موجودہ دور میں مسلمانوں کے خلاف منصوبے

سوال نمبر 1610

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

منافقین نے مسجد ضرار تعمیر کی، جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ مسجد شعائرِ اسلام میں ہے، تو کیا ہمارے دور میں بھی مسلمانوں کے دشمن شعائرِ اسلام کے نام پر ایسی جگہ بناتے ہیں جہاں سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہو؟ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے منافقین کے منصوبہ سے آگاہ کیا، تو ہم مسلمان دشمنوں کی اس قسم کی چالوں سے کیسے آگاہ ہوسکتے ہیں؟

جواب:

اصل میں اللہ جل شانہٗ نے ہم کو بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے اور وہ نعمت ہے عقل کی بصیرت۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو بصیرت عطا فرمائی ہو، وہ تاڑ لیتا ہے۔ اگرچہ اس کے لئے دلائل کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ صرف اپنی سوچ پر عمل کریں۔ لیکن اگر دلیل تک بات پہنچ جائے، تو پھر اگر طاقت ہو، تو ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں، جو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ کیا۔ لیکن دلیل تک پہنچنا ضروری ہے، کیونکہ آپ ﷺ پر تو وحی ہوگئی تھی، اس لئے ان کو دلیل دینے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن ہمیں وحی تو نہیں ہوتی، البتہ عقل اور بصیرت کو استعمال کرکے ہم ایک بات تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن وہ transparent انداز میں ہو کہ سب لوگوں کے اوپر کھل جائے کہ یہ بات ایسی ہے، تو پھر اس کے مطابق ایسا عمل ہوسکتا ہے۔ جیسے سلطان نور الدین زنگی کے دور میں کفار جو آپ ﷺ کی قبر مبارک سے جسدِ مبارک کو نکالنا چاہتے تھے، مگر وہ پکڑے گئے۔ اس کے لئے حضرت نے پورا نظام استعمال کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی مدد فرمائی، تو پکڑنے کے بعد ان کو سزا دی گئی۔ مقصد یہ ہے کہ یہ سازشیں تو ہوتی رہیں گی، بلکہ مزید بڑھتی جائیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ جتنا جتنا آپ ﷺ کے دور سے دوری ہوتی جا رہی ہے، اتنا اتنا شر بڑھتا جا رہا ہے۔ جب شر بڑھے گا، تو دجالیت آئے گی یعنی دجل و فساد ہوگا۔ اس وقت اسلام کا نام لے کر اس پر دھوکہ دینا بالکل ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ میں آپ کو مثالیں دے سکتا ہے Nepolian Bonapart جو تھے، جس وقت جنگ ہو رہی تھی، تو مصر میں جا کر اس نے تقریر کی اور بات بات پر آپ ﷺ کا نام لے کر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتا تھا۔ عرب کے سادہ لوگوں نے کہا کہ یہ تو ہمارا ساتھی ہے، یہ آپ ﷺ کا اتنا ادب کر رہا ہے، بہت زیادہ قدر کر رہا ہے اور احترام کے ساتھ آپ ﷺ کا نام لے رہا ہے، درود پاک کے ساتھ نام لے رہا ہے، تو بس یہ ہمارا ہے۔ انہوں نے اس کے اوپر اعتماد کر لیا، پھر اس نے کہا کہ ہم آپ کے بادشاہ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ ٹینک لے آئے اور ان کے محل کے گرد کھڑے کئے۔ پھر ایک دن ان کے محل پہ قبضہ کر لیا، بس پھر مصر ان کے قبضہ میں آگیا۔ چنانچہ وہ جو درود شریف پڑھ رہا تھا، وہ کس لئے پڑھ رہا تھا؟ دھوکہ دینے کے لئے پڑھ رہا تھا۔ اسی طریقہ سے گاندھی جی تھے۔ ایک دفعہ ایک بہت بڑے عالم ان کے گھر پہ آ کر ان کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے، تو اس نے آپ ﷺ کی سیرت پر سیر حاصل گفتگو کی کہ آپ ﷺ تو ایسے تھے، آپ ﷺ کو ایسے تھے۔ وہ سمجھتا تھا کہ میری تعریف کریں گے کہ میں نے ان کے پیغمبر کی اتنی تعریف کی ہے۔ وہ سب خاموشی سے سنتے رہے۔ اخیر میں انہوں نے کہا کہ گاندھی جی! ہمیں آپ کی ان باتوں سے حیرت نہیں ہو رہی، کیونکہ یہ باتیں تو ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ مجھے یہ بتاؤ کہ آپ کو آپ ﷺ کے ساتھ اختلاف کس بات پہ ہے؟ میں وہ ڈھونڈنا چاہتا ہوں۔ ابھی تک میں آپ کو اس لئے سن رہا تھا کہ مجھے پتا چلے کہ کس بات پر اختلاف ہے، جس کی وجہ سے آپ مسلمان نہیں ہو رہے، ورنہ جن کی آپ اتنی زیادہ تعریف کر رہے ہیں، آپ ان کی بات کیوں نہیں مان رہے۔ آپ مسلمان ہوجائیں۔ بس پھر گاندھی جی خاموش ہوگئے اور کچھ بھی نہ کہہ سکے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں شکار کرنا چاہتے ہو؟ شکاری کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شکار کی زبان بولتا ہے، تاکہ اس کے اوپر اس کو یقین آجائے۔ ہم ایسے نہیں ہیں کہ آپ کے اوپر یقین کریں، بات بالکل صحیح ہے۔ یہ طریقہ کار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دور کے اندر سادہ نہیں بننا چاہئے، بلکہ اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں، اپنے کان کھلے رکھنے چاہئیں اور بہت اچھی طرح سوچ بچار کرکے لوگوں پہ اعتماد کرنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دھوکہ دینا ایک فن بن چکا ہے، مختلف طریقوں سے میڈیا کے اوپر دھوکے جال بچھائے گئے ہیں، مختلف طریقوں سے لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ اسی طریقہ سے مختلف قسم کی سوسائٹیاں اور جماعتیں رفاعی کاموں کے نام پر ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ یورپین لوگ جنوبی افریقہ میں گئے، تو حکومت مقامی افراد کی تھی اور انجیل یورپین کے پاس تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ انجیل مقامی افراد کے پاس چلی گئی اور حکومت یورپین لوگوں کے پاس آگئی۔ پس اس طرح کی جو باتیں ہوتی ہیں، انہیں ہم لوگوں کو سمجھنا چاہئے۔ ہر دفعہ اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک دن میں بات ہوجاتی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے جو شکست دی تھی، وہ ایسے نہیں دی تھی۔ انہوں نے پہلے ان تمام ریشہ دوانیوں کو ختم کیا تھا اور وہ اپنے کان کھڑے رکھتے تھے۔ وہ بہت alert رہتے تھے، لہذا ہمیں بھی alert ہونا چاہئے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو یہ توفیق نصیب فرما دے کہ ہر وقت مسلمانوں کی خیر کا سوچیں اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے بنتے ہیں، ان سے آگاہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ