آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو قسم کے مخاطب

سوال نمبر 1593

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے علی الاعلان دین کی دعوت دینے کا حکم ہوا، تو آپ ﷺ ہر ایک کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی دعوت دیتے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں اکثریت ان کی تھی، جن پر آپ ﷺ نے زیادہ محنت نہیں کی تھی، بلکہ انہوں نے آپ ﷺ کی حقانیت کو خود پہچان لیا تھا۔ اور جن پر آپ ﷺ نے زیادہ محنت کی، وہ آپ ﷺ کی جان کے دشمن ہوگئے۔ تو کیا آپ ﷺ کی امت میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہی طریقہ ہے کہ کوئی اللہ والا ہے یا اللہ والوں کی کوئی جماعت جن پر محنت کررہی ہو، ان میں ہدایت پر کم لوگ آئیں اور بہت سوں کو اللہ تعالیٰ ان کی حقانیت ظاہر کرا دے اور وہ ان سے زیادہ مستفید ہوں؟

جواب:

ہمارے شیخ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کے قریب والے لوگ آپ سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں یا دور والے؟ حضرت نے فرمایا کہ حقیقی مربی اللہ تعالیٰ ہے، وہ دور والوں کو فائدہ پہنچانا چاہے تو دور والوں کو زیادہ فائدہ پہنچا دیتا ہے اور اگر قریب والوں کو فائدہ پہنچانا چاہے تو قریب والوں کو زیادہ فائدہ پہنچا دیتا ہے۔ یعنی اللہ جل شانہٗ کا اپنا قانون ہے اور دعوت کا اپنا طریقہ ہے۔ دعوت کا حکم ہے، لہٰذا دعوت دی جائے گی، لیکن ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، ہدایت کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لہٰذا اس بھروسہ پر یہ کام نہیں کرنا چاہئے کہ میں زیادہ دعوت دوں گا، تو زیادہ ہدایت ملے گی۔ البتہ میں دعوت دوں گا، اس لئے کہ مجھے دعوت دینے کا حکم ہے۔ قرآن میں ہے:

﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ (النحل: 125)

ترجمہ: "اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو اور (اگر بحث کی نوبت آئے، تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

پس ہمیں اللہ تعالی کا حکم ہے کہ ہم دعوت دیں۔ ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (حم سجدہ: 33)

ترجمہ: "اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں فرماں برداروں میں شامل ہوں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

لہذا دعوت دینا ہمارا کام ہے اور اللہ کا حکم ہے، لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ پاک جس کو بھی ہدایت دینا چاہے، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ