دفتر اول مکتوب 159
شرف الدین حسین بدخشی1 کی طرف صادر فرمایا۔ بسلسلہ تعزیت۔
اگرچہ آلام و مصائب بظاہر کڑوے اور تلخ ہیں لیکن باطن میں شیریں اور روح کو لذت بخشنے والے ہیں۔ کیونکہ جسم و روح دونوں آپس میں ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں، ایک کی تکلیف دوسرے کے لئے لذت کا باعث ہے۔ پس جو پست فطرت آدمی ان دو ضدوں کے درمیان اور جو اُن کے لوازمات ہیں، ان کے درمیان تمیز نہیں کر سکتا وہ ہماری بحث سے خارج اور قابلِ توجہ نہیں۔ ﴿أُولَآئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ﴾ (الأعراف: 179) ترجمہ: ”وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں“۔ ؎
آ گہہ از خو یشتن چو نیست جنین
چہ خبردار از چنان و چنیں
ترجمہ:
پیٹ کے بچے کو خود کی کیا خبر
پھر وہ کیا جانے اِدھر کیا، کیا اُدھر
جس شخص کی روح مائل بہ تنزل ہو کر جسم کے مرتبہ میں قرار پا لے اور اس کا عالمِ امر، عالمِ خلق کے تابع ہو جائے وہ اس معّما کے راز کو کیا جانے۔ جب تک کہ روح اپنے اصلی مقام کی طر ف واپس نہ لو ٹے اور امرِ خلق سے جدا نہ ہو جائے۔ اس وقت تک معرفت کا جمال جلوہ گر نہیں ہو سکتا، اس دولت کا حصول ایسی موت سے وابستہ ہے جس سے پہلے حسیّ اور صوری موت حاصل ہو جائے، اور مشائخ طریقت قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے اس کو فنا سے تعبیر کیا ہے؎
خاک شو خاک تا بروید گل
کہ بحز خاک نیست مظہر گل
ترجمہ:
خاک بن جاؤ تو بن جاؤ گے پھول
خاک ہی میں سے اُگا لاؤ گے پھول
اور جس شخص نے مرنے سے پہلے مقامِ فنا حاصل نہیں کیا وہ مصیبت میں مبتلا ہے اور اس کے لئے ماتم کرنا چاہیے۔ آپ کے والد مرحوم کے انتقال کی خبر جو کہ نیک نامی میں مشہور تھے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں بہت زیادہ محتاط تھے، مسلمانوں کے لئے حزن و ملال کا سبب ہوئی ﴿إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156) ترجمہ: ”ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے“۔ اس فرزند کو چاہیے کہ شیوہ صبر اختیار کرتے ہوئے آگے جانے والوں (یعنی مرنے والوں) کی صدقہ، دعا، اور استغفار کے ذریعہ امداد و اعانت کریں، کیونکہ مردوں کو زندہ کی طرف سے امداد کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ حدیث نبوی علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات میں ہے: "مَا الْمَيِّتُ إِلَّا كَالْغَرِيْقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلحَقُهٗ مِنْ أَبٍ أَوْ أَمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيْقٍ فَإِذَا لَحِقَتْہُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَ مَا فِيْهَا وَ إِنَّ اللهَ لَيُدْخِلُ عَلٰى أَهْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ إِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الْاِسْتِغْفَارُ لَهُمْ" (في المشكاة باب الاستغفار من رواية البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عبارس رضي الله عنه مرفوعا) ترجمہ: ”میت کی مثال ڈوبنے والے اور فریاد کرنے والے کی مانند ہے، وہ ہر وقت دعا کی منتظر رہتی ہے جو اُسے باپ، ماں، بھائی، دوست اور متعلقین کی طرف سے پہنچتی ہے۔ جب اس کو ان میں سے کسی کی طرف سی دعا پہنچتی ہے تو وہ اس کو دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور یقینًا اللہ تعالیٰ زمین والوں کی دعا سے اہلِ قبور پر پہاڑوں کی مانند رحمت نازل فر ماتا ہے، اور زندوں کا مردوں کے لئے ہدیہ یہ ہے کہ ان کے لئے استغفار کریں“۔
باقی نصیحت یہ ہے کہ ہمیشہ ذکر کی کثرت اور فکر کی مداومت میں رہیں کیونکہ وقت بہت کم ہے اور اس کو بہت ضروری کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔ و السلام۔
1 آپ کا مختصر تذکرہ اور مکتوبات کی تفصیل کے لیے دفتر اول مکتوب 146 کا فٹ نوٹ ملاحظہ ہو۔