شاگرد استاد سے
مرے استاد،مری بہنوں نے پریشان ہے کیا
مجھ سے حصہ وہ مانگتی ہیں میرے والد کا
میں تو چاہوں کہ میں خود ان کا خیال رکھتا رہوں
میں ان کی شادی پہ اچھا جہیز بھی دے دوں
جو شادی شدہ ہیں ان کا خیال بھی رکھوں
ہیں جو چھوٹے، ان کی تعلیم پہ میں خرچ کروں
کیا ان کاموں میں، ان کا مجھ پہ اعتبار نہیں؟
میراث تقسیم کرنے اس لئے تیار نہیں
کیا یہ غیروں کی طرح، مانگنا میراث کا ہے درست؟
کیا محبت ہے جو میراث لینے میں ہیں چست؟
ان کی خدمت کروں دل جان سے اور نہ ہوں میں سست
ان کے کاموں میں،میں مصروف ہوں دکھاؤں نہ پشت
حیف اس پر کیا ہے یہ انداز بے اعتباری کا؟
کیا ہو علاج مری بہنوںکی اس بیماری کا؟
استاد
مرے بیٹے میں سمجھتا تھا کہ تم جانتے ہو
حکم اللہ کا جو بھی ہے اس کو مانتے ہو
ہائے افسوس، آپ کے بارے میں غلط خیال ہے مرا
تم اور خدا میں، جانے زیادہ کون؟ سوال ہے مرا
کیا عبث سارا ہے جو بھی وہ قیل و قال ہے مرا
تری باتوں سے یقیناً اب برا حال ہے مرا
اب تو جانوں میں کہ دراصل بے اعتبار تم ہو
دین کو جانتے نہیںہو،شتر بے مہار تم ہو
خدا نے جن کو دیا جو حصہ، وہ ان کا ہی ہے
خود ساختہ رسموں کی ہوا البتہ بھی چلی ہے
اہل و عیال کا اپنے طور پہ جدا حق بھی ہے
میراث جہیز کے دینے سے کیا ختم ہوئی ہے؟
اگر یہ بات ہو، جہیزاپنے پاس رکھ لینا
مگر جو حصہ ہو میراث کا، ان کو دے دینا
میراث کا حصہ فرائض میں ہے شمار دیکھو
اس سے غفلت میں،بہت سخت شیطان کا وار دیکھو
اگلی آیات میں ان پر قہرِ جبار دیکھو
دوزخ، تصور میں ان کے لئے تیار دیکھو
چڑھانا، بات اپنی،خدا کی بات پہ کیسا ہے؟
کیا ُگھس گیا اتنا یہ تیرے دل میں پیسہ ہے
خدا کی بات پہ اپنی بات کوبڑھایا نہ کرو
خود اپنے پاؤں پہ کلہاڑی چلایا نہ کرو
مقابلے میں اس کے نکتے اٹھایا نہ کرو
دل میں کچھ مال کی محبت یوں بٹھایا نہ کرو
جو ان کا حق ہے تو دینا اسے خوشی سے تو
تاکہ پھرہوسکو دونوں جہاں میں تم سرخ رو
یہ ہندؤں کی جو باتیں ہیں ان کو بھول جانا
یہ رسومات کی حرکتیں ہیں ان کو بھول جانا
یہ تو شیطان کی علتیں ہیں ان کو بھول جانا
اس میں جو نفس کی لذتیں ہیں ان کو بھول جانا
اب صرف یاد رکھ کہ تو خدا کا بندہ ہے
کیونکہ یہ یاد نہ ہوجب تلک، تو گندا ہے
تاکلون التراث کا گلہ اللہ کا سنو
اور بل تحبون العاجلہ، اللہ سے سنو
میراث نہ دینے کا بھی فیصلہ، اللہ سے سنو
اور جو دیتے ہیں تو ان کا صلہ، اللہ سے سنو
کبھی قرآن کو عمل کی نیت سے دیکھیں
ورنہ کرتوت تو اس کے بِنا اپنے دیکھیں
میراث کے بارے میں رکوع،سورۃ نساء کا پڑھ
عمل کر اس پہ اور رفعت کے تو زینوں پہ چڑھ
بچ دنیا کی محبت سے،ہے خطاؤں کی جڑ
اور خدا کی محبت لینے واسطے آگے بڑھ
تاکہ شیطان کے شر سے تم بچاؤ خود کو
طریق مصطفوی پر اب چلاؤ خود کو
شاگرد
مرے استاد تو نے کھول دی میری آنکھیں
لگاؤں دیکھنے قرآن میں یہ اپنی آنکھیں
میں تو ظالم تھا ظلم خود پہ کررہا تھا میں
وہ جو اک آگ ہے وہ پیٹ میں بھر رہا تھا میں
اور جہنم کے گڑھوں میں اتر رہا تھا میں
اور بے موت، شیطانی موت مر رہا تھا میں
تو نے استاد مجھے زندہ کیا، زندہ ہوں میں
جو کیا پہلے ہے، اس پر بہت شرمندہ ہوں میں
میں اب میراث اپنے ہاتھوں سے بہنوں کو دوں گا
گو کہ میں مستحق نہیں، پر دعائیں لوں گا
آئندہ راستے کو غور سے میں دیکھوں گا
میں اب شیطان کے ہاتھوں میں نفس نہ چھوڑوں گا
اب میں طریق مصطفےٰ پہ چلنا چاہوں گا
اور اس طریق پہ،خدا سے ملنا چاہوں گا
استاد
میرے بیٹے تجھے شاباش،خوش ہوا میں بہت
اگر چہ تجھ پہ ہوا ہوں، ابھی غصہ میں بہت
تجھ پہ ہو آفرین کہ حق کو تو نےجان لیا
اور پھر مزید سعادت کہ اس کو مان لیا
ماشاء اللہ مغفرت کا تو نے سامان لیا
دوست اور دشمن کو بروقت جب پہچان لیا
کہے شبیرؔ ان جوانوں کی جوانی ہو قبول
حق کا راستہ نظر آئے اور نہ ہو اس سے زہول