اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿هٰذَا بَصَآىِٕرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ وَخَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةً فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (الجاثیہ: 20-23)
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
ترجمہ1: "یہ (قرآن) تمام لوگوں کے لئے بصیرتوں کا مجموعہ ہے، اور جو لوگ یقین کریں ان کے لئے منزل تک پہنچانے کا ذریعہ اور سراپا رحمت ہے۔ جن لوگوں نے برے برے کاموں کا ارتکاب کیا ہے، کیا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ انہیں ہم ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہوجائے؟ کتنی بری بات ہے جو یہ طے کیے ہوئے ہیں۔ اور اللہ نے سارے آسمانوں اور زمین کو برحق مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، اور اس لیے کیا ہے کہ ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کاموں کا بدلہ دیا جائے، اور دیتے وقت ان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے۔ پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟"۔
قرآن پاک کا تعارف جیسا کہ ﴿الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرۃ: 1-2)
ترجمہ: "الم۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے"۔
میں ہے، اسی طریقہ سے یہاں پر یہ تعارف کرایا گیا ہے کہ اس میں تمام بصیرتیں جمع ہیں، یعنی اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی بصیرت حاصل ہوسکتی ہے اور جو لوگ یقین کریں یعنی ان باتوں پر یقین کریں جو قرآن میں ہیں، تو ان کے لئے منزل تک پہنچانے کا ذریعہ اور سراپا رحمت ہے۔
غور کریں کہ وہاں پر فرمایا گیا: ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ یعنی قرآن کے ہدایت ہونے کو تقویٰ کے ساتھ معلق کیا اور تقویٰ دل میں ہوتا ہے۔ اور یہاں پر فرمایا گیا کہ جو لوگ یقین کریں، قرآن ان کے لئے ہدایت ہے اور یقین کا تعلق عقل کے ساتھ ہے۔ لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دل و دماغ سے انسان کو قرآن کی ہدایات پر یقین ہو، دل بھی مطمئن ہو اور عقل بھی اس پر مطمئن ہو، تو پھر یہ ہوتا ہے کہ ہدایت کے لئے اور آخرت کی کامیابی کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں، وہ سب اس کے اندر موجود ہیں۔ جیسے: آخرت کی کامیابی کے لئے بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ آخرت کی کامیابی کے لئے انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ کون سی چیز میرے لئے مفید ہے اور کون سی چیز مفید نہیں ہے یعنی آخرت کے لحاظ سے اس میں نقصان ہے، اور اس کے لئے بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ بصارت سے انسان سامنے کی چیز یعنی ظاہری چیز کو دیکھتا ہے اور بصیرت سے انسان باطنی چیز کو دیکھتا ہے کہ اس چیز کا باطن اور اس کی اصل کیا ہے۔ پس یہ تمام چیزیں قرآن میں موجود ہیں۔ لہذا دونوں باتیں صحیح ہیں، یعنی دل میں بھی تقویٰ ہونا چاہئے، جس کے لئے فجور کے تقاضوں کو دبانا پڑے گا اور عقل کو بھی اس پر اطمینان ہونا چاہئے۔ تو پھر قرآن میں منزل تک پہنچانے کے لئے ساری کامیابیاں موجود ہیں۔
ترجمہ: "جن لوگوں نے برے برے کاموں کا ارتکاب کیا ہے کیا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ انہیں ہم ان لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، جس کے نتیجہ میں ان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہوجائے؟"۔
اس آیت میں آخرت کی زندگی کی ضرورت بتائی جا رہی ہے کہ اگر آخرت کی جزا اور سزا نہ ہو، تو اچھے اور برے لوگ سب برابر ہوجائیں گے اور جو نیک لوگ ہیں، جنہوں نے دنیا میں شریعت کے احکام پر عمل کر کے محنت اٹھائی یا مخالفین کی طرف سے تکلیفیں برداشت کیں، اگر ان کو مرنے کے بعد اس قربانی کا کوئی انعام نہ ملے، تو ان کا مرنا جینا بالکل برابر ہو جائے گا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ایسی نا انصافی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا کہ ہم نے کائنات اسی برحق مقصد کے لئے پیدا کی ہے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔
سبحان اللہ۔ یعنی اگر ایک انسان اس زندگی میں جو موت سے پہلے تک ہے، کسی کا ظلم سہتا ہے اور ظالم کو اس کی سزا نہیں دی جاتی، تو وہ ظلم کرتا رہے گا، لوگوں کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔ لہٰذا اس کے لئے تنبیہ کے طور پر ایک ایسی چیز ہونی چاہئے کہ اس کو معلوم ہو کہ میں جو کر رہا ہوں، اس میں میرا کیا نقصان ہے۔ جس کی وجہ سے پھر وہ اس سے بچے گا۔ یہ ایک بات تو ظالم کے لئے ہے۔ اور مظلوم کے لئے یہ بات ہے کہ اس کو بدلہ ظالم سے لے کے دیا جائے گا۔ اگر ظالم نے مال غصب کیا ہے، تو اس کے بدلہ میں اس کی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی۔ اگر اس کی عزت لوٹی ہے، تو اس کے مطابق اس کو سزا دی جائے گی، یعنی اس سے اس کو compensation دیا جائے گا۔ پس ایک یہاں کی زندگی ہے اور ایک وہاں کی زندگی ہے۔ تسلی اس بات کی وجہ سے ہے کہ یہاں کی زندگی میں اگر کسی کو تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے، جس میں اس کا اپنا کوئی ایسا عمل نہ ہو جس کی وجہ سے وہ تکلیف اٹھا رہا ہے، کسی اور کے عمل کی وجہ سے یا تکویناً آزمائشی طور پر تکلیف اٹھا رہا ہے، تو اس کو وہاں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اگر تکوینی طور پر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کا اجر دے گا۔ جیسا کہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے عمل سے آگے نہیں بڑھ سکتے، تو ان کو کوئی ایسی تکلیف دی جاتی ہے، جس پر وہ صبر کرتے ہیں، تو اللہ جل شانہ ان کو وہاں مقام دے دیں گے۔ یہ تکوینی تکلیف کی بات ہے اور اگر کسی دوسرے نے تکلیف پہنچائی ہے، تو اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا، لہٰذا دونوں طرف اس کے لئے اطمینان ہے۔ پس پتا چل گیا کہ ظالم اور مظلوم کے لئے، اچھے اور برے کے لئے آخرت کی زندگی کا یقین لازمی ہے۔ اس لئے فرمایا:
﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 4)
ترجمہ: "اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں"۔
سورۂ بقرہ کے بالکل ابتدائی رکوع کے اخیر میں یہ فرمایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا یقین تقویٰ کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ کیوں کہ پہلے ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ فرمایا گیا، ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ تو target ہے اور ﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ اس کا سبب ہے۔ جب تک آخرت پر یقین نہیں ہوگا، اس وقت تک وہ متقین میں سے نہیں ہوسکتا۔ متقین میں ہونے کے لئے ﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ ضروری ہے۔ اور پھر اس کا connection یہ ہے کہ اس کو سمجھنے کے لئے کہ تقویٰ کا مطلب کیا ہے اور اس میں کیا کرنا پڑتا ہے اور آخرت پر یقین ہو، تو کیا کرنا پڑتا ہے؟ یہ سب درمیان میں بتایا گیا ہے۔ فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3-4)
ترجمہ: "(وہ ڈر رکھنے والے) جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں"۔
مطلب یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں باہم مربوط ہیں اور ان سب کا تعلق ان دونوں کے ساتھ ہے۔ چونکہ یہ زندگی عمل کے لئے ہے اور وہ زندگی جزا کے لئے ہے، تو جو انسان یہاں وہ عمل کرے، جس کی یہاں ضرورت ہے، تو وہاں اس کو وہ چیز مل جائے گی، جو اس عمل کا بدلہ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان چیزوں کی سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
ترجمہ: "کتنی بری بات ہے جو یہ طے کیے ہوئے ہیں۔ اللہ نے سارے آسمانوں اور زمین کو برحق مقصد کے لئے پیدا کیا ہے، اور اس لئے کیا ہے کہ ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کاموں کا بدلہ دیا جائے، اور دیتے وقت ان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے"۔
یہ ترجمہ ﴿وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ کے جملہ کو ﴿لِتُجْزٰٰی کُلُّ نَفْسٍ﴾ سے حال قرار دینے پر مبنی ہے۔
ترجمہ: "پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے"۔
مطلب یہ ہے کہ جیسے خدا کی بات ماننی چاہئے، کیوں کہ لازمی بات یہ ہے کہ انسان خدا کی بات مانے۔ اب خدا کی بات موجود ہے اور وہ ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ﴾ میں موجود ہے اور دوسری طرف نفس کی خواہش آگئی، تو نفس کی خواہش کا تقاضا اور ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم اور ہے۔ پس جس نے اللہ کے حکم کو چھوڑ کر نفس کے تقاضے کو لے لیا یعنی اس کی بات مان لی، تو اس نے اس کو خدا بنا لیا، یعنی جو مقام اللہ کا تھا، وہ اس نے اپنے نفس کو دے دیا۔ اسی وجہ سے یہاں پر فرمایا گیا:
ترجمہ: "جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا"۔
علم سے مراد یہ ہے کہ اس کو پتا ہے کہ یہ چیز کیا ہے۔ اور گمراہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ صحیح راستہ پہ نہیں جا رہا۔ مثلاً ایک آدمی کو پتا ہے کہ یہ راستہ پشاور کو جاتا ہے اور وہ جانا لاہور چاہتا ہے، لیکن وہ اسی راستے پر جا رہا ہے اور پھر مطمئن بھی ہے، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جیسے کسی بزرگ نے فرمایا ہے، کیونکہ بزرگوں کے الفاظ بھی قرآن و حدیث سے ماخوذ ہوتے، لیکن صرف اپنے اپنے زمانے اور اپنے اپنے اوقات کے لحاظ سے وہ ان کو کہہ دیتے ہیں۔ ان بزرگوں نے فرمایا کہ: ایں راہ بترکستان می روی و مکہ نمی روی۔ یعنی یہ راستہ ترکستان کو جاتا ہے، مکہ کو نہیں جاتا۔ مطلب یہ ہے کہ تم جو اعمال کر رہے ہو، یہ جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں، جنت تک پہنچانے والے نہیں ہیں۔ یہاں پر جو فرمایا گیا ہے کہ علم کے باوجود اللہ نے اس کو گمراہ کر دیا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ اسے علم ہوتا ہے، لیکن وہ علم کے مطابق عمل نہیں کر رہا ہوتا۔ میں آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں کہ ایک شخص ہے، جو ایمانیات میں سے کسی چیز کو نہیں مانتا، تو وہ کافر ہے۔ لیکن اگر ایمانیات کو مانتا ہے، تو پھر وہ کافر تو نہیں ہے، بلکہ مسلمان ہے، لیکن اگر وہ ایمانیات کے تقاضے پہ عمل نہیں کرتا، تو پھر وہ گناہ گار ہے۔ اور ایمانیات کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے تقویٰ ہے، کیونکہ جب تک تقویٰ نہیں ہوگا، اس وقت تک ایمانیات پر عمل نہیں ہوسکے گا۔ اب اس کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک یقین ضروری ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عقل اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہی ہو، درمیان میں کوئی کمزوری نہ ہو، اس کو اچھی طرح اس کی تفصیلات کا پتا ہو، تو پھر یقین اس کو حاصل ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کا دل مطمئن ہو، تقویٰ والا ہو۔ یعنی اس کا دل وہی کرنا چاہتا ہو جو اللہ چاہتا ہے۔ اگر یہ دو چیزیں درست ہوجائیں تو ایمانیات کے تقاضوں پہ عمل ہوجائے گا اور کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ اس لئے فرمایا:
ترجمہ: "علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا"۔
یہ تین واسطے ہیں، جو گمراہی سے بچانے کے لئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کو راستہ جو نظر آتا ہے یا وہ راستہ کو جان سکتا ہے، تو یا تو کان کے ذریعہ سے آدمی کو پیغام ملتا ہے، جس کو دل کے ذریعے وہ سمجھتا ہے یا آنکھ سے وہ راستہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ بصیرت والے راستے کی بات ہورہی ہے۔ بصیرت والے راستے میں دل استعمال ہوتا ہے۔ یہ تینوں راستے اگر کسی کے لئے علم کے باوجود بند کردیئے جائیں، تو پھر ظاہر ہے کہ وہ گمراہ ہوجائے گا اور علم ہوتے ہوئے بھی غلط راستہ پہ جائے گا۔ میں اس کی بڑی واضح مثال دے سکتا ہوں۔ بنی اسرائیل کو نبی کریم ﷺ کا نبی ہونا بالکل واضح طور پر معلوم تھا، جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ﴾ (البقرۃ: 146)
ترجمہ: "وہ اس کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں"۔
لیکن اس کے باوجود مخالفت کرتے تھے۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ ایسا نہیں تھا کہ ان کو علم نہیں تھا، علم ان کے پاس تھا، لیکن علم کے باوجود انکار کیا اور کافر ہوگئے۔ یہاں پر تو گمراہ کا لفظ فرمایا ہے، جس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ گناہ گار ہوجائے گا، لیکن اگر ایمانیات پہ مسئلہ آجائے، تو پھر کافر ہوجائے گا۔ حضور ﷺ پر ایمان لانا بھی ایمانیات سے ہے، چونکہ ان لوگوں نے اس گمراہی کی وجہ سے ایمانیات کو چھوڑ دیا، تو کافر ہوگئے، کیوں کہ شرط پوری نہیں ہوئی۔ لیکن اگر مسلمان ایمان کے تقاضوں پہ عمل نہیں کرتا، تو وہ گناہ گار ہوگیا۔ لہذا دوبارہ ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے اس کو تقویٰ چاہئے اور آخرت پہ یقین ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر انسان کو گمراہی سے بچنے کا راستہ نہیں مل سکتا۔ یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تقویٰ کے بھی درجات ہیں۔ ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ (الحجرات: 13)
ترجمہ: "در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو"۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کے درجات ہیں۔ پس جب تقویٰ کے درجات ہیں، تو اس کے احوال و اعمال کے بھی درجات ہوں گے۔ یقین کے بھی درجات ہیں: علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ یہ یقین کے درجات ہیں۔ پس اپنے تقویٰ اور یقین کے درجات کے لحاظ سے انسان کو درجہ ملتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ہر شخص جو عمل کرتا ہے، مثلاً: نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے، حج کرتا ہے یا جتنے بھی اعمال کرتا ہے، اس کو اجر بقدرِ عقل ملے گا۔ اس حدیث میں یقین والی بات آگئی، یعنی معرفت کے حساب سے اجر ملے گا۔ اور دوسری طرف یہ ہے کہ تقویٰ کے درجات کے حساب سے اجر ملے گا۔ گویا ہمارے سامنے یہ دو راستے ہیں، ان دو راستوں کو صحیح کرنے کا جو نظام ہے، وہ طریقت اور تصوف ہے۔ علمی لحاظ سے بھی بالکل یہی بات ہے، یہ بالکل common بات ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان دو راستوں کو درست کرنا پڑتا ہے۔ یقین کو درست کرنا کہ اس کے درجات بڑھتے جائیں یعنی علم الیقین سے عین الیقین اور عین الیقین سے حق الیقین پہ چلا جائے۔ اور انسان تقویٰ کے درجات کو بھی بڑھاتا جائے۔ یعنی جتنا فجور کو دباتے جائیں گے، اتنا تقویٰ کا درجہ بڑھتا جائے گا۔ پس فجور کو دبانے کا نظام تصوف ہے۔ لہٰذا ہمیں اس راستے پہ چلنا پڑے گا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ جو شخص کہتا ہے کہ قرآن میں تصوف نہیں ہے۔ وہ غلط کہتا ہے، کیوں کہ تصوف کی ساری کی ساری باتیں قرآن میں موجود ہیں، صرف دیکھنے والی نظر چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔