مکتوب 25
حضرت سید المرسلین آنسرور عالم علیہ الصلوٰۃ و السلام اور آپ کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے پر ترغیب دینے کے بیان میں، خواجۂ جہاں1 کی طرف ارسال فرمایا۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کے دل کو سلامتی عطا فرمائے، اور آپ کے سینے کو کھول دے، اور آپ کے نفس کو پاکیزہ کر دے، اور آپ کے جسم (کھال) کو نرم کرے۔ یہ سب کچھ بلکہ روح و سرّ و خفی و اخفیٰ کے کمالات بھی سید المرسلین علیہ و علٰی آلہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کی تابع داری پر موقوف ہیں۔ پس آپ پر لازم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خلفائے راشدین کی متابعت کریں جو کہ آپ کے بعد ہدایت کرنے والے اور ہدایت یافتہ ہیں، کیونکہ وہ ہدایت کے ستارے2 اور ولایت کے آفتاب ہیں لہذا جس شخص نے ان کی متابعت کا شرف حاصل کیا، اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی، اور جس شخص کی فطرت ہی میں ان کی مخالفت بھری ہوئی ہے وہ نہایت درجے کی گمراہی میں جا پڑا۔
شیخ سلطان3 مرحوم کے دونوں بیٹے پریشانی اور معاش کی تنگی میں مبتلا ہیں لہذا آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ آپ ان کی امداد و اعانت فرمائیں، کیونکہ آپ اس بات کے لائق ہیں۔ بلکہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے کی توفیق مرحمت فرمائی ہے۔ حق تعالیٰ آپ کو مزید توفیق بخشے اور نیکی و بھلائی کو آپ کا رفیقِ حال بنائے۔ وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی(آپ پر اور ان سب لوگوں پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرتے ہیں)۔
1 مکتوبات شریفہ دفتر اول میں مکتوب نمبر 25 - 72 آپ کے نام ہیں۔ آپ کا اصل نام دوست محمد، لقب خواجۂ جہاں تھا۔ کابل کے رہنے والے تھے۔ آپ کی صاحب زادی جہانگیر کی زوجیت میں آئیں تو آپ کو بھی اعلیٰ منصب حاصل ہو گیا۔ نہایت متقی پرہیزگار تھے اور اپنے فرائض منصبی نهایت دیانتداری سے انجام دیتے تھے۔ سنہ 1029ھ میں وفات پائی۔ (مآثر الأمراء، جلد 1، صفحہ: 668)
2 اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے: "أَصْحَابِيْ کَالنُّجُوْمِ بِأَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ" (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ، حدیث نمبر: 58) یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔
3 آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خسر ہیں۔ آپ حج اور زیارت حرمین شریفین سے مشرف تھے اور علوم نقلیہ میں کافی مہارت حاصل تھی، اسی بنا پر عرصہ تک شاہی خدمات پر مامور رہے۔ پھر گاؤ کشی کے جرم میں جلاوطن کر دیے گئے۔ ایک عرصہ بعد پھر اپنے عہدے پر بحال ہوئے لیکن ہندوؤں نے موقع پاتے ہی اکبر بادشاہ کو آپ کے خلاف بھڑکا دیا چنانچہ یکم جنوری سنۂ 1599ء بمطابق 1007ھ میں شیخ سلطان کو پھانسی دے دی گئی۔ (منتخب التواریخ ورود کوثر)