دفتر 1 مکتوب 191: انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کی متابعت کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ شرعی احکامات میں آسانی اور سہولت کی پوری رعایت رکھی گئی ہے

مکتوب 191

(عبد الرحیم) خانِ خاناں؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کی متابعت کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ شرعی احکامات میں آسانی اور سہولت کی پوری رعایت رکھی گئی ہے۔

﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ھَدَانَا لِھٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَآ أَنْ ھَدَانَا اللہُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔

سعادتِ ابدی اور نجاتِ سرمدی انبیاء کرام صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہٗ سبحانہٗ علی اجمعہم عمومًا و علی افضلہم خصوصًا کی تابع داری کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر بفرضِ محال ہزار سال عبادت کی جائے اور سخت قسم کی ریاضتیں اور مجاہدات کئے جائیں لیکن ان بزرگواروں (انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام) کی متابعت کے نور سے منور نہ ہوں تو ان کی قیمت جَو کے برابر بھی نہیں۔ اور جو قیلولہ (دوپہر کا سونا) جس میں سرا سر غفلت و تعطل ہوتا ہے، اگر ان برگزیدگان (انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام) کے حکم کے مطابق کیا جائے تو (اس وقت کے مجاہدات) اس نیند کے برابر نہیں ہیں بلکہ (اس وقت کی) عبادت سراب (چٹیل میدان) کی مانند ہے۔ حق تعالیٰ جل سلطانہٗ کی کمال درجہ عنایت ہے کہ اس نے تمام شرعی تکالیف (احکام) اور دینی امور میں نہایت آسانی اور بے انتہا سہولت کی رعایت رکھی ہے مثلًا دن رات کے آٹھ پہروں میں سترہ رکعات فرض ادا کرنے کی تکلیف دی گئی ہے کہ ان کی ادائیگی میں مجموعی طور پر ایک ساعت (گھنٹہ) بھی نہیں لگتا۔ اس کے علاوہ (ان رکعتوں میں) جس قدر قرأت میسر ہو سکے اس پر کفایت کی اجازت ہے۔ (نماز میں) اگر کھڑا ہونا مشکل ہو تو بیٹھنے کی بھی اجازت ہے اور بیٹھنا مشکل ہو تو عذر میں (قبلہ رُو) پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرنے کی اجازت دے دی، اور جب رکوع و سجود دشوار ہوں تو اشاروں سے ادا کرنے کی اجازت ہے۔ اگر طہارت حاصل کرنے کے لئے پانی استعمال کرنے پر قدرت نہ ہو تو اس کی جگہ تیمم کو وضو کا بدل بنا دیا، اور زکوٰۃ میں چالیسواں حصہ مساکین و فقراء کا مقرر کر دیا اور اس کو بھی بڑھنے والے اموال و چرنے والے جانوروں پر منحصر رکھا، اور تمام عمر میں ایک مرتبہ حج کو فرض قرار دیا اور اس کو بھی زادِ راہ (سفر خرچ) سواری اور راستے کے امن پر مشروط رکھا ہے، اور مباح چیزوں کا دائرہ بہت وسیع کر دیا (مثلًا) بیک وقت چار عورتیں نکاح کے ساتھ اور زر خرید کنیزیں جس قدر چاہیں حلال کر دیں۔ اور (نا خوش گوار حالات میں) طلاق کو عورتوں کے تبدیل کرنے کا ذریعہ بنایا اور کھانے پینے اور پہننے کی اکثر چیزوں کو مباح کر دیا۔ ان میں سے بہت کم چیزیں ایسی ہیں جن کو بندوں کی مصلحتوں (بہتری اور فائدے) کی خاطر حرام قرار دیا۔ (مثلًا) ایک بد مزہ، نقصان دہ شراب کو حرام کر کے اس کے عوض بہت سے خوش ذائقہ فائدہ مند شربتوں کو حلال کیا ہے۔ عرقِ لونگ، عرقِ دار چینی اپنی خوشبو اور خوش ذائقے کے علاوہ اپنے اندر اتنے فوائد اور منافع رکھتے ہیں کہ ان کو کہاں تک لکھا جائے۔ وہ چیز جو کڑوی بد مزہ اور ناگوار تیز بو، بد خو، ہوش و حواس کھو دینے والی اور پر خطر (یعنی شراب) ہے، اس خوشبو والے عرق سے کیا مناسبت رکھتی ہے۔ شَتَّانَ مَا بَیْنَھُمَا (ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے) وہ فرق جو حلال و حرام کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ دوسری بات ہے اور وہ فرق جو پروردگار جل سلطانہٗ کی رضا مندی اور نا راضگی کی وجہ سے ہو وہ الگ ہے۔

اور (مردوں کے لئے) ریشمی لباس کو اگر حرام کر دیا گیا تو کیا مضائقہ ہے، جب کہ اس کی بجائے زیب و زینت کے کپڑے اور مزین لباس حلال کر دیئے گئے، اور پشمینہ (اونی) کپڑوں کا لباس مطلقاً مباح ہے جو ریشم کے لباس سے کہیں بہتر ہے۔ اسی طرح ریشم کے لباس کو عورتوں کے لئے حلال فرما دیا کہ عورتوں کی زیب و زینت کا فائدہ آخر کار مردوں ہی کو حاصل ہوتا ہے اور ایسے ہی چاندی سونے کا حال ہے کہ عورتوں کے زیورات کو مردوں کے لئے فائدے اور خوشی کا باعث بنا دیا۔

اگر کوئی بے انصاف شخص (شریعت کی) اس سہولت اور آسانی کو مشکل اور دشوار سمجھے تو وہ قلبی مرض میں مبتلا ہے اور باطنی علت میں گرفتار ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں کہ تندرست لوگ ان کو آسانی سے انجام دے سکتے ہیں لیکن کمزور لوگوں پر ان کا ادا کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ قلبی مرض سے مراد آسمان سے نازل شدہ احکام پر عدم یقین ہے۔ ایسے لوگوں کو جو تصدیق حاصل ہوتی ہے وہ صرف صورتِ تصدیق ہے، حقیقتِ تصدیق نہیں۔ حقیقتِ تصدیق حاصل ہونے کی علامت احکامِ شرعیہ کے ادا کرنے میں (طبیعت میں) آسانی کا پایا جانا ہے۔ وَ بِدُوْنِھَا خَرْطُ الْقِتَادِ (اور اس کے بغیر کانٹوں میں ہاتھ ڈالنا ہے)۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ إِلَیْہِ اَللہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَھْدِیْ إِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ﴾ (الشوریٰ: 13) ترجمہ: ”مشرکین کو وہ بات بہت گراں گزرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے“۔ اور سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی راہ پر چلا اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات أتمہا و أکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کرے۔

؂1 آپ کے نام 13 مکتوبات ہیں، آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 23 صفحہ نمبر 96 پر ملاحظہ ہو۔