غور و فکر اور مراقبہ میں فرق

سوال نمبر 1588

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مسجد دعوت الاسلام باٹلے - یو کے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ



سوال:

آپ ﷺ کی احادیثِ شریفہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور صفات میں غور و فکر کی ترغیب آئی ہے اور قرآن پاک میں بھی یہی مضمون متعدد آیات میں آیا ہے۔ کیا غور و فکر کرنا اور صوفیاء کرام جو اصلاحِ قلب کے لئے مراقبات تجویز کرتے ہیں یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں یا مختلف ہیں؟


جواب:

اصل میں یہ ہیں تو دونوں مختلف۔ کیونکہ غور و فکر اسے کہتے ہیں کہ جو واقعات آپ کے سامنے ہو رہے ہیں یا آپ جو چیز پڑھ رہے ہیں یا جو چیز آپ کے سامنے آرہی ہے، اس میں اصل بات تک پہنچنے کی آپ کوشش کریں، یہ غور و فکر ہے۔ جس کو thinking یعنی analysis کہتے ہیں تو یہ غور و فکر ہے۔ اور مراقبہ کیا ہے؟ آپ کو جو معلوم ہے علماً، اس کو حال کے درجہ میں sense کرنا، یہ مراقبہ ہے۔ مثلاً مجھے معلوم ہے کہ اللہ بڑے ہیں، بلکہ یہ کس کو معلوم نہیں ہے؟ جو مسلمان ہے کم از کم اس کو تو پتا ہے کہ اللہ سب سے بڑے ہیں۔ لیکن اللہ بڑے ہیں، کیا اس کا مجھ پر اثر ہے؟ اگر مجھ پر اس کا اثر ہو تو کیا میں کسی اور کی وجہ سے اللہ کے حکم کو ٹال سکتا ہوں؟ اگر کسی کو یہ یقین ہو کہ اللہ بڑے ہیں تو کیا کسی انسان یا کسی جن یا جو بھی ہو، اس کے لئے کیا اللہ کے حکم کو ٹالا جاسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں ٹالا جاسکتا۔ لہٰذا اس بڑائی کو حقیقت کے انداز میں sense کرنا کہ اللہ بڑے ہیں اور پھر مجھ پر ایسے ہی اثر ہو کہ میں اللہ کے علاوہ کسی کو بڑا نہ سمجھوں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو میں کسی کے لئے بھی ٹال نہ سکوں، یہی چیز مراقبہ سے حاصل ہوسکتی ہے تو یہ مراقبہ ہے۔ یعنی جو مشائخ مراقبات کرتے ہیں وہ اصل میں ہماری معلومات کو حال کے درجہ میں convert کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اور مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو مراقبات بتائے ہیں وہ اسی قبیل سے ہیں۔ جیسے ہم لوگ جانتے ہیں کہ اللہ ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ حضرت نے تجلیاتِ افعالیہ کا مراقبہ ہمیں دے دیا کہ ہم لوگ یہ مراقبہ کر کر کے اللہ پاک کو سب کچھ کرنے والا سمجھ کر اپنے دل میں، اپنے ذہن میں پکا لیں اور اس کے بعد پھر اگر ہم مانگیں تو صرف اللہ سے مانگیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ: 4)

ترجمہ:1 ’’(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔


یعنی یہ ہمارا حال بن جائے۔ اب نماز میں تو ہم کہتے ہیں بلکہ سارے لوگ یہ کہتے ہیں، لیکن کیا ہم لوگ واقعی اس طرح ﴿اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ والی بات پر چل رہے ہیں؟ لہٰذا یہ حال میں تب بنے گا جب ہمارا یہ یقین ہوجائے کہ اللہ ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ اس چیز کو پکانے کے لئے حضرت نے مراقبہ دے دیا۔ اسی طریقے سے مراقبۂِ صفاتِ ثبوتیَّہ ہے، یعنی اللہ پاک کی جو خاص صفات ہیں کہ اللہ پاک دیکھتے ہیں، اللہ پاک سنتے ہیں، اللہ پاک کلام فرماتے ہیں، اللہ ہی کا ارادہ سب کچھ ہے اور اسی طرح اللہ نے ہم سب کو پیدا کیا ہے، یہ ساری جو صفات ہیں ان صفات کے متعلق اتنا ہمارا یقین پختہ ہوجائے کہ حق الیقین ہوجائے۔ پھر ہم جب بھی کوئی کام کر رہے ہوں تو ہمیں پتا ہو کہ اللہ دیکھ رہے ہیں، جب میں دعا کر رہا ہوں تو مجھے پتا ہو کہ اللہ سن رہے ہیں، جب میں پکارتا ہوں اللہ تعالیٰ کو تو میرا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ سنتے ہیں، اسی کی بات کو سن رہے ہیں، تو یہ صفات کے مراقبات ہمارے اس یقین کو پختہ بنانے کے لئے ہیں۔ اسی طریقے سے پھر صفات سے ذات کی طرف جانا یعنی شیونات ذاتیہ یہ بھی اسی کے لئے ہیں۔ پھر ایسی صفات جو انسانوں کے لئے ہیں لیکن اللہ کے لئے نہیں ہیں ان کے بارے میں یقین کرنا جیسے اللہ پاک کی اولاد نہیں ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:

﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ (الاخلاص: 3)

ترجمہ:’’نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے‘‘۔

ایسے ہی اللہ جل شانہٗ کھاتے نہیں ہیں، اللہ پاک پیتے نہیں، اللہ پاک سوتے نہیں یعنی جو چیزیں انسان کی چیزیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ نہیں کرتے۔ یہ مراقباتِ تنزیہ ہیں یعنی اللہ پاک کو مخلوق کی طرح نہیں سمجھنا، بلکہ اللہ پاک خالق ہیں۔ اس لئے یہ جو مراقبہ ہے اگر یہ کسی کا پکا ہوجائے تو وہ اللہ پاک کے ساتھ ایسی چیزیں ذہن میں نہیں رکھے گا جو مخلوق کے لئے ہیں، بلکہ وہ ذہن میں رکھے گا جو خالق کے لئے ہیں۔ اسی طریقہ سے پھر مراقبۂِ معیت ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، اللہ پاک شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور پھر جب یہ پختہ ہوجائے تو پھر سبحان اللہ! توکل کی نعمت نصیب ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ ساری چیزیں کیا ہیں؟ یہ صرف ہمارے عقائد کو درست کرنے کے لئے ہیں، لیکن لوگوں نے اس کو پتا نہیں کن چیزوں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ہے، لیکن دراصل یہ یہی چیز ہے کہ ہمارے عقائد پختہ ہوجائیں۔ لہٰذا یہ مراقبات غور و فکر کی دوسری صورت ہیں یعنی غور و فکر کی وہ صورت کہ انسان ان تمام چیزوں پر یقین کرنے لگے، بلکہ اس کو حق الیقین نصیب ہوجائے، جو کہ پہلے سے معلومات کے درجہ میں حاصل ہیں۔ بہرحال اس کے لئے یہ طریقہ کار ہے جیسے میں نے عرض کیا۔ جو اللہ والے ہیں، یہ بھی انسان ہیں یعنی یہ کوئی اس طرح نہیں کہ آسمان سے فرشتے اترے ہوں بلکہ بعض دفعہ تو یہ ایسے ہوتے ہیں جیسے فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ یہ ایک ڈاکو تھے۔ اب ڈاکو کیسا انسان ہوتا ہے؟ سب لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور یہ لوگوں کو تکلیف دیتا ہے، لیکن جب اللہ نے ان پر فضل کیا اور پھر انہوں نے محنت کی تو اولیاء اللہ کے سردار بن گئے۔ اور سردار کیسے بنے؟ کہ ڈاکہ ڈالنے کے لئے صبح سویرے گئے تھے، تہجد کا وقت تھا، دیکھا کہ آواز آرہی ہے کہ کوئی قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہے یعنی جہاں ڈاکہ ڈال رہے تھے وہاں کوئی تلاوت کر رہا ہے اور تلاوت میں وہ آیت آگئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا ابھی ان کے لئے ڈرنے کا وقت نہیں آیا؟ بس یہ سنا تو دل ڈر گیا، فوراً رک گئے، سوچا سب کچھ جان لیا، لہٰذا فیصلہ کرلیا، اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ واپس چلے جاؤ اور جو اٹھایا تھا وہ بھی رکھ دیا، پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ خدا کی شان! چونکہ اللہ پاک نے بچانا تھا تو ان کو یاد تھا کہ میں نے کہاں کہاں ڈاکہ ڈالا ہے، تو جو سامان لوٹا تھا وہ سب کو واپس کردیا، پھر بہت بڑے شیخ کے پاس پہنچ گئے اور اپنی تربیت شروع کروا لی، یعنی اس بات پر نہیں رکے کہ چونکہ مجھے پتا چل گیا ہے تو بس ٹھیک ہے، بس میں اس طرح کروں گا۔ کیونکہ پتا چلنا تو معلومات کے درجہ میں ہے، لیکن ان معلومات کے درجہ سے نکل کر ایک کیفیت بنانا اور پھر اس کے مطابق عمل پر آجانا اور اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا، اس کو مقامِ انابت کہتے ہیں۔ یعنی مقام توبہ تو ان کو اسی وقت مل گیا تھا جس وقت توبہ کی، لیکن مقامِ توبہ کے بعد مقامِ انابت پر آگئے کہ باقاعدہ اپنی تربیت شروع کروا لی اور پھر سستی دور کرنے کے لئے ریاضتیں شروع کرلیں، اور قناعت کے لئے انہوں نے مراقبہ کیا اور مقامِ قناعت حاصل کیا، اسی طرح ہوتے ہوتے تقویٰ سے، صبر سے اور تمام چیزوں سے گزر کے اللہ پاک نے مقامِ رضا پر پہنچا دیا، یہی اصل میں process ہے۔ در اصل ہم نتیجہ تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن procedure کو نہیں follow کرتے، حالانکہ قدرتی بات ہے کہ مثلاً میں کہتا ہوں کہ میں کھانا کھاؤں، لیکن کھانا کھانے کے لئے ایک procedure ہے یعنی تمام چیزوں کا بندوبست کرنا ہوتا ہے، پھر اس کے بعد انسان کھاتا ہے، اس طرح نہیں کہ صرف آدمی ارادہ کر لے کہ میں کھاؤں گا تو کھاتا رہے گا، اس طرح نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز کے لئے ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں که ’’روټۍ خوړل اسان دی نوړۍ جوړول غواړی‘‘ یعنی اگرچہ کھانا کھانا آسان ہے لیکن نوالہ پھر بھی بنانا پڑتا ہے۔ یعنی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی اپنے آپ کو اس محنت کے لئے تیار کرنا یہ بنیادی بات ہے، اور جتنے بھی اللہ والے ہیں وہ اسی طریقے سے بنے ہیں، نہ کہ اس طریقے سے کہ بس انہوں نے ارادہ کر لیا اور وہ ہوگئے۔ البتہ کبھی کبھی ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ جس سے لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ آناً فاناً یہ کام ہوگیا۔ لیکن اس کے دو جواب ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ مثال کے طور پر راستے پر کوئی جا رہا ہے اور اس کو راستے میں پڑا ہیرا مل گیا اور وہ اربوں میں کھیلنے لگا، لیکن کیا سب کو اس طرح ملتا ہے؟ کیا سب لوگوں نے کام چھوڑ دیا کہ ہم بھی راستے میں جاتے ہیں اور ہمیں کوئی ہیرا مل جائے گا اور ہم سارا کام چھوڑ دیں گے اور بس ہمارا کام بن جائے گا۔ ایسے نہیں ہوتا بلکہ سارے کام کرتے ہیں، اگر یہ مل گیا تو مل گیا لیکن کام کوئی نہیں چھوڑتا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کے لئے پہلے سے محنت کی ہوتی ہے لیکن اس محنت کے وجہ سے ایک جگہ سے نہیں ملتا یعنی جہاں وہ محنت کر رہا ہے وہاں سے نہیں ملتا بلکہ کسی اور جگہ سے مل جاتا ہے۔ جیسے شابیک رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ وہ ایک شخص کے پاس تھے اور وہ فاقہ کش تھے یعنی ان کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی تھی لیکن دین کا کام کرتے تھے۔ اب وہ کہیں بیان کے لئے چلے جاتے تو لوگ چونکہ کھانے کا انتظام کرتے تھے اور شابیک رحمۃ اللہ علیہ ان کے خادم تھے، اس لئے ان سے جا کر پہلے ملتے کہ حضرت کی ایک بیوی بھی ہے اور ایک بچہ بھی ہے آپ نے ان کو اگر کھانا کھلایا تو اُن کا کھانا مجھے دیں گے تاکہ میں ان کو پہنچا دوں۔ اور وہ حضرت کو اس کی اطلاع نہیں کرتے تھے بلکہ حضرت کو آرام کرواتے، ان کے پیر دبا کر سلا دیتے، پھر ان سے کھانا لے کردوڑتے دوڑتے ان کے گھر پہنچاتے اور پھر دوڑ کر آتے کہ کہیں حضرت جاگ نہ گئے ہوں۔ اب یہ اس طرح محنت کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ان سے ناراض ہوگئے، اور ان کو نکال دیا، چند دنوں کے بعد بارش ہوگئی، حضرت کا گھر چونکہ کچا تھا تو ٹپکنے لگا، ان کی بیوی نے کہا کہ ایک ہی آپ کا خادم صحیح تھا جو کام کرتا تھا اس کو آپ نے نکال دیا، اب اگر وہ ہوتا تو لپائی وغیرہ کرکے ٹھیک کردیتا۔ حضرت نے فرمایا میں نے نکالا ہے لیکن تو نے تو نہیں نکالا، مطلب یہ تھا کہ تو اس کو بلا سکتی ہے۔ اب یہ چونکہ اسی انتظار میں تھا اس لئے قریب قریب رہتا تھا تاکہ مجھے اگر بلا لیں تو میں فوراً حاضر ہوجاؤں۔ حضرت کی بیوی نے ان کو بلا لیا، لیکن وہ بجائے اس کے کہ گھر کے اندر آتے بلکہ گھر کے باہر سے ہی اس کی لپائی کرنا شروع کردی۔ جب چک چک کی آواز آئی تو حضرت اس وقت کھانا کھا رہے تھے، ایک نوالہ ہاتھ میں تھا کہ باہر آکر دیکھا کہ کون ہے؟ جب دیکھا کہ شابیک ہے، تو حضرت کو بڑا پیار آیا اور فرمایا آؤ شابیک! کھانا کھا لو۔ انہوں نے فوراً چھلانگ لگا دی اور وہ نوالہ کھا لیا، بس اسی میں سارا کچھ مل گیا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ واقعی نوالے سے مل گیا، لیکن نوالہ کتنے عرصے میں بنا تھا، اس کے لئے کتنی محنت ان کو کرنی پڑی تھی؟ بس یہی چیز ہوتی ہے، لیکن لوگ اس چیز کو نہیں دیکھتے، بس لوگ کہتے ہیں کہ توجہ کرلو تاکہ سب کچھ مل جائے۔ اسی لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس چیز کو discourage کرتے تھے کیونکہ لوگوں کا مزاج یہی بن گیا تھا۔ حضرت کو ایک دفعہ کسی نے کہا کہ حضرت! اپنے سینے سے کچھ عطا فرمائیں۔ فرمایا میرے سینے پر تو بلغم ہے۔ یعنی لوگوں کو بتا دیا کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو؟ سینے سے کیا ملتا ہے؟ اصل دینے والی ذات تو اللہ ہے اور انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتا۔ ہاں! اللہ جن کی دعا کو یا جن کی توجہ کو قبول فرماتے ہیں ان کو اللہ پاک دے دیتے ہیں۔ اس لئے اول تو اللہ سے نظر ہٹنی ہی نہیں چاہئے یعنی کسی شیخ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اللہ سے نظر نہیں ہٹنی چاہئے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کے لئے تو شیخ کے پاس جایا جاتا ہے، نہ کہ اللہ سے دور ہونے کے لئے جایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایک تو یہ بات ہے کہ اللہ سے نظر ہٹنی نہیں چاہئے بلکہ جب اللہ پاک چاہتے ہیں تو ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کے لئے جو procedure ہے اس کو follow کرنا چاہئے، کیونکہ ہمارا کام اپنے طریقے سے چلنا ہے، مثلاً ایک مزدور ہے جو اپنی ڈیوٹی خوب اچھی طرح کرتا ہے، مالک بھی اس سے خوش ہوتا ہے، مزدوری اس کی دس روپے بنتی ہے، لیکن وہ اس کو ہزار روپے دے دیتا ہے۔ اب یہ اس کا کام ہے، دے دے، اس کے لئے کوئی نہیں، لیکن یہ بات ہے کہ مزدور تو یہ نہیں کہے گا کہ مجھے ہزار روپے دے دو، بلکہ اس کے ساتھ تو جتنا طے ہوگیا ہے اتنا ہی وہ مانگے گا یا وہی مانگ سکتا ہے، لیکن اگر مالک خوش ہوجائے تو وہ زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ اسی طریقے سے میں عرض کرتا ہوں کہ ہم لوگوں کو procedure کو follow کرنا چاہئے، اور procedure کو چھوڑنا نہیں چاہئے، پھر اللہ پاک فضل فرماتے ہیں۔ یہی چیز ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائی ہے کہ انسان سلوک کو طے کرتا ہے لیکن سلوک کو طے کرنا کافی مشکل ہے، اس میں غلطیاں ہوتی ہیں، کوتاہیاں ہوتی ہیں، پھر انسان ٹھیک کرتا ہے، پھر کوتاہیاں کرتا ہے، پھر ٹھیک کرتا ہے، پھر کوتاہیاں کرتا ہے، پھر ٹھیک کرتا ہے حتیٰ کہ اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوکر رونا شروع کر لیتا ہے کہ میری ساری چیزیں ٹھیک ہوجائیں۔ تو اللہ پاک کو رحم آجاتا ہے اور پھر اللہ پاک قبول فرماتے ہیں۔ پھر آناً فاناً سارا کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ پاک چاہتا ہے۔ لہٰذا procedure follow کر لو جتنا کرسکتے ہو وہ کرو، اس کو نہ چھوڑو، پھر اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوجاتی ہے، پھر سب کچھ مل جاتا ہے، اس کے بعد پھر انسان کو کوئی کمی نہیں رہتی۔ اس لئے جلدی نہیں مچانی چاہئے، دوسری بات procedure کو نہیں چھوڑنا چاہئے اور تیسری بات اللہ تعالیٰ پر نظر نہیں چھوڑنی چاہئے۔ جب یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی نصیب فرما دے آپ کو بھی۔ آمین۔


وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. ۔ (نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔)