اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال:
آپ ﷺ کے بارے میں روایت میں ہے کہ نیند کی حالت میں آپ ﷺ کی آنکھ مبارک تو سوتی تھی لیکن آپ ﷺ کا قلب مبارک جاگ رہا ہوتا تھا اور آپ ﷺ معمولی آہٹ سے بھی اٹھ جاتے تھے۔ بعض اولیاء اللہ کے متعلق بھی یہ روایات آتی ہیں کہ نیند کی حالت میں بھی ان کا قلب ذاکر ہوتا تھا۔ آپ ﷺ کی نید کی حالت اور بعض اولیاء کرام کی نیند کی حالت سے کیا یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ کی یہ عادی سنت اللہ تعالیٰ بعض امتیوں کو بھی عطا فرما دیتے ہیں؟
جواب:
میرا خیال ہے کہ یہاں سے کچھ مسائل کا علم ہونا چاہئے۔ باقی فضائل تو مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مسائل میں لوگ پریشان ہوتے ہیں، جیسے یہ ایک خاص مسئلہ ہے کہ آپ ﷺ کا قلب مبارک جاگ رہا تھا، یعنی پتا چلتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ چنانچہ نیند سے آپ ﷺ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ بعض لوگ ابھی بھی سو جاتے ہیں خراٹے لیتے ہیں پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگتے ہیں، حالانکہ وہ تو پیغمبر نہیں ہیں۔ باقی یہ بات کہ اولیاء اللہ کا دل ذاکر ہوتا ہے، دل کا ذاکر ہونا اور بات ہے، وہ تو پورا جسم بھی ذاکر ہوسکتا ہے۔ ہم نے ایسے حضرات کو دیکھا ہے۔ لیکن شرعی مسئلہ ہے کہ آیا جس کا دل ذاکر ہے یا پورا جسم ذاکر ہے تو کیا اس کا وضو بھی نہیں ٹوٹتا؟ نہیں! اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ لہذا یہ معاملہ صرف آپ ﷺ کے ساتھ خاص تھا کہ آپ ﷺ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ یہ خاص شرعی مسائل میں سے ہے کہ آپ ﷺ کا وضو نہیں ٹوٹتا۔ جیسے تعدادِ ازواج آپ ﷺ کی خصوصیت ہے، اس پر کوئی امتی عمل نہیں کرسکتا۔ امتیوں کے لئے بیک وقت چار شادیوں سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح نیند کا مسئلہ بھی ہے، کیونکہ کسی صحابیؓ نے ایسا نہیں کیا یعنی بغیر وضو کے نماز نہیں پڑھی، جب کسی صحابیؓ نے نہیں پڑھی تو آج کون ایسا کرسکتا ہے۔ یہ جہالت کی بات ہے۔ لہٰذا اس چیز کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ نیند کی حالت میں ہم لوگوں کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، بلکہ اس کے لئے شرعی احکام ہیں کہ جسم کا کتنا حصہ ایسا ہے کہ حالت نیند میں اتنی غفلت ہوتی ہے کہ وضو کے ٹوٹنے کا پتا نہ چلے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ جہالت سے بچائے، ایک ہوتی ہے پڑھی لکھی جہالت اور ایک ہوتی ہے عام جہالت، میں پڑھی لکھی جہالت کی باتیں بتا رہا ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ بعض دفعہ صحابہ کرام کو شک ہوجاتا تھا کہ ہمارا وضو ٹوٹ گیا ہے تو وہ اچانک جانے لگتے تو آپ ﷺ نے ان کو روکا کہ نہ بو ہے نہ آواز ہے، لہٰذا اس طرح نہ کرو، بلکہ جب یقین ہوجائے تو اس پر عمل کرو۔ لیکن اس یقین کا پتا آدمی کو خود چلتا ہے کسی اور کو نہیں پتا چلتا۔ لہٰذا جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے مثلاً خون کے نکل آنے سے یا پیشاب کا قطرہ آنے سے یا ہوا کے نکلنے سے، ان چیزوں میں وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ان چیزوں کا آدمی کو جب پتا چل جائے تو پھر اس کو وضو کرنا چاہئے، یہ نہیں کہ آواز آئی یا نہیں، بو آئی یا نہیں، اس پر انحصار نہیں ہے۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب آواز نہیں آئی اور بو نہیں آئی تو اس کا مطلب ہے کہ وضو نہیں ٹوٹا۔ یہ جہالت کی باتیں ہیں۔ جب آپ کو وجہ معلوم ہے کہ کس وجہ سے وضو ٹوٹتا ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اگر آپ کو معلوم ہوجائے تو پھر وضو ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بغیر فقاہت کے حدیث شریف پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں تہجد ادا فرما کر اس کے بعد کچھ استراحت فرماتے تھے اور پھر وضو کرلیتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ اس سنت پر عمل کرنے کے لئے کچھ لوگ تہجد پڑھ کر مسجد میں لیٹ جاتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں۔ یہ سنت پر عمل نہیں ہے، بلکہ پوری سنت پہ عمل کرو۔ جس طریقے سے آپ ﷺ نے کیا اس طریقے سے کرو اور جو چیز امتیوں کے لئے جائز قرار دی گئی، انہی پہ عمل کرو۔ یہ نہیں کہ اپنی طرف سے نقل کرو۔ آپ ﷺ کی کچھ باتیں بالکل خصوصی تھیں وہ ہمارے لیے نہیں ہیں۔ وہ صرف انہی کی تھیں۔ چنانچہ جو باتیں صرف انہی کی تھیں ان پر امتی عمل نہیں کرسکتے۔ اور اس کا پتا صحابہ کرامؓ سے چلتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی روایت ایسی ہو کہ کوئی صحابیؓ آئے ہوں اور گھر سے تہجد کی نماز پڑھ کے آئے ہوں اور وہاں مسجد میں بیٹھ کے لیٹ گئے ہوں۔ کوئی ایسی روایت میری نظر سے تو نہیں گزری۔ اور پھر ہمارے لئے معیار صحابہؓ ہیں۔ اللہ کی خوشنودی کا معیار آپ ﷺ کی سنت پر چلنا ہے۔ اور آپ ﷺ کی سنت کو سمجھنے کا معیار صحابہ کرام کا طریقہ ہے۔ صحابہؓ کرام کو دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے سنتوں پر عمل کیسے کیا، اسی سے پتا چلے گا۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ