صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

سوال نمبر 1590

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ



سوال:

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب حضور ﷺ کی کوئی بات نقل کرتے تھے تو ساتھ وہ عمل بھی کرتے جس کو کرتے وقت آپ ﷺ نے وہ بات فرمائی ہوتی تھی۔ جیسے ایک دفعہ آپ ﷺ نے ایک خشک درخت کی ٹہنی کو حرکت دی جس سے پتے گر گئے۔ آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ پوچھتے نہیں اس طرح کیوں کیا۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس کو روایت کیا تو اسی طرح ایک درخت کی ٹہنی کو ہلایا اور مخاطب سے اسی طرح پوچھا جیسے آپ ﷺ نے پوچھا تھا۔ پھر وہ فضیلت بیان فرمائی جو آپ ﷺ نے بیان فرمائی تھی۔ کیا اس کو ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عشق اور آپ ﷺ کی کامل اتباع کہیں گے؟

جواب:

بالکل ایسا ہی ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے عاشق بھی تھے آپ ﷺ کے متبع بھی تھے۔ یہ دونوں باتیں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو درجہ اتم حاصل تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تین نعرے تھے۔ پہلا تھا ''آمَنََّا وََ صَدََّقْنََا'' اس کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے۔ جو ایمانیات کی باتیں ہیں ان کی دل سے تصدیق کی یعنی اقرار باللسان و تصدیق بالقلب دل سے انہوں نے تسلیم کیا۔ ''سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا'' ہم نے سن لیا اور ہم نے مان لیا۔ اس میں درمیان میں تیسری بات نہیں ہوتی جیسے سن لیا اس کو مان لیا۔ یہ دو باتیں ہوگئی۔ تیسری بات آپ ﷺ کے بارے میں فرماتے ہیں:

''فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیْ یَآ رَسُوْلَ اللّٰه ﷺ'' (مشاہدات: 5058)

ترجمہ: ''ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ''-

یہ ان کا حال تھا۔ عبد اللہ بن ابی کے بیٹے کا نام بھی عبد اللہ تھا تو ایک دفعہ سفر سے واپسی پر عبد اللہ بن ابی نے صحابہ کرام اور آپ ﷺ کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہے تو اس کا بیٹا عبد اللہ اس سے پہلے مدینہ منورہ میں داخل ہوکر تلوار لیکر کھڑا ہوگیا اور اپنے باپ عبد اللہ بن ابی سے کہا کہ جب تک تو اپنے آپ کو ذلیل نہیں کہے گا تب تک تجھے مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا- صحابہ کرام واقعی اس سلسلہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ بہرحال ان کا یہ کامل اتباع تھا اور ساتھ ساتھ عشق کا معاملہ بھی تھا۔ اسی طرح تصورِ شیخ بھی ایک اصطلاح ہے جس سے وہ فوائد حاصل ہوجاتے ہیں جو پہلے اس سے ہوا کرتے تھے اور تصورِ شیخ کی طرح چیز بھی ہے کہ اس سے وہ فوائد حاصل ہو جاتے ہیں اس وقت جو پہلے حاصل ہوا کرتے تھے، اب اس کی ایک دلیل بھی ہے۔

فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو کوئی مصیبت اور تکلیف پہنچے تو اس پر:

﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ: 156)

''جو قرآن پاک کی آیت ہے" اور حدیث شریف میں آتا ہے اگر کوئی شخص کسی مصیبت اور تکلیف سے گزر جائے اور پھر بعد میں اس کو یاد آئے اور پھر وہ ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھے تو اس کو ثواب ملے گا۔ تو آپ ﷺ کے ساتھ ان کے جو واقعات گزرے تھے ان کو یاد کر کے مزے بھی لیتے تھے اور ساتھ ساتھ ان کی وہ کیفیت بن جاتی تھی جو کہ آپ ﷺ کی صحبت میں ہونے کی وجہ سے بنتی تھی، اسی وجہ سے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں سے کہا کہ آپ مجھے آپ ﷺ کا حُلیہ مبارک بیان کرلیں کیونکہ آپ اس میں بڑے ماہر ہیں، تاکہ میں اس کو اپنے دل میں رکھ لوں۔ یہ جو شمائل ترمذی میں ہیں اصل میں وہی ہیں جو بیان کیے گیے ہیں اور انہوں نے پوری تفصیل کے ساتھ اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا۔ کبھی میں بھی ان شاء اللہ بیان کروں گا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت محبت کے ساتھ اس کو سنا۔ حالانکہ آپ ﷺ ان کے نانا تھے اور آپ ﷺ کی گود میں ہی پلے بڑھے تھے، اور چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم بچے ہیں۔ اور بچپن میں اتنا حافظہ قوی نہیں ہوتا اور چیزیں یاد نہیں رہتی یا سمجھنے کی استعداد نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے اپنے ماموں ابن ہالہ سے انہوں نے درخواست کی کہ آپ بتا دیں تو انہوں نے بتا دیا۔ اس سے ہمارے حضرات تصورِ شیخ ہی مُراد لیتے ہیں۔ تصور شیخ ایسی چیز ہے جو بڑی مفید تھی۔

مجھے اب بھی مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ یاد آتے ہیں تو ''اَلْحَمْدُ ِللہِ'' حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ مفید چیز ہے، البتہ آج کل جو اس سے منع کیا جاتا ہے وہ اس لئے کہ اس کے ساتھ کچھ چیزیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اور وہ کیا ہے محبت کی وجہ سے اگر کسی میں ابو الحال ہونے کی طاقت نہ ہو تو پھر کیا ہوتا ہے، ابن الحال ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ کچھ ایسی چیزیں اس کے ساتھ ہونے لگتی ہیں جس سے شرک کا معاملہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور باقاعدہ اس سے مانگنا شروع کرلیتے ہیں یا کچھ اس قسم کے کام، جیسے بت پرستی وغیرہ جو اولیاء اللہ کی شان میں انتہائی غُلو کرنے کی بنا پر شروع ہوئی۔ ان بتوں کے نام سورۃ نوح میں ہیں:

﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِـهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا﴾ (سورۃ نوح: 23) ترجمہ: ''اور کہا تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑو اور نہ ودّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو چھوڑو۔''

یہ اس وقت کے اولیاء اللہ تھے۔ لوگوں نے آہستہ آہستہ ان کی تصویریں بنائیں پھر اس کے بعد ان کے مجسمے بنائے پھر ان کے سامنے جھکنے لگے آہستہ آہستہ پھر اس میں عبادت ہونے لگی اور باقاعدہ شرک ہونے لگا۔ یہ اسی طریقہ سے ہوتا ہے کہ جو اولیاء اللہ ہوتے ہیں ان کے ساتھ محبت کی وجہ سے پھر آہستہ آہستہ یہ چیزیں ہونے لگتی ہیں۔ ابھی تصویر جو رکھتے ہیں اپنے بزرگوں کی یہ غلط بات ہے۔ ہمارے صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کو کسی نے کہا حضرت میں آپ کو ایک ایسی چیز دوں گا جس سے آپ بہت خوش ہوں گے انہوں نے کہا کہ کیا، انہوں نے کہا حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہمارے پاس ایک نایاب تصویر ہے وہ میں آپ کو دوں گا۔ فرمایا اگر آپ دیں گے تو میں اس کو ریزہ ریزہ کر دوں گا۔ محبت تو دل میں ہونی چاہئے تصویر کی کیا بات ہے۔ کیونکہ جو خارجی چیز ہے اس سے پھر مسائل بننا شروع ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے ان چیزوں میں احتیاط کے پہلو کی بنیاد پر متاخرین نے اس سے اجتناب کیا ہے۔ لیکن بذات خود یہ چیز مفید ہے اگر اس کو صحیح عقیدہ کے ساتھ اور صحیح تصور کے ساتھ کیا جائے اس وجہ سے ہمارے مشائخ کہتے ہیں کہ اگر خود بخود ہونے لگے تو پھر پرواہ نہ کریں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محفوظ صورت ہے۔ لیکن اگر قصداً کرنے لگو پھر منع ہے۔ جیسے مثال کے طور پر کسی کو مصلے کے اوپر آگے کیا جائے تو اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے اور اگر خود آگے ہو جائے تو پھر مسائل ہوتے ہیں۔ یہاں پر بھی اس طرح ہے کہ اگر خود اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں لے آئے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ظاہر ہے وہ محبت کی وجہ سے ہے اور ہوجاتی ہے۔ اللہ پاک کی حفاظت بھی رہتی ہے لیکن اگر خود قصداً کر لے اس میں مسائل ہیں قصداً نہیں کرنا چاہئے اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ