ماں بیٹے سے
بیٹا دل چاہتا ہے اب تیری شادی کرلوں
میں اپنے سامنے تری خانہ آبادی کرلوں
میں یہ چاہوں تری شادی بڑی دھوم دام سے ہو
ترا ولیمہ بہت تزک و احتشام سے ہو
ترا ہر کام اس میں خوب انتظام سے ہو
تزیئن آرائش اس میں خوب اہتمام سے ہو
ایسی شادی ہو کہ اس کی کوئی مثال نہ ہو
کیوں نہ ہر چیز میں مثالی یہ مرا لال نہ ہو
برادری میں، میں ہر ایک کی دعوت کرلوں
اپنی عزت کے لیئے ساروں کی عزت کرلوں
کوئی ناراض نہ ہو سب کی میں خدمت کرلوں
کیا مزہ ہو کہ مبارک اور سلامت کرلوں
جو مخالف ہے ہمارا اس کو منانا ہے
تجھ پہ قربان بس ہر ایک کو گھر میں لانا ہے
بیٹا ماں سے
ماں جی یہ ٹھیک ہے شادی تو ہے سنت کا عمل
سب کچھ سنت کے مطابق ہو تو پھر یہ ہے اصل
آپ نے جو مری شادی کا ہے نقشہ کھینچا
مرے ابا کے شاید بس میں نہیں ہے ایسا
کہ ہر اک چیز پہ لگتا ہے بہت ہی پیسہ
تو اس صورت میں یہ سب کچھ ہو مگرہو کیسا
اس کے اسباب میسر نہ ہوں تو پھر کیا کریں؟
کیوں یہ بہتر نہیں کہ اپنے ہی اوقات میں رہیں
ماں
بیٹا یہ ٹھیک ہے اسباب میسر تو نہیں
تیرے ابا کے جو ہیں دوست وہ گئے نہ کہیں
ان سے قرض لے کے بھی ہوسکتا ہے سب کچھ اور یہیں
اور مزید بیچ بھی سکتے ہیں یہ تھوڑی سی زمیں
بیٹا ہمت ہو اور دل میں ہو خدا پہ یقیں
بیٹا کیا کام ہےدنیا میں کہ ممکن وہ نہیں
بیٹا
ماں جی! اللہ پہ یقیں ہو تو شریعت پہ چلیں
کیوں نہ ہم اسکے ہی محبوب کی سنت پہ چلیں
اور رکاؤٹ ہو اگر اس میں تو ہمت پہ چلیں
جھوٹ کو چھوڑ کر ہم صرف صداقت پہ چلیں
ہم کو لوگوں کا نہ پھر ڈر ہو خدا سے ہی ڈریں
جو پسند اس کو ہو، ہر حال میں بس وہ ہی کریں
کیوں نہ شادی میں، علیؓ کی میں پیروی نہ کروں
اس میں جو آپ نے کیا ہے، کیا وہی نہ کروں؟
کیا ان کی طرح اس عمل میں سادگی نہ کروں؟
کیااس کے ساتھ اپنے دل کی تسلی نہ کروں؟
اپنے محبوب سے اس عمل میں کیوں وفا نہ کریں؟
دل تو چاہے بس اسی ذوق سے ہٹا نہ کریں
مزے چند روز اور لمبی افسردگی اپنی
پریشان زندگی گزرے جو پھر ساری اپنی
کیا ہو اچھا کہ ہو سادہ ہی یہ شادی اپنی
کچھ نہ ہوقرض مزے سے ہو زندگی اپنی
قرض جھنڈا ہے اک ذلت کا، اس کو کیوں گاڑیں
بجائے اس کے، رسومات ہی کا سر پھاڑیں
جس میں دنیاکی بھی ذلت ہو، آخرت بھی تباہ
اس قسم کا کام کریں کیوں ہم، مری ماں جی بتا؟
لوگ کسی حال میں بھی خوش نہ ہوں توان کا کیا؟
لوگ ہوں خوش اور ناراض رہے میرا خدا؟
اب تو ابا سے ہی پوچھوںگا کیا ارشاد ہے اب؟
فیصلہ ان سے ہی، اس باب میں کروں میں طلب
باپ
بیٹا میرا بھی ارادہ تھا، تری ماں کا جو تھا
مگر جو بات کی ہے تو نے تو اب وہ نہ رہا
کیا پیاری بات کی ہے تو نے، ہوں اب اس پہ فدا
لوگ ناراض ہوں کچھ بھی نہیں، راضی ہو خدا
لوگ کسی حال میں معلوم ہے خوش ہوتے نہیں
دل پہ ہم کیوں لیں یہ، مولا پہ ہے گر ہم کو یقیں
فیصلہ یہ ہے کہ اس میں بھی ہم سنت پہ چلیں
خدائے پاک کی لا محدود اس حکمت پہ چلیں
اپنا نقصاں نہ کریں اور ہدایت پہ چلیں
جو نہ مانے تو ہم ان سے معذرت پہ چلیں
میرا بیٹا، رسول اللہ کا خادم بن جائے
اس طرح نور سے بھر پور ہر مسلم بن جائے
ماں
میں کیوں پیچھے رہوں حق کے ماننے سے اب
ساتھ دوں گی میں یقیناً، حق مجھ پہ کھل گیا جب
لازم ہے فکر کریں اس کی مسلمان ہم سب
کہ راضی کرلیں خوشی میں بھی،غمی میں بھی، رب
زندگی اپنی خوشگوار ہی بن جائے گی
ہر گھڑی اجر، شبیرؔ سب کے لیئے لائے گی