دفتر 1 مکتوب 209: رسالہ "مبدا و معاد" کی بعض مشکل عبارتوں کے حل کرنے میں جو انہوں نے دریافت کی تھیں اور دوسری عبارتیں جو اس کی تائید میں لکھی گئی تھیں۔ اور اس خط کے جواب میں جو اس راہ (سلوک) کی بعض ضروری باتوں پر مشتمل ہے

مکتوب 209

میر نعمان بدخشی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ رسالہ "مبدا و معاد" کی بعض مشکل عبارتوں کے حل کرنے میں جو انہوں نے دریافت کی تھیں اور دوسری عبارتیں جو اس کی تائید میں لکھی گئی تھیں۔ اور اس خط کے جواب میں جو اس راہ (سلوک) کی بعض ضروری باتوں پر مشتمل ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ سیادت پناہ میرے محترم بھائی محمد نعمان خیریت سے ہوں، اس طرف کے احوال قابل حمد و ستائش ہیں۔ سرائے فرخ میں رخصت کے وقت آپ نے اور برادرم خواجہ محمد اشرف نے اس عبارت کے معنی جو رسالہ "مبدا و معاد" میں درج ہیں دریافت کئے تھے۔ چونکہ وقت سازگار نہ تھا لہذا (آئندہ پر) موقوف رہا۔ اب یہ بات دل میں آئی کہ اس عبارت کے حل سے متعلق کچھ لکھا جائے تا کہ احباب کی تسلی و تشفی کا باعث ہو رسالہ کی وہ عبارت یہ ہے: "آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے زمانۂ رحلت سے ہزار اور چند سال بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ حقیقتِ محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقتِ کعبہ کے مقام میں رسائی پا کر اس کے ساتھ متحد ہو جائے گی۔ اس وقت "حقیقتِ محمدی کا نام "حقیقتِ احمدی" ہو جائے گا اور وہ ذات احد جل سلطانہٗ کا مظہر بن جائے گی اور یہ دونوں اسم مبارک (محمد اور احمد) اپنے مسمیٰ (مجموعہ حقیقت محمدی و حقیقت کعبہ) میں متحقق ہو جائیں گے اور حقیقت محمدی کا پہلا مقام (جہاں وہ اس سے پہلے تھی) خالی رہ جائے گا اور وہ اس وقت تک خالی ہو رہے گا یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نزول فرمائیں اور نزول فرمانے کے بعد شریعت محمدی علیہ الصلوات و التحیات کے مطابق عمل فرمائیں۔ اس وقت حقیقت عیسوی اپنے مقام سے عروج کر کے حقیقت محمدی کے اس مقام میں جو خالی چلا آ رہا تھا قرار پکڑے گی"۔ (مبدا معاد نمبر 48)

جاننا چاہیے کہ کسی شخص کی حقیقت اس کے تعینِ وجوبی سے مراد ہے کہ اس شخص کا تعینِ امکانی اس تعین کا ظل ہے اور وہ تعین وجوبی اسماء الہی جل سلطانہٗ سے کہ وہ علیم، قدیر، مرید اور متکلم وغیرہ میں سے ایک اسم ہے اور وہ اسمِ الہی جل سلطانہٗ اس شخص کا رب ہے اور اس کے وجودی اور توابع وجودی فیوض کا مبدا ہے، اور اس اسم کی نسبت حضرت ذات تعالیٰ شانہ کے ساتھ مختلف مراتب میں ہے صفت کے مرتبہ میں اس کا وجود ذاتِ وجود پر زائد ہے اس پر بھی اس اسم کا اطلاق ہوتا ہے اور شان کے مرتبہ میں بھی اس کی زیادتی ذات پر مجرد اعتبار سے ہے یہی اسم صادق آتا ہے، اور صفت و شان کے درمیان کا فرق اس مکتوب؂2 میں لکھا گیا تھا، جو سلوک اور جذبہ کے بیان میں تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے اگر کوئی بات پوشیدہ ہو تو اس مکتوب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ شان کا حاصل ہونا بھی اگرچہ مجرد اعتبار سے ہے، لیکن اس بات کا متقاضی ہے کہ اس سے اوپر اس شان کے مناسب اور زائد معنی ہوں جو اس شان کے وجودِ اعتباری کا مبدا ہوں۔ لہذا اس اسم کو بھی اس مرتبے سے ایک حصہ حاصل ہے اور اس زائد معانی کے فوق میں بھی یہ احتمال جاری ہے لیکن انسانی طاقت اس کو ضبط کرنے سے عاجز ہے۔ اس فقیر بے بضاعت کو ایک اور مرتبے سے بھی گزارا گیا ہے لیکن اس مرتبہ کے اوپر سوائے ہلاکت اور اضمحلال کے کچھ نہیں ہے: ﴿وَ فَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیْمٌ﴾ (یوسف: 76) ترجمہ: ”اور جتنے علم والے ہیں، ان سب کے اوپر ایک بڑا علم رکھنے والا موجود ہے“۔ شعر

ھَنِیْئًا لِّأَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا

وَ لِلْعَاشِقِ الْمِسْکِیْنِ مَا یَتَجَرَّعُ

ترجمہ:

مبارک منعموں کو ناز و نعمت

مبارک عاشق مسکیں کو کلفت

اہل اللہ کی ایک دوسرے پر فضیلت اپنی اپنی استعدادات اور قابلیتوں کے موافق ان مختلف مراتب کے طے کرنے کے اعتبار سے ہے اور اس اسم کے واصل اولیا بہت تھوڑے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر سلوک اور سیرِ تفصیلی کے طریق سے تمام مراتبِ امکانیہ سے عروج حاصل کرنے کے بعد اس اسم کے ظلال میں سے کسی ظل تک واصل ہوتے ہیں اور صرف جذبے کے طریق سے بھی اس اسم تک واصل ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بے اعتبار اور نا قابلِ اعتماد ہے، اور وہ لوگ جنہوں نے اس اسم سے عروج کیا ہے اور اس کے مختلف مراتب کو کم یا زیادہ طے کیا ہے وہ بہت ہی کم ہیں۔

اب ہم اصل بات کی طرف جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی شخص کی حقیقت جس کو تعینِ وجوبی کہتے ہیں اس کو تعین امکانی بھی کہتے ہیں۔ جب یہ ابتدائی باتیں معلوم ہو گئیں تو ہم کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ الصلوات و التحیات تمام مخلوقات کی طرح عالمِ خلق اور عالمِ امر سے مرکب ہیں اور وہ اسم الہی جل شانہ جو کہ عالم خلق کا رب ہے اس کی شان العلیم ہے اور وہ جو عالم امر سے ان کی تربیت فرماتا ہے وہ اس کے معنی ہیں جو اس شان کے وجود اعتباری کا مبدا ہے جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے۔ اور "حقیقتِ محمدی" سے مراد "شان العلیم" ہے اور حقیقتِ احمدی اس معنی کی طرف اشارہ ہے جو اس شان کا مبدا ہے اور "حقیقتِ کعبہ سبحانی" سے بھی یہی مراد ہے، اور وہ نبوت جو حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی تخلیق سے پہلے آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کو حاصل تھی اور اس مرتبے کی نسبت خبر دی ہے اور فرمایا ہے "کُنْتُ نَبِيًّا وَّ آدَمُ بَیْنَ الْمَاءِ وَالطِّیْنِ"؂3 ترجمہ: ”میں اس وقت بھی نبی تھا جب کہ حضرت آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے“۔ یہ بات باعتبار حقیقتِ احمدی کے تھی اور اس کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔ اور اسی اعتبار سے حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے جو کلمۃ اللہ ہوئے ہیں اور عالمِ امر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں اور (جنہوں نے) آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی تشریف آوری کی بشارت اسم "احمد" سے دی ہے اور فرمایا ہے ﴿وَ مُبَشِّراً بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ﴾ (الصف: 6) ترجمہ: ”اور اس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہے“۔ اور وہ نبوت جس کا تعلق نشأۃ عنصری (مادہ کی پیدائش) سے ہے وہ صرف حقیقتِ محمدی کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ دونوں حقیقتوں کے اعتبار سے ہے اور اس مرتبے میں آپ کی تربیت کرنے والی وہ شان اور اس شان کا مبدأ ہے لہذا اس مرتبے کی دعوت پہلے مرتبے کی دعوت کی نسبت سے زیادہ مکمل ہے کیونکہ اس مرتبے میں ان کی دعوت عالم امر سے مخصوص تھی اور ان کی تربیت صرف روحانیین تک محدود تھی اور ان کی دعوت کے اس مرتبہ میں عالمِ خلق اور عالمِ امر دونوں شامل ہیں اور آپ کی تربیت ارواح و اجساد پر مشتمل ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس جہاں میں آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی عنصری پیدائش کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملکی پیدائش پر غالب کیا ہوا تھا تاکہ مخلوقات کے ساتھ کہ جن میں بشریت زیادہ غالب ہے ان کے لئے وہ مناسبت جو افادہ و استفادہ کا سبب ہے، زیادہ سے زیادہ پیدا ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو اپنی بشریت کے ظاہر کرنے کے لئے بڑی تاکید سے حکم فرماتا ہے: ﴿قُلْ إِنَّمَآ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی إِلَيَّ﴾ (الکہف: 110) ترجمہ: ”کہہ دو کہ : میں تو تمہی جیسا ایک انسان ہوں (البتہ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے“۔ اور لفظ "مثلکم" کا لانا بشریت کی تاکید کے لئے ہے۔ وجودِ عنصری سے رحلت فرمانے کے بعد آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی روحانیت کی جانب غالب آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت کی مناسبت کم ہو گئی اور دعوت کی نورانیت میں تفاوت پیدا ہو گیا۔ (چنانچہ) بعض اصحابِ کرام نے فرمایا ہے کہ "ہم ابھی آں سرور علیہ و علیہم الصلوۃ و السلام کے دفن سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں ایک فرق محسوس کیا"؂4۔ ہاں (فرق کیوں نہ ہو جب کہ) ایمان شہودی ایمان غیبی سے بدل گیا اور معاملہ آغوش سے گوش تک آ پہنچا اور دیکھنے کی بجائے سننے کی نوبت آ گئی۔

اور آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ رحلت سے جب ہزار سال گزر گئے جو بڑی لمبی مدت اور زمانہ دراز ہے تو (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی) روحانیت کی جانب اس طرح غالب ہوئی کہ بشریت کی تمام جانب کو اپنے رنگ میں رنگ دیا حتیٰ کہ عالمِ خلق نے عالمِ امر کا رنگ اختیار کر لیا پس لازمی طور پر جو کچھ کہ آپ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی عالم خلق میں اپنی حقیقت سے رجوع ہو کر ظاہر ہوا وہی حقیقت محمدی عروج فرما کر حقیقت احمدی سے ملحق ہو گئی اور حقیقت محمدی، حقیقت احمدی سے متحد ہوئی۔

اس جگہ حقیقت احمدی و حقیقت محمدی سے مراد آپ علیہ و علی آلہ الصلوۃ والسلام کے خلق و امر کا تعین امکانی ہے نہ کہ تعین وجوبی کہ تعین امکانی اسی کا ظل ہے کیونکہ تعین وجوبی کا عروج کوئی معنی نہیں رکھتا اور اس تعین کے ساتھ اس کا متحد کرنا معقول نہیں ہے۔ جب حضرت عیسیٰ علی نبینا و علی آلہ الصلوۃ و السلام نزول فرمائیں گے تو حضرت خاتم الرسل علیہم الصلوۃ و السلام کی شریعت کی پیروی کریں گے اور اپنے مقام سے عروج کر کے تبعیت کے طور پر حقیقت محمدی کے مقام میں پہنچ جائیں گے اور آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے دین کی تقویت فرمائیں گے۔

اسی ضمن میں یہ بات نقل کرتے ہیں کہ گزشتہ شریعتوں کا بھی یہی حال تھا کہ اولو العزم پیغمبر کی رحلت فرما جانے کے ہزار سال بعد انبیائے کرام و رسل عظام مبعوث ہوتے تھے جو اس اولو العزم پیغمبر کی شریعت کو تقویت دیتے تھے اور اس کے کلمے کو بلند کرتے تھے اور جب اس اولو العزم پیغمبر کی دعوت و شریعت کا دورہ تمام ہو جاتا تھا تو دوسرا اولو العزم پیغمبر مبعوث ہو جاتا تھا اور نئے سرے سے اپنی شریعت ظاہر کرتا تھا۔ چونکہ حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کی شریعت نسخ اور تبدیلی سے محفوظ ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے علماء کو انبیاء کا حکم دے کر آپ کی شریعت کی تقویت کے کام کو اور ملت کی تائید کو ان کے سپرد فرما دیا۔ اسی طرح ایک اولو العزیز پیغمبر (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا متبع بنا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کی ترویج بخشی ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہٗ لَحٰفِظًوْنَ﴾ (الحجر: 9) ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر ( یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں“۔

جاننا چاہیے کہ آنحضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوۃ و السلام کی رحلت فرمانے کے ہزار سال بعد آپ کی امت کے جن اولیاء کا ظہور ہو گا اگرچہ ان کی تعداد بہت قلیل ہو گی لیکن وہ کامل و اکمل ہوں گے تاکہ اس شریعت کو پورے طور پر تقویت دے سکیں۔ حضرت مہدی کہ جن کی تشریف آوری کی نسبت حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التحیات نے بشارت فرمائی ہے، ہزار سال کے بعد ظاہر ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہم الصلوۃ و السلام خود بھی ہزار سال کے بعد نزول فرمائیں گے۔ مختصر یہ کہ اس گروہ کے اولیاء کے کمالات اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کے کمالات کی مانند ہیں اگرچہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کے بعد اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے لئے فضیلت و بزرگی ہے لیکن یہ ایک ایسا مقام ہے کہ مشابہت کے کمال کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر فضیلت نہیں دے سکتے، اور ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہو: "لَا یُدْرٰی أَوَّلُھُمْ خَیْرٌ أَمْ آخِرُھُمْ"؂5 ترجمہ: ”نہیں معلوم کہ ان میں سے پہلے (زمانہ) والے بہتر ہیں یا آخر والے“۔ یہ نہیں فرمایا "لَا اَدْرِیْ أَوَّلُھُمْ خَیْرٌ أَمْ آخِرُھُمْ" ترجمہ: ”میں نہیں جانتا کہ ان میں سے پہلے والے بہتر ہیں یا آخر والے“۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فریقین میں سے ہر ایک کا حال معلوم تھا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ" ترجمہ: ”سب زمانوں میں سے بہتر میرا زمانہ ہے“۔ لیکن چونکہ کمال مشابہت کی وجہ سے شک و شبہ کی گنجائش تھی اس لئے "لَا یُدْرٰی" فرمایا۔

اگر کوئی دریافت کرے کہ آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کے زمانے کے بعد تابعین کے زمانے کو خیر (بہتر) فرمایا ہے اور تابعین کے زمانے کے بعد تبع تابعین کے زمانے کو بھی خیر فرمایا ہے لہذا خیریت انہی دو زمانوں کے لوگوں کے اوپر یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے پس اس گروہ کی اصحاب کرام کے کمالات کے ساتھ کس طرح مشابہت ہو گی۔

جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس قرن کا اس طبقہ سے بہتر ہونا اس اعتبار سے ہو کہ (اس میں) اولیاء اللہ کا ظہور کثرت سے ہو گا اور اہلِ بدعت اور اربابِ فسق و فجور کی کمی ہو گی، اور یہ بات اس کے ہرگز منافی نہیں ہے کہ اس طبقے کے اولیاء اللہ میں سے بعض افراد ان دونوں قرنوں کے اولیاء اللہ سے افضل ہوں جیسے کہ حضرت مہدی

فیض روح القدس ارباز مدد فرماید

دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

ترجمہ:

وحی کا فیض اگر پھر سے میسر آ جائے

دوسرے بھی وہ کریں جو کچھ مسیحاؑ نے کیا

لیکن اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ ہر لحاظ سے خیر ہی خیر ہے اور اس بارے میں گفتگو کرنا فضول ہے، آگے والے آگے والے ہی ہیں اور جنت نعیم میں وہ مقرب ہیں یہ وہ حضرات ہیں کہ دوسروں؂6 کا پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا ان کے ایک مد جو خرچ کرنے کے برابر نہیں ہے۔ ﴿وَ اللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ يَشَآءُ﴾ (البقرة: 105) ترجمہ: ”حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص فرما لیتا ہے“۔

جاننا چاہیے کہ پچھلے بیان سے اس عبارت کے معنیٰ واضح ہو گئے جو رسالہ "مبدا و معاد" میں اس عبارت سے پہلے تحریر کی گئی ہے کہ "حقیقتِ کعبہ ربانی حقیقت محمدی کی مسجود ہو گئی"۔ کیونکہ کعبہ ربانی کی حقیقت بعینہ حقیقتِ احمدی ہے جو فی الحقیقت حقیقتِ محمدی اس کا ظل ہے پس لازمًا حقیقتِ محمدی کی مسجود ہو گی۔

اگر سوال کریں کہ کعبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے اولیاء کے طواف کے لئے آتا ہے اور ان سے برکات حاصل کرتا ہے حالانکہ اس کی حقیقت، حقیقتِ محمدی پر مقدم ہے تو پھر یہ معنی کس طرح جائز ہوں گے؟ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ حقیقتِ محمدی تنزیہ و تقدیس کی بلندی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقامات نزول کی انتہا ہے۔ اور حقیقتِ کعبہ عروج کعبہ کے مقامات کی انتہا ہے۔ اور حقیقتِ محمدی کے لئے مرتبہ تنزیہ پر عروج زینۂ اول حقیقتِ کعبہ ہے اور اس (حقیقت محمدی کے) عروجات کی نہایت کو حق سبحانہٗ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے کامل اولیاء کو آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے عروجات سے نصیبِ تام (پورا حصہ) حاصل ہے پھر اگر کعبہ ان بزرگواروں سے برکات حاصل کرے تو کیا تعجب ہے۔

زمیں زادہ بر آسماں تاختہ

زمین و زماں را پس انداختہ

ترجمہ:

زمین والے اتنے فلک پر چڑھ

زمین و زماں ان سے پیچھے رہے

اور دوسری عبارت بھی جو اس رسالہ کے اس مقام پر واقع ہے وہ بھی حل ہو گئی اور وہ عبارت یہ ہے کہ "صورتِ کعبہ جس طرح کہ اشیاء کی صورتوں کی مسجود ہے اسی طرح حقیقت کعبہ بھی ان اشیاء کی حقیقتوں کی مسجود ہے" کیونکہ پچھلے مقدمات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حقائقِ اشیاء ان اسمائے الہی جل سلطانہٗ سے مراد ہے جو ان کے فیوض وجودی اور توابع وجودی کا مبدا ہے اور حقیقتِ کعبہ ان اسماء سے فوق ہے پس یقینًا حقیقتِ کعبہ حقائق اشیاء کی متبوع ہو گی۔ ہاں اگر کامل ترین اولیاء کو حقیقتِ کعبہ سے بالا تر سیر حاصلِ ہو جائے اور وہ انوارِ بالا کو حاصل کر کے اپنے حقائق کے مراتب میں جو مراتبِ عروج میں اشیا کے طبعی مقامات کی مانند ہیں، نیچے اتر آئیں تو کعبہ بھی ان کی برکات سے توقع رکھے گا، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

اور اسی طرح رسالہ "مبدا و معاد" میں بھی چند فقرے انبیاء اولو العزم صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علیہم کے ایک دوسرے سے افضل ہونے کے بارے میں لکھے گئے تھے یعنی ان کے ایک دوسرے پر افضل ہونے کے معنی چونکہ کشف و الہام پر مبنی ہیں جو ظنی ہیں اس لئے اس کے تحریر کرنے پر اور افضلیت کے بارے میں تفرقہ کرنے پر نادم ہوں اور توبہ کرتا ہوں کیونکہ اس باب میں دلیل قطعی کے علاوہ بات کرنا جائز نہیں۔ "أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَ أَتُوْبُ إِلَی اللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ مَا کَرِہَ اللّٰہُ قَوْلًا وَّ فِعْلَا" (میں ان تمام اقوال و افعال سے جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں نا پسندیدہ ہیں معافی مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں)

آپ نے اپنے خط میں تحریر کیا تھا کہ "سرائے فرخ میں میں نے دریافت کیا تھا کہ مجھے تعلیم طریقت طالبوں کو سکھانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا تھا "نہیں" فقیر کو یاد نہیں کہ (اس بارے میں) مطلق نفی کی ہو، بلکہ یہ کہا ہو گا کہ وہ شرائط کے ساتھ مشروط ہے مطلقاً اجازت نہیں ہے اور اب بھی اسی طرح جانیں۔

چاہیے کہ شرائط کی رعایت میں بہت احتیاط برتیں اور ہرگز سستی نہ کریں۔ جب تک استخاروں کے ذریعے یقین نہ ہو جائے اس وقت تک تعلیمِ طریقت نہ دیں۔ برادرم مولانا یار محمد قدیم کو بھی اس بات سے آگاہ کر دیں اور بہت تاکید کے ساتھ کہہ دیں کہ تعلیمِ طریقت میں جلدی نہ کریں۔ (پیری مریدی کی) دکان کھولنا مقصود نہیں ہے بلکہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مرضی کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اطلاع دینا ہمارا کام ہے۔

دوسرے آپ نے اپنے مریدوں کی شکایت کی تھی تو (اس شکایت کی بجائے) اپنی وضع کا گلہ کیجئے کیونکہ آپ اس جماعت کے ساتھ اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں آپ کو آزار و تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ پیر کو چاہیے کہ مرید کی نظر میں خود کو شان و شوکت سے رکھے نہ یہ کہ ان سے خلط ملط کا دروازہ کھول دے اور مصاحبانہ سلوک کر کے شکوہ و شکایت کا ہنگامہ کھڑا کر دے۔ والسلام۔

؂1 آپ کے نام 33 مکتوبات ہیں، آپ کا تذکرہ دفتر اول کے مکتوب 119 پر ملاحظہ ہو۔

؂2 اس مکتوب سے مراد دفتر اول کا مکتوب نمبر 287 ہے۔

؂3 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! مَتٰى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: "وَ آدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَ الْجَسَدِ"۔ (رَوَاهُ التِّرْمَذِيُّ، حدیث نمبر: 3609)

؂4 أَخْرَجَ الدَّارِمِيُّ وَ التِّرْمَذِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: وَ مَا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيْدِي وَ إِنَّا لَفِيْ دَفْنِهٖ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوْبَنَا" (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3618)

؂5 مَثَلُ أُمَّتِیْ مِثْلَ الْمَطَرِ لَا یُدْرٰی أَوَّلُہٗ خَیْرٌ أَمْ آخِرُہٗ (یعنی میری امت کا حال بارش کی مانند ہے نہیں معلوم کے بارش کا پہلا حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ) اس کو ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور الفاظ کے اختلاف کے ساتھ احمد نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور ابو یعلی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور طبرانی نے عمر بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔

؂6 عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: "لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِيْ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَ لَا نَصِيفَهُ" رَوَاهُ الشَّیْخَانِ۔ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 6007)