اقبال کی خودی اور رومی کی بے خودی

شاگرد کا سوال

مرے استاد، فکرِ اقبال کی خودی کیا ہے؟

بے خودی کیا ہے؟پھر اس میں فکرِ رومی کیا ہے؟

خودی کا لفظ وہ معنیٰ نہیں بتاتا ہے

جو کہ اقبال کا تخیل ہمیں دکھاتا ہے

ذہن میں آتا نہیں دل میں مگر آتا ہے

سمجھ میں آئے بھی تو پھر سے نکل جاتا ہے

خودی کا سّر ہوا جب لا الہ الا اللہ

تو مطلب یہ کہ خدا کے لئے ہواپنی فنا

خودی سے خود پہ نظر ہونا سمجھ میں آئے

نظر ہو خود پہ، تو پھر کیسے خدا کو پائے؟

خودی بلند کرنے سے خدا کیوں فرمائے؟

رضا ہے کیا تری ؟کیسے سمجھ میں آجائے؟

مرے استاد یہ پہیلی سی مجھے لگتی ہے

کیا آپ کی بات تشفی مری کرسکتی ہے؟

استاد کاجواب

کہا اقبال نے خودی اگر بلند کریں

جواب میں اس کے، خدا ہم کو بہرہ مند کریں

وہ چاہے جوکریں ہم، ہم کو وہ پسند کریں

پسند اس کو جو نہیں ہے، ہم وہ بند کریں

خدا نے ہم کو جو ایمان کی دولت دی ہے

جان لیں اور وہ جو اسلام سے عزت دی ہے

دوسری قوموں کی کبھی بھی کاسہ لیسی نہ کریں

پسند اللہ کو جو نہیں وہ ہم کبھی نہ کریں

اپنے ایمان کی کبھی بھی بے عزتی نہ کریں

فکر فردا سے ہم، گندا حال اور ماضی نہ کریں

ہمارا اس پہ ہی بھروسہ رہے ہر حال میں

یہی اسرار ہے خودی کا فکرِ اقبال میں

خدا کی معرفت میں ہے نفس پرستی حائل

اوراس ذریعے سے شیطان کی دوستی حائل

قال موجود مگر حال کی کمی حائل

متاثر ہے نفس سے جو اپنی خودی حائل

یہ خودی چھوڑ کے ہی تو خدا پہچان سکیں

پھر ہر اک حکم شریعت کا بھی ہم مان سکیں

یقیناً اس سے تم اللہ کے بن جاؤگے

اس کے جواب میں تم، خدا کو بھی اپناؤگے

من کان للہ کی طرف جس وقت آؤگے

تو کان اللہ لہ کو بھی وہاں پاؤگے

پھر تجھے یہ پتا چلے گا کہ مؤمن کیا ہے؟

دنیا ذلیل کیا ہے؟ اسلام کا پیرہن کیا ہے؟

اس طرح بےخودی سے اپنا، پا جانا سمجھو

نفس کی چکر سے خود کو یوں نکلوانا سمجھو

اور پھر خود کا اپنے اصل پہ آنا سمجھو

پھر اپنے خود کو، خدا سے یوں ملوانا سمجھو

یہی ہے بے خودی رومی کی اور اپنی معراج

خود کو پانا ہو اگر اس سے پالو خود کو آج

خودی اقبال کی، رومی کی بے خودی ہے ایک

پس منظر میں جو دونوں کی روشنی ہے ایک

بدلے کردار نظر آئیں کہانی ہے ایک

الفاظ مختلف میں نورِ عرفانی ہے ایک

ایک میں غیر کو دل سے ہے نکالنا بالکل

دوسرے میں بھول کے خود کو، اس کا پانا شامل

سمجھو تم بے خودی، اقبال کے کلام میں خودی

بے خودی سے ہی میسر ہو، خودی اقبال کی

کہ ذریعہ روحانیت کا ہے بے نفسی ہی

فنا جو اس کے لئے ہوگیا، ہے وہ باقی

مٹا دے اس کے لئے خود کو باقی بن جا پھر

خودی کا سِر ہے شبیرؔ یوں پھر،بے خودی کا سِر