ربیع الاول کے مہینے میں کون سے اعمال کرنے چاہئے؟

سوال نمبر 1594

مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ اس مہینے کی آپ ﷺ کے ساتھ ایک مناسبت ہے۔ کیا ربیع الاول میں کیے گئے اعمال کا اجر باقی مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے؟ جس طرح رمضان المبارک کے مہینے میں اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے، کیا اس مہینے میں بھی اس طرح ہوتا ہے؟ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کو دیکھ کر ربیع الاول میں ہمیں کون سے اعمال کرنے چاہئیں اور کن کاموں سے بچنا چاہئے؟

جواب:

مدینہ منورہ میں جب درود شریف پڑھا جاتا ہے، تو کیا اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے؟ نہیں ہوتا، بلکہ ثواب تو اتنا ہی ہوتا ہے، لیکن مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے بعد اس شخص کا کیسا دل ہوگا جو درود شریف نہیں پڑھے گا۔ مسلمان ہوگا اور درود شریف نہیں پڑھے گا تو یہ کیسی عجیب بات ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مناسبت تکوینی ہے، اس وجہ سے اس کے ساتھ خود بخود ایک فطری محبت کی وجہ سے کام ہوتا ہے۔ "محبت خود تجھے آداب اپنے سکھا دے گی"۔ مطلب یہ ہے کہ جس کو محبت ہوگی، وہ ضرور درود شریف پڑھے گا۔ میرے خیال میں "اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ" والی بات یہاں پر بھی صادق آئے گی۔ یعنی اپنے دل سے پوچھیں۔ جس کو محبت ہوگی، وہ ثواب کو نہیں دیکھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ثواب کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ مدینہ منورہ کی حاضری کے لئے بھی ثواب کو دیکھتے رہتے ہیں۔ جب میں پہلی دفعہ مدینہ منورہ حاضر ہوا، پہلے ایک دفعہ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے آنے سے پہلے تیرہ دن کے لئے میں حاضر ہوا تھا، پھر جب میں مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دس دن کے لئے جارہا تھا، تو مجھ سے ایک عرب نے جو میرے ساتھی تھے اور دوست بن گئے تھے، کہا کہ حج تو آپ نے کرلیا، اب کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ مدینہ منورہ جاؤں گا۔ کہا کہ آپ پہلے گئے تو تھے؟ میں نے کہا کہ ہاں! پہلے بھی گیا تھا اور اب بھی جارہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اتنے عرصہ سے یہاں رہ رہا ہوں، میں تو ایک دفعہ بھی نہیں گیا۔ میں نے کہا کہ یہ آپ کی قسمت ہے۔ ان کے نہ جانے کی وجہ ہے کہ وہ بتاتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا ہے اور مدینہ منورہ میں وہ جو روایت بیان کرتے ہیں، اس کے مطابق ایک ہزار گنا ثواب ہوتا ہے، اگرچہ ایک روایت پچاس ہزار گنا کی بھی ہے، لیکن یہ لوگ ایک ہزار گنا ثواب بتاتے ہیں۔ اب وہ سوچتے ہیں کہ ایک ہزار کے لئے ہم ایک لاکھ کو کیوں چھوڑیں۔ لیکن دوسری طرف یہ حدیث بھی ہے کہ: ’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّلَدِهٖ وَوَالِدِهٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 15) کہ تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ مجھ سے اپنی اولاد سے زیادہ، اپنے والدین سے زیادہ، سارے لوگوں سے زیادہ، بلکہ اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت نہ کرے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص حج کے لئے آئے اور میرے پاس نہ آئے، تو اس نے میرے ساتھ جفا کی۔ یہ بھی محبت والی بات ہے، کیوں کہ جفا بھی محبت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ پس محبت کی بات بتا دی، حساب کتاب والی بات نہیں بتائی۔ اس وجہ سے اس کو بھی دیکھا جائے کہ ربیع الاول کے مہینے میں محبت والے درود پڑھتے ہیں۔ جیسے مدینہ منورہ میں آپ ﷺ یاد آتے ہیں اور جن کو محبت ہوتی ہے، ان کو درود شریف کی کثرت خود بخود نصیب ہوجاتی ہے، اسی طرح جن کو بھی آپ ﷺ سے محبت ہوگی، ان سے ربیع الاول میں درود شریف کی کثرت خود بخود ہوجائے گی۔ البتہ ایک بات میں ضرور عرض کروں گا کہ محبت کا دعویٰ کرنا اور ہے، محبت ہونا اور ہے۔ جو لوگ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کام ایسے کرتے ہیں، جو شریعت کے خلاف ہیں، تو وہ آپ ﷺ کی محبت نہیں، بلکہ اپنی محبت ہے۔ کیونکہ درود شریف کا حکم تو قرآن میں بھی آیا ہے۔

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الاحزاب: 56)

ترجمہ:1 "بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو"۔

اس میں کون سے مہینے کے بارے میں بتایا گیا کہ اس میں درود نہیں پڑھنا ہے؟ اور یہ بھی نہیں بتایا کہ سارے مہینوں میں برابر پڑھنا ہے، بلکہ فرمایا کہ درود شریف پڑھو۔ آگے اختیار دے دیا کہ جتنا بھی پڑھو۔ جب اختیار دے دیا ہے، تو اگر کوئی شخص اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے اور محبت کی وجہ سے ربیع الاول میں درود شریف زیادہ پڑھتا ہے، تو اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ ہاں! یہ ضروری ہے کہ اس کو منصوص نہ سمجھیں، بلکہ صرف محبت کا ایک ثمرہ سمجھیں، ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہوگا، کیونکہ ثابت تو پہلے سے ہے۔ جیسے فضائل میں ضعیف احادیث شریفہ بھی استعمال ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم پہلے سے ثابت ہوتا ہے، اب صرف ثواب کی بات ہوتی ہے کہ ثواب اس میں اتنا ہوتا ہے جتنا بتایا جاتا ہے یا نہیں ہوتا۔ جیسے اللہ کے راستے کے فضائل میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں جائے، تو 49 کروڑ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ اچھا، اگر 49 کروڑ نمازوں کا ثواب نہ ملا، تو 25 اور 27 نمازوں کا ثواب تو ملتا ہی ہے، جب کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھے۔ یہ ثواب تو ملتا ہی ہے۔ ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ یہ ثواب بھی نصیب فرما دے، تو کیا یہ کم ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اس کو اس کا ثواب تو مل ہی جائے گا۔ بہرحال! جس طرح فضائل میں ہم بتاتے ہیں کہ ضعیف شریفہ پہ بھی عمل ہوتا ہے، اسی طرح یہاں پر بھی محبت بہت بڑی چیز ہے اور کام بھی ایسا ہے، جو پہلے سے ثابت ہے یعنی درود شریف پہلے سے ثابت ہے۔ البتہ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ عید میلاد النبی منانا اور اس قسم کے دوسرے کام جو لوگ کرتے ہیں، وہ چونکہ صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہیں، اس وجہ سے ان کو نہیں کرنا چاہئے، کیوں کہ وہ دین میں اضافہ ہے۔ پس بدعات میں اور شرکیہ چیزوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، لیکن جن چیزوں کا حکم عام ہے کہ جتنا بھی کرنا چاہو، کرسکتے ہو۔ ان میں اگر محبت کی وجہ سے اس مہینہ کے اندر اضافہ ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، یہ صرف محبت کے قبیل سے ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو بھی آپ ﷺ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ محبت کرنے والا بنا دے۔

پھر اہلِ حق میں سے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں (میں اہلِ حق کی بات کر رہا ہوں، اہلِ باطل کی بات نہیں کر رہا) کہ صرف ربیع الاول کے مہینے میں درود شریف پڑھنا شروع کرلیتے ہیں، تو ان کی عادت بن جاتی ہے اور پھر باقی مہینوں میں بھی ان کا درود شریف کا معمول چلتا رہتا ہے۔

میں آپ کو ایک اصولی بات بتا دوں، بہت عجیب بات ہے، پتا نہیں اس وقت کیسے دل میں آگئی، ورنہ میرا ذہن اس طرف جا ہی نہیں رہا تھا۔ وہ بات یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس کے اوپر قضا نمازیں ہوں، تو اس کو نوافل کی جگہ قضا نمازیں پڑھنی چاہئیں، کیونکہ قضا نماز فرض ہے اور نفل اضافی ہے، لیکن فرمایا کہ جن نفلی نمازوں کی عادت ہو، مثلاً: تہجد اور اوابین۔ ان نمازوں کو بالکل ختم نہ کرے، بلکہ کچھ کم کرکے باقی قضا نمازیں پڑھ لے۔ مثلاً: تہجد کی بارہ رکعات پڑھ رہا ہے، تو چار رکعات پڑھ کے باقی وقت میں قضا پڑھ لے۔ کیونکہ ایک دفعہ عادت ختم ہوجائے تو پھر آسانی سے نہیں بنتی۔ لہذا اس عادت کو ختم نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ما شاء اللہ سمجھ کی بات ہے، کیوں کہ اگر کسی نے اس کو ختم کر دیا، تو پھر بعد میں اس کی عادت بنانا مشکل ہوگا۔ لہٰذا اس کے ساتھ ملا کر قضا نمازیں پڑھو۔ اس طرح آپ اٹھ بھی جائیں گے اور آپ کو دعاؤں کا ٹائم بھی ملے گا۔ لیکن اگر آپ نے اس کو ختم کردیا اور آپ نے سوچا کہ قضا نمازیں تو کسی وقت بھی پڑھی جاسکتی ہیں، لہذا میں بعد میں پڑھ لوں گا، تو قبولیت والا وقت آپ سے نکل جائے گا اور شاید قضا نمازیں بھی پھر آسانی سے نہ پڑھی جاسکیں۔ پس یہ حکمت کی باتیں ہیں۔ اسی طرح جو رسمی کام ہیں، جیسے: کھانے پینے کے معمولات ہیں، تو ان کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان کو ختم نہ کراؤ، بلکہ ان کی نیت درست کروا دو، کیونکہ جب ایک دفعہ کوئی چیز ختم ہوجائے، تو پھر بعد میں بنتی نہیں ہے۔ بعد میں بے فکری ہوجاتی ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو صحیح فکر اور صحیح عمل نصیب فرمائے۔

سوال میں ہے کہ "اس مہینے میں کون سے اعمال کرنے چاہئیں؟" جواب یہ ہے کہ اعمال تو وہی کرنے چاہئیں جو عام مہینوں میں کرتے ہیں۔ اعمال میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ کثرت اور قلت ایک علیحدہ بات ہے، پس ہم لوگ اس مہینے میں آپ ﷺ پہ کثرت کے ساتھ درود بھیجیں۔یہ جو بعض صحابہ کرام کا حوالہ دیتے ہیں، صحابہ کرام تو ہر وقت کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھتے تھے، تو میں عرض کروں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں "اکابر کا رمضان" کتاب میں حضرت زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ انہوں نے حضرت کو خط لکھا کہ حضرت! رمضان کے آپ کے کیا معمولات ہیں؟ حضرت نے تو ضابطہ کا جواب دے دیا کہ میرے معمولات قابلِ تقلید نہیں ہیں، بلکہ آپ ﷺ کے معمولات قابلِ تقلید ہیں، لہٰذا آپ ان کا پتا کرلیں، میرے بارے میں کیوں پوچھتے ہو۔ حضرت نے تو ضابطہ کا جواب دے دیا، لیکن حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی کب چھوڑنے والے تھے۔ انہوں نے پھر حضرت کے خلفاء جو قریب ہوتے تھے، ان سے پوچھا کہ رمضان شریف میں حضرت کے معمولات کیا ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ حضرت کے جو معمولات غیرِ رمضان میں ہوتے تھے، وہی رمضان میں ہوتے تھے، یعنی تبدیلی نہیں ہوتی تھی، کیونکہ وہ پہلے سے ہی اتنے زیادہ perfect ہوتے تھے کہ ان میں مزید کوئی عمل داخل کرنے یا کم کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا فرمایا کہ حضرت کے جو معمولات غیر رمضان میں ہوتے تھے، وہی معمولات رمضان شریف میں بھی ہوتے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ یہ چیز دیکھیں کہ اگر کسی کے لئے ربیع الاول میں درود شریف کی کثرت دین پر آنے کا ذریعہ بن جاتی ہے، تو آپ اس کو اس سے تو نہ روکو۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو صحیح فکر اور صحیح سمجھ عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔