اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسی مجلس جہاں کچھ لوگ جمع ہوں اور پھر وہ وہاں سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نبی ﷺ پر درود بھیجے بغیر چلے جائیں تو گویا وہ لوگ ایک انتہائی بدبودار مردار کے پاس جمع ہوئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی: 6062)
اس روایت میں ایسی مجلس (جس میں نہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو اور نہ نبی کریم ﷺ پر درود شریف ہو) کو ایک ایسی چیز سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے ہر وہ شخص کراہت محسوس کرتا ہے جس میں تھوڑی سی بھی حس موجود ہو۔ لیکن اس کے باوجود ہماری اکثر مجالس ذکر اللہ اور ذکرِ حبیبِ اللہ ﷺ سے خالی ہوتی ہیں۔ ہم اپنی ان غفلت والی مجالس کو کیسے ذکر اللہ اور ذکرِ رسولِ اللہ ﷺ کی خوشبو سے معطر کرسکتے ہیں؟
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھا سوال ہے۔ دراصل انسان فوری چیزوں سے اثر لیتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا نفس ہمیشہ فعال رہتا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ انسان جس کام کو بہت زیادہ کرے انسان پر اس کا اثر آجاتا ہے۔ اس بات کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم لوگ ذکر اللہ کو عادت بنانے کے لئے کثرت کے ساتھ کسی وقت بھی نہ کرتے ہوں تو اس وقت تک یہ اتنا powerful نہیں ہوتا کہ یہ اس غفلت کا مقابلہ کرسکے جو غفلت ان مجالس سے ہوتی ہے، کیونکہ یہ مجالس فوری چیزیں ہیں (جیسا کہ میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے عرض کیا کہ یہ فوری اثر کرنے والی چیزیں ہیں) لہٰذا انسان اس میں گم ہوجاتا ہے، نتیجاً اللہ پاک کا ذکر اس کو یاد نہیں رہتا، نہ ہی درود شریف یاد ہوتا ہے اور نہ ہی اچھی باتیں یاد رہتی ہیں، بلکہ آج کل کی جو مجالس ہیں (اللہ ہمیں معاف فرمائے) ان میں بہت خطرناک باتیں ہوتی ہیں یعنی ایک دوسرے کا استہزاء، ایک دوسرے کا مذاق، ایک دوسرے کو گالی دینا، بلکہ بعض دفعہ تو ان چیزوں کو بے تکلفی سمجھی جاتی ہے، حالانکہ یہ بے تکلفی نہیں ہے، بلکہ ایک بری عادت ہے۔ کیونکہ بے تکلفی اس کو کہتے ہیں کہ انسان خواہ مخواہ بغیر ضرورت کے تکلفات میں نہ پڑے، یہ بے تکلفی ہے۔ جیسے ہمارے ایک دوست تھے جب کبھی وہ اپنے گاؤں سے آجاتے (کیونکہ اب فوت ہوگئے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے) تو وہ میرا دروازہ کھٹکھٹاتے اور اگر اس نے کھانا نہیں کھایا ہوتا تھا (کیونکہ اس کے سسرال بھی اُدھر تھے) تو کہتے جی! میں نے کھانا نہیں کھایا، تو میں اپنا کھانا باہر بیٹھک میں لے آتا اور ہم دونوں کھا لیتے، اس کے بعد ہم سیر کے لئے چلے جاتے۔ اور اگر کھانا کھایا ہوتا تو دروازہ کھٹکھٹاتے اور کہتے کہ میں کھانا کھا چکا ہوں، لہٰذا آپ کھانا کھا کر باہر آجائیں۔ یعنی اس میں تکلف نہیں ہوتا تھا کہ خواہ مخواہ میں اس کو تکلفاً کہوں کہ آؤ! کھانا کھاؤ اور وہ کہے کہ نہیں نہیں میں نے تو کھانا کھایا ہوا ہے، جبکہ دل میں چاہتا ہو کہ میں کھاؤں کھانا نہ کھانے کی وجہ سے۔ لیکن لوگ اس طرح کرتے ہیں اور یہ تکلف ہے جبکہ اپنے لوگ یعنی جو اپنے ساتھی ہوں ان کو اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ بس بتا دیں کہ میں نے کھانا نہیں کھایا تو کھانا کھالیں گے۔ اور جس نے کھانا کھایا ہوا ہو، وہ ان کو بتا دے کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے تاکہ اس کو انتظام نہ کرنا پڑے۔ بہرحال یہ بے تکلفی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس بے تکلفی کو پسند فرماتے تھے اور اسی کو خود فروغ بھی دیتے تھے اور بتاتے بھی تھے کہ ان چیزوں میں تکلف نہیں کرنا چاہئے، بلکہ جو صحیح بات ہو وہ صاف صاف کہہ دو، اس میں کوئی شرم نہ کرو۔ لیکن یہ بے تکلفی نہیں ہے کہ انسان (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِک) ایک دوسرے کو گالی دے، استہزاء کرے یا اس طرح fool بنائے، یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اور صرف ہمارے نفس کی خواہشات ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ سے ہم خراب ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اب اس کا حل کیا ہے؟ جیسا کہ پوچھا گیا ہے۔ تو اس کا حل یہ ہے کہ کسی وقت خانقاہوں میں جا کر اتنا زیادہ ذکر کرلیں کہ وہ ذکر انسان کے اندر رچ بس جائے۔ اور وہ ذکر پھر واقعی انسان کو ذاکر بنا دیتا ہے، ذاکر اس طرح بنا دیتا ہے کہ آپ اگر ذکر نہ کریں تو خود آپ کا جسم یا آپ کا قلب آپ کو ذکر کی طرف لے آئے گا۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے نعرہ نکلتا تھا ’’اِلَّا اللہُ‘‘ کا یا ’’اَللہُ‘‘ کا اور بے ساختہ نکلتا تھا۔ ایک دفعہ ایک عرب آئے ہوئے تھے، انہوں نے نماز پڑھائی تو حضرت کی زبان سے نماز کے بعد ایک نعرہ نکل گیا، اس پر عرب نے کہا کہ مَا ھٰذَا یَا شَیْخُ؟ یعنی یہ کیا ہے شیخ؟ حضرت نے فرمایا: لَیْسَ فِی الْاِخْتِیَارِ یعنی یہ اختیار میں نہیں ہے۔ ان کو تو یہ جواب دیا، لیکن جب وہ چلے گئے تو حضرت نے تواضعاً فرمایا کہ بھائی! جو آدمی ذکر نہیں کرتا، ان کو بعض دفعہ اللہ میاں زبردستی ذکر کرا دیتے ہیں۔ اور پھر بعد میں جب وہ چلے گئے تو حضرت نے یہ دعا پڑھی:
’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ‘‘۔
ترجمہ: ’’یعنی اے اللہ میرے دل کے وساوس کو اپنے خوف اور ذکر سے بدل دیجئے‘‘
یعنی وساوس کا reaction یا غفلت کا reaction ذکر بن جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے حضرات کو اللہ پاک ذکر دوبارہ شروع کروا دیتے ہیں۔ اور حضرت نے یہ فرمایا تھا کہ جو ذکر نہیں کرتے، لیکن یہ نہیں فرمایا کہ جو ذکر کرتا نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی وسوسہ آجائے یا کوئی اس قسم کی چیز اس کے reaction کے طور پر آجائے تو وہ ذکر کے ساتھ چونکہ مانوس ہوتا ہے، اس لئے اس کو ذکر کرایا جاتا ہے۔ یعنی کسی نہ کسی طریقے سے ان کو ذکر یاد رہتا ہے۔ مثلاً جو لوگ سیر سپاٹے کے لئے چلے جاتے ہیں، ان میں بھی غفلت ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی ذاکر ہوتا ہے تو وہ ہر چیز کو دیکھ کر ذکر کرتا ہے، کسی اچھے پہاڑ کو دیکھا تو کہتا ہے سبحان اللہ! کیا بات ہے، اللہ اکبر، اَلْحَمْدُ للہ، ماشاء اللہ، یعنی یہ چیزیں اس کی زبان پر ہوتی ہیں اور یہ ذکر ہے۔ لہٰذا ہم لوگ کسی خانقاہ میں جا کر اچھی طرح ذکر سیکھ لیں۔ جیسے ایک دفعہ ہمارے پاس گلگت کے ایک عالم آئے تھے، انہوں نے چالیس دن لگائے تھے تبلیغ کے ساتھ، ایک سہ روزہ کے لئے ہمارے پاس آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ مولانا! آپ نے اللہ کے راستے میں وقت لگا لیا ہے اور اب آپ خانقاہ میں آگئے ہیں۔ لہٰذا خانقاہ میں جو چیز سیکھی جاتی ہے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ اور وہ ذکر کرنا سکھایا جاتا ہے۔ تو اب آپ اتنا ذکر کریں گے کہ بعد میں آپ کے لئے ذکر کرنا مشکل نہ رہے۔ اس وجہ سے میں آپ کو کثرت سے ذکر دوں گا۔ انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے۔ میں نے ان کو بہت زیادہ ذکر دے دیا۔ لیکن ماشاء اللہ! انہوں نے وہ کر بھی لیا۔ اور جب وہ واپس چلے گئے تو کافی دنوں کے بعد مجھے ٹیلی فون کیا اور مجھے کہتے ہیں شاہ صاحب! میں وہی ذکر اب تک مسلسل کر رہا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کے پاس وقت ہوتا ہے کہ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ذکر کرتا رہے، اور ماشاء اللہ وہ ہزاروں مرتبہ ذکر کرسکتا ہے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ایک گھنٹہ میں چار ہزار مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر کرسکتے ہیں اور ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا تو اس سے بھی زیادہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کو ذکر کی عادت ہو اور وہ یہاں سے ایک دوسری جگہ جا رہا ہو، یعنی اگر تیس منٹ کی walk ہے یا بیس منٹ کی drive ہے تو اگر وہ ذکر کر رہا ہو تو بیس منٹ میں اس کا تقریباً ہزار سے زیادہ ذکر ہو چکا ہوگا، لہٰذا اگر کسی کو عادت ہو تو اس کے لئے ذکر کرنا مشکل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجلسوں کو اللہ کی یاد سے آباد کرنا چاہئے۔ کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر ایک شخص جو مجلس میں بیٹھا ہو اور مجلس میں کسی نے آپ ﷺ کا نام لے لیا، اور اس پر اس نے درود شریف پڑھ لیا، اس کے بعد باقی لوگوں نے بھی اس کو سن کر درود شریف پڑھ لیا تو سب کا ثواب اس کو مل جائے گا، کیونکہ وہ محرک بن گیا ہے۔ اب یہ کتنی اچھی بات ہے کہ آپ اپنے دوستوں کو ذاکر بنا دیں۔ مثلاً آپ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ بات بات پر کوئی ایسی بات کر رہے ہوں جس سے اللہ پاک کا ذکر ہو رہا ہو، تو اس طریقے سے مجلسیں ذکر سے منور ہوجاتی ہیں اور گناہ اور فسق و فجور سے دور ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ