اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ دربار رسالت ﷺ میں ایک مہمان آیا کہ اس وقت آپ ﷺ کے پاس ضیافت کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا، تو آپ ﷺ نے مجھے (ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) ایک یہودی سے ادھار غلہ لینے کے لئے بھیجا، مگر یہودی نے رہن کے بغیر آٹا نہیں دیا، جس پر آپ ﷺ نے اپنی زرہ گروی رکھ کر ادھار غلہ لیا۔ (مسند البزار، حدیث نمبر: 3863)
حضرت! کیونکہ آج کل مہمان نوازی کے معاملے میں بہت افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ بعض لوگ آپ ﷺ کی اس روایت کو دلیل بنا کر مہمان نوازی کے معاملے میں فضول خرچی کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف بخیل لوگ کچھ اور روایات کو اپنے لئے جواز بناتے ہیں۔ لہٰذا مہمان نوازی کے معاملے میں آپ ﷺ کی سیرت کی روشنی میں اعتدال کا طریقہ کیا ہے؟
جواب:
اگر انسان کا توکل کامل ہے تو وہ یہی کرے گا جو آپ ﷺ نے کیا اور جس کا توکل کامل نہ ہو تو پھر بہترین طریقہ یہی ہے کہ جو چیز اس کے پاس ہے اسی میں سے اس کی مہمان نوازی کرلے اور قرض وغیرہ نہ لے۔ کیونکہ توکل ہوتا نہیں ہے جس کی وجہ سے بعد میں پشیمان ہوجاتا ہے اور اس سے پھر اجر بھی چلا جاتا ہے اور یہ تکلیف میں بھی چلا جاتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ متوکلین ہیں ان کو چونکہ کوئی خوف نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ویسے ہی معاملہ کرتے ہیں۔ مثلاً ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ وہ بزرگ اس طرح کرتے تھے کہ اگر کوئی مہمان یا ضرورت مند ان کے پاس آجاتا تو وہ دوسروں سے قرض لے کر ان کی خدمت کرلیتے تھے اور پھر اس طرح ہوتا تھا کہ اللہ پاک ان کے پاس صالح مال لے آتا اور وہ قرض خواہوں کو اس کے بدلہ میں دے دیتے تھے۔ اخیر میں جب بہت بیمار ہوگئے یعنی تقریباً مرنے کے قریب ہوگئے تو چونکہ قرض ان پر جمع ہوا پڑا تھا اور کوئی ایسی صورت نہیں بن رہی تھی، اس لئے بڑے حیران تھے، لیکن ملنے جو لوگ آتے تھے ان سے کہتے کہ بیٹھ جاؤ اگر آجائے گا تو تمہیں دے دیں گے۔ کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک چھولے والا بچہ آیا، انہوں نے اس بچے سے کہا کہ یہ چھولے سب کو کھلا دو، جب ان کو چھولے کھلائے تو بچے نے کہا کہ جی! پیسے دے دیں، انہوں نے کہا اگر پیسے ہوتے تو یہ لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہوتے، یہ سن کر اس بچے نے رونا شروع کردیا کہ میرا والد تو مجھے مارے گا اور یہ ہوجائے گا اور وہ ہوجائے گا اور بچہ بہت زیادہ پریشان ہوگیا کہ اتنے میں ایک صاحب آئے اور اس نے کچھ ہدیہ دیا، ہدیہ اتنا ہی تھا جو سب کو کافی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر پھر انہوں نے اللہ پاک کے حضور درخواست کی کہ یہ کیا ماجرا تھا؟ یا شاید شاگردوں نے ان سے یہ ماجرا پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اللہ پاک سے عرض کیا تو اللہ پاک کی طرف سے الہام ہوا کہ رونے والا کوئی نہیں ہے، لہٰذا رونے والے کا بندوبست کرو تو میں نے رونے والے کا بندوبست کرلیا کہ ان کو میں نے بچے سے لے کر جب کھلایا تو وہ بچہ پیسے نہ ملنے پر رو پڑا۔ یہ واقعہ مواعظ میں ہے۔ یعنی ایسا بھی ہوتا ہے اور یہ متوکلین کا معاملہ ہوتا ہے، لیکن ہر ایک ایسا نہیں ہوتا اور ہر ایک ایسا کرے بھی نہیں۔ جتنا کسی کا بس ہو اتنا کرے اور اس میں بخل نہ کرے اور جو بس میں نہیں ہے تو وہ نہ کرے۔ مثلًا حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کسی حکیم کے مہمان ہوئے جو حضرت کے مرید تھے، ان کے ہاں اس وقت فاقہ تھا، انہوں نے کہا: حضرت! ہمارے ہاں تو فاقہ ہے اور آپ کے اور بھی بہت سارے مرید ہیں، تو کیا کسی کو اطلاع کردوں؟ یعنی آپ کی مہمانی کے لئے، حضرت نے کہا نہیں بھائی! میں آپ کا مہمان ہوں اور آپ کے ہاں فاقہ ہے تو میرا بھی فاقہ ہے اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر میں دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو جب وہ باہر گئے تو واپس آکر ہنس رہے تھے، کہتے ہیں حضرت! اللہ میاں نے انتظام کردیا۔ ایک صاحب پر میرا قرض تھا جو وہ لے آیا اور اب آپ مجھے روکیں گے نہیں یعنی میں تکلف کروں گا۔ اور پھر بڑا پرتکلف کھانا حضرت کو کھلا دیا۔ پس یہ بات ہوتی ہے کہ اس نے قرض نہیں لیا لیکن اللہ پاک نے بندوبست کردیا۔ لہٰذا بعض حضرات کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، لیکن ہم لوگوں کو اپنے حال کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ہر قسم کے بخل سے، ہر قسم کی فضول خرچی سے، ہر قسم کی بے اعتدالی سے محفوظ فرمائے اور سنت طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ