نماز پڑھنے کے باوجود گناہ کیوں ہوتے ہیں

سوال نمبر 1592

مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ1: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔

حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’جس شخص کی نماز اس کو بے حیائی اور منکرات سے نہ روکے وہ نماز اس کو اللہ تعالیٰ کی دور کردیتی ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر: 11025)

قرآن پاک اور آپ ﷺ کی کئی احادیثِ شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی برکت سے انسان غلط راستے سے بچ جاتا ہے۔ لیکن ہماری حالت دیکھیں نماز پڑھنے کے باوجود ہم غلط کاموں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

واقعی لوگوں کو اس بارے میں شبہ ہوسکتا ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ہم لوگ حق سے دور ہوجاتے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مثال کے طور پر آپ کو بتایا جائے کہ بھائی! فلاں جگہ پر گاڑی کے ذریعے سے جاسکتے ہیں۔ یہ بات تو ٹھیک ہے، لیکن اگر گاڑی خراب ہو تو پھر ظاہر ہے کہ نہیں جاسکیں گے۔ اسی طرح سے نماز کے ذریعے سے انسان برائیوں سے واقعی دور ہوتا ہے، لیکن اگر نماز، نماز ہی نہ ہو یعنی نماز کے اندر وہ چیز نہ ہو تو؟ کیونکہ نماز میں ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ ظاہر وہ مسائل ہیں جن کا جاننا ضروری ہے اور وہ ارکان ہیں جن کا صحیح طور پر علم کے مطابق ادا کرنا ہے، پھر اس میں فرائض ہیں، واجبات ہیں، سنن ہیں، مستحبات ہیں یعنی یہ اس کا ظاہر ہے۔ اور اس کا جو باطن ہے، وہ اخلاص، خشوع و خضوع ہے اور اس کو اچھی طرح ادا کرنا ہے۔ اور اس میں تمام باتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں۔ یہ سب چیزیں اس کے اندر شامل ہیں۔ اب اگر خدانخواستہ ظاہر بالکل اچھا ہو، لیکن اس کا باطن اچھا نہ ہو یعنی خشوع و خضوع نہ ہو، جیسا کہ فرمایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ پوری مسجد میں ایک آدمی بھی خشوع سے نماز پڑھنے والا نہیں ہوگا۔ اس وقت میں (اللہ معاف فرما دے) شاید آپ حضرات کے ساتھ یہ آخری مجلس ہو کیونکہ کل تو ہم نے جانا ہے، اس وجہ سے ضروری ہے کہ میں یہ بات عرض کروں، بات یہ ہے کہ اس وقت طہارت کے مسائل بہت زیادہ ہیں، لیکن طہارت کے مسائل کو صفر سے ضرب دیا گیا ہے، اس کے بارے میں نہ سوچتے ہیں، نہ فکر کرتے ہیں اور نہ کسی کو بتاتے ہیں، آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ اتنے کھلے کھلے مسائل ہوتے ہیں لیکن اس کے بارے میں پروا ہی نہیں کرتے اور طہارت کے مسئلوں کو نہ جاننے کی وجہ سے یا نہ ماننے کی وجہ سے پوری نماز ضائع ہوجاتی ہے۔ آدمی نماز پڑھتا تو ہے لیکن نماز، نماز نہیں ہے، کیونکہ نماز کیسے ہو اگر کپڑے پاک نہیں ہیں، نماز کیسے ہو اگر جگہ پاک نہیں ہے، نماز کیسے ہو اگر جسم پاک نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں بہت اہم ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس طرف آج کل بالکل دھیان نہیں دیا جاتا ہے، اباحیت یعنی جائز کرنے کا دور ہے۔ اس وقت جو چیز مشکل ہوجاتی ہے اس کو جائز کرتے جاتے ہیں، اپنی محنت اس میں نہیں کی جاتی، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، یہ ایسی بات نہیں کہ میں کسی سے سن کر بات کر رہا ہوں، بالکل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ لوگ طہارت کے مسئلہ میں بالکل پروا نہیں کرتے۔ لہٰذا نمازیں تباہ ہورہی ہیں، حرم شریف میں نمازیں بے طہارت پڑھی جارہی ہیں، دوسری جگہوں پر نمازیں پڑھی جارہی ہیں بے طہارت۔ مثلاً جرابوں کے اوپر مسح ہورہا ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں؟ ہر قسم کے مسائل ہیں آج کل، اس لئے مسائل کو سیکھنا چاہئے۔ اور کم از کم شبہ سے تو بچنا لازم ہے، یہ تو کم از کم ہے۔ جیسے حدیثِ پاک میں آتا ہے:

’’اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ‘‘ (سننِ ابن ماجہ: 3984)

ترجمہ: ’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے‘‘

یعنی حلال اور حرام بالکل واضح ہیں اور ان کے درمیان میں مشتبہ چیزیں ہے، اب مشتبہ چیزوں سے تو بچنا لازم ہے تاکہ اس کو ٹھیک کرسکیں، تو یہ آج کل بڑا مسئلہ ہے کہ طہارت کے مسائل سے غافل ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت جس کو نماز کے اندر خشوع و خضوع کہتے ہیں یعنی بالکل اطمینان سے کھڑے ہونا، یہ بالکل نہیں ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں کہ حرم شریف میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اور کبھی اپنی دستار کے ساتھ کھیل رہا ہے اور کبھی کیا کررہا ہے تو کبھی کیا کررہا ہے، حتیٰ کہ جیب کے اندر ہاتھ ڈال کردوبارہ خالی ہاتھ نکالا۔ بھائی! کیا ضرورت تھی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی نماز کے اندر؟ اور کبھی کیا کبھی کیا، میں حیران ہوکر دیکھ رہا ہوں اور مجھے اپنے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کیوں ان کو دیکھ کر پریشان ہیں؟ میں نے کہا کیا میں خوش ہوجاؤں، کیا کروں؟ کہتے ہیں آگے دیکھیں! (میں نے سوچا) یا اللہ! خیر کہ آگے ناچے گا یا کیا کرے گا؟ بہرحال جس وقت اس نے نماز پڑھ لی اور بیٹھ گیا تو پھر کچھ بھی نہیں کر رہا، بلکہ آرام سے بیٹھا ہوا تھا۔ ساتھی کہنے لگے یہ مسئلہ ہے، یعنی اس کو خارش صرف نماز میں ہوتی ہے۔ ایسے ہی مسجد نبوی میں ہم نماز پڑھ رہے تھے کہ دو تین صفیں ہم سے آگے ہم نے دیکھا کہ جیسے exercise میں لوگ پاؤں کو حرکت دیتے ہیں، بالکل اسی طرح سات آٹھ دفعہ اس نے پاؤں کو کیا۔ اب نماز کے اندر سات آٹھ دفعہ کرنے کا مطلب کیا ہے؟ یعنی یہ نمازوں کو تباہ کیا جارہا ہے، نمازوں کے بارے میں بالکل پروا نہیں کی جارہی۔ اس وجہ سے ان چیزوں کے بارے میں جاننا بھی چاہئے اور نمازوں کے مسائل کو ماننا بھی چاہئے۔ آج کل یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جو چیز تھوڑی سی مشکل ہوجائے مثلاً چمڑے کے موزے ہیں یہ اللہ پاک نے آسان کردیا اس لئے چمڑے کے موزوں پر عمل کرنے میں کیا مشکل ہے، بس پہن لو اور جس چیز میں مسئلہ ہے اور شک ہے اس میں آدمی کیوں جائے؟ یہ چیزیں میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو عادی کر لو مسائل کو جاننے کا اور مسائل کو ماننے کا اور یہ ضروری ہے، ورنہ یہ اپنی نماز کو تباہ کرنا ہے۔ اور کپڑوں کے بارے میں بھی مسائل ہیں لیکن ہمیں بالکل پاکی ناپاکی کا خیال نہیں ہے۔ مثلاً میرے ساتھ خود یہ واقع ہوا ہے کہ میں ’’مری‘‘ میں تھا یعنی یہ پاکستان کی بات ہے، وہاں میں وضو کررہا تھا کہ ساتھ دوسرا tape بھی کھل گیا کیونکہ bathroom ہے تو اس کے قطرے آگئے اور میرے کپڑوں پر گرے، تو وہ جو صاحب تھے وہ فوراً معذرتاً کہنے لگے ’’اف ہو‘‘ غلطی ہوگئی، غلطی ہوگئی اور پھر ہاتھ کو گیلا کر کے میرے کپڑوں پر پھیرنے لگے، میں نے کہا یہ کیا کررہے ہو؟ خدا کے بندے اور گندگی پھیلا رہے ہو۔ اب دیکھیں! اتنی بڑی بات کہ دیندار آدمی ہے لیکن اس کو یہ بھی پتا نہیں ہے کہ اس طریقہ سے چیز صاف نہیں ہوتی بلکہ مزید ناپاک ہوجاتی ہے۔ مثلًا اگر اِدھر پیشاب کا قطرہ گر جائے اور آپ اس پر گیلا ہاتھ مار کر اس کو پھیلا دیں تو کیا وہ پاک ہوگیا؟ اس لئے مسائل جاننے چاہئیں، اگر مسئلے تمہیں معلوم نہیں ہیں تو جاننے والوں سے پوچھو۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43)

ترجمہ: ’’اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس وقت اپنی نمازوں کی فکر نہیں ہے۔ اتنی محنت انسان کرلیتا ہے کہ اٹھ جاتا ہے، وضو کرلیتا ہے، غسل کرلیتا ہے یہ ساری چیزیں کرکے اب اگر ایک معمولی سی چیز میں محنت نہ کرنے کی وجہ سے پوری نماز خراب ہوجائے تو یہ کیا چیز ہے؟ یہ اپنے اوپر بہت بڑا ظلم ہے۔ پھر ہم گلہ بھی کرتے ہیں کہ نماز ہم پڑھ رہے ہیں لیکن ہمارے اندر تبدیلی نہیں آرہی۔ لیکن اس صورتحال میں تبدیلی کیسے آئے۔ لہٰذا آج کل ان باتوں کو سیکھنا بھی چاہئے اور جاننا بھی چاہئے۔ اور خشوع و خضوع کا نمبر تو بعد میں آرہا ہے، یہ ظاہر کی باتیں میں آپ کو بتا رہا ہوں اور وہ جو باطن کی باتیں ہیں وہ اللہ کو پتا ہے کہ کس کا خضوع ہے اور کس کا خضوع نہیں ہے، یہ اللہ کو پتا ہے۔ دراصل ہم لوگوں کو تھوڑی سی فکر اللہ پاک سے مانگنی چاہئے۔ بلکہ ہم سورۃ فاتحہ میں پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۝ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحہ: 5-7)

ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یعنی کم از کم نماز کے اندر تو یہ دعا ہم دل سے پڑھیں، لیکن شاید اس کو دعا سمجھتے بھی نہیں کہ یہ دعا ہے۔ حالانکہ یہ دعا ہے، اسے آپ دل سے کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرما دے کہ جو غلط چیزیں ہیں ہم کو غلط کہیں اور صحیح چیزوں کو صحیح کہہ دیں اور پھر اس کے مطابق ہم عمل بھی کریں۔ پھر دیکھیں کہ نماز کے ساتھ کتنی تبدیلی آتی ہے، پھر نماز کے ساتھ بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔ اس لئے صحیح طریقہ سے نماز پڑھنا شروع کرلو پھر دیکھو کہ ہمارے اندر کتنی تبدیلی آتی ہے۔ کیونکہ صحیح نماز پڑھنے میں مجاہدہ بھی شامل ہے، تو نفس کا علاج بھی خود بخود ساتھ ہوگا۔ ایسے ہی صحیح روزہ رکھنے میں بھی مجاہدہ ہے اور ماشاء اللہ! عمل بھی ہے، اس لئے اس کے ذریعہ سے فائدہ بھی ہوتا ہے اور ایسے ہی صحیح حج کرنے سے بھی۔ جبکہ اس وقت حج تو لوگ کررہے ہیں لیکن صحیح نہیں کررہے۔ خود ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے کہ ہم 11 ذی الحج کو اپنے خیمے میں بیٹھے تھے تقریباً دس ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ ایسا ہوا کہ ہمارے ساتھ ایک بوڑھے ساتھی تھے، غالباً 80 سال اس کی عمر تھی، ہم نے دیکھا کہ وہ غائب ہے، اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ کدھر ہے، جب واپس آیا تو ہم نے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ اس نے بتایا کہ میں نے کنکریاں مار دیں۔ میں نے کہا بھائی! ابھی تو کنکریاں مارنے کا وقت بھی شروع نہیں ہوا کیونکہ وہ تو 12 بجے شروع ہوگا کیونکہ 11 ذی الحج کو تو 12 بجے رمی کا وقت شروع ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ ایک دفعہ ایک آدمی نے صحیح حج کیا تھا لیکن اس کا حج قبول نہیں ہوا تھا جبکہ دوسرے آدمی نے صحیح حج نہیں کیا تھا لیکن اس کا حج قبول ہوگیا تھا۔ اب بتاؤ! اس کا کوئی جواب دے سکتے ہو؟ بھائی! صحیح حج کسی نے کیا ہو لیکن وہ قبول نہیں ہوا اور جس نے صحیح حج نہیں کیا تھا وہ قبول ہوگیا، تو سوال یہ ہے کہ کیا اس کے اوپر وحی آگئی کہ اس کو پتا چل گیا کہ اس کا قبول ہوا اور اس کا قبول نہیں ہوا۔ تو اتنے کھرے کھرے مسائل کو بھی ہم اڑا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے اوپر بہت ظلم کررہے ہیں اور قرآنِ پاک کی یہ جو دعا ہے:

﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الاعراف: 23)

ترجمہ: ’’دونوں بول اٹھے کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اس کے بارے میں ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں ہم نے کیا ظلم کیا ہے جو یہ پڑھ رہے ہیں، حالانکہ ہم اپنے اوپر مسلسل ظلم کررہے ہیں۔ کیونکہ اپنی آخرت جو تباہ کررہے ہوں، کیا وہ ظلم ہے یا نہیں ہے؟ یہ اپنے اوپر ظلم ہے۔ لہٰذا تھوڑی سی محنت نہ کرنے کی وجہ سے ہم اپنی ایک زبردست نعمت (نماز کو) ضائع کررہے ہیں، تھوڑی سی محنت نہ کرکے روزہ ضائع کررہے ہیں، تھوڑی سی محنت نہ کرنے کی وجہ سے ہم اپنے حجوں کو ضائع کررہے ہیں، ساری محنتیں کرکے بس ایک چیز میں پھنس گئے۔ اس وجہ سے آئندہ کے لئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم ذرا احتیاط والے پہلو کو اختیار کرلیں۔ اس وقت جو احتیاط ہماری ہوگی وہ اصل کے قریب آجائے گی۔ کیونکہ بزرگوں کی احتیاط بہت زیادہ تھی اس لئے وہ پہلے سے ہی صحیح ہوتے تھے، لیکن وہ مزید احتیاط کرلیتے تھے۔ البتہ یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہم احتیاط کریں تاکہ صحیح جگہ پر آجائیں، کیونکہ بے احتیاطی ہے اور بے احتیاطی میں احتیاط صحیح طریقے پر آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب) تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔