مکتوب 23
ناقص پیر سے طریقہ سیکھنے سے منع کرنے، اور اس کے نقصان و ضرر کے بیان میں، اور اہلِ کفر سے مشابہت رکھنے والے القاب و آداب سے منع کرنے کے بیان میں، عبد الرحیم خان خاناں1 کی طرف ان کے خط کے جواب میں ارسال فرمایا۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اپنے حبیب سید البشر المبعوث الی الاسود و الاحمر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل ایسے قال سے جو حال سے خالی ہو، اور ایسے علم سے جو عمل سے خالی ہو نجات بخشے (آمین) اور حق تعالیٰ اس بندے پر رحمت نازل فرمائے جو اس دعا پر آمین کہے۔
نیک بخت اور صادق بھائی نے آپ کا خط بہت احتیاط سے پہنچایا اور ترجمانی کی زبان سے جو کچھ بیان ہو سکا آپ کے جملہ حالات بیان کئے۔ پس میں نے (آپ کے حالات سُن کر) یہ شعر پڑھا؎
أَھْلًا لِسُعْدٰی وَ الرَّسُولِ وَ حَبَّذَا وَجْہُ الرَّسُوْلِ لِحُبِّ وَ جْہِ الْمُرْ سِلِ
ترجمہ:
مرحبا اے مرے دلدار و رسولِ دلدار
تیرے قاصد کی ملاقات سے تیرا دیدار
کمالات کے ظہور کی استعداد رکھنے والے بھائی! حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کے فعل کی استعداد کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق بخشے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بے شک دنیا آخرت کی کھیتی ہے2 پس اس شخص کے لئے افسوس کا مقام ہے جس نے اس میں کچھ نہیں بویا اور اپنی استعداد کی زمین کو بے کار رہنے دیا اور اعمال کے بیج کو ضائع کر دیا۔
یہ بھی جاننا چاہیے کہ زمین کا ضائع و بے کار کرنا دو طرح پر ہے: ایک یہ کہ اس میں کوئی چیز کاشت ہی نہ کی جائے اور دوسرے یہ کہ اس میں گھٹیا (نکمّا) اور خراب بیج ڈالا جائے، اور یہ دوسری قسم ضائع کرنے میں پہلی قسم سے زیادہ شدید نقصان دہ اور بہت زیادہ خرابی والی ہے جیسا کہ یہ بات پو شیدہ نہیں ہے۔ بیج کا نکمّا اور خراب ہونا اس طرح پر ہے کہ کسی ناقص سالک سے طریقہ اخذ کرے اور اس کے مسلک (راستے) پر چلے اس لئے کہ ناقص سالک اپنی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرتا ہے اور جو شخص خواہشاتِ نفسانی کے تابع ہوتا ہے اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا، اور اگر (بالفرض) کوئی اثر ہوتا بھی ہو تو وہ خواہشاتِ نفسانی ہی کی مدد کرے گا پس اس سے سیاہی پر مزید سیاہی حاصل ہو گی، اور اس لئے بھی کہ ناقص (پیر) ان طریقوں میں جو حق سبحانہٗ و تعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں اور ان طریقوں میں جو حق سبحانہٗ و تعالیٰ تک نہیں پہنچاتے تمیز نہیں کر سکتا کیونکہ وہ خود واصل نہیں ہے۔ اسی طرح3 وہ طالبانِ طریقت کی مختلف استعدادوں کے درمیان تمیز نہیں کر سکتا، اور جب وہ جذبہ (سیر انفسی) اور سلوک (سیر آفاتی) کے طریقوں میں تمیز نہیں کر سکتا تو بسا اوقات طالب کی استعداد ابتدا میں طریقۂ جذبہ کے مناسب ہو گی اور طریقۂ سلوک کے مناسب نہیں ہو گی اور ناقص پیر ان دونوں طریقوں اور طالبین کی مختلف استعدادوں میں تمیز نہ کر سکنے کی وجہ سے ابتدا میں سلوک کے طریقہ پر چلائے گا۔ پس جس طرح وہ خود طریقے سے بھٹکا ہوا (گمراہ) ہے اسی طرح اس طالب کو بھی راہِ حق سے بھٹکا دے گا۔ پس شیخِ کامل مکمل (یعنی جو خود کامل ہو اور دوسروں کو کامل کرنے والا ہو) جب اس طالب کی تربیت کرنا اور اس کو اس راستے پر چلانا چاہے تو سب سے پہلے اس کو اس خرابی کے دُور کرنے کی ضرورت پیش آئے گی جو اس طالب کو ناقص پیر سے پہنچی ہے اور اس فساد (بگاڑ) کی اصلاح کرنی ہو گی جو اس میں اس ناقص پیر کے سبب سے پیدا ہوا ہے۔ پھر اس کی زمین میں اس کی استعداد کے مناسب صالح (عمدہ) بیج ڈالے گا تب اس سے اچھی کھیتی اُگے گی۔ ﴿وَ مَثَلُ کَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَةِ ِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَھَا مِنْ قَرَارٍ﴾ (ابراہیم: 26) ”اور ناپاک کلمے کی مثال ایک خراب درخت کی طرح ہے جسے زمین کے اوپر ہی اوپر سے اکھاڑ لیا جائے، اس میں ذرا بھی جماؤ نہ ہو“۔ ﴿أَ لَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ﴾ (ابراہیم: 24) ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان کی ہے ؟ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوطی سے جمی ہوئی ہے، اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں“۔ پس کامل و مکمل شیخ (پیر) کی صحبت سرخ گندھک (کی مانند) ہے (یعنی نادر الوجود ہے جیسا کہ سرخ گندھک جو کہ اکسیر ہے) اس کی نظر دوا ہے اور اس کا کلام شفا ہے، وَ بِدُوْنِھَا خَرْطُ الْقَتَادِ (اور ایسے شیخ کی صحبت کے بغیر بے فائدہ رنج اٹھانا ہے)۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و التحیۃ کی شریعت کے راستے پر ثابت قدم رکھے، کیونکہ شریعت کی پیروی کرنا ہی اصل کام ہے اور اسی پر نجات و سعادت کا دار و مدار ہے۔ اور کسی نے فارسی میں کیا ہی خوب کہا ہے؎
محمد عربی کابروئے ہر دو سراست
کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سرِ او
ترجمہ:
محمدؐ عربی4 دونوں جہاں کی عزّت ہیں
جو اُن کے در کی خاک نہیں، خاک ہو اُس پر
اور ہم اس مکتوب کو آنحضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی صلوات و تسلیمات و تحیات و برکات پر ختم کر تے ہیں۔
تتمّہ:
نہایت تعجب کی بات ہے کہ صادق بھائی (سچے قاصد) نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ کے ہم نشین فاضل شاعروں میں سے ایک شخص شعروں میں اپنے لئے کفری تخلّص استعمال کرتا ہے حالانکہ وہ بزرگ ساداتِ عظام اور شریف خاندان میں سے ہے۔ پس اے کاش! میں جانتا کہ اس بُرے نام پر جس کی بُرائی اچھی طرح ظاہر ہے اس کو کس چیز نے مجبور کیا ہے حالانکہ مسلمان کے لئے لازم ہے کہ اس نام سے اس سے بھی زیادہ بھاگے جتنا کہ ہلاک کرنے والے شیر سے بھاگتا ہے اور اس نام کو نہایت ہی بُرا سمجھے، کیونکہ یہ نام اور جس شخص کا یہ نام ہو، دونوں حق سبحانہٗ و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک نا پسندیدہ و دشمن سمجھے گئے ہیں، اور مسلمانوں کو کافروں سے دشمنی رکھنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔5 پس ایسے بُرے ناموں سے بچنا واجب ہے۔
یہ جو بعض مشائخ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی عبارتوں میں غلبہ سُکر کی وجہ سے کفر کی تعریف6 اور زُنّار7 باندھنے کی ترغیب اور اس قسم کی دوسری باتیں پائی جاتی ہیں لہذا ظاہری مطلب سے پھیر کر ان کی تاویل و توجیہ کی جائے گی کیونکہ اہل سُکر حضرات کا کلام اچھے مفہوم پر گمان کیا جاتا ہے اور اپنے ظاہری عام مفہوم سے (اچھے معنی کی طرف) پھیرا جاتا ہے، کیونکہ بلا شبہ وہ حضرات غلبۂ سکر کی وجہ سے اس قسم کی ممنوعات کے ارتکاب میں معذور ہوتے ہیں، با وجودیکہ ان بزرگوں کے نزدیک کفرِ حقیقی8 اسلامِ حقیقی کی نسبت نقص و عیب ہے، اور جو لوگ حالتِ سکر میں نہیں ہیں وہ اہلِ سکر کی تقلید کرنے (اور کلماتِ سکریہ استعمال کرنے) میں نہ ان بزرگانِ طریقت کے نزدیک معذور ہیں اور نہ اہلِ شرع کے نزدیک، کیونکہ ہر چیز کے لئے ایک خاص موسم اور وقت ہوتا ہے کہ اس موسم میں وہ چیز مناسب اور اچھی معلوم ہوتی ہے اور دوسرے موسم میں بُری لگتی ہے اور عقل مند آدمی ان دونوں میں سے ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کرتا۔
پس آپ میری طرف سے اس سے گزارش کریں کہ وہ اس نام کو تبدیل کر دے اور اس کو کسی اور اچھے نام سے بدل دے اور اپنے آپ کو اسلامی لقب کے ساتھ ملقب کرے کیونکہ یہ (اسلامی لقب) مسلمان کے حال و قال کے موافق ہے اور اس دینِ اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا ہے جو حق سبحانہٗ و تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک پسندیدہ دین ہے اور اس میں اس تہمت سے بچنا ہے جس سے بچنے کے لئے ہم کو حکم دیا گیا ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان) "اِتَّقُوا مِنْ مَّوَاضِعِ التُّھَمِ"9 ”یعنی تہمت کے موقعوں سے بچو“ سچا کلام ہے جس میں کسی قسم کا غبار نہیں (یعنی کسی قسم کے شک و شبہ کی مطلق گنجائش نہیں ہے) اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ﴾ (البقرة: 221) ”اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے“۔ وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (اور جو شخص ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو)
1 مکتوبات شریفہ میں آپ کے نام مندرجہ ذیل 13 مکتوبات ہیں: دفتر اول مکتوب 23، 67، 69، 70، 191، 198، 214، 232، 267۔ دفتر دوم مکتوب 8، 62، 66۔ مرزا عبدالرحیم خان خانان بیرم خان خانہ بروز جمعرات 14 صفر سنہ 964ھ بمطابق 1556ء کو لاہور میاں میر جمال خان میواتی کی صاحب زادی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ابھی چار سال کے تھے کہ آپ کے والد کو گجرات کے علاقے میں قتل کر دیا گیا۔ اس سانحہ کے بعد آپ کو آگرہ لے آئے اور سلطنت کی گود میں پرورش پائی۔ بعض درسی کتابیں مولانا محمد امین اندجانی، قاضی نظام الدین بدخشی حکیم علی گیلانی سے پڑھیں اور علامہ فتح اللہ شیرازی سے فوائدِ کثیرہ حاصل کئے۔ پھر گجرات میں شیخ وجیہ اللہ بن نصر اللہ علوی سے طریقہ اخذ کیا یہاں تک کہ متبحر عالم ہو گئے۔ امیر کبیر محمد شمس الدین غزنوی کی صاحب زادی سے آپ کی شادی ہوئی اور آپ کے ہاتھوں گجرات سندھ اور دکن کے کچھ علاقے فتح ہوئے۔ اکبر نے آپ کو خانِ خاناں کا لقب دیا۔ عربی، فارسی، ترکی، ہندی سندھی وغیرہ مختلف لغات کے ماہر تھے، صاحب السیف و القلم مشہور تھے۔ 1026ھ میں دہلی میں وفات پائی۔ بلاد ہند بلکہ ہفت اقلیم میں ایسا مختلف جامع الفضائل شخص شاید ہی کوئی ہو۔(نزھۃ الخواطر، مآثر الأمراء وغیرہ)
2 اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃِ" (الموضوعات الکبریٰ لملا علی القاری، حدیث نمبر: 205)
3 خلاصہ یہ ہے کہ ناقص پیر کئی لحاظ سے ناقص ہے، اول یہ کہ وہ ابھی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی سے آزاد نہیں ہوا اور اس کا نفس اس کی خواہشات کے تابع ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک طریقے کو دوسرے طریقے سے اور جذبے کو سلوک سے اور صحو کو سُکر سے تمیز نہیں کر سکتا۔ تیسرے یہ کہ وہ طالبین کی استعداد کے لحاظ سے ایک دوسرے میں فرق نہیں کر سکتا۔
4 اس شعر کا عربی میں ترجمہ یہ ہے:
مُحَمَّدٌ سَیِّدُ الْکَوْنَیْنِ مِنْ عَرَبٖ
تَعْسًا لِّمَنْ لَّمْ یَکُنْ فِيْ بَابِہِ التَّرْبَا
5 چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَ تُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا﴾ (النساء: 144) اور نیز ارشاد فرمایا: ﴿أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ﴾ (الفتح: 29) ایضًا ارشاد فرمایا: ﴿يَآ أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبہ: 9)
6 جیسے منصور حلاج کا قول ہے:
کَفَرْتُ بِدِیْنِ اللہِ وَ الکُفْرُ وَاجِبٌ
لَدَيَّ وَ عِنْدَ الْمُسْلِمْیْنَ قَبِیْحٌ
7 زنّار(جنیو) دھاگا، رسی وغیرہ جو نصاریٰ و مجوس وغیرہ اپنے مذہبی شعار کے طور پر کمر پر باندھتے ہیں اور ہندو گلے میں ڈالتے ہیں۔
8 کفرِ حقیقت یعنی حقیقت کار تک پہنچنے اور غلبہ ظاہر ہونے کے بعد اسلام اور کفر میں تمیز نہ کرنا بھی نقص ہے، جیسا کہ منصور حلاج جو کہ مغلوب الحال ہوا ہے، کہ اہل شریعت نے اس کے کفر کا حکم کیا ہے، اہل حقیقت کے نزدیک بھی اس کو نقص لاحق ہے اور انہوں نے اس کو اولیائے کاملین میں سے شمار نہیں کیا اور حقیقت کو پہنچے ہوئے مسلمانوں میں سے نہیں شمار کیا۔ لیکن غلبہ حال کے ظاہر ہونے سے پہلے کفر و اسلام میں امتیاز نہ کرنا بالاتفاق کفر اور مذموم ہے اور زندقہ ہے، اور شریعت و حقیقت دونوں کے نزدیک کفر ہے۔
9 اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے لیکن لفظ "مِنْ" روایت میں نہیں ہے۔