دفتر 1 مکتوب 194: ملت کو رواج دینے اور دین کی ترغیب میں اور اس کے متعلقات کے بیان میں

مکتوب 194

صدر جہاں؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ ملت کو رواج دینے اور دین کی ترغیب میں اور اس کے متعلقات کے بیان میں۔

سَلَّمَکُمُ اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ عَافَاکُمْ (اللہ سبحانہٗ آپ کو سلامت اور عافیت سے رکھے) احکام شرعیہ کے جاری کرنے اور ملت حضرت محمد مصطفےٰ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے دشمنوں کی ذلت و خواری کی خبریں سن کر غم زدہ مسلمانوں کے دل کو فرحت اور روح کو تازگی حاصل ہوئی۔ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے اور اللہ تعالیٰ مالک و قدیر سے سوال ہے کہ وہ اپنے نبی بشیر و نذیر علیہ و علی آلہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کے طفیل اس اہم کام میں ترقی عطا فرمائے۔

یقین ہے کہ مقتدایان اسلام خواہ وہ ساداتِ عظام ہوں یا علمائے کرام خلوت و جلوت میں دین متین کی ترقی اور صراط مستقیم کی تکمیل میں سر گرم رہیں گے۔ (یہ فقیر) بے سر و سامان اس معاملے میں کیا گفتگو کرے۔ سنا گیا ہے کہ بادشاہِ اسلام (جہانگیر) اسلامی استعداد کی خوبی حاصل ہو جانے کی وجہ سے علماء کا خواہاں ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبْحَانَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ۔

آپ کو معلوم ہے کہ زمانۂ سابق (عہد اکبری) میں جو فساد پیدا ہوا تھا وہ علماءِ سوء کی بد بختی کی وجہ سے ظہور میں آیا تھا، اس لئے امید ہے کہ پورے پورے تتبع (چھان بین کو) مد نظر رکھ کر دین دار علماء کا انتخاب کر کے پیش قدمی کریں گے۔ علماءِ سو جو دین کے چور اور ڈاکو ہیں، ان کا مقصود حب جاہ و ریاست اور مخلوق کے نزدیک قدر و منزلت حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے فتنے سے بچائے۔

ہاں ان میں سے جو بہترین (علماء) ہیں وہ بہترینِ خلائق ہیں، کل قیامت کے دن ان کی سیاہی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے خون سے وزن کیا جائے گا اور سیاہی والا پلہ بھاری رہے گا۔ "شَرُّ النَّاسِ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ وَ خَیْرُ النَّاسِ خِیَارُ الْعُلَمَاءِ"؂2 ترجمہ: ”تمام لوگوں میں سے برے بد ترین علماء ہیں اور تمام لوگوں میں بہتر بہترین علماء ہیں“۔

دوسری عرض یہ ہے کہ بعض نیتیں آمادہ کرتی ہیں کہ (یہ فقیر) لشکر میں پہنچے لیکن ماہِ رمضان مبارک کے قریب ہونے کے باعث دہلی میں قیام کرنے کا اتفاق ہو گیا، ان شاء اللہ اس ماہ مبارک کے گزرنے پر عزیزوں کی خدمت میں پہنچ جائے گا۔ و السلام۔

؂1 صدر جہاں کے نام دو مکتوب ہیں دفتر اول مکتوب 194 اور 195۔ آپ "پہانی" مضافات قنوج کے رہنے والے تھے۔ شیخ عبد النبی کی خدمت میں علم حاصل کیا، کچھ عرصہ ممالکِ محروسہ کے مفتی رہے، پھر توران کی سفارت پر گئے۔ بعد ازاں صدارت پر سرفراز ہوئے ایک سو بیس سال کی عمر پائی اور سنہ 1027ھ اپنے وطن میں وفات پائی۔

؂2 رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔