جذب

مرے استاد مجھے آۓ جذب کا معنیٰ

کہ یہ اللہ کی محبت ہی کا ہے پانا

جذب کا راستہ، اللہ کی طرف جاتا ہے

جذب،مجذوب کو اللہ سے ملاتا ہے

اس سے مجذوب، خدا کا قرب خوب پاتا ہے

اس کے دل میں صرف اللہ ہی سماتا ہے

یہ اگر یوں ہے تو مجذوب مقتدا کیوں نہیں؟

جس کا یہ مستحق ہے، وہ صلہ ملا کیوں نہیں؟

جذب دنیا کی محبت سے نکالے ہے خوب

اس کے نقصان جو ہیں ان سے بچالے ہے خوب

ہر خطا اس سے جو ہے اس سے چھڑا لے ہے خوب

دل کو اللہ کی محبت سے سجالے ہے خوب

لوگ مجذوب بننے سے پھر کیوں ڈرتے ہیں؟ کنی کترا کے مجذوب سے کیوں گزرتے ہیں؟

استاد

مرے بیٹے جذب کی راہ ہے شاندار بہت

اس سے ملتا ہے یقیناً خدا کا پیار بہت


اس میں تیزی ہے مگر تیزی بھی قابو میں رہے

جس طرح اچھے ڈرایٔیور کے ہاتھ سے گاڑی چلے

اور اگر تیزی سے کوئی بھی سڑک سے پھسلے

اتنی تیزی میں پھسلنے سے اس کا کیا پھر بچے؟

جذب قابو میں ہو تو ہے یہ کامیابی پھر

بے قابو جذب کے قریب نہیں بالکل گزر

جو مرشدین ہیں، اس کا خیال بہت رکھتے ہیں

وہ مریدوں کا بھی اندازہ خوب کرسکتے ہیں

جن کے پیمانے، وہ جانیں کہ بس چھلکتے ہیں

ان کو دیتے نہیں، وہ دور سے ہی چکھتے ہیں

جب ہے مطلوب اسی جذب سے، خدا کا بننا

علم باعمل ہو نہ کہ شور و غوغا کا بننا

آپ نے خدی کو عورتوں کے لیٔے رکوایا

اس طرح جذب کے کنٹرول کو بھی سکھلایا

جو ہیں نازک تو یہ ان کے لیٔے ہی فرمایا

شیشے ہیں ٹوٹ نہ جائیں گر خدی کو گایا

شاخ نازک پہ وزن ڈالنا اچھا نہیں ہے

تار نازک جو ہے وہ زور سے ہلانا نہیں ہے

جذب ایک وہ کہ عمل کے لیٔے دیوانہ بنے

دل سے اعمالِ شریعت پہ ہمیشہ وہ چلے

اور دنیا کی محبت سے وہ بس دور رہے

اپنے محبوب کی محبت کا یوں دم بھرتا رہے

ایسے مجذوب کا مقام ہے پھر سب سے بلند

کہ خدا کا ہے وہ اور وہ بھی خدا کو ہے پسند

جذب ہے دوسرا،کہ جذب سے بس جل جاۓ

یعنی ذکر و مجاہدہ میں نہ سنبھل جاۓ

عقل اس میں نہ رہےیعنی دماغ چل جاۓ

یعنی اعمال کی مشین ہی بس گل جاۓ

ایسا مجذوب اب اعمال کا مکلف ہی نہیں

پر اس کے ساتھ ترقی کا ذریعہ بھی نہیں

وہ تھا عاشق، عشق کی ہے وہ زندہ لاش مگر

اک امتحان ہے لوگوں کا، اس پہ جب ہو نظر

بوجھ کسی اور کی تربیت کا نہیں ہے اس پر

بے ادبی نہ کرے کوئی اس کی، اس کا ہو ڈر

ایسے مجذوبوں کو ہوتے ہیں کشف بھی دیکھو

پر ان سے لینے کو، اس کو کبھی نہیں دیکھو

یہ میزائل کی طرح چلتے ہیں، بچ کے رہنا

جو یہ دیں، خطرہ ہے اس میں، نہ کچھ اس سے لینا

خدمت کے واسطے دینا ہو تو وہ دے دینا

دین کی بات میں اس کے نہیں پیچھے رہنا

دین کی بات مشائخ علما سے لے تو

اس طرح دل سے رہو حق پہ ہمیشہ یکسو


شاگرد کا سمجھ جانا

جزاک اللہ، کہ آنکھیں کھول دیں آپ نے میری

ماشاءاللہ تشفی اس سے ہوئی ہے میری

میں تو مجذوب کا شیدا تھا اور اعمال کا نہیں

کبھی واقف رہا اس میں، میں اصلی حال کا نہیں

کبھی پتا چلا اس میں شیطان کے جال کا نہیں

جواب کو کیا میں سمجھتا، پتا سوال کا نہیں

آپ نے اعمال کو جب حال سے ملادیا اب

جو اصلی جذب ہے بیشک وہ سمجھ آگیا اب

آپ کے جذب سے مجذوب ہوا جاتا ہوں

آپ کے قلبِ نورانی سے نور پاتا ہوں

اور اسی نور کے لیٔے آپ کے پاس آتا ہوں

یہ علم نور ہے اب سب کو یہ بتاتا ہوں

کیا مجھے آپ اب سینے سے لگائیں گے استاد؟

میں کہ طالب ہوں خدا سے اب ملائیں گے استاد؟




استاد

بیٹا بیشک مری باتوں سے فائدہ تو ہوا

کہ ترا حق بھی شاگردی کا کچھ ادا تو ہوا

میں ہوں جیسے بھی مگر آپ کا بھلا تو ہوا

اور جانبین کا اچھا یہ معاملہ تو ہوا

پر مگر شیخ نہیں میں، شیخ کو ڈھونڈنا ہے تجھے

اور اسی شیخ کے پیچھے ہر وقت چلنا ہے تجھے

شیخ کی صفات اسی فکرِ آگہی سے جان لیں

اور ان صفات کے ذریعے پھر اس کو پہچان لیں

اس سے بیعت ہو تربیت میں بس پھر اس کی مان لیں

تجھ کو بننا خدا کا اس سے ہے دل میں ٹھان لیں

یہ ہی شبیرؔ کی ہے فکر آگہی کا نچوڑ

حال سے متصف، کیفیت جذبی کا نچوڑ