مکتوب 169
شیخ عبد الصمد سلطان پوری1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس کے سوال کے جواب میں کہ کسی مرید نے اپنے پیر سے کہا کہ اگر میرے خاص وقت میں جب کہ میں حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہوں اگر آپ بھی درمیان میں آ جائیں تو آپ کا سر تن سے جدا کر دوں۔ اس کے پیر نے اس بات کو بہت پسند کیا اور (خوش ہو کر) مرید سے بغل گیر ہو گئے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعلَمِیْنَ وَ الصَّلَوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہِ الطَّاھِرِیْنَ أَجْمَعِیْنَ۔ مراسلہ شریفہ لطف و کرم سے بھرا ہوا نوازش نامہ موصول ہو کر فرحت و خوشی کا باعث ہوا۔ اس میں ایک سوال درج تھا۔
میرے مخدوم! مقصد اقصیٰ (بہت دور) اور مطلب اسنیٰ (روشن) یعنی اصل مقصد خدا وند جل سلطانہٗ کی جناب قدس کا وصول ہے لیکن چونکہ طالب شروع میں مختلف تعلقاتِ شتیٰ (پراگندہ) کی وجہ سے حد درجہ گندگی و پستی میں ہے اور وہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ انتہائی پاکیزگی اور بے حد بلندی پر ہے لہذا وہ مناسبت جو فیض دینے اور فیض حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے وہ طالب و مطلوب کے درمیان مسلوب (بند) ہے۔
اس لئے راستہ جاننے والے پیر و مرشد کے بغیر چارہ نہیں، جو دونوں کے درمیان بمنزلہ برزخ (واسطے) کے ہو اور دونوں جانب سے حظِ وافر (بہت زیادہ حصہ) رکھتا ہو، تاکہ وہ طالب کو مطلوب تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکے، اور جب طالب کو مطلوب کے ساتھ پوری مناسبت حاصل ہو جاتی ہے تو پیر اپنے آپ کو درمیان سے نکال لیتا ہے اور طالب کو مطلوب سے اپنے واسطے کے بغیر واصل کرا دیتا ہے۔ لہذا شروع میں اور وسط میں (مرید) مطلوب حقیقی کو پیر کے آئینے کے بغیر نہیں دیکھ سکتا اور انتہا میں پیر کے آئینے کے بغیر مطلوب کا جمال جلوہ گر ہو جاتا ہے اور بے پردہ وصل حاصل ہو جاتا ہے۔
اور یہ جو کہا ہے کہ پیر بھی اگر اس وقت آ جائے تو اس کا سر تن سے جدا کر دوں، یہ جملہ سکر کی حالت میں کہا گیا ہے۔ ارباب استقامت ایسا نہیں کہتے اور بے ادبی کا طریقہ اختیار نہیں کرتے اور اپنی مرادوں کو پیر ہی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں، و السلام۔
1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، مزید حالات بھی معلوم نہ ہو سکے۔