دنیا سے بے رغبتی رکھنے والوں کی اس دور میں پہچان

سوال نمبر 1609

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی بندہ کو اس حال میں دیکھو کہ اس کو زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی و بے رخی اور کم سخنی اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمائی ہے، تو اس کے پاس اور اس کی صحبت میں رہا کرو، کیونکہ جس بندہ کا یہ حال ہوتا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت کا القاء ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، بیہقی)

آج کل کے دور میں ایسے حضرات کی پہچان ہم کیسے کرسکتے ہیں؟

جواب:

نشانیاں بتائی گئی ہیں، جن کے ذریعے سے ہم ان کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ البتہ ایسے لوگوں کو حکمت کے القاء ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے حجابات میں بہت ساری چیزوں کو جو ساتھ ہوتی ہیں، ان کو نہیں جانتا ہوتا، یعنی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تو ہر چیز میں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ہم ان کو اس وجہ سے نہیں دیکھتے کہ حجابات کی وجہ سے ہماری آنکھیں، ہمارے کان اور ہمارے دماغ بند ہیں، وہ حکمتیں ہمیں نظر نہیں آتیں۔ لیکن اگر ایک انسان زہد اختیار کرتا ہے یعنی دنیا کی چیزوں سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے اور زبان کو خاموش رکھتا ہے، تو پھر زبان، کان اور آنکھ وغیرہ کا صحیح استعمال ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں پھر حجابات دور ہوجاتے ہیں۔ جب حجابات دور ہوجاتے ہیں تو پھر اللہ پاک کی حکمتیں اس کے اوپر کھلنا شروع ہوجاتی ہیں اور وہ ان کو سمجھ رہا ہوتا ہے، لہٰذا اس کو بھی ان کا پتا چل جاتا ہے۔ فرشتوں کے ساتھ اس کو مناسبت ہوجاتی ہے، لہٰذا فرشتوں کو اللہ پاک نے جو علوم دیئے ہوتے ہیں، یعنی ملاءِ اعلیٰ سے جو علوم آتے ہیں، وہ اس پر بھی کھلنا شروع ہوجاتے ہیں، ایسے لوگوں کے قلوب کو فرشتوں کے علوم کے ساتھ مناسبت ہوجاتی ہے۔

بہرحال! یہ بات صحیح ہے کہ اگر کوئی شخص زہد کی حالت میں رہے، تو اس پر حکمت کا القاء ہوتا ہے۔ جیسے میں مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی مثال دی ہے کہ حضرت اپنے کھانے پینے کا بہت خیال رکھتے تھے، یعنی شبہ والی چیزیں بالکل نہیں کھاتے تھے، حتیٰ کہ اگر سات سات آٹھ آٹھ دن تک کچھ نہ ملتا، تو کچھ نہ کھاتے۔ ایک دفعہ خود فرمایا کہ تکلیف تو بہت ہوگئی، لیکن دل بچ گیا۔ ایسا حج کے موقع پہ ہوا تھا، حضرت اپنے ساتھ توشہ لینا بھول گئے تھے، کچھ اور کھاتے نہیں تھے۔ اس لئے آٹھ دن کا سفر انہوں نے پھر ایسے ہی بغیر کچھ کھائے کیا، جب جدہ میں پہنچے، تو اس کے بعد انتظام کیا گیا۔ پھر فرمایا کہ تکلیف تو بہت ہوگئی، لیکن دل بچ گیا۔ چنانچہ ان کی ایسی حالت تھی کہ ان کو کوئی شخص مشبہ چیز نہیں کھلا سکتا تھا۔ اللہ تعالی بہت ساری چیزوں سے ان کو آگاہ فرما دیتے تھے۔ تو اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں، یہ چیزیں اب بھی ہوسکتی ہیں۔ جن کو اللہ پاک نصیب فرما دے، تو ہوجاتی ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے "خواجہ معصوم" رحمۃ اللہ علیہ ابھی بچہ تھے، مسجد کے باہر جو نمازیوں کی جوتیاں ہوتی تھیں، وہ ان کی جگہ تبدیل کردیتے تھے، کچھ جوتیاں ایک طرف رکھتے اور کچھ جوتیاں دوسری طرف رکھتے تھے۔ حضرت نے دیکھا، تو بہت ڈر گئے، کیونکہ ان کو پتا چل گیا کہ وہ جنتیوں کی جوتیاں ایک طرف رکھتے ہیں اور دوزخیوں کی جوتیاں دوسری طرف رکھتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ یہ بچے کو کیا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے شیخ خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا کہ حضرت! میں اپنے اس بیٹے کے ساتھ کیا کروں؟ یہ تو یہ کر رہا ہے۔ فرمایا کہ میرے پاس بھیج دو۔ ان کے پاس بھیج دیا گیا، کچھ دن اپنے ساتھ رکھا، تو وہ کیفیت ختم ہوگئی۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ سے پوچھا کہ حضرت! آپ نے کیا کیا؟ فرمایا کہ بازار کا کھانا کھلایا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ پھر ایسی چیزیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں مشتبہ اور حرام چیزوں کے بارے میں محتاط رہنا چاہئے، ان چیزوں کے بارے میں ہم جتنی احتیاط کریں گے، اتنا اللہ تعالیٰ ہماری زبان پر حکمت کو جاری فرمائے گا اور ہمیں صحیح باتوں کا پتا چلے گا اور ان کے اوپر استقامت نصیب ہوگی۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ