فلاں مرید کی مجھ کو سمجھ کیوں آئی نہیں؟
کیوں کسی طرح بھی ترقی اس نے پا ئی نہیں؟
فکر میں اس کی میں، روحانی زندگی کے لیٔے
کوشش میں جتنی کروں اس کی ترقی کے لیٔے
جتنا سمجھاؤں اسے، اس کی بہتری کے لیٔے
وہ بھی کوشش کرے خوبی سے ہاں اسی کے لیٔے
کوئی کوشش مری کارگر کیوں نظر آتی نہیں؟
اس سے ہی پوچھوں، پریشانی تو یہ جاتی نہیں
پیر، مرید سے پوچھتا ہے
میرے بیٹے، یہاں تو کس نیت سے آیا ہے؟
خیال کو نسا یہ تیرے دل پہ چھایا ہے؟
اس خانقاہ میں ڈیرہ کیوں جمایا ہے؟
کس طرح تو نے یہاں کا سراغ پایا ہے؟
کیونکہ نیت پہ ہیں مدار جو سارے اعمال
بعد اس کے ہیں، سارے قال اور سارے احوال
میں ترے دل کے ارادے سے خبردار نہیں
تیری خدمت سے مجھے گو کو ئی انکار نہیں
اور بغیراس کے آگے بڑھنے کو تیار نہیں
کہ اس طریق میں میرا کو ئی اختیار نہیں
خدا ہی دل کے ارادے سے ہوتے ہیں آگاہ
وہی ہر ایک کو دکھاتے ہیں اس طریق میں راہ
مرید جواب دیتا ہے
اے مرے شیخ،مرا دل چاہے کہ حاصل میں کروں
جو آپ کے پاس ہے اس سے خود کو واصل میں کروں
خیر خوبی سے طے پھر سارے منازل میں کروں
پھر باقی لوگوں کو اس کام میں شامل میں کروں
میں بھی خدمت کروں دیں کی جو آپ کرتے ہیں
مجھے یقین ہے آپ حق کی راہ پہ چلتے ہیں
آپ کی خدمات کو دیکھ کر منہ میں پانی آۓ
جو بھی آۓ ہے پاس آپ کے وہ فیض پاۓ
آپ کے در سے خالی ہاتھ نہ کو ئی جاۓ
کاش مجھ کو بھی ہو حاصل یہ سعادت ہاۓ
میں بھی مخلوق کو آپ کی طرح فیضیاب کروں
رب کی مخلوق پہ شفقت، میں بے حساب کروں
پیر کا چونک جانا
اوہ یہی بات تو رکاوٹ ہے ترقی میں تری
یہی تو روڑہ ہے اٹکا، جانوں سعی میں تری
اب کو ئی شک نہیں،کو ئی بھی بے حسی میں تری
اف کیا ظلمات بھری چیز ہے روشنی میں تری
ابھی سے تو نے پیر بننے کی ٹھان لی ہے
میں کہوں اس سے بس،اخلاص کی تو نے جان لی ہے
اپنی اصلاح ہی پہ ہے کامیابی کی نوید
پیر بننے کی نیت کا،نہیں ہے کو ئی خرید
ایسی نیت نہیں ہےکچھ، مگر اصلاح میں چھید
ایسی نیت ہو تو مجھ سے کیا سنوگے مزید
یہاں تو عشق اور فنا کا ہے کاروبار بیٹے
کیا ایسے کام کے لیٔے ہے تو تیار بیٹے ؟
جب تو عاشق ہے، مشیخت سے ترا کام کیا ہے؟
جس میں دنیا کی نجاست ہو تو وہ جام کیا ہے؟
یہ دل میں چور ترا تسخیر ِ خاص و عام کیا ہے؟
تجھ کو معلوم ہے ایسے خیال کا انجام کیا ہے؟
اس کے دربار میں، پاک دل ہی کی پہنچ ہے بس
پہنچنا چاہے اس کے پاس گو ہر کس و ناکس
کچھ لینا چاہو تو اس خیال سے توبہ کرلو
نوری دنیا ہے اس سے بھی خود کو جدا کرلو
اپنی کوشش کرو اور رب پہ بھروسہ کرلو
اس کے دربار میں، بے دریغ خود کو فنا کرلو
بھول جا فخر کی چیزیں اور خاکسار بن جا
اس کی نعمت سے بہر یاب،شکر گزار بن جا
مرید کی توبہ
میں اپنے خیال سے، مرے شیخ توبہ کرتا ہوں
یہ جو گھاٹی میں گرا تھا اس سے نکلتا ہوں
راستہ اخلاص کا نظر آیا اس پہ چلتا ہوں
اب تو میں عشقِ الٰہی ہی کا دم بھرتا ہوں
اپنی اصلاح ہی کی نیت دل میں اب ٹھان لی ہے
کہ اس طریق کی حقیقت میں نے اب جان لی ہے
مرا الٰہ مجھے اس راہ میں قبول کرے
اب مرے دل میں صرف تو ہی رہے، تو ہی رہے
مجھے شیطان کے وساوس سے تو اب دور رکھے
جو بھی سالک ہے، بنے ایسا اب شبیرؔ کہے
اس بڑے فتنے سے یارب، اب بچانا ہم کو
ہے جو طریقِ صفا، اس پہ چلانا ہم کو