مکتوب 207
میرزا حسام الدین احمد1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ جسموں کے قرب کو دلوں کے قرب میں عظیم تاثیر ہے اور اس بیان میں کہ وجد و حال کو جب تک شرع شریف کے ترازو میں نہ تول لیں نیم جتیل سے بھی نہیں خریدتے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) مدت ہوئی جناب کی اور مخدوم زادوں کی اور صاحب زادے میاں جمال الدین حسین اور باقی دیگر عزیزوں اور بلند بارگاہ کے خادموں بالخصوص میاں شیخ اللہ داد و میاں شیخ اللہ دیا کی خیر و عافیت معلوم نہ ہو سکی، اس کا مانع اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ شاید آپ نے اس دور افتادہ کو فراموش کر دیا ہو۔ ہاں بدنوں کے قرب کو دلوں کے قرب میں عظیم تاثیر ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی ولی صحابہ کے مرتبے کو نہیں پہنچتا، حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ اس قدر بلند مرتبہ ہونے کے با وجود چونکہ حضرت خیر البشر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی صحبت کا شرف حاصل نہ کر سکے اس لئے کسی ادنیٰ صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکے۔ کسی شخص نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ وہ غبار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہوتے ہوئے حضرت امیر معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہوا تھا وہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کئی درجے بہتر ہے۔
اس طرف کے حال و احوال مع متعلقین اور توابع کے بخیر و عافیت ہیں۔ اس پر بلکہ ان تمام نعمتوں اور بالخصوص اسلام کی نعمت اور سید الأنام علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت پر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کیونکہ اصل مقصود یہی ہے اور نجات کا دار و مدار اور دنیا و آخرت کی سعادت اسی پر وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سید المرسلین علیہ و علی آلہ و علیہم الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کے طفیل اس پر ثابت قدم رکھے۔
کار این ست و غیر ایں ہمہ ہیچ
ترجمہ:
کام بس یہ ہے باقی سب ہیچ ہے
صوفیوں کی ترہات (سکر و مستی کی حالت میں جو خلافِ شرع باتیں سر زد ہوتی ہیں) ان سے کیا حاصل ہوتا ہے اور ان کے احوال سے کیا اضافہ ہوتا ہے وہاں وجد و حال کو جب تک شریعت کے میزان پر نہ تول لیں، نیم جتیل (آدھا پیسہ) کے عوض بھی نہیں خریدتے، اور کشف و الہام کو جب تک کتاب و سنت کی کسوٹی پر نہ پرکھ لیں نیم جو کے بدلے میں بھی قبول نہیں کرتے۔ صوفیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے طریقے پر چلنے سے مقصود یہ ہے کہ معتقداتِ شرعیہ کا جو کہ ایمان کی حقیقت ہیں، زیادہ یقین حاصل ہو جائے اور احکامِ فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی امر مقصود نہیں ہے کیونکہ رویتِ باری تعالیٰ کے آخرت میں ہونے کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ دنیا میں ہرگز واقع نہیں ہو گی۔
وہ مشاہدات و تجلیات جن کے ساتھ صوفیہ خوش ہوتے ہیں وہ صرف ظلال سے آرام پانا اور شبہ و مثال سے تسلی حاصل کرنا ہے کیونکہ حق تعالیٰ ان سب سے وراء الوراء ہے۔ عجب کار و بار ہے کہ اگر ان مشاہدات و تجلیات کی حقیقت پوری طرح بیان کر دی جائے تو اس بات کا خوف ہے کہ اس راستے کے مبتدیوں کی طلب میں فتور اور ان کے شوق میں قصور واقع ہو جائے گا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر علم کے با وجود کچھ بھی نہ کہا جائے تو حق، باطل کے ساتھ ملا رہے گا۔
یَا دَلِیْلَ الْمُتَحَیِّرِیْنَ دُلَّنِیْ بِحُرْمَۃِ مَنْ جَعَلْتَہٗ رَحْمَۃَ لِّلْعَالَمِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الَّصَلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ (اے سر گشتہ اور حیران لوگوں کو راہ دکھانے والے ہم کو رحمۃ للعالمین علیہ و علی آلہ الصلوات و التسیمات کے طفیل سیدھے راستے کی ہدایت فرما)
کبھی کبھی اپنی کیفیات کے احوال سے مطلع فرماتے رہیں کیونکہ یہ امر محبت میں اضافے کا باعث ہے، اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوات و التحیات و التسلیمات افضلہا و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم جانا۔
1 آپ کے نام سولہ مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 32 پر گزر چکا ہے۔