مرے استاد میں نے لوگوں سے کچھ سنا ہے جدید
ان کی باتوں سے مجھے لگ گئی ہے فکر شدید
وہ یہ کہتے ہیں کہ بندوں کے ہیں حقوق ہم پر
وہ نہ ضائٔع ہوں ہمیں اس کا بہت ہی ہے ڈر
ہیں جو اللہ کے حقوق، ان کی بات ہو وے اگر
ان کے دل پر مگر،محسوس نہیں ہوتا کچھ اثر
وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تو ہے کریم بہت
وہ حق معاف کرے اپنا،وہ ہے رحیم بہت
اس کا کیا جاتا ہے، کوئی اگر نماز نہ پڑھے
یا اگر حج نہ کرے یا اگر روزے نہ رکھے
کمی اس کونہیں، کوئی اگر زکوٰۃ نہ دے
ہاں ضروری ہے کہ بندے کا کو ئی حق نہ رہے
اللہ معاف نہ کرے، بندے کا حق جب تک وہ
اس کو بندہ نہیں معاف کرے، یہ سوچو
جو ہیں ڈاکٹر، کہیں مریض کا حق ہےہم پر
نماز پڑھنے سے فارغ خود کو سمجھے دن بھر
گھر کے بچوں کا بھی خیال ہو جب آۓ گھر
اور پھر آرام کی خواہش کرے پوری سو کر
حقوق اللہ جو ٍ ہیں، کے لیٔے وقت رہتا نہیں ہے
کوئی لمحہ عبادت کے لیٔے ملتا نہیںہے
استاد
کیسے تلبیس ہے شیطان کا، میرے بیٹے
حال بناتا ہے کیا انسان کا، میرے بیٹے
اس پہ اثر نہ ہو قرآن کا، میرے بیٹے
اور پیغمبر کے بھی فرمان کا، میرے بیٹے
بیٹے ایمان کا لانا، کیا حق ہے بندوں کا ؟
ذرا یہ پوچھ،حال کچھ دیکھ عقل کے اندھوں کا
بیٹا بندوں کا جو حق ہے وہ حق اللہ ہی کا ہے
اس نے یہ حق مہربانی سے بندوں کودیا ہے
حقوق اللہ کا چھوڑنا کیسے مطلب اس کا ہے؟
بندوں کو اس نے عبادت واسطے پیدا کیا ہے
کوئی بندوں کا حق پورا کرکے مشرک بنے گر
کیا معاف ہوسکتا ہے وہ صرف اس بات پر
ہمیں یہ چاہیے کہ بندوں کے حق پورے کریں
اور اس معاملے میں ہم، ہمیش خدا سے ڈریں
حقوق اللہ جو ہیں ہم ان میں بھی پیچھے نہ رہیں
اور ہر ایک کام میں ہم، دم صرف خدا کا بھریں
اسی کو کہتے ہیں بیٹے، شریعت پر چلنا
خدا کے واسطے جینا ہو اور ہو مرنا
ڈاکٹر مریض کی محبت میں کیا کھاتا نہیں
چستی مریض کو فارغ کرنے میں دکھاتا نہیں
جتنا وقت حق ہے ان کا، کو خاطر میں لاتا نہیں
ان مریضوں سے اپنا مال وہ بناتا نہیں
یہ خدمتوں کے جو الفاظ ہیں وہ رب خوب جانے
بیشک یہاں اس حقیقت کو، نہ کوئی مانے
جب عبادت میں بھی اللہ کی محبت نہ رہے
اس میں اخلاص نہ رہے اور حلاوت نہ رہے
قبول یہ نہ ہو پھر اس پہ بھی حیرت نہ رہے
یعنی بدلہ کچھ اس کا روز قیامت نہ رہے
حقُ العباد میں، حقِ اللہ کا گر خیال نہ رہے
وہ محض رسم ہو پھر، دین کا وہ حال نہ رہے
سارے اعمال کا لازم ہے نیتوں پہ مدار
صحیح نیت نہ ہو تو ہو یہ پھر عمل کا مزار
دل میں اللہ نہ رہے دل میں ہو پھر دنیا مردار
اور آخرت میں پھر بن جاۓ وہ ذلیل اور خوار
بیٹا شیطان یہ چاہتا ہے کہ ہم ایسے بنیں
بولے شبیرؔ، خود ہی سوچ کہ ہم کیسے بنیں؟