دفتر اول مکتوب 255
ملا طاہر لاہوری1 کی طرف صادر فرمایا۔ روشن سنت کے زندہ کرنے اور نا پسندیدہ بدعت کے دُور کرنے کی ترغیب میں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔ گرامی نامہ جو حافظ بہاءُ الدین کے ہمراہ روانہ کیا تھا، پہنچ کر بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوا۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ محبان اور مخلصان اپنی تمام توجہ اور ہمت کے ساتھ سنتِ مصطفویہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ میں سے کسی سنت کے زندہ کرنے میں متوجہ ہوں، اور (ساتھ ہی ساتھ) اپنی پوری تن دہی کے ساتھ منکر و نا پسندیدہ بدعتوں میں سے کسی بدعت کے دفع کرنے میں مستعد ہوں۔ سنت اور بدعت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ایک کے وجود سے دوسرے کی نفی لازم آتی ہے، لہٰذا ایک کے زندہ کرنے سے دوسرے کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یعنی سنت کا زندہ کرنا بدعت کو مردہ کرنا ہے اور (اسی طرح) اس کے بر عکس بھی (قیاس کر لیجئے)۔ پس بدعت، خواہ اس کو حسنہ (نیک) کہیں یا سیّۂ (بری) (ہر حال میں اس سے) سنّت کا دُور کرنا لازم آتا ہے۔ شاید (حسنہ کہہ کر) حُسنِ نسبی کی وجہ سے اعتبار کر لیا ہو (یعنی اس سے اضافی حسن مراد لیتے ہوں) ورنہ حسنِ مطلق کو وہاں گنجائش نہیں ہے کیونکہ تمام سنتیں حق جل سلطانہٗ کی مرضیات (پسندیدہ) ہیں اور ان کی اضداد (بدعتیں) مرضیاتِ شیطان ہیں۔ آج یہ بات بدعت کی اشاعت کی وجہ سے اگرچہ بہت سے لوگوں پر گراں ہے لیکن کل (قیامت کے دن) ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم ہدایت پر ہیں یا وہ لوگ۔
منقول ہے کہ حضرت مہدی اپنی سلطنت کے زمانے میں جب دین کی ترویج کریں گے اور احیائے سنت کا حکم دیں گے تو مدینہ کا عالم جس نے بدعت پر عمل کرنا اپنی عادت بنا لی ہو گی اور اس (بدعت) کو اچھا سمجھ کر دین کے ساتھ ملا لیا ہو گا، وہ تعجب سے کہے گا کہ اس شخص (امام مہدی) نے ہمارے دین کو ختم کر کے ہماری ملت کو مار ڈالا ہے۔ حضرت مہدی اس عالم کے قتل کا حکم فرمائیں گے اور اس کے حسنہ (اچھائی) کو سیۂ (برائی) خیال کریں گے: ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهِ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائِرِ مَنْ لَدَیْکُمْ (آپ پر اور جو آپ کے ساتھ ہیں ان سب پر سلام ہو) فقیر پر نسیان (بھول) کا غلبہ ہے، معلوم نہیں کہ آپ کے خط کو کسی کے سپرد کیا تھا تاکہ سوالات کے موافق جواب لکھتا، لہٰذا معذور خیال فرمائیں۔ میاں شیخ احمد فرملی دوستوں میں سے ہیں چونکہ وہ آپ کے قرب و جوار میں رہتے ہیں لہٰذا امید ہے کہ ان کے حق میں التفات و توجہ کو مد نظر رکھیں گے۔
1 آپ کے نام تین مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 225 پر گزر چکا ہے۔