قابل رشک مسلمان کے صفات

سوال نمبر 1591

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مطالعۂ سیرت بصورت سوال

سوال

حضورِ اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ بڑا قابل رشک ہے وہ مسلمان جو ہلکا پھلکا ہو (یعنی اہل و عیال کا زیادہ بوجھ اس پر نہ ہو،) نماز سے وافر حصہ اس کو ملا ہو، روزی گزارے کے قابل ہو جس پر صبر کر کے وہ عمر گزار لے، اللہ تعالیٰ کی عبادت اچھی طرح کرتا ہو، گمنامی میں پڑا ہو، جلدی سے مر جائے، نہ میراث زیادہ ہو اور نہ رونے والے زیادہ ہوں۔ (سنن ترمذی: 2347)

آپ ﷺ نے اس فرمان میں جن صفات پر رشک فرمایا ہے ان صفات میں پہلی صفت اہل و عیال کا بوجھ کم ہونا ہے، اہل و عیال کا بوجھ کم ہونے سے کیا ان کے اخراجات کا کم ہونا مراد ہے؟ اپنے ذاتی اخراجات کے علاوہ اپنے اہل و عیال کے اخراجات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس کے لئے اہل و عیال کی تربیت کرنی ضروری ہے تاکہ وہ کم پر گزارا کرسکیں؟

جواب:

یہ سب تکوینی باتیں ہیں، ان میں انسان کچھ نہیں کرسکتا۔ مراد یہ ہے کہ اگر ایسا ہو تو پریشان نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس پر خوش ہونا چاہئے۔ کیونکہ آدمی اپنی اولاد کو ختم تو نہیں کرسکتا، بلکہ اگر رزق کی تنگی کی وجہ سے کوئی خاندانی منصوبہ بندی کرلے تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یعنی کوئی شخص اپنے قصد سے یہ ختم نہیں کرسکتا، البتہ اگر کسی شخص کے یہ حالات ہوں تو اسے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ جیسے اکثر لوگ فخر کرتے ہیں کہ ہمارے اہل و عیال زیادہ ہیں۔ اس پر فرمایا گیا کہ یہ فخر کی بات نہیں ہے، بلکہ اگر کسی کو اس آزمائش سے نہیں گزارا گیا تو اس پر وہ خوش ہو کہ وہ ہلکا پھلکا ہے، اسے پروا نہیں ہے۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی، ان کے گھر والوں نے حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دعا کی درخواست کی تو حضرت نے فرمایا: دعا تو میں نے کردی ہے، لیکن دل چاہتا ہے کہ وہ میرے جیسے ہی ہوں۔ کیونکہ حضرت کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور باقی اہل و عیال کی تربیت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ آپ مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ’’آپ بیتی‘‘ پڑھیں کہ حضرت کے والد نے اپنے آپ کو کتنا ذمہ دار سمجھا تھا کہ باقی تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہوکر صرف ایک ہی کام پر لگے کہ زکریا (رحمۃ اللہ علیہ) کی تربیت ہوجائے۔ اور یہ جو فرمایا کہ روزی گزارے لائق ہو۔ یہ اس لئے ہے تاکہ آپ ﷺ کے ساتھ مناسبت ہوجائے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک وقت کھاؤں اور ایک وقت میں اللہ پاک سے مانگوں۔ اسی طرح عبادت اچھی طرح کرتا ہو یعنی اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتا ہو۔ آگے فرمایا کہ گمنامی میں پڑا ہوا۔ کیونکہ شہرت بھی ایک بوجھ ہے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ جو شہرت والے ہوتے ہیں انہیں اکثر دیکھتا ہوں کہ یہ آسانی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے، بلکہ ان کو ہر وقت tension، پریشانی اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں لاحق ہوتی ہیں، مثلاً گورنمنٹ کے جو بڑے لوگ ہوتے ہیں جیسے وزیر یا دوسرے بڑے عہدوں پر جو لوگ ہوتے ہیں، انہیں اتنے مسائل ہوتے ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک دفعہ Stock Exchange کے director ہمارے ساتھ جماعت میں وقت لگا رہے تھے، میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ آپ کے لئے سب سے مشکل چیز اپنے کام میں کیا ہے؟ وہ کہنے لگے یہ کہ چاہے ہمارا دل اندر سے خون خون ہورہا ہو یعنی تکلیف ہو لیکن چہرے پر مسکراہٹ ہونی چاہئے۔ یہ کام بڑا مشکل ہے۔ اور واقعتاً یہ ہے بھی بہت مشکل کہ اندر آپ بالکل ذبح ہو رہے ہوں لیکن آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہو۔ اس لئے شہرت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کے چونچلوں کو برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خود ہی وہ چیز مانگتے ہیں جس سے ان کو نقصان ہوتا ہے۔ اور مال کے بارے میں بتایا کہ مال اتنا ہو کہ بس گزارا ہو۔ شہرت بھی کم ہو اور اہل و عیال کا بوجھ بھی کم ہو، اس لحاظ سے یہ لوگ خوش قسمت ہیں، لیکن یہ خوش قسمتی تکوینی ہے یعنی اگر کسی کو ایسی چیز سے گزارا جائے تو وہ خوشی سے برداشت کرلے۔ مثلًا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت مالدار تھے، لیکن انہوں نے مال کا حق ادا کیا اور مال کو خوب تقسیم کیا، اگر ایسا ہو تو پھر مال کا ہونا ٹھیک ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہی چھوڑ دی تھی، اتنے بڑے ولی اللہ تھے، جب فوت ہوگئے تو کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ حضرت! آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: اللہ نے بڑا کرم کیا، لیکن میرا پڑوسی مجھ سے آگے نکل گیا۔ پوچھا: حضرت! آپ کا پڑوسی کیا کرتا تھا؟ فرمایا وہ عیال دار تھا اور مجھے دیکھ دیکھ کر آہیں بھرا کرتا تھا کہ کاش میرے پاس اتنا وقت ہوتا کہ میں بھی ابراہیم بن ادھم کی جیسی عبادت کرتا۔ چونکہ وہ اپنے اہل و عیال میں لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے اسے زیادہ عبادت کا وقت نہیں ملتا تھا، لیکن اللہ پاک نے اس کی حسرت پر اس کو اتنا دے دیا، کیونکہ اس نے اس چیز کا (اہل و عیال کا) حق ادا کردیا۔ لہٰذا اگر اس قسم کی چیز ملے تو پھر اس کا اس طرح حق ادا کرے جیسے شریعت کا حکم ہے، کیونکہ یہ تکوینی باتیں ہیں لیکن اس پر جو احکامات وارد ہوتے ہیں وہ تشریعی ہوتے ہیں، لہٰذا تشریعی احکامات کا پورا خیال رکھے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو بھی ان چیزوں کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرما دے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ