ریا
عمل کے وقت وسوسات ریا کا علاج:
تہذیب: اگر ابتداءً ریا کا خیال نہ ہو اور عمل کے وقت اس قسم کے وساوس پیدا ہو جائیں تو اپنے معمول کو ترک نہ کریں بلکہ ثبات اولیٰ ہے۔ ریا کو دل سے برا سمجھ کر حتی الامکان ان کو دفع کرنا کافی ہے۔
وسوسہ تو کفر کا بھی آنا مضر نہیں:
تہذیب: ریا تو قصد سے پیدا ہوتا ہے اور جو بلا قصد ہو وہ ریا نہیں، صرف وسوسۂ ریا ہے اور وسوسہ تو کفر کا بھی مضر نہیں چہ جائیکہ ریا کا وسوسہ۔
کمالات کے اظہار کا اہتمام ریا ہے:
تہذیب: بجز مربِّی کے اپنے عیوب کسی دوسرے پر ظاہر ہونے کو پسند نہ کرنا یہ ریا نہیں ہے، بلکہ یہ تو مطابق سنت کے ہے۔ استتارِ عیوب کا خود حکم ہے، ہاں کمالات کے اظہار کا اہتمام یہ ریا ہے۔ اگر وہ کمالات غیر واقع ہوں تو خداع اور تلبیس ہے۔
محض دکھلانے کا خیال بلا اختیار آ جانا ریا نہیں جب تک کہ عامل اس کا قصد نہ کرے:
حال: ہر کارِ خیر میں، خصوصاً نماز میں یہ خیال ہوتا ہے کہ تجھے فلاں فلاں دیکھ رہا ہے اس لیے یہ فعل تیرا ریا اور سُمعہ میں داخل ہے۔ جو اکثر فرض نماز کے سوا باقی افعالِ حسنہ کے ترک پر مجبور کرتا ہے۔
تہذیب: محض کسی کے دیکھنے سے تو ریا ہوتی نہیں جب تک کہ عامل دکھلانے کا قصد نہ کرے، اور یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ قصد فعلِ اختیاری ہے، محض دکھلانے کا خیال بلا اختیار آجانا یہ قصد نہیں۔ اس علم کی تصحیح بھی اس خیال کا علاج ہے اور اس خیال کے مقتضا پر عمل نہ کرنا، یعنی طاعت کو ترک نہ کرنا اس کا مکمل علاج ہے۔
عمل اور خُلُق کی اصلاح کا طریقہ:
تہذیب: عبادات میں جو ریا ہو عقلاً اس کو دبانا اور روکنا یہ عمل کی اصلاح ہے۔ اور اس عادت سے اس خُلُق (ریا) کا تقاضا نہ ہونا یہ خُلُق کی اصلاح ہے۔
ریا کی حقیقت:
تہذیب: (1) ریا کی حقیقت ہے "اِرَادَۃُ الْخَلْقِ لِغَرَضٍ دُنْیَوِیٍّ"، "اِرْضَاءُ خَلْقٍ لِلْحَقِّ" ریا نہیں۔
تہذیب: (2) ریا کی حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اظہار کسی دنیاوی غرض سے کیا جائے، یا کسی فعلِ مباح کا اظہار کسی معصیت کی غرض سے کیا جائے۔
ریا میں صرف تصحیحِ نیت کافی نہیں بلکہ عمل میں تغیُّر بھی نہ کرے:
حال: بعض مرتبہ کسی اچھے کام میں مصروف ہوتا ہوں اچانک کسی شخص پر نظر پڑ جاتی ہے تو اکثر و بیشتر یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کام کو اور اچھی طرح پر کرو۔ مجھے اتنا تو یہ یقیناً معلوم ہے کہ یہ ریا ہے اور ایسے وقت میں یہ سمجھ کر کہ انسان کیا چیز ہے جو اس کو دکھلا کر کام کریں، اس کام کو کیے جاتا ہوں اور نیت حق تعالیٰ کی طرف پھیر لیتا ہوں، نیت پھیر لینے سے ریا جاتی رہے گی یا نہیں؟
تہذیب: میرا مذاق اس میں یہ ہے کہ صرف تصحیحِ نیت اس میں کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ خطرہ کے بعد عمل میں تغیُّر بھی نہ کرے، کیونکہ تصحیحِ نیت اس کا مقصود بالذات نہیں، بلکہ مقصود بالذات (اس کا) تحسینِ عمل للحق ہے اور تصحیحِ نیت اس تحسین کا آلہ، تاکہ غائلۂ ریا سے بھی بچا رہے اور مقصودِ نفس بھی حاصل ہو جائے۔ تو جس اخلاق سے تحصیلِ ریا مقصود ہو وہ مقدمۂ ریا ہونے کے سببِ ریا ہی ہے۔ اگر دوسرے اطباء کی تحقیق اس کے خلاف بھی ہو تب بھی اپنی رائے پر قائم ہوں، ذوقیات میں ایک کا اجتہاد دوسرے پر حجت نہیں۔
عبادت کو کسی کے دیکھنے پر طبیعت میں فرحت کا ہونا علامت وجود مادہ ریا کی ہے:
حال: اثناءِ عبادت یا عبادت سے فراغ کے بعد اگر کوئی شخص اس عبادت پر مطلع ہو جائے تو اس عابد کے دل میں ایک قسم کی فرحت و خوشی پیدا ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دل کے اندر ریا اس طرح چھپا ہوا ہے، جس طرح راکھ کے اندر آگ کہ دوسروں کے مطلع ہونے پر اسی لیے تو سرور ہوتا ہے۔
تہذیب: اس عبارت میں اس فرحت کو ریا نہیں کہا، اس کو علامت ریا کہا اور علامت بھی مادۂ ریا کی کہا، جس پر مؤاخذہ نہیں۔
ریا مع اللہ کی صورت:
تہذیب: خلوت میں نماز اس خیال و نیت سے پڑھنا کہ مخلوق کے سامنے بھی طویل نماز پڑھ سکے، اور حق تعالیٰ کا یہ اعتراض لازم نہ آئے کہ مخلوق کے سامنے تو لمبی نماز پڑھتا ہے اور میرے سامنے مختصر پڑھتا ہے، تو یہ لمبی نماز خلوت کی خدا کے لیے نہیں ہے، بلکہ مخلوق کے سامنے ریا باقی رکھنے کے لیے ہے۔ یہ ریا مع اللہ ہے۔
ترکِ عبادت میں تکبر اور ریا کی صورت:
تہذیب: مخلوق کے لیے عملِ عبادت کو ترک کرنا جس طرح تکبر ہے اسی طرح ریا بھی ہے۔
ریا کی مختلف صورتیں:
تہذیب: اگر عمل میں دنیائے فاسد یعنی معصیت کی نیت ہو تو وہ یقیناً ریا ہے۔ اور دنیائے مباح کی نیت ہو تو اگر عمل دنیوی میں ہے تو وہ ریا نہیں اور اگر عمل دینی میں ہے تو وہ بھی ریا ہے۔ اگر کسی شخص کو اس لیے راضی کیا جائے تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہیں تو یہ ریا نہیں اور اگر مخلوق کو اس لیے راضی کیا جائے تاکہ وہ ہمارے معتقد رہیں، ہمارے مرید زیادہ ہوں تو یہ ریا ہے، کیونکہ یہ نیتِ معصیت ہے۔ اس واسطے کہ عین عبادت کے وقت اس کی نظر مخلوق پر رہی اور ان کی نظر میں معظم رہنا چاہا۔
عبادت کے اخفا کا اہتمام بھی ریا ہے:
تہذیب: محققین کے نزدیک عبادات کے اخفا کا اہتمام کرنا بھی ریا ہے، کیونکہ اخفا عن الخلق کا اہتمام وہی کرے گا جس کی نظر مخلوق پر ہو۔ اور جن کی نظر مخلوق سے اٹھ جائے اور اپنے سے بھی اٹھ جائے کہ عبادت کو اپنا عمل نہ سمجھے بلکہ محض توفیقِ حق سمجھے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کام لے رہے ہیں، میں خود کچھ نہیں کر سکتا تھا، وہ اخفا کا اہتمام نہ کرے گا۔ کیونکہ جب وہ مخلوق کو لا شئ محض سمجھے گا تو اس سے اخفا کیوں کرے گا؟ اور جب اپنے عمل کو اپنا عمل ہی نہیں سمجھتا بلکہ فضلِ حق سمجھتا ہے تو کسی کے دیکھنے سے عجب کا اثر کیوں ہو گا؟
ریا سے حفاظت کا علاج فنائے کامل ہے:
تہذیب: ریا و رضاءِ خلق سے بچنا چاہتے ہو تو فنا کا طریق اختیار کرو، بدوں فنائے کامل کے ریا سے حفاظت نہیں ہو سکتی۔
معلم کو اپنے عمل کی اطلاع کرنا ریا نہیں:
تہذیب: ریا وہ ہے جو دنیا کی غرض سے کسی کو عمل دکھلایا جائے، سالک جو اپنے عمل کی اطلاع اپنے معلم کو کرتا ہے وہ ریا نہیں ہے کیونکہ عمل تو اللہ ہی کی رضا کے لیے ہوتا ہے، پھر بعد صدورِ عمل کے، اپنے معلم کو اپنے آئندہ کی مصلحتِ دینیہ کے لیے اس عمل کی اطلاع کرتا ہے۔ ریا میں تو خود عمل سے غرض نمائش ہوتی ہے اور یہاں عمل سے غرض رضائے حق اور اطلاع کا قصد مستقل ہے وہ بھی دین کے لیے، جیسے قرآن کا حفظ کرنے والا قرآن تو ثواب ہی کی نیت سے یاد کرتا ہے لیکن سبق یاد کر کے استاد کو یاد کی اطلاع اس طرح کرتا ہے کہ اس کو سناتا ہے تاکہ یہ آئندہ خوش ہو کر تعلیم کرے۔
ریا کے خیال سے عمل کو ترک نہ کرنا چاہیے:
سوال: خلاصہ عریضہ یکے از منتہیاں: (1) بیمار تھا، تہجد آخرِ شب میں ناغہ تھی، اسی زمانے میں دو مہمان آئے اور وہ آخر شب میں اٹھے تو خیال ہوا کہ لاؤ میں بھی پڑھ لوں تہجد۔ (2) پھر خیال ہوا کہ نہ پڑھوں، یہ ریا ہے چنانچہ نہ پڑھی۔ (3) پھر خیال ہوا کہ صبح کو ان سے ظاہر کر دیا جائے کہ فلاں وجہ سے تہجد سے قاصر رہا اور اس وقت تہجد نہ پڑھوں۔
تہذیب: (خلاصہ) (1) یہ احکم تھا۔ (2) یہ اسلم تھا۔ (3) یہ خالص ریا تھا۔ باقی ناقص کو یہی حکم کیا جاتا ہے کہ پڑھو اور نیت کو درست کرو، ورنہ پھر اس کو ہر موقع پر ریا کا شبہ و بہانہ ہونے لگے گا۔
رضائے حق کے پیدا کرنے کا طریقہ:
تہذیب: اپنے اختیار سے ہر کام میں رضائے حق کا قصد کریں اور اپنے اختیار سے رضائے خلق کا قصد نہ کریں اور بلا قصد کے اگر رضائے خلق کا وسوسہ یا خیال آئے تو اس کی مطلق پروا نہ کریں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ یوں ہی اپنے اختیار و قصد سے رضائے حق کا قصد کرتے رہیں۔ تجربہ ہے کہ چند روز میں رذائل کے خلاف کرنے سے اس عمل کی عادت اور مشق ہو جاتی ہے، پھر رذیلہ کے خلاف کرنے میں کچھ دشواری نہیں ہوتی، بلکہ رذیلہ کمزور ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ رذائل کا ازالہ ضروری نہیں، اس قدر اضمحلال کافی ہے کہ جس سے مقاومت رذیلہ کی آسان ہو جائے۔
ارضائے خلق بہ نیتِ ارضائے حق، ارضائے حق ہے:
تہذیب: ارضائے خلق بھی اگر بہ نیت ارضائے حق ہو تو وہ ارضائے حق میں داخل ہے، نظیر اس کی شیخ کا ہدیہ ہے۔
صوفیوں کی وضع ریاءً بنانا بھی قابل قدر ہے:
تہذیب: جو شخص ریا سے بھی صوفیوں کی وضع بناتا ہے، اس کی بھی قدر کرو کیونکہ اس کے اس فعل سے یہ تو معلوم ہوا کہ اس کے دل میں صوفیہ کی قدر ہے جب ہی تو وہ ان کی وضع داری و صورت سے با قدر ہونا چاہتا ہے۔ پس تم اس کے عیب (ریا) پر نظر نہ کرو بلکہ اس خوبی پر نظر کر کے اس کی قدر کرو۔
افراطِ عظمتِ شیخ بھی ارضائے خلق ہے:
تہذیب: حکمِ شیخ کی اتنی عظمت کہ شیخ کا بتلایا ہوا وظیفہ تو کبھی نہ چھوٹے گو نماز و جماعت چھوٹ جائے، ارضائے خلق میں داخل ہے۔
توحیدِ مطلوب کے دو درجے مامور بہ ہیں جن کا حصول مُزیلِ ریا ہے اور توحیدِ وجودی کا درجہ مامور بہ نہیں گو معین توحیدِ مطلوب ہے:
تہذیب: شرعاً جو توحید مطلوب اور مامور بہ ہے اس کے دو ہی درجہ ہیں: ایک توحیدِ اعتقادی (یعنی حق تعالیٰ کو ذات و صفات میں واحد و یکتا سمجھنا) دوسرا توحیدِ قصدی (یعنی حق تعالیٰ کو قصد میں بھی واحد و یکتا سمجھنا، غیر حق کو مطلوب و مقصود نہ بنانا) اور توحیدِ وجودی (یعنی حق تعالیٰ کو وجود میں واحد و یکتا سمجھنا، جس کا اثر یہ ہو کہ حق تعالیٰ کے سوا کسی کے وجود کا اثر اس کی طبیعت پر نہ ہو جس سے خوفاً یا رجاءً متاثر ہو جائے، بلکہ یوں سمجھے کہ حق تعالیٰ کے سوا کوئی موجود نہیں جس سے خوف و رجا کو متعلق کیا جائے) یہ توحید مامور بہ نہیں، ہاں توحیدِ مطلوب کی معین ضرور ہے کہ اس سے توحیدِ اعتقادی اور توحیدِ قصدی کا حصول و کمال سہل ہو جاتا ہے، مگر یہ نہیں کہ اس کے بغیر توحید کامل ہی نہ ہو سکے۔
ریا کے لیے قصد شرط ہے:
تہذیب: ریا کوئی خود نہیں لپٹتی پھرتی، جب قصد ہی کرو گے تب ریا ہو گی ورنہ محض وسوسۂ ریا ہو گا جو مضِرّ نہیں۔
معیارِ شناخت وسوسۂ ریا از حقیقتِ ریا:
تہذیب: صورتِ ریا، ریا نہیں ہے، جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم ﷺ کو قرآن سنانے میں تطییبِ قلبِ رسول اور تطییبِ قلبِ رسول سے ارضائے حق کا قصد رکھنا گو صورتاً ریا ہے، لیکن حقیقتاً ریا نہیں۔ اسی طرح وسوسۂ ریا، ریا نہیں۔ بس ریا وہ ہے کہ عملِ دینی سے مقصود ہی غیر حق ہو اور غیرِ حق کو ارضاءِ حق کا واسطہ نہ بنایا گیا ہو۔ اور اگر عمل سے مقصود غیرِ حق نہ ہو تو غیر کا واسطہ آنا مضِرّ نہیں۔ رہا یہ کہ اس کا معیار کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ وسوسۂ ریا تھا یا حقیقت ریا؟ سو معیار یہ ہے کہ ریا یہ ہے کہ اس کے دیکھنے والے چلے جائیں تو یہ ذکر وغیرہ کو قطع کر دے اور اگر ان کے جانے کے بعد ذکر کو قطع نہ کرے تو دیکھنے والوں کے ہوتے ہوئے جو ان کی طرف خیال گیا تھا یہ وسوسۂ ریا تھا، ریا نہ تھا۔
اخفائے عبادت خلق سے ریا ہے:
تہذیب: عام صوفیوں کا مشہور قول یہ ہے کہ اظہارِ عبادت خلق سے ریا ہے اور محققین حضرات کا ارشاد ہے کہ اخفائے عبادت خلق سے ریا ہے، کیونکہ مخلوق پر نظر ہی کیوں گئی جو اس سے اخفاء کا اہتمام کیا گیا؟ اگر مخلوق کو کالعدم اور لا شئ اور ایسا سمجھتے کہ جیسے مسجد کی صفیں تو ان سے اخفا نہ کرتے۔