دنیوی نعمتوں اور اخروی نعمتوں پر رشک کرنے کے نتائج میں فرق

سوال نمبر 1605

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال:

آپ ﷺ نے بعض اعمال کرنے والوں کو قابل رشک فرمایا ہے اور وہ سارے اعمال ایسے ہیں جن کا فائدہ آخرت میں ہوگا۔ دوسری طرف ہم جب کسی کے پاس دنیوی نعمت دیکھتے ہیں تو اس پر رشک کرتے ہیں اور بعض اوقات رشک کی بجائے حسد بھی ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی کی دنیوی نعمتوں پر رشک کرنے اور اس کے مقابلے میں کسی کے اخروی اعمال پر رشک کرنے کے نتائج میں کیا فرق ہے اور کیا کسی کی دنیوی نعمتوں پر رشک کرنا جائز ہے؟

جواب:

رشک اور حسد میں اگر تفریق کی جائے تو پھر بات آسان ہو جائے گی۔ رشک اسے کہتے ہیں کہ کسی کے پاس کچھ ہے جو آپ کو اچھا لگے اور آپ اپنے لئے بھی سوچیں کہ مجھے بھی حاصل ہو اور اس سے اس کو دور کرنے کی نیت نہ ہو۔ اسے غبطہ کہتے ہیں۔ یہ جائز بھی ہے اور بعض چیزوں میں مستحسن بھی ہے، جیسے فرمایا کہ دو شخصوں پر رشک کرنا درست ہے: ایک جو مال کو کثرت کے ساتھ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والا ہو اور دوسرا جو علم لوگوں کو روز بروز پہنچا رہا ہو۔ ان دونوں شخصوں پہ رشک کرنا جائز بتایا گیا ہے۔ چنانچہ رشک کرنا یہ حسد نہیں ہے، کیونکہ اس میں دوسرے سے اس نعمت کو دور کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا، جبکہ حسد میں اس نعمت کو دوسرے سے دور کرنے کی بھی نیت ہوتی ہے کہ اس کو وہ نعمت نہ ملے بلکہ مجھے ملے یا یہ کہ اس کو یہ نعمت کیوں ملی مجھے کیوں نہ ملی۔ یعنی اس نعمت کو صرف اپنے لیے چاہ رہا ہو۔ یہ حسد ہے اور اس کا نقصان ہوتا ہے۔

اس کا نقصان دنیا میں بھی ہوتا ہے۔ اس شخص کو بھی ہوتا ہے جو حسد کررہا ہے، اور اس شخص کو بھی ہوسکتا ہے جس کے ساتھ حسد کیا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ‘‘۔ (سنن ابی داؤد: 4903)

ترجمہ: ’’حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ (خشک) لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘

اخروی اعمال پر رشک کرنا، اس سے اگر عمل کی توفیق ہو جائے تو یہ جائز اور مفید ہے۔ یعنی دیکھنے والا شخص ان کو دیکھ کر کہے کہ مجھے بھی ایسا کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ اختیاری اعمال ہیں۔ دنیاوی چیزوں میں اگر آپ اختیاری طور پر وہ کرلیں جیسا کسی کے پاس مال ہے تو آپ کہتے ہیں کہ میں گھر میں کیوں بیٹھا رہوں، میں بھی جائز طریقے سے مال کماؤں اور دوسروں پر خرچ کروں۔ تو یہ جائز بلکہ مستحسن ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس کو کیوں ملا، مجھے کیوں نہ ملا۔ یہ حسد ہوگا۔ اگر دینی امور میں بھی یہ چیز آجائے کہ اس کو کیوں ملا، مجھے کیوں نہ ملا، مثلاً وہ تہجد پڑھ رہا ہے، میں کیوں نہیں پڑھ رہا، یعنی اس کی تہجد پر نظر رکھنا۔ یہ رشک نہیں ہوگا بلکہ حسد ہوگا۔ اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہاں یہ کہنا کہ وہ تہجد پڑھ رہا ہے، مجھے بھی پڑھنی چاہئے۔ یہ اختیاری ہوگا، آپ بھی پڑھ لیں۔ یا میں نے قران حفظ کیوں نہیں کیا۔ کیا حافظِ قران کو نظر نہیں لگتی؟ ان کو بھی نظر لگتی ہے دوسرے بچوں کی طرح۔ بعض بچے اچھی طرح نماز پڑھتے ہیں تو جن کے بچے نماز نہیں پڑھتے، ان کی نظر ان کو لگ جاتی ہے کہ دیکھو ہمارے بچے نماز نہیں پڑھتے۔ حالانکہ اس میں تو ان کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ان کو بھی اور ہمارے بچوں کو بھی نمازی بنا دے۔ بہرحال اخروی اعمال میں رشک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس میں اس عمل کے دور ہونے کی نیت نہ ہو یا ذہن میں اس پر کوئی اعتراض والی بات نہ ہو کہ یہ چیز اس کو کیوں ملی۔ البتہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ انسان کہے کہ اگر یہ کررہا ہے تو میں بھی کروں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو یہ نعمتیں نصیب فرما دے۔

ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ چونکہ جرمنی میں ہمارے پروفیسر صاحب میرے ساتھ بہت اچھے تھے، اس لئے میں کبھی کبھی اپنے دوستوں سے ان کا تذکرہ بھی کرتا تھا۔ نمازوں کے اوقات پر میں زور دیتا تھا کہ نماز وقت پر پڑھنی چاہئے۔ وہاں پر گرمیوں میں وقت بڑا لمبا ہوجاتا ہے یعنی مغرب اور عشاء میں تین تین گھنٹے کا فرق ہو جاتا تھا۔ میں تو اس کے مطابق پڑھتا تھا۔ جب کہ عرب حضرات کہتے تھے کہ جلدی پڑھنی چاہئے۔ شاید اس حوالے سے کچھ فتاویٰ تھے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ جب وقت داخل ہوگیا تو اس کے مطابق پڑھنی چاہئے۔ ایک دن مجھے ایک عرب کہنے لگے کہ اللہ کرے کہ تمہارا پروفسیر بھی تمہارے ساتھ سخت ہوجائے۔ تم یہ باتیں اس لئے کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ اچھا ہے اس لئے تمہیں مسئلہ نہیں ہوتا، ہمیں تو مسئلہ ہوتا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ خدا کے بندے! بد دعا نہ دو۔ اپنے آپ کو دعا دو۔ مجھے کیوں بد دعا دیتے ہو؟ اپنے آپ کو دعا دو کہ اے اللہ! میرا پروفیسر بھی میرے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ یہ دعا کرو، میں اس پر آمین کہوں گا۔ اس میں آپ کا فائدہ ہوگا۔ اگر میرا پروفسیر اگر مجھ سے ناراض ہوجائے تو آپ کو کیا فائدہ؟ ظاہر ہے اس سے تو آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ الغرض ہمیں کسی کو بھی دل میں بد دعا نہیں دینی چاہئے۔ دل کی بد دعا یہی حسد ہی تو ہے۔ اس لئے دل میں بھی بد دعا نہیں دینی چاہئے اور ویسے بھی نہیں دینی چاہئے۔ دوسرے کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اور اپنے لئے بھی کرنی چاہئے۔ اگر کسی کے پاس کوئی اچھی چیز ہے تو اس پر تہہ دل سے ماشاء اللہ کہنا چاہئے۔ ہم ما شاء اللہ کہتے ہیں مگر اس کے معنی پہ غور نہیں کرتے، اس کا مفہوم نہیں سمجھتے اور دل سے نہیں کہتے۔ سبحان اللہ کہتے ہیں لیکن سبحان اللہ کا پتا بھی نہیں ہوتا کہ سبحان اللہ کیا چیز ہے۔ الحمد للہ کہتے ہیں لیکن پتا نہیں ہوتا کہ اَلْحَمْدُ للہ کیا ہے۔ چنانچہ ما شاء اللہ کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہی زبردست نعمت اللہ نے اس کو عطا فرمائی ہے۔ یوں اس میں دو باتیں ہوگئیں کہ آپ اس کو اللہ کی طرف سے سمجھ رہے ہیں اور اللہ کی چاہت اس کے ساتھ شامل کررہے ہیں، تو اللہ کی چاہت پر تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، لہٰذا یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس کو یہ چیز مل گئی ہے۔ اگر آپ اس کیفیت کے ساتھ ما شاء اللہ کہیں تو وہ آپ کی نظر سے محفوظ رہے گا۔ مقصد یہ ہے کہ آپ اس کو دعا دیں، ماشاء اللہ دعا ہے کہ آپ اس کے لیے دعا کررہے ہیں کہ اللہ پاک نے اس کو یہ نعمت دی ہے، اس نعمت کو اللہ پاک سلامت رکھے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ اگر کسی مسلمان بھائی کے پاس اچھی چیز چاہے دینی ہے یا دنیاوی ہے اس کے لئے ما شاء اللہ کہہ دیں، اس کے لئے اچھے جذبات کا قلب میں اور ظاہر میں اظہار کردیں۔ اللہ جل شانہ نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ