ایک مفتی شیخ سے
مرے شیخ،میں نے تصوف کی اک کتاب میں پڑھا
وہی اچھا ہے جس کا دین میں ہوعمل سادہ
وہ شریعت پہ ہو چلتا، صرف کیفیات پر نہیں
ان کا پختہ ہو یقین رب پہ، ظنیات پہ نہیں
وہ انحصار رکھے خوابوں اور کشفیات پہ نہیں
عمل ہمیش رکھے سنت پہ ہی، بدعات پہ نہیں
وہ ایک عام شخص کی طرح نظر آۓ
پیچیدگیوں، باریکیوں سے وہ باہر آۓ
یہ اگر ٹھیک ہے، تصوف کی ضرورت کیا ہے؟
مجاہدوں، ذکر و اذکار کی حاجت کیا ہے؟
پھر کیا سمجھوں کہ اس کی ساری محنت کیا ہے؟
جب شریعت ہی ہے مقصود تو طریقت کیا ہے؟
یہ وساوس مجھے آرام سے بیٹھنے دیتے نہیں
اس لیٔے میں، شروع جہاں سے کیا ہے، ہوں وہیں
شیخ
مفتی صاحب، کتاب سے آئیں کتابی باتیں
کھلیں عمل سے ہی عامل پہ ہی عملی باتیں
اور وسوسوں سے تو آتی ہیں شیطانی باتیں
سستی اس کام میں لاتی ہیں نفس کی باتیں
جو عالیشان تھی اک چیز، اس کا یہ انجام
کاش مفتی سارے سمجھ جائیں،کہ کیا ہے یہ کام؟
ایک مبتدی، ایک متوسط، ایک منتہی سمجھو
کام ہو اک، اس میں حالت پھر ہر اک کی سمجھو
منتہی کی بھی حالت پھر،مبتدی کی سمجھو
متوسط ہو جدا ان سے، تو یہی سمجھو
تکلیف میں دونوں مبتدی،منتہی روتے ہیں
متوسط رہتے خاموش ہیں یا خوش ہوتے ہیں
مبتدی کو نفس کی تکلیف پہ پریشانی ہو
منتہی کو خدا کو عاجزی دکھانی ہو
متوسط کو تو ان دونوں پہ حیرانی ہو
نفسِ مضمون سے، کڑی اس کی گرملانی ہو
دیکھ منتہی، مبتدی کی طرح نظر آۓ
کیا دونوں ایک ہونے کا خیال دل پر آۓ؟
ایک کے عمل کا محرک نفس کا اثر ہی ہے
جو منتہی ہے نظر اس کی خدا پر ہی ہے
سنت پہ منتہی کی یہ عملی نظر ہی ہے
سامنے گو کہ نتیجہ تو برابر ہی ہے
اصل میں دونوں میں فرق،مشرق و مغرب کا ہے
سن لیں کہ فیصلہ نیت پہ محتسب کا ہے
اب منتہی بھی،مبتدی کی طرح آۓ نظر
دونوں نیت کی وجہ سے ہوں مختلف مگر
متوسط کا پل پار کرنا کسی کو ہو اگر
صرف کتابوں سے کہاں جاۓ بھلا نفس کا اثر
مجاہدوں سے سب کچھ نفس کو منوانا پڑے گا
ذکر اذکار سے روشن دل کو کروانا پڑے گا
صحیح صوفی کا سروکار کشفیات سے نہیں
یہ شریعت پہ ہی چلتے ہیں ظنیات پہ نہیں
دل سے سنت پر عمل کرتے ہیں، بدعات پہ نہیں
حکم دیکھتے ہیں، چلتے نفس کی خواہشات پہ نہیں
نفس کی خواہش کو دبانا ہی تصوف تو ہے
اس کا حق کی طرف لانا ہی تصوف تو ہے
حال کہتے ہیں کبھی عارضی کیفیت کو
کبھی اعمال میں جان ڈالنے کی صلاحیت کو
سیاق سباق سے جان لو اس کی اصلیت کو
پھر دیکھ اعمال میں جان ڈالنے کی اہمیت کو
اس کے حامل کو صوفیاء پھر مرد حال کہیں
جاننے والے اسی کو تو ہی کمال کہیں
مصنف نے پھر تصوف کا بتایا کیا ہے؟
سب کے آخر میں نتیجہ پھر نکالا کیا ہے؟
اپنے قارین کو طریقہ پھر سکھایا کیا ہے؟
منزل پہ پہنچنے کا رستہ پھر بتایا کیا ہے؟
وہ تھا صوفی، رہا صوفی تو آپ بتائیں پھر
یہ نہ ہو، جان مرے فکر آگہی کا سِر