اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
قبلۂ اول یعنی مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ فلسطین کی اہمیت مسلمانوں کے لئے کس لحاظ سے ہے؟ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے ہمیں اس بارے میں کیا رہنمائی مل رہی ہے؟
جواب:
ہم آپ ﷺ کی امت میں ہیں۔ اور آپ ﷺ ابراہیم علیہ السلام کی ملت میں ہیں، یعنی ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام سب کے باپ ہیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام جیسے اسماعیل علیہ السلام کے والد تھے، اسی طرح حضرت اسحاق علیہ السلام کے بھی والد تھے۔ اور پھر اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل کی پوری نسل چلی ہے جبکہ اسماعیل علیہ السلام سے بنو اسماعیل کی پوری نسل چلی ہے۔ بنو اسماعیل میں آپ ﷺ ہیں، جبکہ بنی اسرائیل میں بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں۔ گویا بنو اسماعیل اور بنی اسرائیل یہ آپس میں cousins ہیں۔ اور بیت المقدس میں ان دونوں کے حضرات ہیں۔ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جس وقت بیت المقدس فتح ہوگیا، اس وقت وہاں پر مسجد نہیں تھی، لیکن پہلے سے صخرہ بیت القدس موجود تھا جو مسلمانوں کا قبلہ تھا، کیوںکہ جب اسلام آیا تو اس وقت قبلۂ اول (جیسا کہ سوال میں بھی ہے) یہی تھا یعنی بیت المقدس۔ اسی کی طرف یعنی صخرہ کی طرف نماز پڑھی جاتی تھی۔ اور سارے پیغمبر جو اس وقت کے تھے وہ سب اس کی طرف منہ کرتے تھے۔ بعد میں جب آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ بھی اسی کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن چونکہ خانہ کعبہ بنو اسماعیل اور ابراہیم علیہ السلام کے لئے خصوصی تھا، یعنی ابراہیم علیہ السلام چونکہ خصوصی طور پر ادھر لائے گئے تھے اس کو آباد کرنے کے لئے، جس کی وجہ سے یہاں پر بنو اسماعیل آباد ہوگئے۔ لیکن آپ ﷺ کے وقت میں بھی قبلہ بیت المقدس ہی تھا، پھر بعد میں (چونکہ آپ ﷺ کے دل میں یہ بات بار بار آتی تھی تو) اللہ پاک نے بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کو ہمارا قبلہ بنا دیا۔ لیکن بہرحال وہ ہمارا قبلۂ اول تو رہا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ارضِ فلسطین کے لئے اللہ پاک نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں قرآنِ پاک میں وہ یہ ہیں:
﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ﴾ (بنی اسرائیل: 1)
ترجمہ:1 ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں‘‘۔
یعنی اللہ پاک کی خصوصی نشانیاں اس کے اندر موجود ہیں اور اس میں برکت ہے اور پھر ہماری نسبت وہاں پر مسجد اقصیٰ کے ساتھ ہے، کیونکہ مسجد اقصیٰ وہاں پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت میں بنا دی گئی تھی۔ لہٰذا تینوں بڑے مذاہب اسلام، یہودی اور عیسائی، ان کا اس کے ساتھ تعلق ہے، عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیت اللحم کے ساتھ ہے اور یہودیوں کا تعلق داؤد علیہ السلام کی جو مسجد تھی اس کی وجہ سے ہے۔ اس وجہ سے یہ آپس میں ایک Point of contempt ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے لئے اس کی اہمیت قبلۂ اول کے لحاظ سے ہے اور ساتھ ساتھ ارضِ فلسطین کی وجہ سے ہے کیونکہ قرآن پاک میں اس کے متعلق یہ آیت مذکورہ بالا ہے، اور پیغمبروں کی زمین کے لحاظ سے بھی ہے۔ کیونکہ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو ہم صحیح معنوں میں follow کرتے ہیں اور عیسائی جو follow کرتے ہیں وہ صرف ان کا نام لیتے ہیں، لیکن ان کو follow نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی خواہشات کو follow کرتے ہیں۔ ہم ان کو exactly follow کرتے ہیں، کیونکہ ان کو ہم پیغمبر مانتے ہیں اور وہ پیغمبر تھے۔ لہٰذا ہمارا ان کے لحاظ سے عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ قریبی ہے۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسی ہی بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بھی پیغمبر تھے، ہم ان کو پیغمبر مانتے ہیں اور انہوں نے فرمایا تھا کہ جب میرے بعد آپ ﷺ آئیں تو ان پر ایمان لے آنا۔ چنانچہ مسلمان اس پر عمل کر چکے ہیں، لیکن جو ان کے ماننے والے کہلاتے ہیں انہوں نے ان کے پورے اعمال پر عمل نہیں کیا بلکہ انہوں نے صرف ان کا نام استعمال کیا ہے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا تھا (یعنی عاشورہ کا جو روزہ رکھا جاتا تھا کہ) ہم زیادہ اس کے حق دار ہیں کہ ہم یہ روزہ رکھیں۔ (ابنِ ماجہ: 1738)
یعنی وہاں کے جو پیغمبر تھے ان پر ہمارا زیادہ حق ہے، اور ان کے ساتھ ہمارا تعلق زیادہ ہے۔ لہٰذا یہ ہمارے لئے پیغمبروں کی سرزمین ہے، اس لئے ہمارے لئے تو یہ مقدس ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ پیغمبر بنی اسرائیل کے اندر پیغمبر ہیں بلکہ وہ پیغمبر ہمارے بھی ہیں کیونکہ ہمارا ان پر ایمان ہے اور ہم لوگ ان کے طریقے پر چل رہے ہیں، تو یہ ہمارے لئے اصل ہیں۔ لہٰذا یہ پیغمبروں کی سرزمین ہے اور ساتھ ساتھ یہ بات ہے کہ اس میں برکت ہے اور مسجد اقصیٰ ہے اور صخرۂ قدس ہے، یہ سب چیزیں ہمارے لئے ان سے زیادہ محترم ہیں۔ لیکن بہرحال وہ بھی claim کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اس کو ایسا کیا جاتا ہے کہ اس میں کسی مذہب والے کی مخالفت نہ کی جائے۔ مثال کے طور پر پہلے سے جو گرجے بنے ہوئے ہیں، اسلام میں یہ ہے کہ ان کو توڑا نہیں جائے گا، لیکن دوسرے نئے گرجوں کو اس طرح نہیں بننے دیا جاتا۔ اسی طریقے سے وہاں پر پہلے جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہم نے سب کو وہ کرنے دیا تھا، لہٰذا ہمارا بھی حق ہے کہ ہماری جو چیزیں ہیں ان کی بھی حفاظت ہو، اور ان کی مخالفت نہ ہو۔ اس وجہ سے جس وقت وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف سازشیں کرتے ہیں تو اس پر پورے مسلمانوں کا حق ہے کہ اس پر احتجاج کریں اور ان سے وہ لے لیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جو کام کیا تھا چونکہ ان کے وقت میں پورا یورپ چڑھ آیا تھا مسلمانوں پر یعنی مسلمانوں سے اس کو بازیاب کرنے کے لئے وہ چڑھ آیا تھا تو پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی بہادری اور انتہائی حکمت عملی کے ساتھ بیت المقدس کو ان سے لیا تھا اور اَلْحَمْدُ للہ اسی وقت سے یہ چلا آرہا تھا۔ لیکن پھر ہماری سستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے یہ ہمارے ہاتھ سے چلا گیا اور اب ان کے پاس ہے۔ لیکن ایک تو یہ ہمارا حق ہے، وہ تو اللہ کو پتا ہے اور وہ ایک شرعی چیز ہے، لہٰذا ہم تو ان کے ساتھ اس طرح deal کریں گے۔ لیکن ایک ملکی قوانین ہوتے ہیں، یعنی عالمی قوانین جس کو کہتے ہیں، تو عالمی قوانین کے لحاظ سے ہر آدمی کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے اور وہاں پر جو فلسطینی ہیں ان کو بھی اپنے طریقے سے آزادی ہے اور مسجد اقصیٰ کی بھی حرمت ہے جس طرح سے صخرۂ قدس کی حرمت ہے۔ لہٰذا عالمی قوانین کے لحاظ سے یہ right بنتا ہے مسلمانوں کا کہ مسلمان بھی وہاں پر آرام سے رہیں اور مسلمان وہاں پر اپنی عبادات صحیح طریقے سے ادا کرلیں، اور اگر کوئی نہیں کرنے دیتا تو ان کے ساتھ جہاد ہوگا۔ اور اب یہی چیز ہے جو فلسطینی حضرات کر رہے ہیں۔ لیکن باقی دنیا خاموش ہے، اللہ تعالیٰ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ فلسطینیوں کی مدد کریں۔ اگرچہ ان کی تو جگہ ہے لیکن مسلمان ہونے کے لحاظ سے ہم ان کے ساتھ ہیں اور یہ بیت المقدس ہمارا متبرک مقام ہونے کے لحاظ سے ہم لوگ اس کی حفاظت پر مامور ہیں اور ہم لوگوں کو اس کی حفاظت کرنی چاہئے اور ان سے یہ دوبارہ بازیاب کروانا چاہئے۔ یہ ہمارے لئے بہت اہم بات ہے کیونکہ تین مساجد کو سپیشل خصوصیت اسلام نے عطا کی ہے۔ ایک مسجد حرام مکہ مکرمہ میں، دوسری مسجد نبوی مدینہ منورہ میں، اور تیسری مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی، ان تینوں مساجد کی حرمت بہت زیادہ ہے، ان میں اہمیت کے لحاظ سے پہلے مسجد حرام ہے، پھر مسجد نبوی ہے، اور پھر مسجد اقصیٰ ہے۔ لہٰذا مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے تمام مسلمانوں کو اکٹھا ہونا چاہئے اور ایک آواز ہوکر اسرائیلیوں سے اس کو لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قوت عطا فرمائے، ہمت عطا فرمائے اور حکمت عطا فرمائے کہ اس کے مطابق ہم کام کرکے ان سے یہ دوبارہ حاصل کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ وقت نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔