اصل مجذوب
جذب تو ہو پر شریعت کے وہ قابو میں رہے
اصل مجذوب وہی ہے جو شریعت پہ چلے
عقل بھی کام کرے اور دل ہو اس کے ساتھ
پھر کچھ ہی دیر میں مجذوب کہاں تک پہنچے
تقدیر کے بارے میں ایک متردد شخص کے اشکالات
میں ایک بے آسرا حالت اپنی بیان کروں
سوچ ماؤف، ذہن گندہ یہ عیان کروں
مرا کاموں پہ کسی طرح جب نہیں اختیار
اپنے جرموں پہ پھر میں کیسے بن جاؤں سزاوار
سب کچھ ہونے میں جو ہو اس کے فیصلے پہ مدار
مجھے کیوں میرے کئے پر سمجھا جائے گنہگار؟
میں جو کرتا ہوں اگر،لکھا مجھے ایسا ہے
پھر میرے بارے میں کیوں یہ کہے کہ کیسا ہے؟
گناہ میں نے کئے وہ جو لکھے تھے ایسے
غلط صحیح کو نہ دیکھ، تھے ہی فیصلے ایسے
مجھے برا نہ کہہ، تھے میرے نصیبے ایسے
اٹھے دعا کے لئے ہاتھ پر گرے ایسے
لکھا ہے پہلے سے تو پھر دعا میں کیسے کروں؟
مرے تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں، رہوں یا مروں؟
میں ہر طرف سے خود کو قید میں بند پاتا ہوں
میں زندہ تو ہوں پر مر مر کے جیا جاتا ہوں
جواب چاہوں، چپ اب میں رہا نہ جاتا ہوں
میں روز روز تحیر سے بھرا جاتا ہوں
میں ہوں مایوس ہر طرف سے کدھر دل جائے؟
کاش کچھ میرے سوالوں کا جواب مل جائے
اس کے سوالوں کے جوابات
مرے بھائی نہ ہو مایوس تجھے قریب کروں
تو بد نصیب نہیں تجھ کو خوش نصیب کروں
دیکھ کتے کو، جب کاٹتا ہے سمجھ دار ہے وہ
پتھر مجبور پہ کبھی کرتا نہیں وار ہے وہ
جو پتھر پھینکے انسان، سمجھے با اختیار ہے وہ
اس لئے اس کو ہی دوڑ کاٹنے پہ تیار ہے وہ
جب یہ کتا ہم میں دیکھے جبر بھی، اختیار بھی
تو انسان ہوکے کریں اس سے کبھی انکار بھی
صرف ایک پیر باآسانی اٹھا سکتے ہیں ہم
نہیں دوسرا برابر اس کے لاسکتے ہیں ہم
اختیار اتنا عمل میں دکھا سکتے ہیں ہم
جتنا اختیار ہے اس پر آسکتے ہیں ہم
لا یکلف اللہ نفساً کو پڑھ اب قرآن میں
اور الا وسعھا کو بھی سمجھ اس فرقاں میں
ہم سے پوچھیں گے اتنا، جتنا اختیار تھا ہمیں
اس لئے جتنا وقت ہے پاس، اس کو ضائع نہ کریں
اپنا مال کیسے کمایا، اس کا حساب رکھیں
اور پھر خرچ کرتے کیسے ہیں، یہ دیکھتے رہیں
اعضائے جسم استعمال ہم کیسے کرتے ہیں؟
علم حاصل کے مطابق کیا ہم چلتے ہیں؟
دیکھئے وضو اگر مشکل ہو، تیمم کرنا
عذر ہو تم کو اگر، بعد میں روزہ رکھنا
بے استطاعت فرض نہیں حج کو ترا چلنا
جو کر سکو وہی کر، پھر ہے کیوں تم کو ڈرنا؟
جو لکھے پر، تو بے پرواہ اگر اعمال سے ہے
گھر میں پھر بیٹھ، کیا فائدہ کام کے جنجال سے ہے؟
کیلکولیٹر اور کمپیوٹر بھی ہینگ ہوجاتے ہیں
کبھی سوال بڑے ان کی حد سے جب آتے ہیں
تقدیر کی بات ساری کوئی اگر سمجھاتے ہیں
دماغ اپنے کہاں ان کو سمجھ پاتے ہیں
اس لئے اس کا جو اجمال ہے، پر یقین کرنا
اور جو تفصیل ہے اس میں جانے سے، اے دوست ڈرنا
تردد کا دور ہونا
ماشاء اللہ آپ کی بات میں سچائی ہے
کچھ کچھ شاید یہ میری بھی سمجھ میں آئی ہے
روشنی دل میں اس سے تھوڑی بہت آئی ہے
آگے تو تیرنا ممکن نہیں، گہرائی ہے
میں نے شیطان کے وساوس کو دل میں پالا تھا
حال تو حال، مسقبل بھی مرا کالا تھا
اپنے اختیار کو بہتر اب استعمال کرلوں
مستقبل کے لئے میں درست اپنا حال کروں
جو دل پہ تھا، شیطان کا تار تار وہ جال کرلوں
بے ہودہ گفتگو میری کیا مجال کرلوں
مرے اللہ میری غلطی جو تھی معاف کرے
شیطانی وسوسوں سے میرے دل کو صاف کرے
خوشی کی کیفیت اور ایک سبق
دل سے آمین کہوں آپ کی دعا پہ اب
اس کے کرم کے ہی محتاج ہیں ہر وقت، ہم سب
دل اپنا بھر دیں محبت سے ہی اس کی ہم جب
خود بخود ہم کو ملے اس کی بدولت وہ ادب
کہے شبیرؔ کہ پھر جان بھی دینا ہو آسان
پھر سمجھ آئے سب حدیثیں، فقہ اور قرآن