طورِ نبوت" سے انکار ہے کیونکہ یہاں معاملہ صرف تقلید (انبیاء) پر مبنی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ "طورِ نبوت" "طور عقل" کے مخالف ہے، بلکہ "طورِ عقل" انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تقلید کی تائید کے بغیر اس عالی مطلب کی طرف ہدایت حاصل نہیں کر سکتی۔ مخالفت دوسری چیز ہے اور رسائی نہ ہونا دوسری بات ہے۔ کیونکہ مخالفت رسائی کے بعد متصور ہوتی ہے۔
عقیدہ نمبر :17
اور بہشت و دوزخ موجود ہیں۔ قیامت کے دن حساب کے بعد ایک گروہ بہشت میں بھیجا جائے گا اور دوسرا گروہ دوزخ میں۔ اور ان (مومنوں) کے لئے ثواب اور (کفار کے لئے) عذاب دائمی و ابدی ہو گا جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ جیسا کہ قطعی اور موکدہ نصوص اس امر پر دلالت کرتے ہیں۔
صاحبِ فصوص (شیخ محیی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیں کہ سب کا انجام "رحمت" ہے (جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا)﴿وَ رَحْـمَتِىْ وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ﴾ (الأعراف: 156) ترجمہ: ”اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے“ـ اور کفار کے لئے دوزخ کا عذاب تین حقبے (ایک حقبہ اسی برس کی مدت) تک ثابت ہے۔ اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ "آگ ان کے حق میں بردًا و سلامًا (ٹھنڈی اور سلامتی والی) ہو جائے گی جیسا کہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام پر ہو گئی تھی، اور حق جل و علا کی وعید میں خلاف کرنے کو جائز سمجھتے ہیں، اور وہ (صاحب فصوص) یہ کہتے ہیں کہ" اہل دل (صوفیہ) میں سے کوئی بھی کفار کے دائمی عذاب کی طرف نہیں گیا ہے"۔ اس مسئلے میں بھی وہ راہِ حق سے دور جا پڑے ہیں، اور انہوں نے یہ نہیں جانا کہ مومنوں اور کافروں کے حق میں "وسعتِ رحمت" صرف اسی دنیا میں مخصوص ہے لیکن آخرت میں کافروں کو رحمت کی بُو تک نہیں پہنچے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّهٗ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّٰهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ﴾ (یوسف: 87) ترجمہ: ”یقین جانو، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نا امید ہوتے ہیں جو کافر ہیں“۔ جیسا کہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے: ﴿وَ رَحْـمَتِىْ وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ﴾ (الأعراف: 156) کے بعد فرمایا ہے: ﴿فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ﴾ (الأعراف: 156) ترجمہ: ”چنانچہ میں یہ رحمت (مکمل طور پر) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھیں“۔ شیخ (ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ) نے آیت کے اول حصے کو تو پڑھ لیا اور آخری حصے کے عمل کو نہ فرمایا۔
اور جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ رَحْمَةَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ (الأعراف: 56) ترجمہ: ”یقینًا اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے“۔ نیز آیۂ کریمہ: ﴿فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَـهٗ﴾ (ابراہیم: 47) ترجمہ: ”لہذا اللہ کے بارے میں ہرگز یہ خیال بھی دل میں نہ لانا کہ اس نے اپنے پیغمبروں سے جو وعدہ کر رکھا ہے، اس کی خلاف ورزی کرے گا“ بھی وعدہ خلافی کی خصوصیت پر دلالت نہیں کرتی، اور ہو سکتا ہے کہ اس جگہ وعدہ خلافی کے نہ ہونے کا اقتصار و انحصار اس وجہ سے ہو کہ وعدے سے مراد رسولوں کی نصرت اور کفار پر ان کا غلبہ ہے، اور یہ بات وعدہ و وعید دونوں کو متضمن ہے یعنی رسولوں کے لئے وعدہ ہے اور کفار کے لئے وعید لہذا اس آیۂ کریمہ میں بھی خلفِ وعدہ (وعدہ خلافی) کی نفی ہوتی ہے اور خلف وعید کی بھی نفی۔ فَالآیَۃُ مُسْتَشْھَدَۃٌ عَلَیْہِ لَا لَہٗ (لہذا آیتِ مذکورہ شیخ کے خلاف ہے تائید میں نہیں ہے) اسی طرح خلف در وعید (وعید میں خلاف ہونا) بھی وعدہ خلافی کی مانند جھوٹ کو مستلزم ہے۔ اور یہ حضرت جل سلطانہٗ کے شایان شان نہیں ہے۔ کیونکہ وہ (حق تعالیٰ) ازل ہی میں جانتا تھا کہ کفار کو دائمی عذاب نہیں دوں گا۔ با وجود اس کے کسی مصلحت کی بنا پر اپنے علم کے خلاف فرما دیا کہ میں ان پر دائمی عذاب مسلط کر دوں گا۔ اس بات کو جائز کرنا نہایت ہی برا ہے: ﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ﴾ (الصافات: 180) ترجمہ: ”تمہارا پروردگار عزت کا مالک، ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بناتے ہیں“۔
اور کفار کے لئے دائمی عذاب کے نہ ہونے پر اہل دل (صوفیہ) کا اجماع صرف شیخ کا اپنا کشف ہے اور کشف میں خطا اور غلطی کی بہت گنجائش ہے اور خصوصًا وہ کشف جو مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہو، اس لئے اس کا کچھ اعتبار و اعتماد نہیں ہے۔
عقیدہ نمبر 18:
فرشتے خداوند جل سلطانہٗ کے بندے ہیں جو گناہوں سے پاک اور خطا و نسیان (بھول چوک) سے بھی محفوظ ہیں (جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ أَمَرَهُـمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ﴾ (التحریم: 6) ترجمہ: ”اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے“۔ وہ کھانے پینے سے اور مرد و زن ہونے سے منزہ اور مبرا ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے لئے مذکر ضمیروں کا استعمال اس اعتبار سے ہے کہ صنفِ ذکور کو صنفِ نساء کے مقابلہ میں شرف حاصل ہے چنانچہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے بھی مذکر ضمیروں کا استعمال کیا ہے۔ حضرتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے بعض (فرشتوں) کو رسالت کے لئے منتخب کیا ہے جیسا کہ بعض انسانوں کو رسالت کی دولت سے مشرف فرمایا ہے (جیسا کہ ارشاد ہے) ﴿اَللّٰهُ يَصْطَفِىْ مِنَ الْمَلَآئِكَـةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ﴾ (الحج: 75) ترجمہ: ”اللہ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی“۔
جمہور علماء اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ "خاص انسان خاص فرشتوں سے افضل ہیں"۔ امام غزالی اور امام الحرمین5 اور صاحبِ فتوحاتِ مکیہ رحمھم اللہ تعالیٰ اس بات کے قائل ہیں کہ خاص فرشتے خاص انسانوں سے افضل ہیں۔ جو کچھ اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ فرشتہ کی ولایت نبی علیہ الصلوۃ و السلام کی ولایت سے افضل ہے لیکن نبوت و رسالت میں نبی کے لئے ایسا درجہ ہے کہ جس تک فرشتہ نہیں پہنچا ہے اور وہ درجہ عنصر خاک کی وجہ سے ظاہر ہوا ہے جو بشر کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس فقیر پر یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ "کمالاتِ ولایت" کمالاتِ نبوت" کے مقابلے میں کسی گنتی میں نہیں ہیں، کاش کہ ان کے درمیان وہ نسبت ہی ہوتی جو قطرے کو دریائے محیط کے ساتھ ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ پس وہ فضیلت جو نبی کو نبوت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے وہ اس فضیلت سے کئی گنا زائد ہے جو ولایت کی وجہ سے حاصل ہو، لہذا "فضیلتِ مطلق" انبیائے کرام علیہم الصلوات و التسلیمات کا حصہ ہے اور جزئی فضیلت ملائکہ کرام کے لئے ہے۔ پس درست وہی ہے جو علمائے کرام شَکَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی سَعْیَہُم نے فرمایا ہے۔ اس تحقیق سے یہ ظاہر ہو گیا کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے درجات میں سے کسی نبی کے درجے تک کوئی ولی نہیں پہنچتا بلکہ اس ولی کا سر ہمیشہ اس نبی کے قدم کے نیچے ہوتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ ان مسائل میں سے ہر ایک مسئلے میں جن میں علماء اور صوفیہ کا اختلاف ہے، جب اچھی طرح غور اور ملاحظہ کیا جاتا ہے تو حق علماء کی جانب معلوم ہوتا ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ علماء کی نظر نے انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی متابعت کے باعث نبوت کے کمالات اور اس کے علوم میں نفوذ کیا ہے، اور صوفیہ کی نظر ولایت کے کمالات اور اس کے معارف تک محدود رہتی ہے۔ لہذا وہ علم جو نبوت کی مشکوٰۃ سے حاصل کیا جائے وہ لازمًا اس علم سے جو مرتبہ ولایت سے اخذ کیا گیا ہو کئی درجے زیادہ صحیح اور حق ہو گا۔
ان معارف میں سے بعض کی تحقیق اس مکتوب (دفتر اول مکتوب 260) میں جو فرزندی ارشدی (خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ) کے نام طریقے کے بیان میں لکھا ہے، درج ہو چکی ہے، اگر کچھ دقت اور پوشیدگی رہ گئی ہو تو اس (مکتوب کی طرف) رجوع کریں۔
عقیدہ نمبر 19:
ایمان سے مراد جو کچھ دینی امور سے متعلق ضرورت اور تواتر کے طریق پر ہم تک پہنچا ہے، اس کی دل سے تصدیق کرنا ہے۔ زبان سے اقرار کرنا بھی ایمان کا رکن ہے جیسا کہ (علماء نے کہا ہے) کہ اس کے بغیر (ایمان کے) منہدم ہونے کا احتمال ہے۔ اس علامت کی تصدیق کفر پر تبرّی کرنا اور کافری سے اور جو کچھ کافری کے لوازم و خصائص ہیں جیسے زنار کا باندھنا اور اس کی مانند وغیرہ سے بے زاری کا اظہار کرنا ہے۔ اللہ سبحانہٗ کی پناہ! اگر کوئی تصدیق کا بھی دعویٰ کرے اور کفر سے بے زاری کا اظہار نہ کرے تو وہ دو دینوں کا تصدیق کرنے والا بن جائے گا جو ارتداد کے داغ سے داغ دار ہو گا اور حقیقت میں اس کا حکم منافق کے حکم میں ہے: ﴿لَآ إِلٰی هٰٓؤُلَآءِ وَ لَآ إِلٰی هٰٓؤُلَآءِ﴾ (النساء: 143) ترجمہ: ”نہ پورے طور پر ان (مسلمانوں) کی طرف ہیں، نہ ان (کافروں) کی طرف“۔ لہذا ایمان کی تحقیق میں کفر سے تبرّی (بے زاری کا اظہار) کئے بغیر چارہ نہیں۔ تبرّی کا ادنیٰ درجہ دل سے بے زاری کرنا ہے اور تبرّی کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دل اور جسم دونوں سے ہو، اور تبرّی سے مراد حق جل و علا کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھنا ہے۔ خواہ دشمنی قلب سے ہو جب کہ ان سے نقصان پہنچنے کا خوف ہو، خواہ دل اور جسم دونوں سے ہو جب کہ ان سے ضرر کا خوف نہ ہو۔ آیۂ کریمہ: ﴿يَآ أَيُّهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِيْنَ وَ اغْلُظْ عَلَيْـهِـمْ﴾ (التوبہ: 73) ترجمہ: ”اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو، اور ان پر سختی کرو“۔ اس مضمون کی تائید کرتی ہے کیونکہ خدائے عز و جل کی محبت اور اس کے رسول علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی محبت ان کے دشمنوں کی دشمنی کے بغیر صورت پذیر نہیں ہوتی۔ اس جگہ یہ مصرع صادق آتا ہے۔ ع
تولی بے تبری نیست ممکن
ترجمہ:
حبِ حق کے واسطے ہے غیر سے نفرت ضرور
شیعہ (فرقہ) نے جو یہ قاعدہ اہلِ بیت کی محبت اور دوستی میں جاری کیا ہے اور تینوں خلفاء اور ان کے علاوہ اکثر صحابہ پر تبری کرنا اہل بیت کی دوستی کی شرط قرار دیا ہے، نا مناسب ہے کیونکہ دوستوں کی محبت کے لئے شرط ہے کہ ان کے دشمنوں سے تبری کی جائے، نہ کہ مطلق طور پر دشمنوں کے علاوہ دوسروں سے بھی ہو۔ کوئی عقل مند منصف اس بات کو تجویز نہیں کرتا کہ پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب، پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات کے اہل بیت کے دشمن ہوں، اور حالانکہ ان بزرگواروں نے آپ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی محبت میں اپنے اموال اور جانوں کو صرف کر دیا اور اپنی عزت و حکومت کو برباد کر دیا تو اہلِ بیت سے ان کی دشمنی کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے، جب کہ نصِ قطعی سے آن سرور عالم علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے قرابت داروں کی محبت ثابت ہے۔ اور دعوت کی اجرت کو ان کی محبت قرار دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ لَّآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبٰى ۗ وَ مَنْ يَّقْتَـرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَـهٗ فِيْـهَا حُسْنًا﴾ (الشوریٰ: 23) ترجمہ: (اے پیغمبر! کافروں سے) کہہ دو کہ : میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، سوائے رشتہ داری کی محبت کے، اور جو شخص کوئی بھلائی کرے گا، ہم اس کی خاطر اس بھلائی میں مزید خوبی کا اضافہ کر دیں گے“۔
اور حضرت ابراہیم خلیل الرحمٰن علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جو یہ بزرگی حاصل ہوئی اور "شجرہ انبیاء" بن گئے۔ یہ سب اس تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ (علی الاعلان) تبری کرنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْـرَاهِـيْمَ وَ الَّـذِيْنَ مَعَهٗ ۚ إِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِـمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِۖ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتّـٰى تُؤْمِنُـوْا بِاللہِ وَحْدَهٗ﴾ (الممتحنہ: 4) ترجمہ: ”تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ: ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کرتے ہو، ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہو گیا ہے جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ“۔
اس فقیر کی نظر میں "رضائے حق جل و علا" حاصل کرنے کے لئے اس تبری (بے زاری) کے اظہار کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔ (یہ فقیر اپنے ذوق میں پاتا ہے کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو کفر و کافری کے ساتھ ذاتی عداوت ہے اور یہ آفاقی آلِہہ مثلًا لات و عزٰی اور ان کی پوجا کرنے والے ذاتی طور پر حق جل سلطانہٗ کے دشمن ہیں، اور دوزخ کا دائمی عذاب اس برے فعل کی سزا ہے۔ خواہش نفسانی کے آلہہ اور تمام برے اعمال یہ نسبت نہیں رکھتے کیونکہ ان کی عداوت اور غضب ذاتی نسبت سے نہیں ہے۔ اگر غضب ہے تو وہ صفات کی طرف منسوب ہے اور اگر عقاب و عتاب (عذاب و غصہ) ہے تو افعال کی طرف راجع ہے، لہذا دوزخ کا دائمی عذاب ان کے گناہوں کی سزا نہیں ہوئی بلکہ (حق تعالیٰ نے) ان کی مغفرت کو اپنی مشیت اور ارادے پر منحصر رکھا ہے۔
جاننا چاہیے کہ جب کفر اور کافروں کے ساتھ ذاتی عداوت تحقیق ہو چکی تو لازمًا رحمت و رافت جو "صفاتِ جمال" میں سے ہے آخرت میں کافروں کو نہ پہنچے گی، اور رحمت کی صفت ذاتی عداوت کو دور نہیں کرے گی، کیونکہ جو چیز ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس چیز کی نسبت جو صفت سے تعلق رکھتی ہے زیادہ قوی اور بلند ہے، لہذا مقتضائے صفت (صفت کے تقاضے) مقتضائے ذات کو تبدیل نہیں کر سکتے، اور یہ جو حدیثِ قدسی میں آیا ہے: "سَبَقَتْ رَحْمَتِيْ عَلٰی غَضَبِيْ"6 ترجمہ: ”میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی“۔ اس غضب سے مراد غضبِ صفاتی سمجھنا چاہیے جو گنہگار مومنوں کے ساتھ مخصوص ہے نہ کہ غضب ذاتی جو مشرکوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
سوال:
اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں کافروں کو رحمت سے حصہ حاصل ہے، جیسا کہ تو نے مندرجہ بالا عبارت میں تحقیق کی ہے تو پھر دنیا میں رحمت کی صفت نے ذاتی عداوت کو کیسے دور کر دیا؟
جواب:
میں کہتا ہوں کہ دنیا میں خاص کافروں کو رحمت کا حاصل ہونا ظاہری طور پر اور صورت کے اعتبار سے ہے لیکن حقیقت میں وہ ان کے حق میں استدراج اور کید (دھوکہ) ہے، ان کے حق میں آیۂ کریمہ: ﴿أَ يَحْسَبُوْنَ أَنَّمَا نُمِدُّهُـمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِيْنَ 0 نُسَارِعُ لَـهُـمْ فِى الْخَيْـرَاتِ ۚ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَ﴾ (المؤمنون 55-56) ترجمہ: ”کیا یہ لوگ اس خیال میں ہیں کہ ہم ان کو جو دولت اور اولاد دیے جا رہے ہیں تو ان کو بھلائیاں پہنچانے میں جلدی دکھا رہے ہیں ؟ نہیں، بلکہ ان کو حقیقت کا شعور نہیں ہے“ اور آیۂ کریمہ: ﴿سَنَسْتَدْرِجُهُـمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ وَ أُمْلِىْ لَـهُـمْ ۚ إِنَّ كَيْدِىْ مَتِيْنٌ﴾ (الأعراف: 182-183) ترجمہ: ”انہیں ہم اس طرح دھیرے دھیرے پکڑ میں لیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں، یقین جانو کہ میری خفیہ تدبیر بڑی مضبوط ہے“۔ ان ہی معنیٰ پر شاہد ہیں۔ پس سمجھ لو۔
فائدہ جلیلہ:
دوزخ کا دائمی عذاب کفر کی جزا (بدلہ) ہے اور بس۔ اگر پوچھیں کہ ایک شخص ایمان کے با وجود کفر کی رسمیں بجا لاتا اور اہل کفر کی رسموں کی تعظیم کرتا ہے، اور علماء اس پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور مرتد سمجھتے ہیں جیسا کہ ہندوستان کے اکثر مسلمان اس بلا میں مبتلا ہیں۔ لہذا چاہیے کہ علماء کے فتوے کے بموجب وہ شخص آخرت کے ابدی عذاب میں گرفتار ہو، حالانکہ اخبارِ صحاح (صحیح احادیث) میں آ چکا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا اس کو دوزخ سے باہر نکال لیں گے اور دائمی عذاب میں نہ رہنے دیں گے۔ آپ کے نزدیک اس مسئلے کی کیا تحقیق ہے؟
جواب:
میں کہتا ہوں اگر وہ شخص کافر محض ہے تو دائمی عذاب اس کا نصیب ہے، عِیَاذًا بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ مِنہُ (اللہ سبحانہٗ کی اس سے پناہ) اور اگر کفر کی رسومات بجا لانے کے با وجود ذرہ برابر ایمان بھی رکھتا ہے تو وہ دوزخ کے عذاب میں مبتلا تو ہو گا لیکن اس ذرہ برابر ایمان کی برکت سے امید ہے کہ ابدی عذاب سے خلاصی ہو جائے گی اور دائمی گرفتاری سے نجات پا لے گا۔
فقیر ایک مرتبہ ایک شخص کی مزاج پرسی کے لئے گیا جس کا معاملہ نزع و موت کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جب فقیر اس کے حال پر متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کا قلب "ظلماتِ بسیار" (بہت زیادہ ظلمتوں) میں گھرا ہوا ہے، ہر چند ان ظلمتوں کے دور کرنے میں متوجہ ہوا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، پھر بہت زیادہ توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ ظلمات و تاریکیاں "صفاتِ کفر" کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں جو اس میں پوشیدہ ہیں اور یہ کدورتیں اس کے کفر اور اہلِ کفر کے ساتھ دوستی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں، اور توجہ کرنے سے یہ ظلمتیں دور نہیں ہو سکتیں، بلکہ ان ظلمات کا تنقیہ دوزخ کے عذاب پر وابستہ ہے جو کفر کی جزا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ذرہ برابر ایمان بھی رکھتا ہے جس کی برکت سے آخر کار اس کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا، اور جب اس کے حال کو مشاہدہ کر لیا تو اب دل میں آیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہیں؟ توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ نماز ادا کرنی چاہیے۔ لہذا وہ مسلمان جو ایمان کے با وجود اہل کفر کی رسومات بجا لاتے ہیں اور (ہنود کے) تہواروں کے ایام کی تعظیم کرتے ہیں، ان کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے اور ان کو کفار کے ساتھ نہیں ملا دینا چاہیے جیسا کہ آج کل علماء کا معمول ہے، اور امید وار رہنا چاہیے کہ آخر کار ایمان کی برکت کی وجہ سے دائمی عذاب سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
پس معلوم ہوا کہ اہل کفر کے لئے عفو اور مغفرت نہیں ہے۔ (آیۂ کریمہ) ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ﴾ (النساء: 48) ترجمہ: ”بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے“ اور اگر وہ محض کافر ہے تو "عذابِ ابدی" اس کے کفر کی جزا ہے، اور اگر ذرہ برابر بھی ایمان رکھتا ہے تو اس کی جزا "عذاب موقت" (وقتی عذاب) ہے اور باقی تمام کبیرہ گناہوں کو اگر حق سبحانہٗ و تعالیٰ چاہے تو بخش دے اور چاہے عذاب دے۔ فقیر کے نزدیک "عذاب دوزخ" خواہ وقتی ہو یا دائمی، کفر اور صفات کفر کے ساتھ مخصوص ہے، جیسا کہ آگے تحقیق سے معلوم ہو گا، اور کبیرہ گناہ والے جن کے گناہ توبہ، شفاعت، یا صرف عفو و احسان کے ساتھ مغفرت کے قابل نہیں ہوتے، یا جن کبیرہ گناہوں کا کفارہ دنیاوی تکالیف یا سختیوں اور سکرات موت سے نہیں ہوا، امید ہے کہ ایسے لوگوں میں سے بعض کو قبر کا عذاب کفایت کرے گا اور بعض کے لئے قبر کی سختی کے با وجود قیامت کا خوف اور اس دن کی تکالیف کافی ہوں گی اور ان کے گناہوں میں سے کوئی گناہ باقی نہیں چھوڑیں گے جس کی وجہ سے دوزخ کے عذاب کے مستحق ہوں۔ چنانچہ آیۂ کریمہ: ﴿اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَ لَمْ يَلْبِـسُوٓا إِيْمَانَـهُـمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمُ الْأَمْنُ﴾ (الانعام: 82) ترجمہ: ”(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا، امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے“۔ اسی مضمون کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِحَقَائِقِ الاُمُورِ کُلِّھَا (اور اللہ سبحانہ ہی تمام امور کے حقائق کو بہتر جانتا ہے)
اور اگر یہ کہا جائے کہ کفر کے علاوہ بعض گناہوں کی سزا بھی عذابِ دوزخ آئی ہے جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَن يَقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا﴾7 (النساء: 93) ترجمہ: ”اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا“۔ اور اخبار (احادیث شریفہ) میں ہے کہ جو شخص قصدًا ایک نماز فرض قضا کرے تو اس کو ایک حقبہ (یعنی اَسی سال) دوزخ میں عذاب دیا جائے گا۔ لہذا دوزخ کا عذاب صرف کافروں کے لئے ہی مخصوص نہ رہا (اور تم کہتے ہو کہ دوزخ کا عذاب کافروں کے لئے ہی مخصوص ہے)
(جواب میں) میں کہتا ہوں کہ یہ عذاب اس قاتل کے لئے مخصوص ہے جو قتل کو حلال جانے کیونکہ قتل کو حلال جاننے والا کافر ہے۔ جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔ کفر کے علاوہ دوسرے گناہوں کے لئے بھی دوزخ کا عذاب آیا ہے۔ وہ بھی صفاتِ کفر کے شائبہ سے خالی نہیں ہے، جیسا کہ اس گناہ کو معمولی سمجھنا اور اس کے ارتکاب کے وقت بے پروائی کرنا اور شرعی اوامر و نواہی کو بے کار و خوار سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ خبر (حدیث) میں ہے: "شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي"8 ترجمہ: ”میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہو گی“ اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ: "أُمَّتِی أُمَّۃٌ مَّرْحُومَۃٌ لَّا عَذَابَ لَہَا فِی الْآخِرَۃِ"9 ترجمہ: ”میری امت، امت مرحومہ (رحم کی ہوئی) ہے اس کے لئے آخرت میں عذاب نہیں ہے“۔ اور آیۂ کریمہ: ﴿اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَ لَمْ يَلْبِـسُوٓا إِيْمَانَـهُـمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمُ الْأَمْنُ﴾ (الانعام: 82) ترجمہ: ”(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا، امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے“۔ بھی اس معنی کی تائید کرتی ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔
اور مشرکوں کے بچوں کے احوال، اور پہاڑوں پر رہنے والے، اور پیغمبروں کے زمانۂ فترت کے مشرکوں کا حال، اس مکتوب (دفتر اول مکتوب 259) میں جو فرزندی محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کے نام تحریر ہوا ہے، مفصل مذکور ہو چکا ہے وہاں ملاحظہ کر لیں۔
اور ایمان کے کم و زیادہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: "اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیدُ وَ لَا یَنْقُصُ" (ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے نہ کم) اور امام شافعی رحمہ اللہ سبحانہ فرماتے ہیں: "یَزِیدُ وَ یَنْقُصُ" (ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے) اور اس میں شک نہیں کہ ایمان سے مراد تصدیق اور یقین قلبی ہے جس میں زیادتی و کمی کی گنجائش نہیں، لہذا جو ایمان کہ کمی و زیادتی کو تسلیم کرے وہ دائرہ ظن میں داخل ہے نہ کہ یقین کے درجے میں۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اعمالِ صالحہ کا بجا لانا اس یقین کو جِلا دیتا ہے اور غیر صالح اعمال کا بجا لانا یقین کو مکدر کر دیتا ہے۔ لہذا (ایمان کی) کمی و زیادتی اعمال کے اعتبار سے اس یقین کو روشن و جِلا کرنے میں ثابت ہوئی نہ کہ نفسِ یقین میں۔ ایک جماعت جس نے یقین کو جِلا یافتہ اور روشن معلوم کیا تو اس نے اس یقین کی نسبت جو جِلا یافتہ اور روشن نہیں، زیادہ کہہ دیا۔ گویا بعض لوگوں نے غیر متجلی یقین کو یقین ہی نہیں سمجھا اور انہی میں سے بعض نے متجلی کو یقین جان کر غیر متجلی کو ناقص کہہ دیا اور دوسرے گروہ نے جو نظر کی تیزی اور بصیرت رکھتے تھے دیکھا کہ یہ کمی و زیادتی یقین کی صفات کی طرف راجع ہے نہ کہ نفسِ یقین کی طرف۔ اس وجہ سے انہوں نے یقین کو غیر زائد و ناقص کہہ دیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے دو آئینے جو باہم برابر ہوں لیکن روشنی اور نورانیت میں تفاوت رکھتے ہوں، جب ایک شخص اس آئینے کو دیکھتا ہے جس میں جلا اور روشنی زیادہ ہے اور وہ نور اور روشنی کی نمائندگی زیادہ کرتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ آئینہ دوسرے آئینے سے زیادہ روشن ہے کیونکہ اُس میں جلا و روشنی زیادہ نہیں ہے۔ دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ یہ دونوں آئینے (کمی و زیادتی میں) برابر ہیں البتہ فرق صرف جلا کی نمائندگی کا ہے جو ان دونوں کی صفات ہیں۔ پس دوسرے کی نظر صائب ہے اور شئے کی حقیقت تک رسائی رکھتا ہے اور پہلے شخص کی نظر ظاہر پر ہے لہذا کوتاہ ہے اور صفت سے ذات تک نہیں پہنچی ہے آیۂ کریمہ: ﴿يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ (المجادلہ: 11) ترجمہ: ”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کو درجوں میں بلند کرے گا “۔
اس تحقیق سے کہ جس کے اظہار کے لئے اس فقیر کو توفیق بخشی گئی، مخالفین کے اعتراضات جو انہوں نے ایمان کے زیادہ اور کم نہ ہونے پر کئے تھے، زائل ہو گئے، اور عام مومنوں کا ایمان تمام وجوہ میں انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے ایمان کے مثل نہیں ہوا، کیونکہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کا ایمان تمام تر جلا یافتہ و نورانی ہے جو ثمرات و نتائج کئی گنا (زیادہ) رکھتا ہے، ان عام مومنوں کے ایمان کے مقابلے پر جو اپنے اپنے درجات کے فرق کے لحاظ سے بہت سی ظلمتیں اور کدورتیں رکھتا ہے۔
اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان جو وزن میں تمام امت کے ایمان سے زیادہ ہے، اس کو بھی جلا اور نورانیت کے اعتبار سے سمجھنا چاہیے اور زیادتی کو صفات کاملہ کی طرف راجع کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات نفس انسانیت میں عام لوگوں کے ساتھ برابر ہیں اور حقیقت و ذات میں سب باہم متحد ہیں لیکن صفاتِ کاملہ کے اعتبار سے ان (انبیاء علیہم السلام) کو دوسرے (انسانوں) پر فضیلت حاصل ہے۔ جس میں صفات کاملہ نہیں ہیں گویا وہ اس نوع سے خارج اور اس کے فضائل و خصائص سے محروم ہے لیکن اس تفاوت کے با وجود نفس انسانیت میں زیادتی و کمی واقع نہیں، اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ انسانیت زیادتی و نقصان کے قابل ہے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ المُلْھِمُ لِلصَّوَابِ (اللہ سبحانہ صحیح بات کا الہام کرنے والا ہے)
اور اسی طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ "تصدیقِ ایمانی" سے مراد ان کے نزدیک تصدیق منطقی ہے جو ظن اور یقین دونوں کو شامل ہے، اس صورت میں "نفسِ ایمان" میں کمی و زیادتی کی گنجائش ہے، لیکن صحیح یہی ہے کہ اس جگہ تصدیق سے مراد یقین و اذعانِ قلبی (دل سے قبول کر لینا ہے) نہ کہ عام معنیٰ میں جس میں ظن بھی شامل ہے۔
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "أَنَا مُؤْمِنٌ حَقًّا" (میں یقینًا مومن ہوں) اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "أَنَا مُؤْمِنٌ إِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی" (میں مومن ہوں اگر اللہ تعالیٰ چاہے) حقیقت میں ان کا یہ اختلاف "نزاع لفظی" ہے۔ مذہبِ اول (پہلے قول) کا تعلق ایمانِ حال سے ہے، اور مذہب ثانی (دوسرے قول) کا تعلق مآل و عاقبت کار سے ہے لیکن صورتِ استثناء سے پرہیز کرنا اولی و احوط ہے۔ کَمَا لَا یَخْفٰی عَلَی المُنْصِفِ (جیسا کہ منصف لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے)
عقیدہ نمبر 20:
اور اولیاء اللہ کی کرمات حق ہیں، اور ان سے بکثرت خوارق عادات واقع ہونے کی وجہ سے ان کی یہ بات عادت مستمرہ (دائمی) بن گئی ہے۔ کرامات کا انکار کرنے والا علم عادی اور ضروری کا انکار کرنے والا ہے۔ نبی کا معجزہ نبوت کے دعوے سے مقرون (ملا ہوا) ہوتا ہے، اور ولی کی کرامت اس معنی میں خالی ہے بلکہ اس نبی کی پیروی کے اعتراف کے ساتھ مقرون (ملی ہوئی) ہوتی ہے۔ فَلَا اشْتِبَاہَ بَیْنَ الْمُعْجَزَۃِ وَ الْکَرَامَۃِ کَمَا زَعَمَ المُنْکِرُوْنَ (لہذا معجزہ اور کرامت کے درمیان کوئی اشتباہ نہیں رہا جیسا کہ منکروں نے گمان کیا ہے)
عقیدہ نمبر 21:
اور خلفائے راشدین کے درمیان افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب کے مطابق ہے لیکن شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ اکابرین آئمہ کی ایک جماعت نے جن میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں جنہوں نے اس بات کو نقل کیا ہے کہ "شیخ الامام ابو الحسن اشعری10 رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بقیہ تمام امت پر قطعی ہے" اور امام ذہبی11 رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت علی کا یہ قول ان کی خلافت و مملکت کے زمانے میں آپ کے متبعین میں سے ایک جمِ غفیر کے سامنے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ "إِنَّ أَبَا بَکْرٍ و عُمَرَ أَفْضَلُ الْأُمَّۃِ" ترجمہ: ”ابو بکر اور عمر تمام امت میں افضل ہیں“ـ پھر فرماتے ہیں کہ اس روایت کو اسی (80) سے زیادہ راویوں نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے روایت کیا ہے اور ان میں سے ایک جماعت کا نام بھی لیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رافضیوں کا برا کرے یہ کیسے جاہل ہیں۔ بخاری نے ان (حضرت علی) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "خَیْرُ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ أَبُوْ بَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ ابْنُہٗ مُحَمَّدُ بْنُ الحَنَفِیَّۃُ ثُمَّ أَنْتَ؟ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِّنَ المُسْلِمیْنَ" ترجمہ: ”نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد تمام لوگوں میں بہتر حضرت ابو بکر پھر عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہیں پھر ایک اور شخص۔ (اس پر) آپ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ پھر آپ؟ (اس بات پر) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں“۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: "مجھے اطلاع ملی ہے کہ لوگ مجھے ان دونوں (شیخین) پر فضیلت دیتے ہیں، لہذا جو بھی مجھ کو ان پر فضیلت دیتا ہے وہ مفتری (جھوٹا) ہے اور اس کے لئے وہ سزا ہے جو ایک مفتری کی ہوتی ہے" اور دار قطنی نے آپ (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی ہے کہ: "میں جس کو پاؤں گا کہ وہ حضرت ابو بکر و عمر پر مجھے فضیلت دیتا ہے تو میں اس کو اتنے کوڑے لگاؤں گا جتنے ایک مفتری کو لگنے چاہئیں"۔ اس قسم کی اور بہت سی روایتیں خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور آپ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اس کثرت اور تواتر سے آئی ہیں جس میں کسی کو انکار کی مجال نہیں۔ حتی کہ عبد الرزاق جو اکابر شعیہ میں سے ہے کہتا ہے کہ: "أُفَضِّلُ الشَیْخَیْنِ بِتَفْضِیْلِ عَلِیٍّ إِیَّاھُمَا عَلٰی نَفْسِہٖ وَ إِلَّا لَمَا فَضَّلْتُہُمَا کَفٰی بِيْ وِزْرًا أَنْ أُحِبَّہٗ ثُمَّ أُخَالِفَہٗ" (میں شیخین کو اس لئے فضیلت دیتا ہوں کہ خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اوپر ان کو فضیلت دی ہے ورنہ میں ان (شیخین) کو کبھی فضیلت نہ دیتا ہے۔ میرے نزدیک یہ گناہ ہے کہ میں ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے محبت کا دعویٰ کروں اور پھر ان (کے اقوال) کی مخالفت کروں)۔ یہ سب کچھ صواعق12 سے لیا گیا ہے۔
لیکن اب رہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت علی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت سو اکثر علمائے اہلِ سنت اس مسلک پر ہیں کہ شیخین کے بعد حضرت عثمان افضل ہیں، پھر اس کے بعد حضرت علی۔ آئمہ اربعہ13 مجتہدین کا مذہب بھی یہی ہے۔ اور بعض لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کے بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے جو توقف نقل کیا ہے، اس کے متعلق قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس توقف سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کی طرف رجوع کر لیا ہے اور قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہی اصح ہے۔ اسی طرح وہ توقف جو بعض نے امام اعظم رحمہ اللہ کی اس عبارت سے سمجھا ہے کہ "مِنْ عَلَامَاتِ السُّنَّۃِ وَ الْجَمَاعَۃِ تَفْضِیلُ الشَیْخَینِ وَ مَحبَۃُّ الخَتَنَیْنِ" (اہل سنت و جماعت کی علامت میں سے یہ بھی ہے کہ شیخین کو فضیلت دی جائے اور ختنین (دونوں داماد) (حضرت عثمان و حضرت علی سے محبت کی جائے)۔
اس فقیر کے نزدیک اس عبارت کے اختیار کرنے میں ایک دوسرا محل ہے کہ حضرات ختنین کی خلافت کے زمانے میں بہت زیادہ فتنے و فساد پیدا ہو گئے تھے جس کہ وجہ سے لوگوں کے دلوں میں بہت کدورت پیدا ہو گئی تھی۔ اس لئے امام (ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) نے اس بات کو مدِ نظر رکھ کر ان کے حق میں محبت کا لفظ اختیار کر لیا ہے اور ان کی دوستی کو علاماتِ اہل سنت سے قرار دیا ہے، بغیر اس امر کے کہ کسی قسم کا توقف ملحوظ ہو، اور کیسے توقف ہو سکتا ہے کیونکہ حنفیوں کی کتابیں ایسے مضامین سے بھری پڑی ہیں کہ ان (خلفائے راشدین) کی فضیلت ان کی ترتیب، ترتیبِ خلافت کے مطابق ہے۔
مختصر یہ کہ شیخین کی افضلیت یقینی ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیت ان سے کم درجے کی ہے۔ لیکن زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ حضرت عثمان کی فضیلت کے منکر کو بلکہ شیخین کی افضلیت کے منکر کے لئے بھی ہم کفر کا حکم نہ لگائیں البتہ ان کو بدعتی و گمراہ جانیں، کیونکہ ان کی تکفیر میں علماء کا اختلاف ہے اور اس اجماع کے قطعی ہونے میں بہت قیل و قال ہے۔ اس کا منکر بد نصیب یزید کا ساتھی ہے، اسی احتیاط کی بنا پر اس (یزید) کے لعن طعن کرنے میں توقف کیا ہے۔ وہ ایذا جو حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کو خلفائے راشدین کو ایذا رسانی کی جہت سے پہنچی ہے وہ ایسی ہے کہ جیسی کہ حضرات امامین (حضرت امام حسن و امام حسین) کو ایذا رسانی کی جہت سے پہنچی ہے۔
آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِيْ أَصْحَابِيْ لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا مِنْ بَعْدِيْ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ وَ مَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ وَ مَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِيْ وَ مَنْ آذَانِيْ فَقَدْ آذَى اللّٰهَ وَ مَنْ آذَى اللّٰهَ فَیُوشِکُ أَنْ یَأْخُذَہٗ"14 ترجمہ: ”میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ میرے بعد ان کو نشانہ (ملامت) نہ بنانا۔ جس نے ان کو دوست رکھا اس نے گویا میری محبت کے باعث اس کو دوست رکھا۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے گویا میری دشمنی کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ اور جس نے ان کو ایذا دی اس نے گویا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو ایذا دی (یعنی اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا) اور جس نے اللہ تعالیٰ اور رسول (علیہ الصلوۃ و السلام) کو ایذا دی قریب ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) اس سے مواخذہ کرے گا“۔ اور اللہ تعالیٰ عز و جل نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللّٰهَ وَ رَسُولَهٗ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ﴾ (الأحزاب: 57) ترجمہ :”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی ہے“۔
اور جو کچھ مولانا سعد الدین نے شرح عقائد نسفی میں اس فضیلت کے بارے میں انصاف سمجھا ہے، وہ انصاف سے دور ہے اور جو تردید انہوں نے کی ہے وہ سرا سر لا حاصل ہے، کیونکہ علماء کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ اس جگہ افضلیت سے وہ مراد ہے جو خدائے جل و علا کے نزدیک کثرت ثواب کے اعتبار سے ہے، نہ کہ وہ افضلیت جو فضائل و مناقب بکثرت ظاہر ہونے کے اعتبار سے ہو کیونکہ ایسی فضیلت عقل مندوں کے نزدیک اعتبار کے لائق ہے۔ سلف صحابہ و تابعین نے جس قدر فضائل و مناقب حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے نقل کئے ہیں وہ اور کسی صحابی کی نسبت منقول نہیں۔ حتی کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا "جو فضائل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آئے ہیں وہ کسی اور صحابی کی نسبت نہیں آئے"۔ اس کے با وجود تینوں خلفاء کی فضیلت کے بارے میں حکم کرتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ افضلیت کی وجہ ان فضائل و مناقب کے علاوہ کچھ اور ہے، اور اس افضلیت کی اطلاع "دولتِ وحی" کے مشاہدہ کرنے والوں کو میسر ہے جنہوں نے صریح طور پر یا قرائن سے معلوم کیا ہے اور وہ پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں، لہذا جو کچھ کہ شارح عقائد نسفی نے بیان کیا ہے کہ افضلیت سے مراد کثرت ثواب ہے تو توقف کی گنجائش سے ساقط ہے کیونکہ توقف کے لئے اس وقت گنجائش ہوتی ہے جب کہ اس افضلیت کو صاحبِ شریعت کی طرف سے صراحۃ یا دلالۃً معلوم نہ کر لیا ہو۔ اور جب معلوم کر لیا ہے تو پھر توقف کیوں؟ اور اگر معلوم نہیں کیا تو افضلیت کا حکم کیوں کریں؟ اور جو شخص سب کو برابر سمجھتا ہے اور ایک دوسرے پر افضلیت دینا بیکار سمجھتا ہے وہ فضول اور لا حاصل ہے۔ وہ عجیب احمق ہے جو اہلِ حق کے اجماع کو فضول و بے کار سمجھتا ہے۔ شاید فضل کا لفظ اس کو فضولی کی طرف لے گیا ہے۔ جو کچھ صاحب فتوحات مکیہ کہتے ہیں کہ ان کی خلافت کی ترتیب کا سبب ان کی عمروں کی مدتوں سے ہے۔ (یہ بات) ان کی فضیلت میں مساوات پر دلالت نہیں کرتی۔ کیونکہ خلافت کا معاملہ دوسرا ہے اور افضلیت کی بحث دوسری ہےـ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں جو ان (شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ) کی شطحیات سے ہیں، ان کی شان کے لائق نہیں ہیں، ان کے اکثر کشفیہ معارف جو اہل سنت کے علوم سے جدا واقع ہوئے ہیں وہ صواب سے دور ہیں، لہذا ایسی باتوں کی متابعت وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل بیمار ہے یا مقلدِ محض ہے۔
اور صحابہ کے درمیان جو لڑائی جھگڑے واقع ہوئے ان کی اچھے معنوں میں تاویل کرنی چاہیے اور نفسانی خواہش و تعصب سے دور رکھنا چاہیے۔ تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی افراط محبت کے با وجود فرماتے ہیں: "جو مخالفات و محاربات (جنگ و جدال) ان (صحابہ) کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ خلافت کا نزاع نہ تھا بلکہ خطائے اجتہادی کے سبب سے تھا"ـ اور اس (شرح عقائد) کے حاشیہ "خیالی"15 میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے لشکر نے (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی اطاعت سے بغاوت کی اور ساتھ ہی اس امر کا اعتراف بھی کیا کہ وہ (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تمام اہلِ زمانہ سے افضل ہیں اور وہ امامت کے ان سے زیادہ حق دار ہیں۔ ایک شبہے کی وجہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لینا تھا اور حاشیہ قرہ کمال (الدین اسمعیل) میں حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "ہمارے جن بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی وہ فاسق و کافر نہیں ہیں کیونکہ ان کے لئے تاویل ہے" اور اس میں شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت اور طعن و تشنیع سے بہت دور ہے۔
حضرت خیر البشر علیہ و علی آلہ الصلوات و التحیات کے حقوقِ صحبت کی رعایت کر کے تمام صحابہ کرام کو نیکی کے ساتھ یاد کرنا چاہیے اور پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی دوستی کی وجہ سے ان کو دوست رکھنا چاہیے (کیونکہ) آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ وَ مَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ" ترجمہ: ”جس نے ان (صحابہ) کو دوست رکھا اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا“۔ یعنی وہ محبت جو میرے اصحاب سے متعلق کی گئی ہے ایسی ہی محبت ہے جیسی کہ مجھ سے متعلق ہے اور اسی طرح وہ بغض جو ان سے تعلق رکھتا ہے ایسا ہی بغض ہے جیسا کہ مجھ سے کیا جائے۔
ہم کو حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ جنگ کرنے والوں سے کوئی دوستی نہیں ہے، بلکہ مناسب ہے کہ ہم ان سے بے زار ہوں، لیکن چونکہ وہ سب پیغبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کرام ہیں "کہ ما بمحبتِ ایشاں ماموریم و از بغض و ایذائے ایشاں ممنوع" یعنی ہم کو ان کے ساتھ محبت رکھنے کا حکم ہے اور ان کے ساتھ بغض و ایذا رسانی سے روک دیئے گئے ہیں۔ اس لئے لازمًا ہم بھی پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کی دوستی کی وجہ سے تمام صحابہ کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ بغض و ایذا رسانی سے دور رہتے ہیں کیونکہ ان سے بغض و ایذا کا معاملہ سرورِ عالم تک پہنچتا ہے۔ لیکن جو محق (حق پر) ہے ہم اس کو حق والا ہی کہیں گے اور مخطی (بلا قصد خطا وار) کو مخطی، حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر۔ اس سے زیادہ کہنا فضول ہے۔ اس بحث کی تحقیق کا تفصیل سے ذکر اس مکتوب (نمبر 251 دفتر اول) میں درج ہے جو خواجہ محمد اشرف کو لکھا گیا ہے۔ اگر کوئی بات پوشیدہ رہ گئی ہو تو اس مکتوب کی طرف رجوع فرمائیں۔
تصحیحِ عقائد کے بعد احکام فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بغیر چارہ نہیں، اور فرض و واجب، حلال و حرام، سنت و مستحب، مشتبہ و مکروہ کی واقفیت بھی ضروری ہے اور اسی طرح علم (فقہ) کے تقاضے کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ فقہ کی کتابوں کا مطالعہ ضروریات (دین) میں سے سمجھیں، اور اعمال صالحہ کی بجا آوری کی رعایت میں سعی بلیغ فرمائیں۔ نماز جو کہ دین کا ستون ہے اس کے چند ارکان و فضائل بیان کئے جاتے ہیں، غور سے سنیں۔
اول وضو کامل اور پورے طور پر کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے، ہر عضو کو تین بار بتمام و کمال دھونا چاہیے تاکہ سنت کے طریقہ پر وضو ادا ہو، اور سر کا مسح بالاستیعاب یعنی سارے سر کا مسح کرنا چاہیے اور کانوں اور گردن کے مسح میں خوب احتیاط کرنی چاہیے اور بائیں ہاتھ کی خضر یعنی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے نیچے کی طرف سے خلال کرنا لکھا ہے، اس کی رعایت رکھیں، اور مستحب کے بجا لانے کو معمولی نہ سمجھیں۔ مستحب حق جل و علا کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، اگر تمام دنیا کے عوض اللہ تعالےٰ کا ایک پسندیدہ اور محبوب فعل معلوم ہو جائے اور اس کے مطابق عمل میسر ہو جائے تو غنیمت ہے۔ اس کا بعینہ یہی حکم ہے کہ کوئی خرف ریزوں یعنی ٹھیکروں سے نفیس جواہر خرید لے اور بے فائدہ جماد یعنی پتھر سے روح کو حاصل کرے۔
کمالِ طہارت اور کامل وضو کے بعد نماز کا قصد کرنا چاہیے جو "مومن کی معراج" ہے اور کوشش کرنی چاہیے کہ فرض نماز با جماعت ادا ہوں بلکہ امام کے ساتھ تکبیر اولی بھی ترک نہیں ہونی چاہیے، اور نماز کو مستحب وقت میں ادا کرنا چاہیے۔ قرأت میں قدر مسنون کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ رکوع و سجود میں بھی طمانیت ضروری ہے کیونکہ فرض ہے یا بقولِ مختار واجب۔ قومہ میں اس طرح سیدھا کھڑا ہونا چاہیے کہ تمام بدن کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آ جائیں اور سیدھا کھڑے ہونے کے بعد طمانیت در کار ہے کیونکہ طمانیت فرض ہے یا واجب یا سنت علی اختلاف الاقوال۔ ایسے ہی جلسے میں جو دو سجدوں کے درمیان ہے اچھی طرح بیٹھنے کے بعد اطمینان ضروری ہے جیسا کہ قومہ میں۔ رکوع و سجود کی کم سے کم تسبیحیں تین بار ہیں اور زیادہ سے زیادہ سات بار یا گیارہ بار ہیں علی اختلاف الاقوال۔ امام کی تسبیح مقتدیوں کے حال کے اندازے کے مطابق ہونی چاہیے۔ شرم کی بات ہے کہ انسان تنہا پڑھنے کی حالت میں طاقت ہوتے ہوئے اقل تسبیحات پر کفایت کرے۔ اگر زیادہ نہ ہو سکے تو پانچ یا سات بار تو کہے۔ سجدہ کرتے وقت اول وہ اعضا زمین پر رکھے جو زمین کے نزدیک ہیں۔ پس اول دونوں زانو زمین پر رکھے پھر دونوں ہاتھ پھر ناک پھر پیشانی۔ زانو اور ہاتھ زمین پر رکھتے وقت دائیں طرف سے ابتدا کی جائے۔ سر اٹھاتے وقت اول ان اعضا کو اٹھانا چاہیے جو آسمان سے نزدیک ہیں، پس پہلے پیشانی اٹھانی چاہیے۔ قیام کے وقت اپنی نظر کو سجدے کی جگہ پر، اور رکوع کے وقت اپنے پاؤں پر اور سجدے میں ناک کی نوک پر، اور جلوس کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں پر یا اپنی گود کی طرف نظر رکھنی چاہیے۔ جب نظر پراگندہ ہونے سے روک لی جائے اور مذکورہ بالا جگہوں پر جما لی جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ نماز بجمعیت اور حضور دل کے ساتھ میسر ہو گئی اور خشوع کے ساتھ ادا ہو گئی جیسا کہ نبی کریم علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام سے منقول ہے۔ ایسے ہی رکوع کے وقت دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کھلا رکھنا اور سجود کے وقت انگلیوں کا ملانا سنت ہے اس کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ انگلیوں کا کھلا رکھنا یا ملانا بے تقریب و بے فائدہ نہیں ہے۔ صاحبِ شرع نے اس میں کئی قسم کے فائدے ملاحظہ کر کے اس پر عمل فرمایا ہے۔ نیز صاحبِ شریعت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی متابعت کے برابر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سب احکام مفصل اور واضح طور پر کتبِ فقہ میں درج ہیں، یہاں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ علم فقہ کے مطابق عمل بجا لانے میں ترغیب ہو۔ وَفَقَّنَا اللّٰهُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ عَلَی الْأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ المُوَافَقَۃِ لِلْعُلُوْم الشَّرْعِیَّۃِ بَعْدَ أَنْ وَفَّقَنَا اللّٰهُ سُبْحَانَہٗ لِتَصْحِیحِ الْعَقَائِدِ الدِّینِیَّۃِ بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی آلِ کُلٍّ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت سید المرسلین علیہ و علیہم و علی آل کل من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کے طفیل دینی عقائد کی تصحیح کے بعد علوم شرعیہ کے موافق اعمالِ صالحہ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
اگر نماز کے فضائل جاننے اور اس کے مخصوص کمالات معلوم کرنے کا ذوق و شوق اپنے اندر پائیں تو تین مکتوب جو ایک دوسرے سے متصل اور ملے ہوئے ہیں ان کا مطالعہ فرمائیں: پہلا مکتوب (260) فرزندی محمد صادق کے نام لکھا گیا ہے اور دوسرا مکتوب (261) میر محمد نعمان کے نام اور تیسرا مکتوب (263) مشیخت مآب میاں شیخ تاج کے نام لکھا ہے۔
ان اعتقادی اور عملی دو بازوں کے حاصل ہونے کے بعد اگر حق تعالیٰ جل سلطانہٗ کی توفیق رہنمائی فرمائے تو صوفیہ کے عالی طریقے کا سلوک (اختیار) کرے جو اس غرض سے نہیں کہ وہ اعتقاد و عمل کے علاوہ کوئی زائد چیز ہے یا کوئی نئی چیز حاصل کرنا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ معتقدات کی نسبت ایسا یقین و اطمینان حاصل ہو جائے کہ شک ڈالنے والے کی شک اندازی سے زائل نہ ہو، اور شبہ کے پیش آنے سے باطل نہ ہو جائے، کیونکہ بحث و مباحثہ کے پاؤں لکڑی کے ہوتے ہیں، اور دلائل قائم رہنے والے نہیں ہوتے: ﴿أَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ (الرعد: 28) ترجمہ: ”یا درکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے“ اور اعمال کی بجا آوری کے لئے آسانی اور سہولت حاصل کریں، اور سستی و سر کشی جو نفس امارہ سے پیدا ہوتی ہے اس کو دور کریں، اور اسی طرح طریقہ صوفیہ کے سلوک کا مقصود یہ نہیں ہے کہ غیبی صورتوں اور شکلوں کا مشاہدہ اور طرح طرح کے انوار کا معائنہ کریں یہ تو خود لہو و لعب میں داخل ہیں، یہ حسی صورتیں اور انوار کس قدر نقصان رکھتے ہیں کہ کوئی شخص انوار و صور غیبیہ کی تمنا میں اپنے آپ کو ریاضات و مجاہدات میں لگا دے، کیونکہ یہ (حسی) صورتیں اور وہ (غیبی) صورتیں، اور یہ انوار اور وہ انوار سب کے سب حق جل و علا کی مخلوق ہیں اور وہ حق تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں۔
اور صوفیہ کے طریقوں میں سے طریقہ نقشبندیہ کا اختیار کرنا اولیٰ و انسب ہے۔ کیونکہ ان بزرگواروں نے سنت کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے اور بدعت سے پرہیز کیا ہے۔ اگر ان کو پیروی کی دولت حاصل ہو جائے اور حال و احوال کچھ بھی حاصل نہ ہوں تو خوش ہیں، اور اگر احوال کے با وجود سنت کی پیروی میں سستی اور نقصان جانیں تو ان احوال کو پسند نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ ان بزرگواروں نے سماع و رقص کو تجویز نہیں کیا اور جو احوال (سماع کے دوران) ان پر مرتب ہوتے ہیں ان کو بھی قابل اعتبار نہیں سمجھتے بلکہ ذکر جہر کو بھی بدعت جان کر اس سے منع فرماتے ہیں، اور وہ ثمرات جو (اس کیفیت پر) مرتب ہوتے ہیں ان کو بھی قابل التفات نہیں سمجھتے۔
ایک دن ہم حضرت ایشاں (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی مجلس طعام میں حاضر تھے، شیخ کمال جو ہمارے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصوں میں سے تھے، انہوں نے کھانا شروع کرتے وقت ان کے حضور میں اسم اللہ بلند آواز سے کہا، آپ کو ناگوار ہوا۔ حتیٰ کہ آپ نے کافی سرزنش فرمائی اور فرمایا کہ ان کو منع کریں کہ ہمارے کھانے کی مجلس میں حاضر نہ ہوا کریں، اور میں نے حضرت ایشاں (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) سے سنا ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ علماء بخارا کو جمع کر کے حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں لے گئے تاکہ وہ ان کو ذکر جہر سے منع فرمائیں۔ چنانچہ علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم نے حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ذکرِ جہر بدعت ہے آپ ایسا نہ کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم آئندہ نہیں کریں گے۔
جب اس طریقے کے بزرگوار (صوفیائے ربانی) ذکر جہر سے منع کرنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں تو پھر سماع و رقص اور وجد و تواجد کا کیا ذکر؟ وہ احوال و مواجید جو غیر مشروع اسباب پر مرتب ہوں فقیر کے نزدیک استدراج کی قسم سے ہیں کیونکہ استدراج والوں کو بھی احوال و اذواق حاصل ہوتے ہیں اور جہان کی صورتوں کے آیئنوں میں کشفِ توحید اور مکاشفہ و معائنہ ان کو بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس امر میں حکمائے یونان اور ہندوستان کے جوگی و برہمن سب برابر ہیں، احوال کے سچا اور صادق ہونے کی علامت ان احوال کا علومِ شرعیہ کے مطابق ہونا اور محرمہ و مشتبہ امور کے ارتکاب سے بچنا ہے۔
جاننا چاہیے کہ سماع و رقص در حقیقت لہو و لعب میں داخل ہیں: آیۂ کریمہ: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ﴾ (لقمٰن: 6) ترجمہ: ”اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں“۔ سرود سے منع کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شاگرد اور کبار تابعین میں سے ہیں، فرماتے ہیں: "لھو الحدیث سے مراد سرود ہے" اور تفسیر مدارک میں ہے کہ لھو الحدیث سے مراد (بعد عشاء) بے ہودہ قصے کہانیوں میں وقت گزارنا اور سرود و نغمہ ہے۔ حضرت ابن عباس و ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم قسم کھاتے تھے کہ بے شک وہ غنا و سرود ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَ الَّذِیْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ﴾ (الفرقان: 72) ترجمہ: ”اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو نا حق کاموں میں شامل نہیں ہوتے“۔ اور امام الہدی ابو منصور ماتریدی سے روایت کی گئی ہے کہ جس شخص نے ہمارے زمانے کے کسی قاری کو (جو کلماتِ قرآن میں گانے کی طرز پر پڑھنے کی وجہ سے تغیر پیدا کرتا ہے) قرأت کے وقت کہا کہ تو نے بہت اچھا پڑھا تو وہ کافر ہو جاتا ہے16 اور اس کی عورت کو طلاق ہو جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی تمام نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ اور ابو نصیر الدبوسی سے حکایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قاضی ظہیر الدین خوارزمی سے نقل کیا ہے کہ جس نے گانے والے یا کسی اور سے سرود سنا یا فعل حرام کو دیکھا اور اس کو اچھا جانا اسی وقت مرتد ہو جاتا ہے خواہ اچھا جاننا اعتقاد کی رو سے ہو یا بغیر اعتقاد کے، کیونکہ اس نے شریعت کے حکم کو باطل کر دیا اور جس نے شریعت کے حکم کو باطل کر دیا وہ کسی مجتہد کے نزدیک مؤمن نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ اس کی عبادت کو قبول نہیں کرتا اور اس کی سب نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے بچائے۔
سرود و غنا کی حرمت میں آیات و احادیث اور روایات فقہیہ اس کثرت سے ہیں کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہے، اس کے با وجود اگر کوئی شخص منسوخ حدیث یا روایتِ شاذہ (یعنی غیر معتبر) کو سرود کے مباح ہونے میں پیش کرے تو اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کسی فقیہ نے کسی زمانے میں بھی سرود کے مباح ہونے کا فتوی نہیں دیا ہے اور نہ ہی رقص و پا کوبی کو جائز قرار دیا ہے جیسا کہ امام ہمام ضیاء الدین شامی کے رسالے ”ملتقط“ میں مذکور ہے۔ صوفیہ کا عمل حل و حرمت میں سند نہیں ہے۔ کیا ان کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم ان کو معذور سمجھیں اور ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں؟ یہاں تو امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا قول معتبر ہے، نہ کہ ابو بکر شبلی اور ابو الحسن نوری کا عمل۔ اس زمانے کے خام صوفیوں نے اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر سرود و رقص کو اپنا دین و ملت بنا لیا ہے اور اسی کو طاعت و عبادت سمجھ لیا ہے ﴿اَلَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَـهُـمْ لَـهْوًا وَّ لَعِبًا﴾ (الأعراف: 51) ترجمہ: ”جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا تھا“۔ سابقہ روایت سے معلوم ہو چکا ہے کہ جو شخص فعلِ حرام کو مستحسن اور اچھا جانے وہ اسلام کے گروہ سے نکل جاتا اور مرتد ہو جاتا ہے تو پھر خیال کرنا چاہیے کہ سماع و رقص کی مجلس کی تعظیم کرنا بلکہ اس کو طاعت و عبادت سمجھنا کس قدر برا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ ہمارے پیر اس مرض میں مبتلا نہ ہوئے اور ہم متبعین کو اس قسم کے امور کی تقلید سے چھڑا دیا۔
سننے میں آیا ہے کہ مخدوم زادے سرود کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور جمعہ کی راتوں میں سرود اور قصیدہ خوانی کی مجالس منعقد کرتے ہیں اور اکثر احباب اس امر میں موافقت کرتے ہیں۔ نہایت تعجب کی بات ہے کہ دوسرے سلسلوں کے مرید تو اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر اس امر کے مرتکب ہوتے ہیں اور شرعی حرمت کو اپنے پیروں کے عمل سے دفع کرتے ہیں اگرچہ فی الحقیقت وہ اس امر میں حق پر نہیں ہیں۔ بھلا اس سلسلے کے احباب اس ارتکاب میں کون سا عذر پیش کریں گے؟ ایک طرف حرمتِ شرعی اور دوسری طرف اپنے پیروں کی مخالفت ہوئی، نہ اہل شریعت اس فعل سے راضی اور نہ اہل طریقت۔
اگر حرمت شرعی نہ بھی ہوتی تو بھی طریقت میں کسی نئے امر کا پیدا کرنا برا ہوتا، پھر ایسا امر کس طرح برا نہ ہو جب کہ حرمت شرعی بھی اس کے ساتھ جمع ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ جناب مرزا جیو (یعنی خواجہ حسام الدین صاحب) اس امر سے راضی نہ ہوں گے لیکن آپ کے آداب کو مد نظر رکھ کر صریح طور پر منع بھی نہ کرتے ہوں گے اور دوستوں کو اس اجتماع سے نہ روکتے ہوں گے۔ اس فقیر نے چونکہ اپنے آنے میں کچھ توقف دیکھا اس لئے چند فقرے جمع کر کے لکھ کر بھیج دیئے ہیں۔ اس سبق کو مرزا جیو کی خدمت میں پیش کر دیں، اور اول سے آخر تک ان کے سامنے پڑھیں۔
و السلام
1 آپ کے نام سات مکتوبات ہیں۔ دفتر اول میں صرف یہی ایک مکتوب ہے جو دونوں بھائیوں کے نام ہے اور عقائد کے بیان میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے "ما لا بد منہ" میں اس مکتوب سے اقتباسات لئے ہیں اور شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "یہ مکتوب علم عقائد میں فائدہ کثیر رکھتا ہے"۔ بقیہ چھ مکتوبات یہ ہیں: دفتر دوم مکتوب 23، 35، 59۔ دفتر سوم مکتوب 56، 60، 71۔ آپ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں، 6 رجب سنہ 1010ھ کو اپنے بھائی خواجہ عبید اللہ سے جو خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری زوجہ سے تھے، چار ماہ بعد پیدا ہوئے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دونوں شیر خوار صاحب زادوں کو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لائے اور فرمایا کہ ان پر توجہ کرو۔ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد خواجہ حسام الدین احمد نے دونوں صاحب زادوں کی تربیت فرمائی۔ بعد ازاں خواجہ عبد اللہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وارداتِ کثیرۃ سے بہرہ ور ہو کر خلاف پائی۔ خواجہ عبد اللہ حافظ قرآن، خوش گو شاعر اور صاحب تصانیف تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد آپ سے بیعت تھے۔ بروز بدھ 25 جمادی الاولی سنہ 1074ھ کو وفات پائی اور اپنے والد کے قریب اسی قبرستان میں دفن ہوئے۔
2 یعنی امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ جو فرقہ اشاعرہ کے بانی اور علم کلام کے موجد تھے۔ سنہ 260ھ بصرہ میں پیدا ہوئے ابتدا میں معتزلہ کے سر گرم رکن رہے پھر شافعی مسلک اختیار کر کے دینی مسائل کو فلسفیانہ انداز سے مرتب کیا اور تقریبًا تین سو کتابیں لکھیں جن میں "مقالات الإسلامیین" سب سے زیادہ اہم ہے۔ سنہ 324ھ بغداد میں آپ کا انتقال ہوا۔
3 ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کے معنی صحیح ہیں اور آیت: ﴿وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡإِنۡسَ إِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ﴾ (الذاریات: 56) سے مستفاد ہے۔ (معرب)
4 مشہور افلاطون کا زمانہ 427 قبل از مسیح سے 347 قبل از مسیح تک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت کے زمانے کا افلاطون کوئی اور ہو۔ واللہ اعلم
5 یعنی امام الحرمین عبد الملک بن عبد اللہ الجوینی المتوفی سنہ 478ھ۔
6 بخاری و مسلم بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
7 پوری آیت ملاحظہ ہو جو موجودہ حالات میں نہایت اہم اور قابلِ غور ہے: ﴿وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ أَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا﴾ (النساء: 93) ترجمہ: ”اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا، اور اللہ نے اس کے لیے زبر دست عذاب تیار کر رکھا ہے“۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا "خبر دار! میرے بعد کفار کی طرح گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ تمہارے خون اور تمہارے مال تم میں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن (یوم عرفہ) تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) میں حرام ہے۔
8 اس حدیث کو ترمذی، ابو داوٗد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
9 اس حدیث کو خطیب اور ابن النجار نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔
10 امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ کے فرقۂ اشاعرہ کے بانی اور علمِ کلام کے موجد تھے۔ سنہ 260ھ بصرہ میں پیدا ہوئے۔ چالیس سال کی عمر تک آپ فرقۂ معتزلہ کے سر گرم رکن رہے، بعد میں فقہ شافعی کی حدود میں رہ کر آپ نے دینی مسائل کو فلسفیانہ استدلال کے ساتھ مستحکم کیا۔ تقریبًا 300 کتابیں تصنیف کیں۔ آپ کے معتقدین میں بڑے بڑے امام پیدا ہوئے، مثلًا باقلانی، ابن فورق، اسفرائنی، القشیری، الجوینی اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سنہ 324ھ بغداد میں آپ کا وصال ہوا۔
11 أَعْنِيْ شَمْسَ الدِّیْنِ أَبَا عَبْدِ اللہِ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ الذَّہْبِيَّ الْمُتَوَفّٰی سنۃ 748ھ (کشف الظنون)
12 "الصواعق المحرقۃ فی الرد علی أھل البدع و الزندقۃ" یہ امام علامہ فقیہ محدث شہاب الدین احمد ابن حجر الہیثمی المکی کی تصنیف ہے۔
13 یعنی فقہ کے چاروں امام حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
14 اس حدیث کو ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔
15 احمد بن موسیٰ "خیالی" کے نام سے مشہور ہیں۔ سنہ 860ھ میں وفات پائی۔ (کشف الظنون)
16 در مختار میں ہے کہ قرآن و اذان میں آواز کو خوبصورتی سے پھرانا اچھا ہے جب کہ حروف میں تغیر واقع نہ ہوا ہو۔ اگر تغیر واقع ہوا تو اس کے لیے بھی اور سننے والے کے لیے بھی مکروہ ہے، اور اس کو أَحْسَنْتَ کہنا (یعنی تم نے اچھا کیا) اگر اس کے خاموش ہونے کی وجہ سے (بطور دعا کے) ہے تو اچھا ہے اور اگر اس کی اس (گانے کی طرز کی) قرأت کی وجہ سے أَحْسَنْتَ کہا تو اس پر کفر کا ڈر ہے۔